امربیل — قسط نمبر ۵

”نہیں اتنا تو نہیں۔” علیزہ نے کچھ سوچ کر کہا۔
”اچھا چلو فرینڈ تو ہوں نا؟”
”ہاں۔”
”بس ٹھیک ہے۔ اسی خوشی میں، میں تمہیں کچھ کھلاتا ہوں۔ بلکہ تم بتاؤ تمہیں کیا کھاناہے؟”
”کچھ بھی نہیں۔”
”کم آن یار… آج آوارہ گردی کرتے ہیں… کہیں سے کچھ کھاتے ہیں… چلو برگر لیتے ہیں پھر آئس کریم کھائیں گے۔ آج رونے میں تم نے خاصی انرجی ویسٹ کی ہے۔ اب ضروری ہے یہ سب کچھ۔”




عمر نے اٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے عمر کا ہاتھ تھام لیا۔
ریس کورس کے دوسرے گیٹ سے وہ جیل روڈ پر نکل آئے۔ عمر اب اسے لطیفے سنا رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح اس کا ہاتھ تھامے اس کے تیز قدموں کا تعاقب کرتی اس کی باتوں پر کھکھلانے لگی تھی۔
ایک لمبا چکر کاٹ کر وہ شادمان کی طرف نکل آئے۔ فٹ پاتھ پر لگے ہوئے برگر کے ایک اسٹال سے انہوں نے برگر خریدے اور پھر بے مقصد مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے برگر کھاتے رہے۔
علیزہ کو اچانک احساس ہونے لگا عمر اتنا برا نہیں تھا جتنا سمجھ رہی تھی۔ اسے اس کے ساتھ اس طرح پھرنا اچھا لگ رہا تھا۔ عجیب سی آزادی اور اعتماد کا احساس ہو رہا تھا۔
برگر ختم ہونے کے بعد عمر اسے آئس کریم کھلانے کیلئے اسی طرح ایک اور اسپاٹ پر لے گیا۔
”چار کون دے دیں۔” اس نے آئس کریم مشین کو آپریٹ کرنے والے سے کہا۔ علیزہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
”چار کیوں؟”
”یار دو، دو کھائیں گے۔” اس نے اطمینان سے روپے نکالتے ہوئے کہا۔
”مگر میں تو ایک کھاؤں گی۔”
”نہیں یار آئس کریم کون ایک کھاتا ہے؟ ہمیشہ دو کھاتے ہیں۔ اگر اپنے روپے خرچ کر رہے ہوں… اور اگر کوئی دوسرا کھلا رہا ہو تو پھر تین اور چار بھی کھائی جاسکتی ہیں۔” اس نے جیسے علیزہ کو پتے کی بات بتائی تھی۔
”مگر ایک وقت میں دو کیسے کھاؤں گی؟” اس نے عمر کے ہاتھ سے کون پکڑتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہیں میں سکھاؤں گا۔ تم آؤ تو سہی۔”
اس نے خود بھی اپنی دونوں کونز پکڑتے ہوئے کہا پھر وہ بڑی برق رفتاری سے بیک وقت دونوں کونز کھانے لگا۔ اس کی مہارت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کام کرنے کا عادی تھا۔
علیزہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے خود بھی اسی کی طرح آئس کریم کھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر آئس کریم پگھلنے لگی تھی۔ مین روڈ پر آتے آتے آئس کریم اس کے دونوں ہاتھ اور کلائیوں پر پگھل کر بہنے لگی تھی۔ عمر اس وقت تک دونوں کونز تقریباً ختم کرچکا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے اس نے علیزہ کو کچھ افسوس بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا کرو گی یار! تم زندگی میں… یہ اس قدر ضروری کام تمہیں نہیں آتا۔ مجھے کم از کم تم سے یہ توقع نہیں تھی۔”
واپس جیل روڈ پر آتے ہوئے اس کی آئس کریم ختم ہوچکی تھی مگر دونوں ہاتھ پگھلی ہوئی آئس کریم سے لتھڑے ہوئے تھے۔
”اب یہ دیکھیں، میرے ہاتھ گندے ہوگئے ہیں۔ انہیں کیسے صاف کروں؟” علیزہ نے اسے ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا۔
”اپنی شرٹ سے صاف کرو، جیسے تم روتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرتی ہو۔” عمر نے کچھ شرارتی انداز میں کہا۔ وہ کچھ جھینپ گئی۔
”ٹراؤزر کی پاکٹ میں کوئی ٹشو نہیں ہے؟” عمر نے چلتے ہوئے اس سے کہا۔
”نہیں ہے… پانی ہو تو۔۔۔” وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”یہاں مین روڈ پر پانی کہاں سے مل سکتا ہے۔ تم شرٹ سے صاف کرلو۔ گھر جا کر کپڑے تو چینج کرنے ہی ہیں۔” عمر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں یہ اتنی چپچپی ہے۔ مجھے گھن آرہی ہے۔” اس نے مٹھیاں کھولتے اور بند کرتے ہوئے کہا۔
”لاؤ، میں صاف کردوں۔” عمر چلتے چلتے رکا اور بڑے اطمینان سے اپنی شرٹ سے اس کے ہاتھ صاف کرنے لگا۔ علیزہ کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔ اس نے ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی۔
”آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کی شرٹ گندی ہو جائے گی۔”
عمر نے کچھ کہنے کے بجائے اچھی طرح اس کے دونوں ہاتھ اپنی شرٹ سے صاف کردیئے۔
”کوئی بات نہیں یار! میری ہی شرٹ گندی ہوگی نا تمہارے ہاتھ تو صاف ہوجائیں گے۔”
اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی جو اس کا ہاتھ پکڑے سڑک کراس کرنے کیلئے ٹریفک کو دیکھ رہا تھا۔
واپسی کے راستے پر وہ باتیں کرتی رہی تھی اور عمر سنتا رہا تھا۔ علیزہ کو یاد نہیں کہ اس نے آخری بار زندگی میں کب کسی کے ساتھ اتنی باتیں کی تھیں۔ شاید کسی کے ساتھ نہیں۔ شہلا کے ساتھ بھی نہیں۔
گھر کا گیٹ نظر آنے لگا تو وہ یک دم چونکا۔
”ہاں یاد آیا علیزہ! تم سے ایک بات کہنی تھی۔”
”ہاں کہیں۔”
”مگر پہلے تم پرامس کرو کہ ناراض نہیں ہوگی۔”
وہ حیران ہوئی۔ ”ایسی کون سی بات ہے؟”




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!