”میں ٹھیک نہیں کروں گا آپ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔”
”ابھی ٹھیک نہیں ہوں؟”
”نہیں ٹھیک ہیں مگر بعد میں کچھ زیادہ ٹھیک ہو جائیں گی یا پھر میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔” اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”صرف ٹھیک؟ زیادہ ٹھیک نہیں ہوں گے آپ؟”
اس بار وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”چلیں …زیادہ ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ کی طرح غالب کے شعر میرے بھی سر کے اوپر سے گزرنے لگیں گے۔”
”آپ بڑے عجیب آدمی ہیں جنید!”
”یہ تعریف ہے یا تنقید؟” اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”دونوں ہی نہیں ہیں، بس تبصرہ ہے۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”پھر ٹھیک ہے۔ مگر آپ جب میرے گھر آ کر میرے ساتھ رہیں گی تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی یہ رائے بہت غلط اور بے موقع تھی۔ میں بڑا سیدھا سادھا آدمی ہوں۔” اس بار وہ بھی سنجیدہ ہو گیا۔
”آپ سے ایک بات پوچھنا چاہ رہی تھی میں؟”
”جی فرمائیں؟”
”کیا نیوز پیپر سے ریزائن کر دوں میں؟”
”اس کا فیصلہ تم خود کر سکتی ہو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔” جنید نے بڑی سہولت سے کہا۔
”مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔”
”یہ اتنا مشکل فیصلہ تو نہیں ہے۔”
”میرے لئے ہے۔”
”تم جو چاہتی ہو وہ کرو۔”
”مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ میں کیا چاہتی ہوں، میں ڈبل مائنڈڈ ہو رہی ہوں اس لئے آپ سے پوچھ رہی ہوں کیا یہ ضروری ہے کہ میں ریزائن کر دوں؟”
”نہیں ضروری نہیں ہے۔”
”آپ کے گھر والوں کو اس پر کوئی اعتراض ہو گا؟”
”نہیں گھر والوں کو تو نہیں ہو گا مگر مجھے ہو سکتا ہے۔”
”آپ کو کیوں ہو گا؟”
”کیا تمہیں یقین ہے کہ تم گھر اور آفس کو اکٹھا Manage کر سکتی ہو؟” اس بار جنید واقعی سنجیدہ تھا۔
”پتا نہیں اسی لئے تو میں کنفیوز ہو رہی ہوں۔”
”تم کو اندازہ تو ہو گا؟”
”کوئی اندازہ نہیں ہے، پہلے مجھ پر گھر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، صرف جاب ہی ہے۔”
”میرے گھر آ کر بھی تو تمہیں کوئی کام تو نہیں کرنا پڑے گا مگر پھر بھی بہت سی دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔” جنید بات کرتے کرتے رکا۔
”تم جاب نہیں چھوڑنا چاہتیں؟”
”جاب …؟ میں چھوڑنا چاہتی ہوں مگر ابھی نہیں۔”
”علیزہ! میں کوئی کنزرویٹو آدمی نہیں ہوں اگر تم میں کوئی ٹیلنٹ ہے تو میں اسے ضائع کرنا نہیں چاہوں گا …مگر جس فیلڈ میں تم ہو یہ قدرے عجیب ہے تم اکثر فنکشنز کور کرنے جاتی ہو۔ فنکشنز کہاں ہوں، کب ہوں، تم گھر کب پہنچو …یہ سب کچھ خاصا complicated ہوتا ہے۔”
”ہاں میں جانتی ہوں اور اسی لئے ڈبل مائنڈڈ ہوں، مگر صرف میں صرف کھانے پینے، شاپنگ کرنے اور سونے والی زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ سوسائٹی میں کچھ تو کنٹری بیوشن ہونا چاہئے میرا۔”
”تم فری لانسنگ کر سکتی ہو۔” جنید نے تجویز پیش کی۔
”فری لانسنگ؟” وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”تمہارے لئے یہ خاصا آسان رہے گا۔” جنید نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”میں نے اس کے بارے میں سوچا نہیں۔”
”تو سوچ لو …بلکہ تم ایسا کرو …ریزائن کرنے کے بجائے چھٹی لے لو کچھ عرصہ کے بعد تم اپنی روٹین اور زندگی کو دیکھ لینا اور پھر فیصلہ کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا تمہارے لئے۔ بعد میں ہم دونوں زیادہ بہتر طریقے سے اس کے بارے میں کچھ طے کر لیں گے، یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تمہارے لئے اور alternatives کیا ہیں۔ بلکہ تم دیکھنا کہ امی تھوڑا بہت سوشل ورک کر رہی ہیں اس میں تم کس طرح مدد کر سکتی ہو۔ تمہارا تو سبجیکٹ بھی سوشیالوجی ہی رہا ہے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ صرف جرنلزم کے ذریعے ہی سوسائٹی میں کوئی کنٹری بیوشن کی جائے۔”
وہ اس کی بات غور سے سنتی رہی۔
”ہاں یہ ضروری نہیں ہے۔”
”پھر اور بہت سارے کام ہیں جو تم کر سکتی ہو مگر یہ ضروری نہیں کہ نائن ٹو فائیو والا کام کیا جائے اور پھر روز ہی کیا جائے، پھر روز صبح تم گھر سے نکل جایا کرو گی تو میں تمہاری شکل کیسے دیکھا کروں گا صبح۔”
وہ بات کرتے کرتے کچھ سنجیدہ ہوا۔ علیزہ اس کی بات پر ابھی بھی غور کر رہی تھی اس نے جنید کے آخری جملے پر غور نہیں کیا۔
”جرنلزم کے علاوہ بھی اور کچھ ہے دنیا میں، یہ کوئی ایلفا اور اومیگا تو نہیں ہے۔ تم نے پینٹنگ سیکھی ہوئی ہے۔ پینٹنگ کرو، اپنی سولو ایگزیبیشن کرواؤ۔ انٹریئر ڈیزائننگ کا ڈپلومہ لیا ہوا ہے اس کے حوالے سے کچھ کر لو …کرنے کے لئے بہت کچھ ہے علیزہ بی بی! بس بندے میں urge ہونی چاہئے جو تم میں ہے۔” وہ اب لا پروائی سے کہہ رہا تھا۔ ”کال کچھ لمبی ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم صرف مبارکباد ہی دینا چاہتا تھا۔”
جنید کو اچانک وقت گزرنے کا احساس ہوا۔ ”اس وقت تمہاری نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔”
”نہیں میری نیند خراب نہیں ہوئی۔” علیزہ اس کی بات پر مسکرائی۔
”ویسے خاصے لمبے عرصے کے بعد ہم دونوں کی اتنے خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی ہے۔” جنید کو اچانک یاد آیا ”اور آج مجھے واقعی اچھی نیند آئے گی۔”
وہ اس کی بات پر مسکرائی۔
خدا حافظ کہنے کے بعد جنید نے فون بند کر دیا، وہ اگلے کئی منٹ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتے ہوئے مسکراتی رہی۔ واقعی ان دونوں نے کئی ہفتوں کے بعد اتنی اچھی طرح ایک دوسرے سے بات کی تھی۔ اور وہ کئی دنوں کے بعد اتنا ہنسی تھی۔ اسے اپنی ساری تھکن غائب ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
”جنید کو آج واقعی بہت اچھی نیند آئے گی مگر مجھے، میرے لئے آج جلدی سونا خاصا مشکل ہو گا۔” اس نے سونے کے لئے بیڈ پر لیٹتے ہوئے اس وقت سوچا جب وہ بار بار اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ذہن سے جھٹکنے میں ناکام رہی۔
***