امربیل — قسط نمبر ۱۳

”ہاں میں نہیں تھی…مگر اب ہو گئی ہوں۔” اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”ابھی تمہارے انکلز کے فون آنے لگیں گے ۔ میں کس کس کو کیا کہوں گی…ایاز کا تمہیں پتا ہے وہ۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے ایاز انکل یا کسی بھی دوسرے انکل کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ میری زندگی ہے، جو چاہوں اس کے ساتھ کروں۔” وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ثمینہ نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ”تم ایک بار اپنے فیصلے پر پھر سوچو…تم بہت بڑی غلطی کر رہی ہو۔”
”مجھے پتا ہے…مگر میں پھر بھی یہ غلطی کرنا چاہتی ہوں۔” وہ دوٹوک انداز میں کہتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل چھوڑ کر چلی گئی۔
”ممی! آپ نے اس کی کیسی تربیت کی ہے؟” ثمینہ نے اس کے اٹھتے ہی اپنی ماں سے کہا۔
”تم میری پریشانی میں اپنے الزامات سے اضافہ مت کرو۔ اس کی تربیت صرف میرا فرض نہیں تھا۔ اتنے سالوں میں تمہیں بھی کبھی اس کی تھوڑی بہت خبر لے لینی چاہیے تھی۔ اس کے باپ کی طرح تم بھی ہر ذمہ داری مجھ پر چھوڑ کر بیٹھ گئیں۔” نانو نے تلخی سے کہا۔
”ممی ! آپ کا خیال ہے کہ میں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اتنی باقاعدگی سے میں فون پر اس سے رابطے میں رہی…کئی بار میں نے چھٹیوں میں اسے اپنے پاس رکھا۔ ہر ماہ میں باقاعدگی سے اس کے لیے پیسے بھجواتی رہی اور آپ کہہ رہی ہیں کہ میں نے ہر ذمہ داری آپ پر چھوڑ دی۔”
”یہ سارے کام تو سکندر بھی کرتا رہا۔ پھر تو وہ بھی اتنا ہی اچھا باپ ہوا جتنی اچھی تم ماں ہو۔”




”ممی پلیز! مجھ پر طنز مت کریں۔” ثمینہ نے سکندر کے نام پر انہیں ٹوکا۔
”تو پھر تم مجھے کیوں مورد الزام ٹھہرا رہی ہو؟”
”میں کسی کو الزام نہیں دے رہی۔ میں صرف اس کا رویہ دیکھ کر پریشان ہو گئی ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ضدی ہو گئی ہے…پہلے تو۔۔۔”
”مجھے خود بھی نہیں پتا کہ وہ پچھلے پانچ چھ سالوں میں کیوں اس طرح کی ہو گئی ہے…یہ ضد اس میں پہلے نہیں تھی…نہ ہی اتنی خود سر تھی یہ مگر بس…جب سے معاذ کا انتقال ہوا یہ تو بالکل بدل گئی۔ معاذ تھے تو پھر بھی اور بات تھی…انہیں اس کو ہینڈ ل کرنا آتا تھا…ان کے بعد تو مجھے بہت دقت ہونے لگی…یہ اپنے خاندان پر اس قدر تنقید کرتی ہے۔ شاید یہ اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے بھی ہوا ہے۔ پتا نہیں کون کون سی بکواس ہے جو اس تک پہنچتی رہتی ہے۔” نانو نے سر پکڑتے ہوئے کہا۔
”اور اب جو یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے۔”
”ممی مجھے یہ بتائیں کہ یہ بات نہیں مانے گی تو کیا ہوگا…کتنی بدنامی ہو گی ساری فیملی میں میری۔۔۔” ثمینہ اب روہانسی ہونے لگیں۔
”میں عمر سے بات کرتی ہوں…وہ یہاں آئے۔” نانو اپنی کرسی سے اٹھنے لگیں۔
”وہ کس لیے آئے؟” ثمینہ حیران ہوئی۔
”وہ آکر اس سے بات کرے۔ سمجھائے اسے۔”
”عمر کی بات سنے گی یہ؟” ثمینہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”عمر کی وجہ سے ہی تو اس نے یہ سب کیا ہے…آپ کے سامنے کہا ہے اس نے کہ وہ عمر کی شکل تک دیکھنے پر تیار نہیں ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ عمر کو بلائیں گی وہ بات کرے گا اس سے۔”
”بس وہی بات کر سکتا ہے…وہی سمجھا سکتا ہے اسے۔۔۔” نانو نے فون کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”ممی! عمر کو اتنا ناپسند کیوں کرتی ہے یہ…کئی سال پہلے تو اس کی زبان پر عمر کے علاوہ اور کسی کا نام ہی نہیں ہوتا تھا…آپ خود کہتی تھیں کہ عمر سے اس کی بڑی دوستی تھی…پھر آخر ہوا کیا؟”
نانو نے مڑ کر ثمینہ کو دیکھا۔ ”علیزہ عمر سے شادی کرنا چاہتی تھی۔”
”کیا؟” ثمینہ ہکا بکا رہ گئیں۔ ”آپ تو ابھی کہہ رہی تھیں کہ اسے کوئی پسند نہیں تھا۔”
”عمر کے علاوہ اور کوئی پسند نہیں تھا۔” نانو نے فون کا ریسیو اٹھائے ہوئے ثمینہ کے جملے کی تصحیح کی۔ ثمینہ بے تابی سے اٹھ کر ان کے پاس آ گئیں۔
” تو ممی! پھر آپ نے عمر سے اس کی شادی کیوں کروانے کی کوشش نہیں کی؟”
”میں نے بہت کوشش کی تھی…میں نے عمر سے بات کی تھی…اس نے انکار کر دیا۔”
”کیوں؟” ثمینہ بے اختیار چلائیں۔
”وہ اپنے بہترین دوست سے اس کی شادی کروا سکتا ہے۔ خود کیوں نہیں کر سکتا…آپ ہی تو کہتی رہیں۔ وہ علیزہ کا بہت خیال رکھتا ہے۔”
نانو کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔ ”صرف خیال نہیں رکھتا…وہ اس سے محبت کرتا ہے۔” انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
”پھر…ممی پھر انکار کیوں کیا اس نے ؟”
”اس نے کہا کہ میں فیملی مین نہیں ہوں۔ میں اچھا دوست بن سکتا ہوں، مگر اچھا شوہر یا اچھا باپ مجھے بننا نہیں آتا…میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کی زندگی خراب ہو۔ میرے جیسے ٹمپرامنٹ کے آدمی کے ساتھ وہ نہیں رہ سکے گی۔ دو نامکمل انسان مل کر ایک مکمل زندگی نہیں گزار سکتے نہ کوئی پرفیکٹ فیملی بنا سکتے ہیں اور میں علیزہ یا عمر جیسے کوئی اور بچے نہیں چاہتا۔ وہ زندگی میں بہت کچھ deserve کرتی ہے…اچھا شوہر، محبت کرنے والا خاندان، بچے، سکون…بہت کچھ…اور یہ سب کچھ جنید اس کو دے سکتا ہے میں نہیں…کیونکہ میری طرح جنید کی شخصیتParadoxes کے بلاکس سے مل کر نہیں بنی…میں نے اس سے کہا تھا وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ اس نے کہا آج کرتی ہے کل نہیں کرے گی، میرے ساتھ کچھ سال گزارنے کے بعد وہ اسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی جس تنہائی کا شکار وہ آپ کے گھر میں ہے۔ میں جس فیلڈ میں ہوں اس میں تو میں اسے وقت تک نہیں دے سکوں گا…اور پھر میری جاب میں مجھے بہت سے ایسے کام کرنے ہوتے ہیں جو اسے ناپسند ہیں…میں نہیں چاہتا وقت گزرنے کے ساتھ وہ اور میں اپنے اس رشتے یا تعلق پر پچھتائیں…میں نے اسے بہت سمجھایا تھا میں نے اس سے کہا تھا جہاں محبت ہو وہاں کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں صرف محبت چاہتا ہوں کمپرومائز نہیں۔ میں نے ہر رشتے میں کمپرومائز دیکھا ہے مگر میں اپنے اور علیزہ کے رشتے میں کمپرومائز نہیں دیکھ سکوں گا…اور میں جانتا ہوں میں اس سے شادی کروں گا تو یہی سب کچھ ہوگا۔
میں کسی دوسری عورت کے ساتھ اگر کمپرومائز کی زندگی بھی گزاروں گا تو مجھے وہ تکلیف نہیں ہوگی، جو مجھے علیزہ کے ساتھ ایسی زندگی گزار کر ہو گی…کسی دوسری عورت کی تکلیف دیکھ کر مجھے کوئی احساس جرم نہیں ہو گا…مگر علیزہ میری وجہ سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے گی تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گا…پچھتاوے کے ساتھ جینا مجھ جیسے آدمی کے لیے بہت مشکل ہے گرینی۔۔۔” اس نے مجھ سے کہا تھا۔” میں اسے اور کیا سمجھاتی کیا کہتی…پھر میں نے علیزہ سے وہی کہا جو وہ کہلوانا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ عمر اس سے محبت نہیں کرتا اس کے نزدیک وہ صرف ایک دوست ایک کزن ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔”
نانو افسردگی کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔
”علیزہ کو اس کی باتوں سے شاک لگا تھا۔ شاید اسے لاشعوری طور پر یہ یقین تھا کہ عمر بھی اس سے محبت کرتا تھا مگر…بس پھر ان دونوں کے درمیان پہلے جیسی کوئی بات نہیں رہی…کچھ واقعات بھی ایسے ہی ہوئے کہ عمر سے اس کی ناراضی بڑھتی گئی۔”
”پھر آپ کو کبھی بھی جنید کے ساتھ اس کی شادی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کبھی بھی نہیں۔ علیزہ کو جب بھی یہ پتا چلتا کہ جنید عمر کا دوست ہے وہ تو اسی طرح مشتعل ہوتی…ممی! آخر آپ نے اس کی فیلنگز کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔” ثمینہ نے احتجاجی انداز میں کہا۔
”مجھے اس کے لیے جنید سے موزوں کوئی اور لگا ہی نہیں…خود علیزہ کو بھی وہ بہت اچھا لگا تھا اور پچھلے ایک سال میں ان دونوں کے درمیان چند ایک اختلافات کے باوجود بہت زیادہ انڈر سٹینڈنگ ڈویلپ ہو گئی تھی…علیزہ اس کے گھر آتی جاتی رہی ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ذہنی طور پر ایڈجسٹ ہو چکی تھی نہ صرف یہ بلکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ بہت خوش رہتی ہے…میں نے اس کی خوشی اور سکون کے لیے ہی سب کچھ کیا ہے…وہ لوگ ہم سے بہت اچھے اور بہتر ہیں…ان کا ماحول بہت اچھا ہے۔ علیزہ کو ضرورت تھی ایسے لوگوں کی…کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کرتی تو میرے پاس کیا آپشن ہوتے…ہر لڑکا جنید جیسی نیچر اور عادتوں کا مالک نہیں ہوتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جتنا کیئرنگ ہے، علیزہ اس کے ساتھ بہت خوش رہے گی…صرف اس لیے میں نے جنید کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دی۔”
ثمینہ نے اس بار کچھ نہیں کہا، وہ الجھی ہوئی صوفہ کی طرف بڑھ گئیں۔ نانو عمر کو کال کرنے لگیں۔
”ممی !” ثمینہ نے یکدم انہیں مخاطب کیا۔ نانو نے گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔
”کیا آپ ایک بار پھر عمر سے بات نہیں کر سکتیں؟” ثمینہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں ان سے کہا۔
”میں اسی سے بات کرنے کے لیے اسے فون کر رہی ہوں۔” نانو نے کہا۔ وہ ایک بار پھر نمبر ڈائل کرنے لگیں۔
”ممی میں اس معاملے کی بات نہیں کر رہی۔”
”تو پھر؟” نانو ایک بار پھر فون کرتے کرتے رک گئیں۔
”کیا آپ عمر سے ایک بار پھر علیزہ کی شادی کی بات نہیں کر سکتیں؟”
”تم کیا کہہ رہی ہو ثمینہ؟”
”ممی ! آپ ایک بار پھر عمر سے بات کریں…اسے یہاں بلائیں۔ اس بار میں بھی اس سے بات کروں گی، ہو سکتا ہے مان جائے۔ اگر علیزہ اس سے محبت کرتی ہے تو کیا یہ بہتر ہے کہ ہم اس کی شادی اسی کے ساتھ کریں۔”
”ثمینہ! علیزہ اس سے محبت کرتی تھی…اب نہیں کرتی…اب وہ جنید سے محبت کرتی ہے۔”
”نہیں وہ جنید سے محبت نہیں کرتی۔ اگر اسے جنید سے محبت ہوتی تو وہ کبھی بھی اس طرح شادی نہ کرنے کا فیصلہ نہ کرتی…وہ یہ فیصلہ کر ہی نہ سکتی…اسے اب بھی عمر سے محبت ہے اور یہ بات آپ اور عمر بھی اچھی طرح جانتے ہیں، پھر کیوں اس کی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔” ثمینہ نے کہا۔
”اور جنید…اس کا کیا ہوگا…اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تو اس کا کیا ہو گا تم اس کی تکلیف کا اندازہ کر سکتی ہو؟”
”ممی! مجھے اس کی تکلیف کی کوئی پروا اور کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے صرف اپنی بیٹی کی پروا ہے…مجھے جنید سے ہمدردی ہے مگر…اگر علیزہ اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی تو بہتر ہے وہ اس کے ساتھ نہ رہے۔” ثمینہ نے قدرے خود غرضی اور شاید صاف گوئی سے کہا۔
”وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش رہیں گے ثمینہ۔”
”نہیں وہ دونوں ایک ساتھ خوش نہیں رہیں گے اگر آپ عمر سے بات نہیں کریں گی تو میں خود عمر سے بات کروں گی…اور اگر عمر میری بات پر رضا مند نہیں ہوا تو پھر میں جہانگیر سے بات کروں گی یا پھر میں ایاز بھائی سے بات کروں گی۔” ثمینہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
علیزہ جس وقت اپنے کمرے میں واپس آئی اس نے موبائل کو بجتے سنا۔ بیڈ کے پاس آکر اس نے موبائل کو اٹھا کر اس پر آنے والا نمبر دیکھا۔ وہ عمر جہانگیر کا نمبر تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ کچھ دیر تک وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتی رہی پھر اس نے اسے آن کر دیا۔
”ہیلو علیزہ…کیسی ہو تم؟” دوسری طرف عمر کی آواز سنائی دی تھی۔
”بہت اچھی ہوں۔۔۔” علیزہ نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ اسے خلاف معمول عمر کی آواز سن کر غصہ نہیں آیا تھا بلکہ یہ سوچ کر ایک عجیب سا اطمینان محسوس ہوا تھا کہ اب وہ پریشان ہوگا۔
”تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟” وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔
”بس ایسے ہی…دل چاہ رہا تھا کسی ایڈونچر کے لیے…تمہیں تو اچھی طرح پتا ہے کہ میں کتنی میچور ہوں۔”
”علیزہ ! میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔”
”مگر میں تو کر رہی ہوں۔”
”تمہیں اپنے اس فیصلے کی سنگینی کا احساس ہے؟” عمر نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھی طرح۔” اس کے لہجے کا اطمینان عمر کو ڈسٹرب کر رہا تھا۔
”عمر جہانگیر ! میں تمہارے کسی ”Pet” (پالتو) کے ساتھ شادی کبھی نہیں کروں گی۔”
عمر کچھ بول نہیں سکا۔
”تمہیں مجھ پر اتنے احسان کرنے کا شوق کیوں ہے؟”
”علیزہ! میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔”
”تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارا بیسٹ فرینڈ مجھ سے شادی نہیں کرے گا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کرے گا؟”
”وہ صرف میرا بیسٹ فرینڈ نہیں ہے، وہ ایک بہترین انسان بھی ہے۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”بہترین انسان؟ یا دھوکے باز انسان…؟ تمہارا ہر دوست تمہاری ہی طرح جھوٹا اور فراڈ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔” علیزہ نے اس بار قدرے تلخی سے کہا۔
”تم مجھے یہ بتا سکتی ہو کہ تمہارا غصہ کب ختم ہوگا تاکہ میں تم سے اس وقت بات کر سکوں۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں بڑے تحمل سے کہا۔




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!