امربیل — قسط نمبر ۵

”تو پھر یہ سب کیا ہے؟”
”کچھ بھی نہیں۔ بس میں اس کی پروا کرتی ہوں اور اسے پہنچنے والی ہر تکلیف مجھے زیادہ اذیت دیتی ہے۔ اس لیے میں چاہتی ہوں اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔”
”ہو سکتا ہے عمر… عمر بھی تم سے محبت کرتا ہو۔ وہ بھی تو تمہاری پروا کرتا ہے۔” شہلا نے بہت نرمی سے اس سے کہا۔
”ہر جذبہ محبت نہیں ہوتا۔”
”مگر بہت سے جذبے بالآخر محبت پر ہی ختم ہوتے ہیں۔”
”نہیں وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ وہ مجھ سے ہمدردی کرتا ہے۔”
”کم آن علیزہ۔۔۔”




”ہاں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں شہلا! وہ مجھ سے صرف ہمدردی کرتا ہے جس سے ہمدردی ہو اس سے محبت نہیں ہوتی۔”
شہلا اس کی بات پر کچھ بگڑ گئی۔”کیا مطلب ہے آپ کا علیزہ بی بی۔ وہ فائنل ایر کا عفان محمود جو ہر تیسرے دن دانت نکالتا ہوا آجاتا ہے۔ مس علیزہ! آپ کو کوئی نوٹس وغیرہ تو نہیں چاہئیں۔ یا پھر وہ فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا قاسم مجید جو اپنا ہر اسکیچ پکڑے آپ کے پاس اصلاح کیلئے موجود ہوتا ہے یہ جاننے کے باوجود کہ آپ کا اس کے ڈیپارٹمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہیں میرا خیال ہے ہمدردی تم سے بلال وحید کرتا ہے جو ہر بار تمہیں دیکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ مس علیزہ! آپ بہت کمزور ہوگئی ہیں۔ کچھ کھایا پیا کریں بلکہ آئیں میں آپ کو چائے پلواتا ہوں۔ اتنے ہمدردی کرنے والے میرے پاس ہوتے نا تو میں اب تک کسی الیکشن میں حصہ لے چکی ہوتی۔”
وہ اب علیزہ کو ہنسانے کی کوشش کر رہی تھی، مگر علیزہ کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ابھری۔
”ہر بات مذاق نہیں ہوتی، شہلا!”
”مگر کچھ باتیں مذاق ہوتی ہیں اور جس بات پر ہنسی آئے اس پر ہنس لینا چاہیے جیسے تمہارے اس فارمولے پر کہ عمر تم سے ہمدردی کرتا ہے۔”
”یہ فارمولا نہیں ہے حقیقت ہے۔”
”تم زندگی کو اور دوسرے لوگوں کو جس زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہو وہ زاویہ اب بدل دو۔” شہلا یک دم سنجیدہ ہوگئی۔ ”تم میں اتنی خوبیاں ہیں علیزہ کہ ان پر کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر تم خود اپنی اہمیت کو ماننے پر تیار نہیں۔”
”شہلا! تم میری بات نہیں کر رہی تھیں۔ ہم کسی اور موضوع پر بات کر رہے تھے۔”
”اپنے بارے میں بات کرنے سے کیوں ڈرتی ہو؟”
”میں ڈرتی نہیں ہوں بس میں۔۔۔”
”علیزہ! تمہارے لیے جو چند چیزیں اہم ہیں ناں ان میں سے ایک عمر جہانگیر بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تم لاکھ کہو کہ تم اسے پانا نہیں چاہتیں مگر تمہیں اس کی خواہش ہے۔”
”مجھے خواہش نہیں ہے۔”
”تو پھر ہر وقت عمر کی باتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ اس فائل کو کھولو اور دیکھو کہاں کہاں تم نے ایک ہی چہرہ اسکیچ کیا ہوا ہے۔ کتنی بار اس کا نام لکھا ہوا ہے اور تم کہتی ہو، تمہیں اس کی خواہش نہیں ہے۔ کس کو فریب دینا چاہتی ہوں، مجھے؟ اپنے آپ کو؟ یا ساری دنیا کو؟”
”میں کبھی اس سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے اس سے۔۔۔” اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”کہ تمہیں اس سے محبت ہے۔” شہلا نے اس کی بات مکمل کی۔ ”آخر کیوں؟”
”مجھے خوف آتا ہے۔”
”کس بات سے؟”
”اگر اس نے یہ کہہ دیا کہ اسے مجھ سے محبت نہیں ہے تو میں… میں کبھی دوبارہ اس کے سامنے نہیں جاسکوں گی۔” اس کے لہجے میں اتنی بے بسی تھی کہ شہلا کو اس پر ترس آگیا۔
”آؤ کلاس میں چلیں، پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔”
بات کا موضوع یک دم بدلتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے چل پڑی۔ کچھ دیر اور وہاں کھڑی رہتی تو علیزہ کی آنکھوں میں امڈتی ہوئی نمی برسنا شروع ہوجاتی۔ وہ اسے بہت اچھی طرح جانتی تھی۔
***




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!