جنید گیراج سے گاڑی نکالنے کے بعد اندر آیا تھا، جب اس نے اپنے موبائل کی بیپ سنی۔ دوسری طرف عمر تھا جنید کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی نوٹس پڑھ چکا ہو گا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جنید نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ ”نانو نے شادی کو ملتوی کیوں کیا ہے؟” وہ عمر اور علیزہ کی طرح انہیں نانو ہی کہتا تھا۔
”گرینی نے ایسا نہیں کیا۔”
”تو پھر کس نے کیا ہے؟” جنید نے حیران ہو کر پوچھا۔
”علیزہ نے۔”
جنید کچھ بول نہیں سکا عمر کو اس پر یکدم اس طرح چھا جانے والی خاموشی کچھ عجیب لگی۔
”اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟” جنید نے کچھ دیر بعد مدھم آواز میں کہا۔
”یہی تو میں تم سے جاننا چاہتا ہوں۔”
”میں تمہیں کیا بتا سکتا ہوں، تم اس سے پوچھو۔”
”میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں…تم دونوں کا کوئی جھگڑا ہوا تھا؟” عمر نے براہ راست موضوع پر آتے ہوئے کہا۔
”عمر ! میرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ صرف پرسوں میں نے اسے یہ بات بتا دی تھی کہ تم میرے بہت پرانے دوست ہو۔”
”کیا؟” عمر بے اختیار چلایا۔
”ہاں میں نے اسے یہ بات بتا دی۔”
”اور کیا بتایا ہے تم نے اسے؟”
”میں نے اس کے دل سے تمہارے خلاف غلط فہمیاں نکالنے کی کوشش کی، وہ تمہیں اپنا دشمن سمجھ رہی تھی۔ میں نے اس سے یہ کہا کہ میری اور اس کی شادی طے کروانے میں بھی تمہارا ہاتھ ہے اور اگر تم اس کے دشمن ہوتے تو تم ایسا کیوں کرتے۔”
”تم دنیا کے سب سے احمق انسان ہو۔” عمر نے غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔
”تمہیں اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
”فضول باتیں؟ یہ کوئی فضول بات تو نہیں ہے۔ میں نے اسے تھوڑے سے حقائق بتانے کی کوشش کی تھی۔” جنید نے کہنا چاہا۔
”تم اپنے حقائق اپنے پاس رکھا کرو…جب تم سے میں نے کہا تھا کہ تم اس سے میرے بارے میں کبھی کوئی بات مت کرنا تو پھر تمہارا دماغ کیوں خراب ہو گیا تھا۔”
”عمر! ساری عمر یہ جھوٹ نہیں چل سکتا تھا، اسے شادی کے بعد بھی تو پتا چلنا ہی تھا۔”
”بعد کی بات اور تھی…اور ضروری نہیں ہے کہ بعد میں بھی اسے بتایا جاتا اور ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد اس کی ناراضی ختم ہو جاتی۔” عمر نے ناراضی کے عالم میں اس سے کہا۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر ناراض ہو سکتی ہے۔” جنید نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
” مجھے تھا اسی لیے میں نے تمہیں منع کیا تھا مگر تمہیں تو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔”
”بہرحال اب تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ جو کچھ ہو چکا ہے، وہ ہو چکا ہے۔” جنید نے کہا۔
”تمہارے گھر میں پتا چل گیا ہے اس نوٹس کے بارے میں؟”
”ظاہر ہے…امی نے صبح اخبار میں پڑھا تھا۔”
”کیاری ایکشن ہے ان کا؟”
”بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے بابا کو بھی بتا دیا ہے، ہم لوگ ابھی نانو کی طرف ہی جا رہے ہیں۔” جنید نے اس سے کہا ”اور میں نے انہیں ابھی تک اس نوٹس کی وجہ نہیں بتائی۔ وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ مجھے اس نوٹس کی وجہ کا کچھ پتا نہیں اور نہ ہی میرا اور علیزہ کا کوئی اختلاف ہوا ہے۔”
”جنید! تم ان سے کہو کہ ابھی وہ گرینی کی طرف نہ جائیں۔” عمر نے کہا۔ ”میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے گرینی سے بات کی ہے۔ علیزہ اس وقت سو رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ پہلے علیزہ کی امی سے بات کریں اور پھر علیزہ سے بات کریں اگر ابھی تم لوگ وہاں چلے گئے تو معاملہ زیادہ بگڑے گا۔ تم ان سے کہو، وہ ابھی وہاں نہ جائیں۔”
”لیکن میں انہیں کیا کہہ کر روکوں۔ تمہارا ریفرنس دے کر روکوں؟”
”ہاں تم کہہ دینا کہ تمہاری مجھ سے بات ہوئی ہے۔ میں گرینی سے کہتا ہوں کہ وہ خود آنٹی کو فون کریں لیکن ابھی کچھ دیر کے بعد…فوری طور پر نہیں۔” عمر نے اسے ہدایت دی۔
”ٹھیک ہے میں امی سے بات کرتا ہوں۔” جنید نے اسے کہا۔ پہلے کی نسبت وہ اب کچھ مطمئن نظر آ رہا تھا۔
”بس میں پھر ابھی کچھ دیر بعد تمہیں رنگ کروں گا۔ اگر اس نوٹس کی وجہ سے کوئی کالز تمہارے گھر آئیں تو تم آنٹی سے کہو کہ وہ یہی کہیں کہ شادی اگلے مہینے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ کوئی بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔” اس نے فون بند کرتے کرتے کہا۔
”اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے…سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اس نے غصے میں آکر یہ قدم اٹھا لیا ہے۔ تھوڑا سمجھائیں گے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔” وہ اب علیزہ کا دفاع کر رہا تھا۔
”اور پھر اس میں زیادہ قصور خود تمہارا ہے جب تمہیں ایک بار میں نے منع کیا تھا تو پھر تمہیں اس طرح کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ نہ تم ایسی بات کرتے نہ وہ غصے میں آکر اس طرح کی حرکت کرتی۔ بہرحال میں تم سے کانٹیکٹ میں ہوں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
اس نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ جنید کو تسلی دینے کے باوجود خود وہ زیادہ مطمئن نہیں تھا۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس کا اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ شرمندگی جنید اور اس کی فیملی سے محسوس ہو رہی تھی۔ کم ازکم ان کا ایسا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے۔ جنید کی فیملی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ جنید عمر کے کہنے پر علیزہ سے شادی کر رہا تھا۔ ان کا یہی خیال تھا کہ جنید کو وہ پسند آگئی تھی اس لیے وہ اس سے شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ ورنہ شاید اس وقت عمر کی پوزیشن زیادہ خراب ہوتی مگر وہ جنید کے سامنے خفت محسوس کر رہا تھا۔
کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ہونٹ بھینچے وہ بہت دیر تک اس ساری صورتحال کے بارے میں سوچتا رہا، آخر وہ جنید کو کس طرح اس پریشانی سے نکال سکتا تھا۔ جس کا شکار وہ درحقیقت عمر کی وجہ سے ہوا تھا۔
٭٭٭
”آپ کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔” دستک کی آواز پر علیزہ نے دروازہ کھولا۔ ملازم کھڑا تھا۔
”تم جاؤ میں آرہی ہوں۔” اس نے مڑ کر وال کلاک پر ایک نظر ڈالی، آج اسے اٹھنے میں واقعی دیر ہو گئی تھی۔
پندرہ منٹ بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو اس نے نانو اور ممی کو وہاں بیٹھے دیکھا، وہ بے حد متفکر نظر آرہی تھیں۔ ایک لمحہ کے لیے علیزہ کی ان سے نظریں ملیں پھر وہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی جہاں ناشتہ لگا ہوا تھا۔ ممی اخبار اٹھا کر اس کی طرف آگئیں۔
”یہ کیا حرکت ہے علیزہ؟”
”کون سی حرکت؟” اس نے ڈبل روٹی پر جیم لگاتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت تک ان دونوں کی وہاں موجودگی اور ان کے چہروں پر نظر آنے والی تشویش کی وجہ جان چکی تھی۔
”یہ نوٹس…جو تم نے شائع کروایا ہے۔” ثمینہ اخبار اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں۔ علیزہ نے نوٹس پڑھنے کے بجائے اخبار کو ہاتھ سے ایک طرف کر دیا اور سلائس پر جیم لگانا جاری رکھا۔
”اپنی شادی کینسل کر دی ہے تم نے؟” ثمینہ نے اس بار قدرے تیز آواز میں کہا۔
”اور تمہاری اتنی جرأت کیسے ہوئی کہ تم میرا نام استعمال کرکے اس طرح کے نوٹس دو۔ اپنے نام سے دیتیں یہ نوٹس۔۔۔” اس بار نانو بھی غصے کے عالم میں اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کے پاس آگئیں۔
علیزہ پر ان کے غصے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ”میں اپنے نام سے یہ نوٹس دے سکتی تھی مگر اس پر آپ کو یہ اعتراض ہوتا کہ میں اتنی دیدہ دلیر ہو گئی ہوں کہ اپنے نام سے ایسے نوٹس دیتی پھر رہی ہوں۔” اس نے اطمینان سے سلائس کھاتے ہوئے کہا۔
”آخر تم نے اس طرح کی حرکت کیوں کی ہے؟” ثمینہ نے اس بار کچھ بے چارگی سے کہا۔
”صرف اس لیے کیونکہ میں اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”یہ سب تمہیں اب یاد آیا ہے جب شادی میں دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ پہلے بتانا چاہیے تھا تمہیں کہ تم اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتیں۔” نانو نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ”اور یہ شادی تم سے پوچھ کر طے کی گئی تھی…تمہارے سر پر تھوپا تو نہیں گیا تھا جنید کو…رشتہ طے ہونے سے پہلے ملتی رہی ہو تم…جب مطمئن ہو گئیں تب یہ رشتہ طے کیا گیا بلکہ میں نے تم سے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے تو مجھے بتا دو۔ ہم تمہاری شادی وہاں طے کر دیں گے۔ اس وقت تمہیں جنید پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتیں؟” نانو رکے بغیر بولتی رہیں۔
”آخر تم نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ تم ہمیشہ مجھے اور دوسروں کو پریشان کرتی رہو گی؟”
”میں کسی کو پریشان نہیں کر رہی۔ شادی میرا ذاتی معاملہ ہے، اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا مکمل حق ہے۔” اس بار علیزہ نے ہلکی سی ترشی کے ساتھ کہا۔
”اس حق کو اس طرح استعمال کرنا تھا تمہیں۔”
”ممی مجھے بات کرنے دیں اس سے۔” اس بار ثمینہ نے نانو کو روکا۔ ”تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری اس حرکت سے ہمارے اور جنید کے گھر والوں پر کس طرح کا اثر ہوگا۔” ثمینہ نے تلخی سے کہا۔
”لوگ کس طرح کی باتیں کریں گے۔۔۔” علیزہ نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بات کرنے سے روکا۔ ”اوہ کم آن ممی…ہم کسی مڈل کلاس فیملی سے تعلق نہیں رکھتے کہ میری اس حرکت سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔” اس نے ناگواری سے کہا۔
”ہماری فیملی میں اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا۔ کیا نہیں ہو جاتا ہمارے طبقے میں اور آپ ایک معمولی بات پر اس طرح مجھے ملامت کرنے بیٹھ گئی ہیں۔” اس نے اب اپنا سلائس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”ویسے بھی تو اتنی طلاقیں ہوتی رہتی ہیں اگر میں نے صرف منگنی توڑ دی ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہو گئی ۔ ”علیزہ! منگنی توڑنے کا بھی ایک وقت، ایک طریقہ ہوتا ہے…جس طرح تم۔۔۔”
علیزہ نے ایک بار پھر ثمینہ کی بات کاٹ دی ”میں آپ سے کہتی کہ میری منگنی توڑ دیں تو آپ توڑ دیتے؟ بالکل نہیں آپ اس وقت بھی یہی سب کچھ کہہ رہے ہوتے۔”
”آخر تمہیں ایک دم کس چیز نے مجبور کیا ہے کہ تم اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہو۔۔۔” اس بار نانو نے کہا۔
”کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔ میں احمق تو ہوں نہیں کہ صرف ایڈونچر کے لیے ایسی حرکت کروں۔”
”وہی وجہ پوچھ رہی ہوں۔”
”نانو! آپ وجہ ہیں۔” نانو اس کی بات پر ہکا بکا ہو گئیں۔
”میں وجہ ہوں؟” انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”ہاں آپ وجہ ہیں…جنہوں نے ہمیشہ مجھے پانچ سال کی بچی کے علاوہ اور کچھ سمجھا ہی نہیں” علیزہ نے تلخی سے کہا۔
”تم۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”آپ نے عادت بنا لی ہے کہ مجھ سے ہر بات میں جھوٹ بولیں گی۔ ہر معاملے میں مجھے اندھیرے میں رکھیں گی…شاید آپ کا خیال ہے کہ میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ حقیقت سے مجھے آگاہ کر دیا جائے۔”
”تم کس قسم کی باتیں کر رہی ہو؟” نانو نے اس بار گڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ اگر صبر کا کوئی پیمانہ ہے تو میرا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ کم از کم اب آپ لوگ مجھے اپنے طریقے سے زندگی گزارنے دیں۔ اپنی انگلیوں پرکٹھ پتلی کی طرح باندھ کر مجھے نچانے کی کوشش مت کریں۔”
”علیزہ! تم آخر کہنا کیا چاہتی ہو؟”
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے یہ بات کیوں چھپائی کہ جنید عمر کا دوست ہے؟” نانو دم بخودرہ گئیں۔
”اور عمر نے آپ سے میری اور اس کی شادی کروانے کے لیے کہا ہے۔ جب آپ جانتی تھیں کہ میں عمر کو کس حد تک ناپسند کرتی ہوں تو پھر آپ نے مجھے جنید کے معاملے میں دھوکے میں کیوں رکھا۔”
اس کی ناراضی میں اب اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
”میں اس آدمی کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی اور آپ مجھے اس کے بیسٹ فرینڈ کے پلے باندھ رہی ہیں…اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر۔” وہ رکے بغیر کہتی گئی۔ ”آپ ہمیشہ یہ ظاہر کرتی رہیں کہ جنید اور اس کی فیملی کو آپ پہلے کبھی جانتی ہی نہیں تھیں جبکہ آپ ان سے اچھی طرح واقف تھیں۔ میں سوچتی تھی کہ جنید کتنی جلدی آپ سے اتنا بے تکلف ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ بے تکلفی تو کئی سالوں کی تھی۔”
”علیزہ ! تمہیں یہ سب کچھ کس نے بتایا ہے؟ یقیناً کسی نے تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔” نانو نے کچھ دیر بعد اس شاک سے سنبھلتے ہوئے کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے یہ سب کچھ خود جنید نے بتایا ہے…اس نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب بھی اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو کہہ دیں۔ ہو سکتا ہے مجھے ہی ہمیشہ کی طرح کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔”
”عمر نے مجھے جنید سے تمہاری شادی کے لیے مجبور نہیں کیا تھا۔” نانو نے مدافعانہ انداز میں کہنا شروع کیا انہیں اندازہ تھا کہ علیزہ اب ان کی ہر بات کو شبہ کی نظر سے دیکھے گی۔ ”اس نے صرف مجھ سے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں جنید سے ملواؤں…اگر تم لوگوں کے درمیان کچھ انڈر سٹینڈنگ ہوئی تو پھر اس رشتہ کو طے کیا جا سکے مگر مجبور نہیں کیا۔” نانو بولتی رہیں۔ ”جنید ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا۔ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی فیملی بھی…میں واقعی اسے بہت سالوں سے جانتی تھی اس لیے میں عمر کو انکار نہیں کر سکی…تم پر یہ بات ظاہر نہیں کی گئی تھی مگر شادی کے سلسلہ میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ تم سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم صرف جنید سے ہی شادی کرو…اور کسی کے ساتھ نہیں کر سکتیں۔ میں نے انتخاب کا حق تمہیں دیا تھا اور تم نے خود جنید کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔”
”مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ عمر کا انتخاب ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”فرق پڑتا ہے…آپ کو نہیں پڑتا…مگر مجھے فرق پڑتا ہے اور آپ نے اس ایک سال کے عرصے میں ایک بار بھی مجھے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ۔۔۔”
نانو نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمہیں بتانے سے کیا ہوتا۔ تم اس وقت بھی یہی کرتیں جو تم اب کر رہی ہو۔”
”ہاں میں اس وقت بھی یہی کرتی جو میں اب کر رہی ہوں۔” علیزہ نے غصے سے کہا۔ ”آخر میں ایک ایسے آدمی سے شادی کیوں کروں جو مجھ سے کسی دوسرے کے کہنے پر شادی کر رہا ہے…آپ کو یہ پتا ہے کہ وہ مجھ سے صرف عمر کے کہنے پر شادی کر رہا ہے۔”
”علیزہ! ایسی بات نہیں ہے…کوئی کسی کے کہنے پر کسی سے شادی نہیں کرتا۔” اس بار ثمینہ نے ایک لمبی خاموشی کے بعد مداخلت کی۔
”اس نے مجھے خود یہ بتایا ہے کہ وہ مجھ سے عمر کے کہنے پر شادی کر رہا ہے اور عمر کے کہنے پر وہ مجھ سے ہی نہیں کسی سے بھی شادی کر سکتا تھا۔”
”اس نے ویسے ہی کہہ دیا ہوگا…جنید جیسا لڑکا اس طرح کسی کے کہنے پر کہیں بھی شادی کرنے والوں میں سے نہیں…تمہیں تو اب تک اس کی نیچر کا پتا چل جانا چاہیے۔”
”مجھے ہر چیز کا پتا چل چکا ہے…میں نے اسی لیے یہ فیصلہ کیا ہے…مجھے عمر کے کسی دوست سے شادی نہیں کرنی۔”
”مگر اس میں عمر کا قصور ہے۔ جنید کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔”
”کیوں قصور نہیں ہے…وہ بھی برابر کا قصوروار ہے، اس نے بھی مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔”
”اور اس کے گھر والے…انہوں نے کیا کیا ہے؟”
”مجھے اس کے گھر والوں کی پرواہ نہیں ہے۔” علیزہ نے دھڑلے سے کہا۔
”شرم آنی چاہیے تمہیں۔ تم اس کے گھر اتنا آتی جاتی رہی ہو اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں ان کی پروا نہیں ہے۔” نانو نے اسے جھڑکا۔
”تم اور کسی کا نہیں تو میرا ہی احساس کر لو…میں اپنے شوہر کو کیا منہ دکھاؤں گی…وہ ایک ہفتے تک یہاں آرہے ہیں…اور تم۔۔۔”
علیزہ نے ثمینہ کی بات کاٹ دی۔ ”ممی! آپ کے شوہر آپ کا مسئلہ ہیں…مجھے پروا نہیں ہے کہ وہ آپ کے یا میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جہاں تک ان کے پاکستان آنے کا تعلق ہے۔ آپ انہیں فون پر آنے سے منع کر دیں۔ انہیں بتا دیں کہ شادی کینسل ہو گئی ہے۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اور وجہ…وجہ کیا بتاؤں میں انہیں؟” ثمینہ نے سلگتے ہوئے کہا۔
”جو مرضی بتا دیں۔”
”علیزہ…علیزہ…! آخر کیا ہو گیا ہے تمہیں…تم اتنی ضدی تو کبھی بھی نہیں تھیں۔” اس بار نانو نے بے چارگی سے کہا۔