الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

ایک دن شہریار نظیر کا فون آیا اور حسن کو ملاقات کے لیے بلایا۔ کہنے لگا: ‘‘میں چاہتا ہوں ہیروئن سے تمہاری ملاقات کرادوں۔ آن سکرین رومانس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی کیمسٹری ڈیویلپ ہو۔ تم لوگ ملو جلو، گپ شپ کرو۔ ذرا آئس بریک ہو جائے پھر شوٹنگ شروع کریں گے۔’’
چنانچہ حسن تیار ہوکر شہریار کے دفتر گیا۔ وہاں کئی لوگ ملے۔ اس شخص سے تعارف ہوا جسے ڈرامے میں وزیر ِاعظم کا کردار ادا کرنا تھا۔ وہ بزرگ بھی ملے جنہیں نواب کا والدِ بزرگوار بننا تھا اور پہلے ہی منظر میں ایک دشمن سپاہی کے ہاتھوں شربتِ مرگ کا ذائقہ چکھنا تھا۔ وہ فوٹوگرافر چابک دست بھی وہاں موجود تھا جس نے پہلی مرتبہ حسن کی تصویریں کھینچی تھیں اور اپنے ہنر سے حسن سوداگر زادہ کو ایک شہزادۂ بلند ارادہ کے روپ میں پیش کیا تھا۔ حسن ان لوگوں سے مل کر خوش ہوا اور وہ لوگ حسن سے مل کر اور بھی زیادہ خوش ہوئے کہ صاحبِ سلیقہ و تمیز تھا، ہر دل عزیز تھا۔ ابھی حسن ان لوگوں سے باتیں کررہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک حسینہ دادونگاہ، برق جمال، رشکِ ماہ اندر داخل ہوئی۔ اسے دیکھا تو حسن کو خدا کی خدائی مجسم نظر آئی۔ دل میں سوچا یا الٰہی یہ عورت ہے یا سچ مچ کی پری ہے۔ کوئی حسینۂ داستانِ رفتہ ہے بلکہ ماہِ دو ہفتہ ہے۔
وہ پری بہ صد شانِ برنائی و نازِ دلبری آئی اور حسن کے پاس بیٹھی اور ہنس ہنس کے باتیں کیں۔ حسن کہ خلق و مروت میں نیک نام تھا، اسے از بس پسند آیا۔ خوش ہوکر شہریار سے بولی:‘‘او مائی گاڈ، کتنی exoticاردو بولتا ہے یہ۔ کہاں سے ڈھونڈا یہ gem؟’’
شہریار اسے سن کر خوش ہوا اور فخر سے پھول گیا۔ حسن نے اپنی تعریف سنی تو حالہ و شیفتہ ہوا اور دل میں کچھ کچھ عشق کے آثار پیدا ہوئے۔ مگر پھر خود پر قابو پایا اور دل کو سمجھایا کہ ہر حسین صورت پر عاشق ہو جانا عقلِ سلیم سے بعید و دور ہے، گرچہ یہ بچۂ حور ہے۔ اور میں تو یوں بھی کرن کی زلفِ گرہ کا اسیر ہوں۔ اگر کسی دوسری سے عشق کرنے لگا تو اسے بڑا ملال ہوگا۔ یہ عشق جی کا جنجال ہوگا۔ اُس سے عقد کا وعدہ کرچکا ہوں اور مردوں کا قول جان کے ساتھ ہے، بھلا یہ کیا بات ہے۔
ابھی حسن اس مجلسِ پررونق میں بیٹھا خوش گپیاں کررہا تھا کہ ایک اور حسینہ زیبا اندام، پری روگلفام آتی دکھائی دی۔ معلوم ہوا ہیروئن کی ہمجولی ہے۔ ادا کی شوخ، صورت کی مگر بھولی ہے۔ اس کے پیچھے دس بارہ کنیزانِ پری جمال آئیں۔ لپک جھپک حسن اور ان خواتین ِجمیلہ کو ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا اور سب کے چہروں پر سرخی و غازہ لگاکر چکا چوند روشنیوں کے سامنے بٹھایا گیا۔ فوٹوگرافر بھی آن وارد ہوا اور کھٹاکھٹ تصویریں کھینچنے لگا۔ بیچ میں حسن بدر الدین، وہ سب نیک بیبیاں دائیں بائیں، آگے پیچھے، کسی کا ہاتھ حسن کے کندھے پر، کسی کا کمر میں کوئی پیچھے کھڑی ہوئی، کوئی قدموں میں بیٹھی اور ہر ہر زاویے سے ایسی ایسی تصویریں کھنچتی تھیں کہ جو دیکھے عش عش کر اٹھے۔ خود حسن کا یہ حال تھا کہ سرخوش و تردماغ تھا، مسرور و باغ باغ تھا۔ سوچتا تھا کہ یا خدا، میں دنیا میں ہوں یا باغِ ارم میں، حورانِ بہشتی میں ہوں یا انسان و آدم میں۔ یہ مزے کبھی کاہے کو اٹھائے تھے، ایسے معشوق بھلا کب دیکھنے میں آئے تھے۔ یہ سوچ کر کھلکھلایا اور یہ اشعار زبان پر لایا:

؂ ترُکِ خونریز ہیں آنکھیں تو نگاہ ہے سفاک
ایک کیا آپ کو دیکھا کئی رہزن دیکھے
رخ کو قرآن کہے زلفِ سیاہ کو کالی
مکر سے شیخ تو حیلے سے برہمن دیکھے

ہیروئن نے جو یہ شعر سنا تو بے حد محظوظ و مسرور ہوئی۔ جوشِ مسرت سے غمور ہوئی۔ جھوم کر بولی: ‘‘Oh my God you are so exotic!’’۔ یہ سن کر حسن جامے میں پھولے نہ سمایا، جھک کر آداب بجا لایا۔ فوٹوگرافر نے کھٹ سے تصویر کھینچی اور یہ لمحہ یوں کیمرے میں نقش ہوا کہ ایک ماہ پارہ یوسف لقا، گلگوں قبا محبت بھری نگاہوں سے حسن کو دیکھ رہی ہے اور حسن نیاز مندانہ وجاں نثارانہ ،سینے پر ہاتھ رکھے اس کے آگے جھک رہا ہے۔
جانے سے پہلے شہریار نظیر نے حسن سے کہا: ‘‘گڈ ہوگیا یار، فی میل کاسٹ کے ساتھ تمہارا فوٹو شوٹ ہوگیا، بس اب اچھی طرح ڈائیلاگ یاد کرو اور ریہرسل کرو، اگلے ہفتے سے شوٹنگ شروع ہے۔’’
حسن نے وعدہ کیا اور خوش خوش گھر کو آیا۔
شام کو حسن زلیخا کو ڈھونڈتا ہوا کھانے والے کمرے میں پہنچا تو دیکھا وہ میز پر کتابیں بکھرائے کچھ لکھنے میں مصروف ہے۔ حسن ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کے متوجہ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
زلیخا نے نظریں اٹھائے بغیر لکھتے ہوئے کہا: ‘‘کچھ چاہئے حسن؟’’
حسن نے کہا: ‘‘ہاں! تم کیا کررہی ہو؟’’
زلیخا نے گہری سانس لی اور بولی: ‘‘اسائنمنٹ بنا رہی ہوں۔’’پھر بے دلی سے اپنے کاغذ پرے دھکیلے اور حسن سے پوچھا: ‘‘تم بتاؤ تمہیں کیا کام ہے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘تم اپنا کام کرلو پھر بتاتا ہوں۔’’
زلیخا نے مایوسی سے کہا: ‘‘دل نہیں چاہتا۔ سائیکالوجی میں کوئی انٹرسٹ نہیں مجھے، دل چاہتا ہے میڈیکل کی۔۔۔ خیر چھوڑو، تم بتاؤ۔’’
حسن نے ایک کاغذ کا پلندہ سامنے رکھا اور کہا: ‘‘یہ پڑھو۔’’
زلیخا نے ایک کاغذ اٹھاتے ہوئے کہا: ‘‘یہ کیا ہے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘سکرپٹ ہے۔ اس میں میرے یعنی نواب شمس النہار کے اور نوابزادی قوت القلوب کے مکالمے ہیں۔ اپنے مکالمے تو مجھے یاد ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ ذرا تم قوت القلوب بنو اور ہم تم پر مکالمے بولیں تاکہ میں اس میں کامل الفن ہو جاؤں اور شوٹنگ کے وقت کوئی لغزش نہ ہو، پایۂ فن میں کوئی لرزش نہ ہو۔’’
زلیخا نے دلچسپی سے کاغذ کو دیکھتے ہوئے کہا: ‘‘نام بڑے انٹرسٹنگ ہیں۔ شمس النہار اور قوت القلوب۔ واہ!’’
حسن خوش ہوکر بولا: ‘‘میں نے رکھے ہیں۔ پہلے کوئی اور نام تھے، بالکل خام تھے۔ میں نے شہریار کو یہ نام بتائے۔ اسے پسند آئے اور اس نے بدل ڈالے۔’’
زلیخا حیران ہوئی بولی:‘‘تمہیں یہ نام کہاں سے سوجھے؟’’
حسن نے جواباً حیران ہوکر پوچھا۔ ‘‘سوجھتے کیوں؟ میں جس زمانے سے آیا ہوں، وہاں ایسے نام عام تھے۔ میرے ایک دوست کا نام شمس النہار تھا اور ایک دوسرے دوست کی محبوبہ کا نام قوت القلوب۔’’
زلیخا نے خفگی سے سر ہلایا اور بڑبڑائی: ‘‘تم اور تمہارا زمانہ، پتا نہیں اس delusionسے کب نکلو گے۔ خیر! بتاؤ کہاں سے پڑھنا ہے؟’’
حسن نے اس کے کاغذ پر انگلی رکھی اور کہا:‘‘یہ دیکھو، اس منظر میں نواب شمس النہار زخمی ہوکر قوت القلوب کی جھونپڑی میں پڑا ہے۔ نواب کی آنکھ کھلتی ہے تو یہ خاتون اسے نظر آتی ہے۔ اب یہاں سے مکالمے شروع ہوں گے۔’’
یہ کہہ کر حسن کھنکھارا اور مکالمے بولنے شروع کئے:‘‘میں کہاں ہوں؟’’
زلیخا نے کاغذ پڑھتے ہوئے کہا:‘‘ایک غریب کی جھونپڑی میں۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!