امربیل — قسط نمبر ۵

عمر کا لہجہ یک دم نرم ہوگیا۔ وہ سوچ میں پڑگئی۔
”جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ اس لیے نہیں بتایا کہ تم وہاں جانا ہی چھوڑ دو۔ میری کسی بات کو اپنی ذہن پر سوار کرنے کی کوشش مت کرو۔ صرف یہی سمجھو کہ تمہارے پاس ایک اور ورژن آیا ہے اب تمہیں یہ طے کرنا ہے کہ دونوں میں سے کس version میں سچائی ہے۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”آپ کو افسوس نہیں ہوا کہ آپ کی محنت ضائع ہوئی؟”
”نہیں۔ کوئی افسوس نہیں ہوا۔ بیورو کریسی کی ایسی محنتیں اکثر ضائع ہوتی ہیں۔ یہ تو ہماری بے وقوفی تھی کہ ہم نے ایسے کام میں اپنا وقت ضائع کیا۔”
”ایسے تو نہیں سوچنا چاہیے۔ اگر سب لوگ اس طرح سوچیں گے تو۔۔۔”
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تو ملک کا کیا ہوگا؟ یہی کہنا چاہ رہی ہونا؟” اس نے خاصی بے رحمی سے جملہ مکمل کیا۔
”ملک کا وہی ہوگا جو اب تک ہو رہا ہے۔ میرے یا وجاہت حسین جیسے لوگوں سے کوئی انقلاب نہیں آسکتا اور ہم پر کہاں فرض ہے کہ ہم صرف ملک اور قوم کیلئے ایسی حماقتیں کر کے اپنا کیریئر داؤ پر لگاتے رہیں۔ سول سروس ہم نے سوشل ورک کرنے کیلئے جوائن نہیں کی۔ اپنے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے اس میں آئے ہیں۔”
علیزہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ وہ یک دم ہی بہت بدلا ہوا نظر آنے لگا تھا اس کے سامنے چند لمحوں کے اندر اندر اس کا نیا روپ آگیا تھا۔ insensitive اور indifferent… کچھ دیر پہلے والا انداز یکسر تبدیل ہوچکا تھا۔
”اب تم کیوں پریشان ہوگئی ہو؟” عمر نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ کچھ گڑبڑا گئی۔
”نہیں، میں پریشان نہیں ہوں۔ میں صرف سوچ رہی ہوں۔”
”مثلاً کیا سوچ رہی ہو؟” اس نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہی کہ۔۔۔” اس نے کچھ محتاط نظروں سے عمر کو دیکھا۔
”کہ ہم لوگ تو گھر کے اندر زندگی گزارتے ہیں ہمارے سامنے چیزوں کا شفاف ورژن آتا ہے اس لیے ہم ہر بات سے بے خبر رہتے ہیں۔ ہمیں کوئی پریشانی ہوتی ہے نہ ہی کوئی خوف محسوس ہوتا ہے اور اسی لیے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔”
عمر اب منہ صاف کرتے کرتے ہاتھ روک کر گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو بڑی روانی سے کہہ رہی تھی۔
”مگر وہ لوگ جن کی زندگیاں گھر سے باہر گزرتی ہیں۔ جن کے بقول وہ چیزوں کے اصل ورژن سے واقف ہوتے ہیں، جنہیں سب کچھ پتا ہوتا ہے۔ جو خود کو باخبر کہتے ہیں وہ ان چیزوں کے سدباب کیلئے کیا کرتے ہیں۔ صرف باتیں؟”
وہ عمر کے تاثرات دیکھے بغیر ٹیبل سے اٹھ گئی۔ عمر نے حیرانی اور خاموشی کے ساتھ اسے باہر جاتے دیکھا چند لمحے وہ اس دروازے کو دیکھتا رہا جہاں وہ غائب ہوئی تھی پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”صرف باتیں؟… Good” اس نے نانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کے لہجے میں ستائش تھی۔ ”علیزہ! مجھ پر طنز کر کے گئی ہے گرینی اور مجھے خوشی ہوئی ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے ٹیبل سے اٹھ گیا۔
***




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!