امربیل — قسط نمبر ۵

علیزہ کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی تھی۔
”مگر اس سارے معاملے کا این جی اوز کے ساتھ کیا تعلق ہے؟”
عمر نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”اب یہ سارا فٹ بال وہاں کی فیکٹریز میں تیار نہیں ہوتا۔ عجیب بات ہے لیکن نوے فیصد فٹ بال وہاں کے دیہی ایریا میں تیار ہوتا ہے… گاؤں میں… چھوٹے چھوٹے گھروں میں عورتیں اور خاص طور پر بچے تیار کرتے ہیں۔ وہاں سے یہ فٹ بال فیکٹریز میں جاتا ہے۔ ان فیکٹریز میں جنہوں نے joint venture کیا ہوا ہے ملٹی نیشنل کمپنیز کے ساتھ اور اب تک وہاں پر ان کمپنیز کا ہولڈ تھا جن کا تعلق امریکہ سے ہے مگر کچھ عرصے پہلے وہاں کچھ جاپانی کمپنیز نے بھی جوائنٹ وینچرز کرنا شروع کردیئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ وہاں فٹ بال کے حوالے سے دو بڑے حریف ہیں۔ ایک وہ فرم جس کا adidas کے ساتھ وینچر ہے اور دوسری وہ جس کا جاپانی کمپنی کے ساتھ وینچر ہے۔ اس دوسری کمپنی نے adidas کے بزنس کو خاصا نقصان پہنچایا۔ ان لوگوں نے بہت ہی پروفیشنلی کام کرتے ہوئے ان دیہی علاقے کے کافی اندر تک رسائی حاصل کی اور وہ عورتیں اور بچے جو پہلے گھروں میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ انہیں ملازم رکھا اور اپنی فیکٹریز تک لانا شروع کردیا۔ پھر ورکرز کیلئے فیسیلیٹیز کی بھرمار کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں اچھے ورکرز نے اس نئی فرم کیلئے کام کرنا شروع کردیا۔ adidas کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ فٹ بال کے بزنس کے حوالے سے کیونکہ ان کیلئے کام کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوگئی اور دوسری طرف جس فٹ بال کی اسٹچنگ سات آٹھ روپے میں ہوتی تھی وہ یک دم گیارہ بارہ روپے میں پڑنے لگا کیونکہ ورکرز نے زیادہ روپیہ مانگنا شروع کردیا۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ امریکہ میں فٹ بال کا ورلڈ کپ ہونے والا ہے پھر اولمپکس… بھی آرہے ہیں۔ اس لیے وہاں اس وقت فٹ بال کی بہت ڈیمانڈ ہے اور بہت مہنگی بک رہی ہے تو فٹ بال کی مارکیٹ میں امریکی کمپنیز کا حصہ کچھ کم ہوگیا ہے۔ پہلے جو فٹ بال صرف امریکن لیبل کے ساتھ بک رہا تھا اب وہ جاپانی لیبل کے ساتھ بکنے لگا۔ تیسری طرف یورپ تھا جس کی مارکیٹ میں امریکی اور جاپانی لیبلز نے افراتفری مچائی ہوئی ہے۔ کم از کم فٹ بال کے حوالے سے۔
اب اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے ہر ایک نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے اور پہلے ہتھیار کے طور پر یورپین ممالک نے این جی اوز کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ جواباً امریکہ نے بھی این جی اوز کا مقابلہ این جی اوز سے ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ طے یہ کیا گیا کہ اس انڈسٹری کے حوالے سے چائلڈ لیبر کا ایشو اگلے کچھ سالوں میں اٹھایا جائے گا۔”




عمر کی معلومات اور باتوں پر اسے حیرانی ہو رہی تھی۔
”مگر کیوں؟”
”اس وقت دنیا میں سب سے اچھا فٹ بال اس کو سمجھا جاتا ہے جس کی اسٹچنگ بچے کرتے ہیں۔”
”بچے؟” علیزہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”مگر بچے اتنے ماہر تو نہیں ہوتے۔”
”ہوتے ہیں۔ آپ وہاں جاکر دیکھیں گی تو ان کی مہارت آپ کو حیران کردے گی مگر بچوں کو ان کی مہارت کی وجہ سے برتری حاصل نہیں ہے۔ بچوں کی انگلیاں باریک اور نرم ہوتی ہیں ان کے ہاتھ کی اسٹچنگ میں ایک خاص قسم کی نفاست ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب فٹ بال کو پلٹا جاتا ہے تو اس وقت باریک انگلیوں کی وجہ سے ڈوری بڑی صفائی سے کھینچی جاتی ہے یہ کچھ ویسی ہی بات ہے جس طرح کارپٹ بناتے ہوئے بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کارپٹ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے جسے بچے بناتے ہیں کیونکہ جب کارپٹ میں گرہیں لگائی جاتی ہیں تو بچوں کی باریک اور نرم انگلیاں بڑوں کی نسبت یہ کام زیادہ صفائی اور نفاست سے کرتی ہیں۔
یہی مسئلہ اس علاقے کا ہے۔ غربت بہت ہے اس لیے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کام میں لگایا ہوا ہے۔ اب یورپ میں چائلڈ لیبر پر بین ہے اور وہاں گورنمنٹ سرکاری طور پر ایسی چیزیں اپنی مارکیٹ میں نہیں انے دیتی جس کے بارے میں تھوڑا سا بھی شک ہو کہ یہ بچوں نے بنائی ہے۔ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہے این جی اوز جب یہاں آئیں تو انہوں نے دیہی اصلاحات اور سوشل ڈویلپمنٹ کا نام لے کر facts and figures اکٹھے کرنے شروع کردیئے کس علاقے میں کس عمر سے کس عمر تک کے بچے یہ کام کر رہے ہیں۔ فٹ بال کی انڈسٹری سے منسلک عورتوں کی تعداد کتنی ہے۔ بانڈڈ لیبر کی ریشو کیا ہے۔ اجرتوں کا ریٹ کیا ہے؟ ان لوگوں کو کس طرح سہولیات میسر ہیں یہ سارا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے اور آپ دیکھیے گا علیزہ بی بی! آئندہ چند سالوں میں چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کے حوالے سے ان ہی علاقوں کے متعلق انٹرنیشنل میڈیا خاص شور مچائے گا۔ کچھ پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔”
”مجھے یقین نہیں آرہا۔”
”آجائے گا۔” عمر نے اطمینان سے کہا۔
”مگر یہ این جی اوز تو تعلیم کے حوالے سے بہت کام کر رہی ہیں۔”
”کام کم کر رہی ہیں، شور زیادہ کر رہی ہیں۔ وہ کس لیے ہے یہ بھی میں آپ کو بتا دوں گا۔ فی الحال تو آپ یہ جان لیں کہ ابھی اس علاقے میں موجود فیکٹریز یا فرمز iso 9000 کے سر ٹیفکیٹ کے بغیر ہیں اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور Gatt کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مطابق اگلے کچھ سالوں میں ہر ملک کو اپنی مارکیٹ کھلی رکھنی پڑیں گی مگر اس مارکیٹ میں ان ہی فرمز یا کمپنیز کا مال جاسکے گا جس کے پاس یہ سرٹیفکیٹ ہے اور سر ٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جب چائلڈ لیبر بانڈڈ لیبر کے حوالے سے اس فرم یا کمپنی پر کوئی الزام نہ ہو مگر این جی اوز نے اتنے اچھے طریقے سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی کمپنی یا فرم کو اس حوالے سے یورپین یا امریکن مارکیٹ میں بلیک لسٹ کروا سکتے ہیں۔ ان این جی اوز کے پاس مکمل ریکارڈ ہے کہ کون سی فرم کون سے علاقے کے کون سے گھروں سے کتنی تعداد میں کیا چیز تیار کرواتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ مال تیار کرنے میں بچوں یا عورتوں کا کس حد تک حصہ ہے۔ اب فرض کرلیں کہ اس علاقے کی کسی فرم نے کسی امریکن ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کیا۔ اب ان کی شرط یہ ہوتی ہے کہ فٹ بال میں ان کا لیبل لگے گا اس لوکل فرم کا نہیں اور ساری دنیا میں وہ فٹ بال امریکی فٹ بال کے طور پر سپلائی کی جائے گی۔ اب اگر یہ لوکل فرم یہ طے کرلیتی ہے کہ وہ خودمختار ہوجائے اور کانٹریکٹ ختم کر کے اپنے لیبل کے ساتھ دنیا میں فٹ بال سپلائی کرے تو این جی اوز کی مدد سے حاصل کیے جانے والے ریکارڈ کو اس فرم کے منہ پر مارا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آپ تو چائلڈ لیبر کرواتے ہیں۔ بانڈڈ لیبر کے بھی ذمہ دار ہیں اس لیے آپ کو آئی ایس او سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا جو اگلے چند سال میں امپورٹ ایکسپورٹ سے تعلق رکھنے والے ہر ادارے کیلئے لازمی ہوجائے گا۔ اب علیزہ! آپ بتائیے وہ لوکل فرم بے چاری کیا کرے گی۔ ظاہر ہے وہ کبھی بھی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم نہیں کرے گی اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔”
علیزہ کچھ شاکڈ سی اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا اگر وہاں اتنی این جی اوز اس طرح کا کام کر رہی ہیں تو ابھی تک میڈیا نے ان چیزوں کو ہائی لائٹ کیوں نہیں کیا۔ جرنلسٹ تو فوراً ہر چیز، خاص طور پر چھپی ہوئی چیزوں کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور پھر اگر این جی اوز اس طرح کا کام کررہی ہیں تو ان کی فیلڈ فورس بھی تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی کو یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آتا۔ یا وہ لوگ یہ باتیں میڈیا تک کیوں نہیں پہنچاتے۔”
علیزہ نے بے یقینی سے پوچھا تھا۔
”اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔” عمر اب بھی سنجیدہ تھا۔ ”اس علاقے کی خوش قسمتی کہہ لو یا بدقسمتی مگر یہ پاکستان کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں اقلیتوں کی ایک بڑی تعداداباد ہے اور اقلیتوں کا بھی وہ طبقہ جس کو آپ لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں جن کے پاس صرف یہ آپشن ہوتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل نہ کر کے میونسپلٹی میں سویپر کا کام کرلیں یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہاسپٹلز میں نرسوں یا وارڈ بوائز کے ”اعلیٰ عہدے” حاصل کرلیں جہاں پر اقلیتوں کیلئے مواقع کو اتنا محدود کردیا جائے کہ انہیں بھوک یا بددیانتی میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو وہ بددیانتی کو چن لیں گے۔ اس علاقے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ فیلڈ میں کام کرنے والوں کا انتخاب کرتے ہوئے این جی اوز اقلیتی طبقوں کو ترجیح دیتی ہے ان کے نزدیک وہ قدرے زیادہ قابل اعتماد ہوتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ صرف وہ لوگ ہی این جی اوز کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ روپے میں بڑی طاقت ہوتی ہے، علیزہ! اور خاص طور پر تب جب بندہ بے روزگار ہو۔ یہ لوگ کام کا بہت اچھا معاوضہ دیتے ہیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتے ہیں، کھانا بھی مہیا کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی اور کچھ سہولیات ہوتی ہیں اور جب ایک بے کار بندے کو بیٹھے بیٹھائے اتنا سب کچھ مل جائے تو وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ کان اور زبان بھی بند کرلیتا ہے اگر کوئی ذرا زیادہ حب الوطنی کا ثبوت دینے کی کوشش کرے تو اس کی زبان بند کرنے کیلئے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں۔




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!