”کچھ بھی …کیا میرا بتانا ضروری ہے؟”
”میرے ذہن میں کوئی بھی بات نہیں ہے فی الحال ۔۔۔” اس نے کہا۔
”اچھا میں تمہیں رات کو فون کروں گا۔” جنید نے کہا ”اس وقت میں گاڑی میں ہوں۔”
”نہیں رات کو فون نہ کریں …ممی آ رہی ہیں۔ ہم لوگ مصروف ہوں گے۔” علیزہ نے کہا۔
”ارے ہاں مجھے خیال ہی نہیں رہا …رات کو تم خاصی مصروف رہو گی۔ کتنے بجے کی فلائٹ سے آ رہی ہیں؟”
”نو بجے کی فلائٹ سے۔”
”ٹھیک ہے پھر کل بات ہو گی تم سے۔” جنید نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کر دیا وہ یک دم بہت پر سکون ہو گیا تھا ورنہ پچھلی رات سے وہ مسلسل علیزہ کے رویے کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔
آفس میں کام کرتے رہنے کے بعد شام کو وہ گھر چلا گیا اور رات کو جلد ہی سو گیا۔
٭٭٭
”میجر لطیف بات کرنا چاہتے ہیں آپ سے۔” آپریٹر کے جملے پر عمر کے ماتھے پر کچھ بل آ گئے۔ اس ہفتے کے دوران میجر لطیف کی طرف سے ملنے والی یہ چھٹی کال تھی۔
”بات کرائیں۔” اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔ یہ آدمی واقعی اس کا ناک میں دم کر رہا تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ سیدھا کام کی بات پر آ گیا ایک پولیس اسٹیشن کا حدود و اربعہ بتاتے ہوئے اس نے عمر سے کہا۔
”اس پولیس اسٹیشن کے بارے میں ایک شہری کی طرف سے شکایت آئی ہے ہمارے پاس۔”
”جی فرمائیے۔ کیا شکایت آئی ہے آپ کے پاس؟”
”اس پولیس اسٹیشن کے انچارج نے اس شخص کے بیٹے کو چوری کے جھوٹے الزام میں پچھلے چھ ماہ سے بند کیا ہوا ہے۔” میجر لطیف نے تیز لہجے میں کہا۔
عمر بڑے تحمل سے اس کی بات سننے لگا۔
”اس شخص نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کئے بغیر اس آدمی کو گرفتار کیا ہے۔”
”آپ اس شخص کا نام بتا دیں، جس کی بات کر رہے ہیں۔” عمر نے سامنے ٹیبل پر پڑا پین اٹھاتے ہوئے نوٹ پیڈ اپنی طرف کھسکایا۔ میجر لطیف نے دوسری طرف سے اس شخص کے کوائف نوٹ کروائے۔ عمر نے اپنے سامنے پڑے نوٹ پیڈ پر اس آدمی کے کوائف تیز رفتاری سے لکھے۔
”میں چیک کرتا ہوں کہ اس شخص کی شکایت ٹھیک ہے یا نہیں۔” عمر نے اس آدمی کے کوائف نوٹ کرنے کے بعد کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے ہی چیک کر چکا ہوں، اس شخص کی شکایت بالکل درست ہے۔” دوسری طرف سے میجر لطیف نے کہا۔ عمر کے ہونٹ بھینچ گئے۔
”اس شخص کے بیٹے کو واقعی ایف آئی آر درج کئے بغیر غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔” میجر لطیف دوسری طرف سے کہہ رہا تھا۔ ”وہ پچھلے چھ ماہ سے وہ اس پولیس اسٹیشن کے انچارج کی تحویل میں تھا۔”
”آپ نے جہاں یہ چیک کرنے کی زحمت کی۔ وہاں اسے چھڑوانے کی زحمت بھی کر لیتے۔” عمر نے کچھ طنزیہ انداز میں اس سے کہا۔
”جی یہ زحمت بھی کر چکا ہوں میں۔ چھڑا چکا ہوں اب سے کچھ گھنٹے پہلے۔” میجر لطیف نے بھی دوسری طرف سے اسی طنزیہ انداز میں کہا۔
”تو پھر جب آپ نے دونوں کام خود ہی کر لئے، تو مجھ سے رابطے کی زحمت کس لئے کی آپ نے؟” عمر نے اسی انداز میں بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”یقیناً آپ کا بہت قیمتی وقت ضائع ہوا ہو گا میری اس کال سے۔ مگر میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو اطلاع دے دوں کہ آپ کے انڈر پولیس اسٹیشنز میں کیا ہو رہا ہے۔ پھر ان بے ضابطگیوں کی اطلاع اگر اسی طرح اوپر گئی تو آپ کو اور آپ کے ما تحتوں کو خاصی تکلیف ہو گی۔” میجر لطیف نے بھی اپنا طنزیہ انداز برقرار رکھا۔
”بڑی مہربانی آپ کی …اس اطلاع کے لئے۔” عمر نے مختصراً کہا۔
”اپنے ما تحتوں کا تو مجھے پتا نہیں مگر مجھے آپ کی ان رپورٹس سے کوئی تکلیف یا زحمت نہیں ہو گی۔ آپ ان رپورٹس کا سلسلہ جاری رکھیں۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”اس ہفتے میرے پاس آنے والی یہ اٹھارویں شکایت ہے اور ہر بار مجھے اس پر خود ہی ایکشن لینا پڑا ہے۔” میجرلطیف نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”میجر صاحب ! آپ نے اپنا کام کافی بڑھا نہیں لیا۔ اصولی طور پر آپ کو یہ تمام شکایات مجھ تک ریفر کر دینی چاہیے تھیں۔ میں خود اس سے نمٹ لیتا، آپ کو خوامخواہ اس طرح کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔” عمر نے میجر لطیف سے کہا۔
”زحمت والی تو کوئی بات نہیں۔ آپ اور آپ کے ما تحت اتنے Efficient ہوتے تو ہمیں یہاں آنا ہی کیوں پڑتا۔ آپ کو تو میں اس سب سے صرف اس لئے انفارم کر رہا ہوں تا کہ آپ اپنے ماتحتوں پر چیک رکھیں اور کبھی کبھار تکلفاً اپنے دفتر کے علاوہ کہیں ادھر ادھر بھی چکر لگا لیا کریں۔” اس بار میجر لطیف کا لہجہ پہلے سے زیادہ طنزیہ تھا۔
”ہماری زحمت کا آپ کو اتنا خیال ہو تو آپ اپنے ما تحتوں کو خود نکیل ڈال کر رکھیں۔”
”میجر صاحب آپ اگر منہ اٹھا کر میری حدود کے آخری پولیس اسٹیشنز کا طواف کرتے پھریں گے تو پھر کوئی الٰہ دین کا جن ہی ہو گا جو آپ کی زحمت میں کمی کر سکے گا۔” عمر کے لہجے میں بھی اس بار پہلے سے زیادہ تندی و تیزی تھی۔
”ہر شکایت آپ دیہاتیوں کی لے کر آ رہے ہیں۔ شہر کے اندر کے پولیس اسٹیشنز کی بات کریں۔ وہاں کی ورکنگ بھی دیکھیں۔”
”کیوں شہر سے باہر کے پولیس اسٹیشنز آپ کے انڈر نہیں آتے یا پھر دیہاتیوں کو آپ نے پاکستان کے شہریوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔” میجر لطیف نے بڑے کٹیلے انداز میں کہا۔
”میں نے آپ کو فون آپ کے طنز سننے کے لئے نہیں کیا۔ آپ کو یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ آپ کے عملے کے بارے میں ہمارے پاس بے تحاشا شکایات آ رہی ہیں۔ آپ ان کا سد باب کرنے کے لئے کچھ کریں ورنہ ۔۔۔” عمر نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”ٹھیک ہے میں چیک کر لوں گا آپ کی انفارمیشن کے لئے آپ کا شکریہ۔” عمر نے فون بند کر دیا۔
میجر لطیف اس کو واقعی ناکوں چنے چبوا رہا تھا اس نے آتے ہی شہر کے نواحی علاقوں میں قائم پولیس اسٹیشنز کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جب کہ عمر کا خیال تھا کہ وہ شہر کے اندر کے پولیس اسٹیشنز کو دیکھے گا اور نواحی علاقوں کو سرے سے نظر انداز کر دے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی ہدایات پر شہر کے اندر کے تمام اسٹیشنز پر خاص چیک رکھا گیا تھا اس کے ما تحتوں نے نہ صرف اپنا ریکارڈ اپ ریٹ کیا تھا بلکہ باقی تمام معاملات میں بھی ان کا رویہ بہت محتاط ہو گیا تھا۔ ایف آئی آر درج کرنے کے سلسلے میں بھی ان کی کارکردگی بہت بہتر ہو گئی تھی۔
میجر لطیف کو اندازہ تھا کہ عمر کہاں سے کام شروع کرے گا۔ اس نے اس کی توقعات کے بر عکس سب سے پہلے ان پولیس اسٹیشنز کو دیکھنا شروع کیا تھا جو نواحی علاقے میں تھے اور اس کے حسب توقع وہاں بے شمار بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں تھیں۔ چند ہفتوں میں ہی اس کے پاس شکایات کی بھر مار ہو گئی تھی اور میجر لطیف ان شکایات پر دھڑا دھڑ اپنی رپورٹس بنا کر بھجوا رہا تھا۔
عمر جہانگیر ان ہفتوں کے دوران تین بار ہیڈ کوارٹر جا چکا تھا، جہاں ان رپورٹس پر اس کی اور اس کے ما تحت عملے کی کارکردگی زیر بحث آئی تھی۔ تیسری بار وہ ہیڈ کوارٹر جاتے ہوئے خاصا مشتعل تھا اور اس کا یہ اشتعال اس وقت بھی کم نہیں ہوا تھا جب وہ آئی جی کے سامنے پیش ہوا تھا۔
”جب تک یہ آدمی میرے سر پر بیٹھا رہے گا۔ مجھے اسی طرح بار بار یہاں آنا پڑے گا۔ یہ آدمی میرے خلاف ذاتی مخاصمت …رکھتا ہے۔” اس نے آئی جی سے کہا تھا۔
”میں کچھ بھی کر لوں، یہ پھر بھی اسی طرح کی شکایتوں کا ڈھیر یہاں پہنچاتا رہے گا۔ میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔”
”جسٹ کول ڈاؤن عمر ! میں تمہارا مسئلہ سمجھتا ہوں اور تمہاری پوزیشن بھی۔ مگر میں اس سلسلے میں مجبور ہوں۔ کام تمہیں میجر لطیف کے ساتھ ہی کرنا ہے اور اپنی کارکردگی بھی بہتر بنانی ہے۔”
انہوں نے بڑے نرم لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ عمر جہانگیر کے فیملی بیک گراؤنڈ سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ ملک کی اس طاقتور ترین فیملی کے پس منظر کو بھی جانتے تھے اور وہ عمر جہانگیر کو ایک معمولی جونئیر آفیسر کے طور پر ٹریٹ نہیں کر سکتے تھے۔
“Sir Im already doing my optimum best”
عمر جہانگیر نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اگر ایک آدمی یہ طے کئے بیٹھا ہے کہ اس نے میرے خلاف کوئی پازیٹو رپورٹ بھجوانی ہی نہیں ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”میں نے آپ کے تمام اعتراضات نوٹ کئے۔ میں انہیں فارورڈ بھی کر دوں گا۔ مگر میں بتا دوں وہ میجر لطیف کو نہیں بدلیں گے نہ ہی وہ یہ بات ماننے کو تیار ہوں گے کہ وہ اپنا کام ٹھیک ہی نہیں کر رہا یا جان بوجھ کر تمہیں تنگ کر رہا ہے۔ تم جانتے ہو وہ کور کمانڈر کا بیٹا ہے۔”
آئی جی نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں اس سے کہا۔
”کور کمانڈر کا بیٹا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا۔” عمر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔
”فی الحال اس کا یہی مطلب ہے۔” آئی جی نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”میں اس سے زیادہ بہتر کام نہیں کر سکتا۔ میں جتنا کر سکتا ہوں کر رہا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”تم اپنے اور میرے لئے مسئلے کھڑے کرنے کی کوشش نہ کرو، میری پہلے ہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا دفاع کروں، کوئی دن ایسا نہیں جا رہا جب مجھے تم لوگوں میں سے، کسی نہ کسی کو یہاں بلا کر تنبیہہ نہ کرنا پڑ رہی ہو اور بعض دفعہ تو تم لوگوں کی وجہ سے خود مجھے بڑی شرمندگی ہوئی ہے۔”
آئی جی شاید اس دن خاصے پریشان تھے اس لئے وہ عمر جہانگیر کے سامنے اپنے دکھڑے رونے لگے۔ عمر ہونٹ بھینچتے ان کی باتیں سنتا رہا۔
”اب مجھے بتاؤ میں کیا کروں تمہارے لئے؟” کافی دیر بعد آئی جی دوبارہ اس کے مسئلے پر آ گئے۔ ”ٹرانسفر کروا دوں تمہاری؟”
”آپ اس کی ٹرانسفر کروا دیں۔”
”میں یہ نہیں کر سکتا۔”
”تو پھر میری ٹرانسفر کیوں؟ وہ تو پہلے ہی چاہتا ہے یہ تو ہتھیار ڈال کر بھاگ جانے والی بات ہوئی۔” عمر کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”مگر تمہاری جان تو چھوٹ جائے گی اس سے۔” آئی جی نے تصویر کا روشن پہلو اسے دکھانے کی کوشش کی۔
”ویسے بھی یہاں تمہاری پوسٹنگ کا دورانیہ تو کچھ اور ماہ کے بعد پورا ہو ہی جائے گا تب بھی تو تمہیں کہیں اور جانا ہی ہے۔”
”تب کی اور بات ہے۔ وہ تو ایک معمول کا حصہ ہے مگر اب اس طرح تو کہیں نہیں جانا۔” عمر نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔ ”آپ میری ٹرانسفر کرنا کہاں چاہتے ہیں، بڑے شہروں میں تو کہیں بھی جگہ نہیں ہے اور مجھے کسی چھوٹے شہر میں نہیں جانا۔” عمر نے کہا۔
”فیڈرل گورنمنٹ میں بھجوا دوں؟” آئی جی نے فوراً کہا۔
”سر مجھے کسی دوسرے صوبے میں نہیں جانا …مجھے پنجاب میں ہی کام کرنا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ نے مجھے کسی چھوٹے صوبے میں بھجوا دیا تو میری ساری سروس خراب ہو جائے گی۔ مجھے یہیں رہنے دیں۔ جب چند ماہ بعد میری ٹرانسفر ہو گی تب دیکھا جائے گا مگر فی الحال میں اپنا علاقہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔” عمر نے آئی جی سے کہا۔
”جب چند ماہ کی بات رہ گئی ہے تو کچھ اور محتاط ہوجاؤ اور اس سے کو آپریٹ کرو، تا کہ کم از کم وہ اوپر رپورٹس بھجوانی تو بند کرے …اور اس کے کہنے پر چھوٹے موٹے ما تحتوں کو معطل کرتے رہو کم از کم یہ تو ظاہر ہو کہ تم ایکشن لے رہے ہو۔” آئی جی نے اس کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہوئے کہا۔
”سر ! میں پہلے ہی دس ما تحتوں کو معطل کر چکا ہوں اگرمیجر لطیف کے مشوروں پر کام کروں گا تو پھر اگلے ماہ تک میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگ معطل ہو چکے ہوں گے۔ اس پر پھر آپ کو شکایت ہو گی۔” عمر کے پاس ہر بات کا گھڑا گھڑایا جواب موجود تھا آئی جی نے ایک طویل گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ اور میں ایک بار پھر تم سے کہہ رہا ہوں کہ محتاط رہو۔”
اس بار عمر جہانگیر نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آئی جی اب اس ساری بحث سے تنگ آ چکے تھے۔ عمر کو ان کی پریشانی کا بھی اندازہ تھا، وہ بھی بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ اگر ایک طرف آرمی تھی تو دوسری طرف عمر جہانگیر کا خاندان …وہ دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی بگاڑ نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی بگاڑ سکتے تھے۔ کیونکہ عمر جہانگیر کا خاندان معمولی سی بات پر بھی ہنگامہ اور طوفان اٹھا دینے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔
عمر جہانگیر اچھی طرح جانتا تھا کہ ٹرانسفر سے وہ واقعی میجر لطیف سے چھٹکارا پا لیتا مگر خود اس کے اپنے سروس ریکارڈ کے لئے یہ بہتر نہیں ہوتا اس کے باوجود اس دن آئی جی کے آفس سے آنے کے بعد اس نے بڑے ٹھنڈے دماغ سے اس سارے معاملے پر غور و خوض کیا تھا کہ وہ اپنی جاب میں اپنی دلچسپی کھو رہا تھا اس کے ہاتھ اب بندھ چکے تھے۔
٭٭٭