امربیل — قسط نمبر ۵

وہ اندھیرے میں اس کے چہرے پر موجود تاثرات کو دیکھنے کی کوشش میں ناکام رہی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”پاس رہنے اور ساتھ رہنے میں فرق ہوتا ہے۔”
”کیا فرق ہوتا ہے؟”
”پاپا کی پہلی پوسٹنگ جب لندن میں ہوئی تو ان ہی دنوں میرے پیرنٹس میں ڈائی وورس ہوگئی۔ پاپا نے مجھے بورڈنگ میں بھیج دیا۔ چند سالوں کے بعد وہ امریکہ گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ وہاں بھی میں بورڈنگ میں رہا۔ ویک اینڈز میں ان کے پاس آجایا کرتا تھا مگر صرف ویک اینڈز پر۔” وہ گم صم اسے دیکھتی رہی۔
”پھر پاپا کی پوسٹنگز اور جگہوں پر بھی ہوئی لیکن میں وہیں رہا۔ بعد میں پاپا ایک بار پھر امریکہ آگئے تب میں یونیورسٹی میں تھا اور ہاسٹل میں ہی رہتا تھا۔”




کیوں؟ آپ ان کے ساتھ کیوں نہیں رہے؟”
”اب وجہ تو مجھے نہیں پتا لیکن… بس پاپا نے کبھی ساتھ رہنے کیلئے کہا نہیں اور میں نے بھی کبھی چاہا نہیں۔ ہوسکتا ہے ایک وجہ ان کی دوسری شادی بھی ہو۔”
”کیا آنٹی ثمرین کے ساتھ آپ کے اچھے ٹرمز نہیں تھے؟”
”نہیں۔ ایسا نہیں ہے مگر شاید پاپا سوچتے ہوں گے کہ میری وجہ سے ان کی پرسنل لائف Suffer نہ کرے یا ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو۔”
”صرف اس لیے؟”
”نہیں شاید یہ بھی تھا کہ مجھے پاپا کے پاس ایک ایسی زندگی گزارنی پڑتی جو بہت نارمل سی ہوتی۔ آزادی نہ ہوتی میرے پاس۔”
”آپ نے کبھی اپنے گھر کو مس نہیں کیا؟”
”کسی حد تک… مگر تمہاری طرح نہیں۔ شاید اس لیے کہ میرے پاس کرنے کو بہت کچھ تھا مگر کچھ سوچنے کیلئے وقت نہیں تھا۔” اس کے لہجے میں لاپروائی تھی۔
”آپ کا دل نہیں چاہا کہ آپ کا اپنا گھر ہو۔ پیرنٹس ہوں۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اچھا فرض کرو دل چاہتا ہے پھر کیا کروں؟ مجھے پتا ہے گھر نہیں مل سکتا۔ پیرنٹس نہیں مل سکتے۔ اب میں یہ تو نہیں کرسکتا کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھ کر کود جاؤں… یار! نہیں ملتیں بہت سی چیزیں نہیں ملتیں پھر کیا کیا جائے؟”
علیزہ کو اس کے اطمینان پر رشک آیا۔
”جب آپ جاب کررہے تھے تو آپ نے کبھی اپنا گھر بنانے کی کوشش نہیں کی؟”
”لندن میں جاب کرتا تھا علیزہ!اتنی بڑی جاب نہیں تھی کہ گھر خرید لیتا۔ ایک کرائے کا فلیٹ… تھا کمپنی کی طرف سے۔ چھوٹا سا تھا۔ صبح ساڑھے چھ نکلتا تھا رات کو ساڑھے نو واپس آتا تھا، صرف سونے کیلئے ہی اسے استعمال کرتا تھا۔ لندن اتنا مہنگا شہر ہے کہ وہاں گھر وغیرہ بنانے کا بندہ نہیں سوچ سکتا۔ پھر میں نے تو ویسے بھی بہت زیادہ عرصے کیلئے جاب نہیں کی۔ پاپا مسلسل مجبور کر رہے تھے فارن سروس کیلئے بس اسی طرح وقت گزر گیا۔”
علیزہ کو کچھ شرمندگی ہوئی اس کا عمر کے بارے میں ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وہ اپنے گھر میں انکل جہانگیر کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی لیے نانو کے پاس آنے پر وہ اس طرح برہم ہوگئی تھی مگر وہ اسے کچھ اور ہی بتا رہا تھا۔
”مگر انکل جہانگیر تو آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہ رہی تھی۔ جواب میں ایک طویل خاموشی چھپائی رہی۔
”انکل جہانگیر تو آپ سے محبت کرتے ہیں؟” علیزہ نے اس بار قدرے بلند آواز میں اپنا سوال دہرایا۔
”کیا…! ہاں…! محبت… ہوسکتا ہے کرتے ہوں۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟” اس کے غیر متوقع جواب نے علیزہ کو حیران کیا۔ ”آپ کو نہیں پتا کہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں یا نہیں؟”
”نہیں میں نے کبھی اس ٹاپک کو ڈسکس نہیں کیا… ہمارے درمیان اور ٹاپکس پر بات ہوتی ہے۔”
”مگر وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا!” عمر نے یوں کہا جیسے علیزہ نے اسے کوئی نئی بات بتائی ہو۔
”کتنی فرینڈز ہیں تمہاری؟” عمر نے یک دم بات کا موضوع بدل دیا۔
”بس ایک… میں نے آپ کو پہلے بھی ایک بار بتایا تھا۔” علیزہ نے جواب دیا۔
”ہاں… شہلا… یہی نام ہے نا؟” علیزہ کو حیرت ہوئی اسے نام تک یاد تھا۔
”ہاں آپ کو پتا ہے تو پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟”
”بس ایسے ہی… تمہاری بہت زیادہ دوستی ہے اس کے ساتھ؟”
”ہاں۔”
”بہت اچھی ہوگی؟”
”ہاں۔” اسے اب عمر سے بات کرتے ہوئے کوئی گھبراہٹ یا الجھن نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بے اختیار اس کی باتوں کے جواب دے رہی تھی۔
”اور کوئی فرینڈ نہیں ہے۔”
”نہیں۔”
”میں بھی نہیں؟” وہ جواب دیتے ہوئے کچھ الجھی۔
”آپ بھی ہیں۔۔۔”
”شہلا جتنا کلوز فرینڈ ہوں؟” اس بار پوچھا گیا۔




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!