امربیل — قسط نمبر ۱۳

”پھر بھی نانو…بہتر ہوتا اگر آپ چند ماہ اور انتظار کر لیتیں۔”
”آخر کس لیے؟”
”بس ویسے ہی، جنید کو تھوڑا اور جان لیتی میں۔ ” اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
”میں تو سمجھتی ہوں کہ تم جنید کو اچھی طرح جان چکی ہو۔ ایک سال کافی ہوتا ہے کسی کو جاننے اور پرکھنے کے لیے اور جنید اس طرح کا لڑکا تو نہیں کہ اس کے بارے میں اتنا زیادہ محتاط ہونا پڑے۔” نانو نے قدرے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال تھا تمہاری اس کے ساتھ خاصی اچھی انڈر سٹینڈنگ ہو چکی ہے۔”
”ہاں وہ اچھا ہے مگر انڈر سٹینڈنگ۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”انڈر سٹینڈنگ کیا؟’ ‘ نانو نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔
”بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اس کے ساتھ میری کوئی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔” علیزہ نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟” نانو بھی الجھ گئیں۔
”تم نے پہلے کبھی جنید کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کی۔ تم تو ہمیشہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ہو۔”
”ہاں میں نے آپ سے کبھی اس کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کی اور میں اس کی تعریف ہی کرتی رہی ہوں۔” اس نے ان ہی کے انداز میں کہا۔
”اور تمہیں اس کی فیملی بھی بہت پسند ہے۔”
”ہاں مجھے اس کی فیملی بھی پسند ہے۔”
”بلکہ میرا تو خیال تھا کہ تم مینٹلی پہلے ہی ان کے ہاں ایڈجسٹ کر چکی ہو۔”




”ہاں میں مینٹلی پہلے ہی ان کے ہاں ایڈجسٹ کر چکی ہوں۔” اس نے کسی روبوٹ کی طرح میکانکی انداز میں یکے بعد دیگرے ان کے تمام جملے ان کے پیچھے دہراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آخر پرابلم کیا ہے؟” نانو نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
”پتا نہیں پرابلم کیا ہے مگر میں بعض دفعہ جنید کو سمجھ نہیں پاتی۔” اس نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”مثلاً کیا سمجھ نہیں پاتیں تم اس کے بارے میں؟” نانو نے سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں جانتی کہ اپنی فیلنگز کا اظہار کیسے کروں۔ مجھے یہ بتانا مشکل لگ رہا ہے کہ اس کے رویے کی کیا بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ بس بعض دفعہ اس کا پوائنٹ آف ویو میرے پوائنٹ آف ویو سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔” نانو نے ایک گہرا سانس لیا۔
”یہ اتنی اہم بات تو نہیں ہے نقطہ نظر میں فرق ہونا، تمہارے نانا اور مجھ میں بھی تقریباً ہر بات پر اختلاف رائے موجود تھا مگر اس کے برعکس ہم نے پچاس سال کا عرصہ اکٹھا گزارا اور خاصی ہنسی خوشی گزارا۔” انہوں نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”آپ دونوں کی شادی کسی کورٹ شپ کے بغیر ہوئی تھی۔ ایک سیدھی سادی ارینج میرج…ورنہ شاید ایک دوسرے کی نیچر کو اتنا مختلف دیکھ کر آپ دونوں بھی شادی نہ کرتے مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں پہلے ہی اس کے بارے میں جان چکی ہوں جب کہ آپ دونوں کو بعد میں ایک دوسرے کے بارے میں پتا چلا۔” علیزہ نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں بعد میں یہ سب پتا چلا مگر پہلے بھی پتا چلتا تو بھی کچھ زیادہ فرق نہ پڑتا۔ میں اور وہ پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہی شادی کرنا پسند کرتے۔” نانو نے خاصی قطعیت سے کہا۔
”He was a nice man to live with”
علیزہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”اور جنید کے بارے میں بھی میری رائے اتنی ہی اچھی ہے جتنی تمہارے نانا کے بارے میں بلکہ کئی اعتبار سے وہ تمہارے نانا سے بہتر ہے۔” نانو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”مثلاً؟”
”مثلاً… غصے کے معاملے میں…وہ Short tempered(غصیل) نہیں ہے۔”
”ہاں…Short temperedنہیں ہے مگر غصہ بہرحال اسے آتا ہے۔” علیزہ نے انہیں بتایا۔
”نارمل بات ہے، کسے نہیں آتا، مسئلہ صرف تب ہوتا ہے جب بات بے بات آتا ہو۔” نانو نے لاپروائی سے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”بہت خیال رکھنے والا آدمی ہے۔”
علیزہ خاموش رہی۔
”خوش مزاج ہے…فضول بحث نہیں کرتا اور چھوٹے موٹے اختلافات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔تمہارے نانا میں یہ چاروں خصوصیات نہیں تھیں۔”
نانو نے یکدم مسکراتے ہوئے کہا۔
”وہ Short tempered تھے اور مجھے اس کا اندازہ بہت شروع میں ہی ہو گیا تھا۔ خوش مزاجی بھی ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھی۔ وہ خاصے کم گو تھے۔ صرف ضرورت کے وقت ہی بولنا پسند کرتے تھے اور اگر ان کے مزاج میں کچھ شگفتگی آئی تھی تو جاب سے ریٹائر ہونے کے بعد…اپنے بڑھاپے میں۔
اور چھوٹی موٹی باتوں کو نظر اندازا نہوں نے کبھی کیا ہی نہیں۔ بہت محتاط رہنا پڑتا تھا ان سے بات کرتے ہوئے ورنہ وہ چھوٹی سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور پھر خاصے عرصے تک وہ چھوٹی سی بات ان کے ذہن میں اٹکی رہتی تھی اور بحث کے وہ کس حد تک شوقین تھے یہ تو تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔” نانو نے اپنا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”نہ صرف بحث کرنے کے شوقین تھے بلکہ معمولی باتوں پر بحث کرنے کے شوقین تھے اور اپنی بات پر اڑ جانے والوں میں سے تھے۔ دوسرا چاہے انسائیکلوپیڈیا سامنے رکھ کر بات کرتا۔ وہ میں نہ مانوں کے مصداق ہی چلتے۔ مجال ہے کہ کسی دوسرے کی بات کو کوئی اہمیت دے دیتے اور اس کے باوجود میں نے ان کے ساتھ بڑی اچھی زندگی گزاری ہے۔ انہیں یا مجھے دونوں کو کبھی کوئی پچھتاوا نہیں ہوا کہ ہم دونوں کی شادی کیوں ہو گئی یا…ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ ہماری کہیں اور شادی ہوئی ہوتی تو بہتر ہوتا۔ پھر تمہیں اتنے خدشات کیوں ہیں جنید کے بارے میں۔” نانو اچانک سنجیدہ ہو گئیں۔
”آپ جنید کو اتنا زیادہ کیسے جاننے لگی ہیں؟” علیزہ نے اچانک ان سے پوچھا۔
”شروع سے ہی جانتی ہوں۔” نانو نے بے ساختہ کہا۔
”شروع سے ہی جانتی ہیں؟” علیزہ نے کچھ چونک کر انہیں دیکھا مگر آپ کی بات چیت تو جنید اور اس کے خاندان سے اس پر پوزل کے آنے کے بعد ہوئی ہے۔”
”ہاں میرا مطلب ہے کہ ایک سال سے جب سے وہ یہاں آنے لگا ہے۔ شروع سے ہی وہ بڑی سلجھی ہوئی عادتوں کا مالک ہے۔” نانو نے جلدی سے تصحیح کی۔
”ایک سال میں اس نے یہاں چند گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں گزارا اور چند گھنٹے کیا کسی آدمی کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں؟” اس نے سنجیدگی سے نانو سے پوچھا۔
”ہر آدمی کے بارے میں نہیں مگر کچھ لوگوں کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے تو چند منٹ بھی کافی ہوتے ہیں۔” نانو نے اسی کے انداز میں کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ جنید برا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں میں اسے سمجھ نہیں پاتی۔” علیزہ نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”بعض دفعہ تو مجھے تمہیں سمجھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم بھی مجھے سمجھ نہیں پاتی ہو گی۔” نانو نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”اس کے باوجود ہم دونوں کی آپس میں خاصی انڈر سٹینڈنگ ہے یا پھر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہاری میرے ساتھ بھی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔”
علیزہ ان کی بات پر صرف مسکرائی۔ اس نے کچھ کہا نہیں ورنہ وہ کہنا چاہتی تھی کہ ہاں وہ ان کے ساتھ بھی بات کرتے ہوئے اکثر انہیں اپنی بات اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں ناکام رہتی ہے۔
”چند ماہ اس کے ساتھ اور گزارنے کے بعد اگر تمہیں یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ وہ تمہارے لیے موزوں نہیں ہے تو پھر کیا کرو گی؟” نانو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”خاص طور پر اس صورت میں جب تم اس کے لیے اپنے دل میں ایک نرم گوشتہ بھی پیدا کر چکی ہو۔ کیا منگنی توڑ دو گی اور کیا یہ فیصلہ اس وقت زیادہ مشکل نہیں ہوگا؟”
نانو نے جیسے ایک آپشن اس کے سامنے حل کرنے کے لیے رکھتے ہوئے کہا۔
”لمبی کورٹ شپ میں ایسے مسائل تو ہوتے ہی ہیں۔ جنید مجھے بتا رہا تھا پچھلے چند ماہ میں تم دونوں کے درمیان کچھ اختلافات ہوتے آرہے ہیں۔”
علیزہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ جنید اس طرح کی بات نانو سے کر سکتا تھا۔
”اس نے کیا بتایا ہے آپ کو؟”
”کچھ زیادہ نہیں، بس وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تم اس سے قدرے ناراض رہنے لگی ہو۔”
”اس نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میں ناراض کیوں رہنے لگی ہوں؟” علیزہ نے کچھ ناگواری سے پوچھا۔
”ہاں وہ کہہ رہا تھا کہ تم کو اس نے عمر کے حوالے سے خبریں شائع کرنے سے منع کیا تھا اس پر تم۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”حالانکہ عمر کے خلاف کوئی بھی خبر میں نے شائع نہیں کی تھی۔”
”تمہاری دوست صالحہ نے شائع کی تھی۔ تم نے اس کو منع بھی تو نہیں کیا۔” نانو نے کچھ شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں اسے منع کیوں کرتی۔ آپ اس بارے میں میرے پوائنٹ آف ویو کو اچھی طرح جانتی ہیں۔” علیزہ نے کہا۔
”جو بھی تھا مگر مجھے جنید کی بات بالکل بھی Unreasonable (نامعقول) نہیں لگی۔ اس کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو تمہیں اسی طرح سمجھاتا، سڑکوں پر پوسٹر اور بینر لے کر کھڑے ہونے کے لیے اور بہت سے لوگ ہوتے ہیں ہماری فیملیز کی عورتوں کو ایسے کاموں میں شریک نہیں ہونا چاہیے اور پھر اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کے خلاف…پھر اگر اس پر اس نے کسی ردعمل کا اظہار کیا تو وہ یہ کرنے میں بالکل Justified(حق بجانب) تھا۔ کم از کم یہ ایسی بات نہیں تھی جس پر تم ناراض ہوتی پھرتیں۔” نانو نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اس کی آکورڈ پوزیشن کا اندازہ کرنا چاہیے تھا تمہیں، اس کی فیملی کیا سوچتی تمہارے بارے میں اور صرف کلوز فیملی ممبرز ہی نہیں دوست احباب کو بھی خاصی وضاحتیں دینی پڑی ہوں گی اسے لوگوں کے سامنے اور اس پر تمہاری ناراضی۔” نانو نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔ ”پھر اگر ان باتوں پر کوئی اختلاف رائے ہوتا ہے تو ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ وہ بات ہے جس پر تم اس کے رویے کو سمجھ نہیں سکتیں تو بہتر ہے تم خود اپنے رویے پر ایک بار نظر ثانی کرو۔ ہو سکتا ہے تم اس کے اس رویے کو سمجھ سکو۔
تمہیں اگر یہ لگتا ہے کہ اسے تم سے زیادہ تمہاری فیملی ممبرز کی پروا ہے اور ان کی عزت کی فکر رہتی ہے تو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔ کم از کم اس معاملے میں اس کا رویہ نامناسب نہیں ہے۔” نانو نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”اور آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ اس نے آپ کو زیادہ باتیں نہیں بتائیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ آپ کو سب کچھ خاصی تفصیل سے بتاتا رہا ہے۔” علیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”تمہیں یہ بات بھی بری لگی ہے؟” نانو نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا نہیں لگنی چاہیے؟” اس نے جواباً سوال کیا۔
”نہیں لگنی چاہیے کیونکہ اس نے سب کچھ میرے استفسار پر بتایا تھا۔ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ آخر تم اس سے اکھڑی اکھڑی کیوں رہنے لگی ہو۔”
نانو نے اس کی بات کے جواب میں جیسے کچھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”اور پھر یقیناً آپ نے اس ساری صورت حال کا حل شادی کی صورت میں نکالا ہوگا۔”
”نہیں یہ حل میں نے پیش نہیں کیا۔ میں نے صرف تجویز دی تھی اسے کہ بہتر ہے تم دونوں اب شادی کر لو۔ اس نے اپنے گھر والوں سے بات کی…ان کی بھی یہی خواہش تھی اس لیے۔”
علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”آپ بھی نانو بعض دفعہ حد کر دیتی ہیں۔” اس کے لہجے میں خفگی تھی۔
”تو کیا مجھے یہ انتظار کرنا چاہیے کہ کب تم لوگوں کے اختلافات اور بڑھیں اور تلخیوں اور کشیدگی کے بعد رشتہ ختم ہونے کی نوبت آن پہنچے۔”
”ایسا کبھی نہیں ہونا تھا۔”
”کیوں تم یہ کس طرح کہہ سکتی ہو؟”
”بس کہہ سکتی ہوں۔” اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا۔
”پھر وہ لوگ کل آرہے ہیں تو میں انہیں تاریخ دے دوں گی۔” نانو نے جیسے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا۔
”دے دیں۔ آپ کی اتنی لمبی چوڑی پلاننگ اور سکیمنگ کو میں برباد نہیں کروں گی۔” علیزہ نے کچھ ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
نانو اس کی بات پر مسکرا دیں۔
”تم شہلا کو بھی کل بلوا لینا۔”
”بلوا لوں گی، وہ ویسے بھی یہاں کا چکر لگانے کا سوچ رہی ہے۔” اس نے لاؤنج سے نکلنے سے پہلے کہا۔
”بہتر ہے کہ کل تم آفس نہ جاؤ۔ گھر پر ہی رہو۔’ ‘ نانو نے اسے کہا۔
”نہیں کل آفس تو مجھے جانا ہے مگر میں وہاں سے جلدی آ جاؤں گی۔”
”جلدی…کس وقت…؟”
”دوپہر کو لنچ کے بعد آ جاؤں گی بلکہ شاید لنچ آور کے دوران ہی۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ یہ بہتر رہے گا۔” نانو نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!