الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

حسن: ‘‘مجھے یہاں کون لایا؟’’
زلیخا: ‘‘آپ کی قسمت۔’’
حسن(تیوری چڑھا کر): ‘‘مجھے اپنی زندگی کے معاملے قسمت پر چھوڑنا پسند نہیں۔’’
زلیخا (بھنویں اُچکا کر) :‘‘لگتا ہے آپ کی قسمت کو آپ کی یہی بے اعتنائی اچھی نہیں لگی۔۔۔واہ !واہ! کیا ڈائیلاگ ہے۔ کس نے لکھا؟ تم نے؟’’
حسن (خشمگیں لہجے میں): ‘‘خاموش بے ادب! مت بھولو کہ تم کس سے بات کررہی ہو۔’’
زلیخا نے خفا ہوکر کہا: ‘‘اگر تم مجھے یوں ڈانٹو گے تو میں ریہرسل نہیں کروں گی۔’’
حسن نے گھبرا کر کہا:‘‘اوہو! میں تمہیں نہیں ڈانٹ رہا۔ یہ تو نواب صاحب کا مکالمہ ہے۔’’
زلیخا جلدی سے بولی:‘‘اوہ اچھا اچھا، سوری بھئی، میں سمجھی تم مجھے بے ادب کہہ رہے ہو۔’’
حسن نے کہا: ‘‘تمہیں کیوں کہوں گا۔ تم سے زیادہ باادب اور شائستہ لڑکی تو میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔’’
زلیخا کے گالوں پر ہلکی سی سرخی نمودار ہوئی۔ جھینپ کر بولی: ‘‘تھینک یو۔ اچھا اب تم اپنے ڈائیلاگ بولو۔’’
حسن نے توجہ زلیخا کے چہرے سے ہٹائی اور کہا:‘‘مکالمہ نہیں ہے۔ نواب صاحب اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منہ سے آہ نکلتی ہے۔ آہ۔’’
زلیخا (جلدی سے): ‘‘لیٹے رہیے نواب صاحب، آپ کے زخم ابھی تازہ ہیں۔’’
حسن (آہ بھر کر): ‘‘کن زخموں کی بات کرتی ہو اے خاتونِ جمیلہ، وہ جو میرے جسم پر ہیں یا وہ جو میری روح پر ہیں۔۔۔’’
زلیخا (ہمدردی سے): ‘‘میں دونوں کا علاج کرنا جانتی ہوں۔’’
یہ کہہ کر زلیخا نے کاغذ پلٹا اور بولی: ‘‘اچھا ،تو اب ہیروئن نواب کے زخم پر دوا لگاتی ہے۔’’
حسن نے یکدم زلیخا کے ہاتھ پکڑ لئے۔‘‘کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں؟ تمہارے ہاتھ مسیحا کے ہاتھ ہیں۔ میرا سارا درد کھینچ لیا ان ہاتھوں نے۔ تمہیں تو ڈاکٹر بننا چاہیے۔’’
زلیخا نے سٹپٹا کر ہاتھ چھڑائے اور کاغذ الٹ پلٹ کرتے ہوئے بولی: ‘‘ہیں ،یہ کہاں لکھا ہے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘یہ کہیں نہیں لکھا۔ میں تمہیں کہہ رہا ہوں۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو اور سکرپٹ پہ دھیان دو۔ چلو پھر سے شروع کرو۔’’
حسن نے دھیان پھر سے سکرپٹ میں لگایا اور کہا:‘‘میرا سارا درد کھینچ لیا ان ہاتھوں نے۔ یہ ہاتھ گھاؤ بھرنا جانتے ہیں۔’’
زلیخا (تلخی سے) :یہ ہاتھ گھاؤ بھرنا ہی نہیں، گھاؤ لگانا بھی جانتے ہیں۔ ان ہاتھوں کو صرف مرہم لگانا ہی نہیں تلوار چلانا بھی آتی ہے، اور یہ بات تمہیں اپنی محبوبہ کے سلسلے میں بھی یاد رکھنی چاہیے۔ وہ بھی جتنی زمین کے اوپر ہے، اتنی ہی نیچے ہے۔’’
حسن نے حیران ہوکر تیزی سے کاغذوں کو پلٹا اور کہا:‘‘یہ کہاں لکھا ہے؟’’
زلیخا بولی:‘‘یہ کہیں نہیں لکھا، یہ میں تمہیں کہہ رہی ہوں۔’’
حسن نے سنی ان سنی کرکے کہا: ‘‘تو یہ منظر ختم ہوا، اب دوسرا منظر شروع ہوتا ہے۔ نواب جھونپڑی میں بیٹھا ہے۔ قوت القلوب سامنے بیٹھی ہے۔ لو، اب میں شروع کرتا ہوں۔’’
حسن (احسان مند لہجے میں): ‘‘میں تمہارا احسان تا زندگی نہیں بھول سکتا۔’’
زلیخا (آہستہ سے): ‘‘صرف احسان؟’’
حسن نے کہا: ‘‘اچھا اب نواب اسے جذبات بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔’’ یہ کہہ کر حسن نے کاغذ ہاتھ سے رکھے اور ہاتھ پر ٹھوڑی ٹکا کر زلیخا کو دیکھنے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ اس نے پہلی مرتبہ زلیخا کو ایک مرد کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس نظر سے جس سے نواب قوت القلوب کو دیکھتا تھا۔ اسے احساس ہواکہ زلیخا خوبرو ہے، قوس ابرو ہے۔ اس کی آنکھ ہیرے کی کنی کی طرح چمکتی تھی اور گندمی رنگت سونے کی طرح دمکتی تھی۔ شاید یہ نانی کے لگائے ٹوٹکوں کا اعجاز تھا کہ سرو گلزارِ جناں بت ِ طناز تھا۔
حسن کی نظروں سے زلیخا کے رخسار سرخ ہونے لگے اور وہ کاغذ پر نظریں جمائے جمائے بڑبڑائی: ‘‘توبہ! کتنا ٹھرکی نواب ہے۔ گھورے جاتا ہے، بے شرموں کی طرح۔’’
حسن نے کہا: ‘‘تم سی حسین صورت سامنے ہو تو انسان کیونکر تاب لائے، دیکھنے سے کیونکر باز آئے؟’’
زلیخا کا چہرہ مزید سرخ ہوگیا۔ گھبرا کر بولی: ‘‘یہ کہاں لکھا ہے؟’’
حسن نے آہستہ سے کہا: ‘‘کہیں نہیں۔’’
زلیخا نے نظریں کاغذ پر ٹکائیں اور آہستہ سے بولی:‘‘جھوٹ خوب بولتے ہیں آپ نواب صاحب۔’’
حسن جانتا تھا کہ یہ بھی سکرپٹ میں کہیں نہیں لکھا۔ اس نے بھی زلیخا کی طرح نظریں کاغذ پر جمائیں اور کہا: ‘‘جھوٹ سے بندے کی طبعیت نفور ہے، کذب بیانی کوسوں دور ہے، تم زہرہ جمال ہو، آئینہ تمثال ہو، رشکِ شمشاد، روکشِ گلرخان ِنوشاد،سرو قامت۔۔۔’’
زلیخا نے بات کاٹ کر کہا: ‘‘سانولی۔۔۔’’
حسن نے ترنت جواب دیا: ‘‘گندمی رنگت کے آگے کندن پیچ ہے۔ چہرے پر وہ نمک ،وہ ملاحت ہے کہ کانِ نمک بھی دیکھے تو شرمائے، مقابلے کو نہ آئے۔۔۔’’
زلیخا دم بخود، سانس روکے، نظریں کاغذ پر جمائے بیٹھی تھی۔ آہستہ سے بولی:‘‘ اور موٹاپا۔۔۔’’
حسن نے بات کاٹ کر نرم لہجے میں کہا: ‘‘بھرا جسم عورت پن کی نشانی ہے، جو گداز بدن ہے وہی حسن کی رانی ہے۔’’
زلیخا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے نظریں اٹھائیں تو آنکھوں میں موتی چمک رہے تھے۔ سرگوشی میں بولی: ‘‘یہ کہاں لکھا ہے؟’’
حسن خاموشی سے اسے دیکھتا رہا، کوئی جواب نہ دیا۔
زلیخا کے ہونٹوں پر ایک اُداس مسکراہٹ ابھری اور اس نے کہا: ‘‘آپ بہت اچھے اداکار ہیں، نواب صاحب۔’’
کہہ کر سکرپٹ ہاتھ سے رکھا اور اٹھ کر چلی گئی۔ حسن سکرپٹ پر نظریں جمائے بیٹھا رہا۔ اسے اپنے آپ پر اور اردگرد کی ہر چیز پر بے حد الجھن ہورہی تھی۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!