”سر! میجر لطیف کور کمانڈر کا بیٹا ہے۔” بابر جاوید اگلے دن عمر جہانگیر کو میجر لطیف کے کوائف سے آگاہ کر رہا تھا۔ عمر نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”دو ماہ پہلے پروموشن ہوئی ہے اس کی۔” بابر جاوید نے مزید بتایا۔ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے عمر جہانگیر کو اس کی ہدایات کے مطابق میجر لطیف کے بارے میں بتا رہا تھا اور عمر کی تشویش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مضبوط فیملی بیک گراؤنڈ کا مطلب اس کے لیے پریشانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ میجر لطیف کے طور طریقوں سے یہ اندازہ تو اسے پہلے ہی ہو چکا تھا کہ وہ کسی سیدھے سادے عام سے گھرانے کا سپوت نہیں تھا…اس کی گردن کے سیرے میں اسی طرح کے خم تھے۔ جس طرح کے عمر جہانگیر میں تھے اسی لیے عمر جہانگیر نے اس کے طور طریقوں سے یہ اندازہ لگا لیا تھا اور یقیناً عمر جہانگیر کے بارے میں یہ اندازہ میجر لطیف بھی لگا چکا تھا۔ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کو بڑی آسانی سے پہچان جاتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی موہوم سی امید پر عمر نے میجر لطیف کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔
مگر جو تفصیلات بابر جاوید لایا تھا، وہ خاصی حوصلہ شکن تھیں۔ اس کا پورا بائیو ڈیٹا آرمی سے شروع ہو کر آرمی پر ہی ختم ہو جاتا تھا۔
Babar we have to be very careful (ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے)
عمر نے اس کی تمام باتیں سننے کے بعد کہا۔ ” فی الحال ہمارے پاس اس آدمی کے خلاف کچھ نہیں ہے جس کو ہم استعمال کر سکیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم قدرے محتاط ہو جائیں۔ میں نہیں چاہتا اسے آتے ہی میرے اوپر کوئی edge حاصل ہو جائے۔ عمر نے بابر کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”سر میں نے پہلے ہی تمام پولیس سٹیشن کے انچارجز کو وارن کر دیا ہے، خود ریکارڈ چیک کرنا شروع کر دیا ہے میں نے۔ پولیس پٹرولنگ کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔” بابر جاوید نے عمر کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو کوئی شکایت ہو یا نہ ہو، میں یہ چاہتا ہوں کہ آرمی مانیٹرنگ ٹیم تک میری کوئی شکایت نہ پہنچے۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔ ”اور ان سب لوگوں کو بتا دو کہ مجھ تک ان کی کرپشن کا کوئی معاملہ نہیں آنا چاہیے۔ اگر مجھ تک اس طرح کا کوئی معاملہ آیا تو میں کچھ دیکھے یا سنے بغیر Suspend (معطل) کر دوں گا اور اس معاملے میں کوئی وضاحت قبول نہیں کروں گا۔” عمر نے بابر جاوید کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”خود تم بھی اپنے ”کھانے پینے” کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے موقوف کر دو…تمہارا بینک بیلنس خاصی اچھی حالت میں ہے۔ ابھی کافی لمبا عرصہ تم اس میں مزید اضافے کے بغیر وقت گزار سکتے ہو۔”
عمر جہانگیر اب خود بابر جاوید کی بات کرنے لگا ، جس کے چہرے پر ایک کھسیانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔
”یس سر!” اس نے اسی انداز میں اپنی خفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”خالی یس سر نہیں میں واقعی تمہیں بتا رہا ہوں۔ اس بارے میں تمہیں بھی نہیں بخشوں گا۔ پہلے تو تمہارے بارے میں جتنی شکایتیں آتی رہی ہیں، انہیں نظر انداز کرتا رہا ہوں مگر اس بار میرے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا، یہ میں تمہیں صاف صاف بتا رہا ہوں۔”
عمر جہانگیر کا لہجہ بابر جاوید کو خلاف معمول سنجیدہ لگا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ آج کل وہ جس قسم کی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے اس میں یہ احتیاطی اقدامات عمر جہانگیر کی مجبوری تھے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ شاید آرمی مانیٹرنگ کمیٹی کی موجودگی کے بغیر عمر جہانگیر اس قسم کی کوئی ہدایات دیتا اور ان پر عمل کروانے کی کوشش کرتا تو اس کا پورا ماتحت عملہ اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیتا، عمر جہانگیر کو اس سے پہلے اپنی پوسٹنگز میں کچھ اس طرح کے تلخ تجربات ہو چکے تھے، جب اس نے اپنے ماتحت عملے پر کچھ سختی کرنے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں نکلا تھا۔ خود اس کا اپنا پی اے اس کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں تمام اطلاعات اس سے نیچے عملے کو پہنچاتا رہا تھا۔ اس کے علاقے کے Political big wigs کو اس کے تمام فیصلوں اور اس کی ممکنہ نقل و حرکت کے بارے میں تمام اطلاعات ہوتی تھیں۔ نتیجہ اس کے ہر ریڈ کی ناکامی کی صورت میں نکلتا تھا۔ صورت حال کچھ اس طرح کی بن چکی تھی کہ اس کے شہر کی پوری پولیس ایک ڈی ایس پی کی قیادت میں ایک طرف تھی اور وہ اکیلا ایک طرف تھا۔ بظاہر ڈی ایس پی اور باقی تمام پولیس اس کے احکامات پر مستعدی سے عمل کرتے تھے مگر اندرون خانہ اس کے احکامات کی افادیت کو زائل کرنے کے لیے وہ اس کے احکامات آنے سے پہلے ہی سرگرم عمل ہو چکے ہوتے تھے۔ مقامی اخبارات، پولیس کے سربراہ اور اس کے ”ایڈونیچرز” کی مضحکہ خیز کہانیوں سے بھرا ہوتا جس میں سچائی کم اور مرچ مسالا زیادہ ہوتا تھا، ابتدائی دو ماہ میں انہوں نے عمر جہانگیر کو زچ کر دیا تھا۔ اس وقت عباس حیدر اس کے کام آیا تھا وہ سروس میں اس سے پانچ سال سینئر اور تمام داؤ پیچ سے اچھی طرح واقف تھا۔
”سروس میں تمہارے بہترین ساتھی تمہارا ڈرائیور، تمہارے گارڈ، تمہارا پی اے اور تمہارا آپریٹر ہوتے ہیں اور کسی بھی پولیس سٹیشن کا ایس ایچ او تمہارے ڈی ایس پی اور اے ایس پی نہیں۔”
عمر عباس نے اسے گُر سکھانے شروع کیے تھے۔
”تم سے ایک دو درجے نیچے کے افسر جو خود بھی سول سروس کے ذریعے سے آئے ہیں، وہ کبھی تمہارے وفادار ساتھی نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی انہیں ایسا سمجھنے کی کوشش کرنا۔ ان کے ساتھ گپ شپ کرو، گالف کھیلو…جم جاؤ…کھاؤ پیو…مگر یہ کبھی مت سوچو کہ وہ تمہارے کام میں تمہاری مدد کریں گے۔”
وہ دلچسپی سے عباس کی ہدایات سنتا رہا۔
”پولیس سروس میں ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی ضلع کے ایس پی کی کارکردگی شاندار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ڈی ایس پی اور اے ایس پی ڈفر اور نااہل ہیں اور جس ضلع کا ایس پی اپنے کام میں اچھا نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ وہاں اصلی باس ڈی ایس پی یا اے ایس پی ہوگا۔ اور وہ ایس پی سے زیادہ اہل آدمی ہوتا ہے۔ یہ Definition ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات ذہن نشین کر لو کہ وہ دونوں تمہیں کبھی بھی کہیں بھی سیٹ نہیں ہونے دیں گے۔ تم انہیں ایک حکم دو گے آگے پہنچانے کے لیے، وہ اس میں معمولی سی تبدیلی کریں گے۔ بظاہر وہ تبدیلی بڑی پازیٹو لگے گی مگر اس سے وہ حکم تمہارے گلے میں چھچھوندر کی طرح اٹک جائے گا اور وہ بری الذمہ رہیں گے۔”
”ایس پی صاحب کا حکم تھا جی یہ۔۔۔” یہ ان کا گھسا پٹا جواب ہوگا۔ اس لیے کام اگر تمہیں کروانا ہے تو سیدھا ایس ایچ او کے ذریعے کراؤ ان کو بائی پاس کرتے ہوئے۔ البتہ وہ والے احکامات تم ان ہی کے ذریعے نچلے عملے تک پہنچاؤ جو ماتحت عملے کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے تکلیف دہ ہوں اور جس پر شور مچنا ہو، نچلے عملے کو اگر ڈانٹ ڈپٹ بھی کروانی ہے تو اے ایس پی کے ذریعے کراؤ۔ تم ایسے الو کے پٹھے ثابت ہوئے ہو۔ ” عباس نے بے تکلفی سے اسے جھڑکا ” کہ تم نے آتے ہی شاہد حمید جیسے نکمے آدمی کو اس قابل کر دیا ہے کہ وہ پورا ڈیپارٹمنٹ لے کر ایک طرف کھڑا ہو گیا ہے۔” عباس نے اس کے اے ایس پی کا نام لیتے ہوئے کہا۔ ”ہم لوگ اس دن ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے تمہارا ذکر کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے تم پہ سب لوگ …جو بندہ شاہد حمید جیسے نکمے آدمی کو نکیل نہیں ڈال سکتا وہ، آگے چل کر کیا کرے گا۔ دو چار اور بڑے شہروں میں تمہاری پوسٹنگز ہو گئیں تو تمہارے ما تحت تو مل کر تمہیں ویسے ہی بلیک لسٹ کروا دیں گے۔ ایسے ایسے چلتے پرزے تمہارے جونیر آفیسرز کے طور پر آئیں گے کہ تمہارے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اپنے علاقے میں ایک آدمی نہیں ہے جس کے ساتھ تم نے بنا کر رکھی ہو۔ نہ اپنے عملے کے ساتھ …نہ وہاں کے سیاسی یا صنعتی گھرانوں کے ساتھ …تم پتا نہیں کون سی سولو فلائٹ کر رہے ہو۔”
”میرا مسئلہ میرے شہر کا پریس ہے۔ اس طرح کی بے ہودہ خبریں لگاتے ہیں وہ میرے بارے میں کہ میں …اور آگے سے وہ خبریں نیشنل پریس پک کر لیتا ہے۔”
”تمہارا مسئلہ تم خود ہو۔” عباس نے اس کی بات کاٹی۔ ”ایک لوکل اخبار کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ ایس پی کے بارے میں کچھ غلط چھاپتے ہوئے جان نکلتی ہے ان کی۔ تمہارے بارے میں اگر اتنے دھڑلے سے اور اتنی بے خوفی سے خبریں چھپ رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں کسی کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ بھی خود تمہارے محکمے میں سے کسی نے کی اور تمہارے ڈی ایس پی کے علاوہ یہ کام اور کون کر سکتا ہو گا۔” اور خود تم نے حد کر دی ہے۔ ڈی آئی جی اس دن بری طرح ہنس رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے اپنی پوری سروس میں اتنے ریڈز کولیڈ نہیں کیا جتنے تمہارے کزن نے آتے ہی دو ماہ میں کئے ہیں۔ اڑتالیس ریڈ اور ہر ریڈ فیک …دو ماہ میں اڑتالیس ریڈ …خود سوچو عمر ! کوئی اپنی عقل استعمال کرو کون کہہ رہا ہے تمہیں اس طرح اتنا کام کرنے کو اور وہ بھی اپنا مذاق بنوانے کے لئے۔ جب تمہارا ہر ریڈ بے سود ثابت ہوتا ہے۔ اس پر پریس مذاق نہ اڑائے تو اور کیا کہے۔”
”مگر عباس ! میرے شہر کا لا اینڈ آرڈر بھی تو بہت خراب ہے۔ ” عمر نے کمزور لہجے میں اپنا دفاع کیا۔
”مجھے یہ بتاؤ کہ لا اینڈ آرڈر پاکستان کے کس شہر کا صحیح ہے۔” عباس اس کی دلیل سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”اور مان لیا کہ ریڈ کرنا پڑ ہی جاتا ہے تو ہر ریڈ کی قیادت خود کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ تم ہر کولیس بننے کی کوشش کیوں کر رہے ہو ہر ریڈ میں خود موجود، یہ ضروری نہیں کہ اس طرح منہ اٹھا کر خود نکل پڑو …ویسے ان ریڈز کے لئے تمہیں Tips کہاں سے ملی تھیں؟”
عباس نے بات کرتے کرتے پوچھا۔
”کچھ تو پولیس انفارمرز کے ذریعے اور کچھ میرے پرسنل نمبر پر کرینک کالز آئی تھیں۔” عمر نے اسے بتایا۔ عباس نے لا پروائی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں پہلے ہی توقع کر رہا تھا، ان کرنیک کالرز کو لوکیٹ کیوں نہیں کیا؟”
”کوشش کی تھی مگر آپریٹر نے کہا کہ پی سی او سے کالز کی گئی ہیں۔” عمر نے بتایا ”تو پی سی او اس کرہ ارض سے باہر تو کہیں واقع نہیں ہیں۔ انہیں لوکیٹ کرواتے، اس علاقے کے پولیس سٹیشن کے انچارج سے کہتے کہ اپنے انفارمز کے ذریعے اس انفارمیشن کی تصدیق کرنے …تم منہ اٹھا کر پولیس پارٹی لے کر ریڈ کرنے پہنچ گئے۔”
عمر اس بار کچھ بھی نہ بولا وہ کچھ خفت آمیز انداز میں مسکراتا رہا۔
”یاد رکھو …تمہارا آپریٹر، تمہارا پی اے، تمہارا ڈرائیور، تمہارے گارڈز اور کسی ایک پولیس اسٹیشن کا کوئی ایک تیز قسم کا ایس ایچ او، چلتا پرزہ ٹائپ کا یہ تمہارے بہترین ہتھیار ہیں اور اس وقت تمہارے پاس ان میں سے ایک بھی ہتھیار نہیں ہے۔ جتنی کرینک کالز تمہارے پاس آئی ہیں، تمہارے آپریٹر کو ان سب کا کچا چٹھا پتا ہو گا۔ تمہارے پی اے کو پتا ہو گا اس سب کا۔” عباس ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔ ”نہ صرف یہ بلکہ مال کمانے اور بنانے کے جتنے مواقع تمہارے پاس آنے ہیں، وہ ان ہی آدمیوں کے ذریعے آنے ہیں۔ تمہارا ڈی ایس پی اور اے ایس پی کوئی ڈیل یا کوئی آفر نہیں لے کر آئے گا تمہارے پاس، یہی چار پانچ لوگ لے کر آئیں گے۔ اس لئے ان کے ساتھ قدرے خاص سلوک کرو۔ Let them befriend you. (ان سے دوستی کرو) عباس نے کہا۔
عمر نے اس کی بات پر بے اختیار نخوت آمیز انداز میں اپنے کندھے جھٹکے۔ be friend me کانسٹیبل سب انسپکٹر، کلرک ٹائپ کے لوگوں کو میں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر لوں امپاسبل۔ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کو میں اپنے سر پر بٹھا لوں۔” اس نے قطعیت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”پہلے بھی تو وہ تمہارے سر پر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔” عباس نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”ان جیسے جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کو میں سلام کرتا پھروں۔” عمر جہانگیر کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
”اوئے تیرا کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں یا فراڈ کرتے ہیں۔ تجھے کیا ہے ” عباس نے اسے بری طرح جھڑکتے ہوئے کہا۔
”نہیں آخر کیوں؟ میں ایسے لوگوں کو کیوں منہ لگاؤں، صرف ان سے خوفزدہ ہو کر۔” عمر اب بھی اس کی باتوں سے متاثر نہیں ہوا تھا۔
”اگر آپ انہیں منہ نہیں لگائیں گے تو پھر یہ آپ کے پیروں کی ایسی رسی بن جائیں گے کہ آپ کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیں گے۔” عباس نے اس بار اسے پچکارتے ہوئے کہا۔
”مجھے اگر ثبوت مل گئے کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر مجھ تک غلط انفارمیشن پہنچائی ہے تو میں اب سب کو معطل کر دوں گا۔”
”اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ان کی جگہ جو دوسرے لوگ آئیں گے۔ وہ بھی آپ کے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔” عباس نے لا پروائی سے کہا۔”جب تک آپ اپنا طریقہ کار نہیں بدلیں گے، آپ کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔”
”یہ لوگ اتنے طاقتور نہیں ہیں، جتنا تم انہیں میرے سامنے بنا کر پیش کر رہے ہو۔” عمر نے عباس کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ ایک مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے ہیں عمر جہانگیر صاحب …یہ لوگ کیا کیا چیزیں ”پاس” کر کے آئے ہیں آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔” عباس نے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔ ”صرف تعلیم نہیں ہے ان کے پاس …اس طرح کی تعلیم جسے آپ اور میں تعلیم سمجھتے ہیں …مگر انہیں ہر وہ ہتھکنڈہ آتا ہے جس سے اس سوسائٹی میں ان کی Survival (بقا) ممکن ہوتی ہے۔” عباس نے ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں پتا ہے یہ ڈرائیور، گارڈ، پی اے، ٹائپ کے تمام لوگ سیاسی سفارشوں پر بھرتی ہوئے ہوتے ہیں، اور جو لوگ ان کو اس محکمے میں بھرتی کرواتے ہیں وہ صرف ان کی دعائیں لینے کے لئے تو یہ کام نہیں کرتے۔”
اس نے سگریٹ کا پیکٹ عمر کے سامنے کھسکاتے ہوئے کہا۔ عمر نے خاموشی سے اس پر نظریں جمائے ہوئے اس پیکٹ کو اٹھا کر اس میں سے ایک سگریٹ نکال لیا۔ عباس اب لائٹر کے ساتھ اپنے ٹیبل سے کچھ آگے جھکتے ہوئے عمر کے سگریٹ کو سلگا رہا تھا۔
”یہ ان سیاسی لیڈرز کے گرگے ہوتے ہیں، نمک حلالی کرتے ہیں ان کے ساتھ …یہ ہم لوگوں اور سیاست دانوں کے درمیانی پل کا کام کرتے ہیں اور کسی بھی پل کو کبھی بیکار سمجھ کر توڑنا نہیں چاہیے۔” عباس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”تم ان میں کسی ایک کو معطل کر کے دیکھو کہاں کہاں سے سفارشیں تمہارے پاس آئیں گی تم خود حیران ہو جاؤ گے۔” عباس نے سگریٹ کا ایک کش لیتے ہوئے کہا۔
”مثلاً میرے ڈرائیور کا ایک بیٹا ڈی سی کے دفتر میں جونئیر کلرک ہے۔ اس کا ایک بھائی سیکرٹریٹ میں چوکیدار ہے۔ ایک اور بھائی گورنر ہاؤس میں مالی ہے اور ایک اور بھائی آئی جی صاحب کی گاڑی کا ڈرائیور ہے اس سے زیادہ با رسوخ خاندان کوئی ہو سکتا ہے۔”
عباس نے آخری جملہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”مجھے بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے اس کے سامنے …کیونکہ ہر بات وہ ہر جگہ پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح مجھے اس کے ذریعے وہاں کی تمام باتوں کا پتہ چلتا رہتا ہے …حتیٰ کہ آئی جی صاحب نے جب اپنی دوسری بیوی کو طلاق دینی تھی تو ان کی بیوی سے پہلے مجھے پتا چل چکا تھا۔”
اس بار عمر اس کی بات پر مسکرایا۔
”دراصل عمر ! یہ لوگ وہ طوطے ہیں جن کے قبضے میں ہماری جان ہوتی ہے۔ انہیں ہمارے بارے میں سب کچھ پتا ہوتا ہے یا یہ سب کچھ پتا چلا لیتے ہیں۔ با خبر آدمی بہت نقصان دہ ہوتا ہے اس صورت میں اگر وہ آپ کا دشمن بھی ہو۔”