الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

اگلے دن صبح صبح حسن گھر سے نکل رہا تھا کہ صحن میں کنیز نے اسے روک لیا۔ ٹھنک کر بولی:‘‘توبہ ہے بھائی جان، آپ تو نظر ہی نہیں آتے۔ روز پوچھتی ہوں میں کہ ہمارے بھائی جان کہاں ہیں؟ پتا چلتا ہے شوٹنگ پہ گئے ہیں۔ ہائے حسن بھائی ،کسی دن مجھے بھی لے جائیں نا شوٹنگ پہ۔ میں بھی دیکھوں گی۔’’ حسن کو دیر ہورہی تھی۔ چڑ کر بولا:‘‘یہ بک بک بند کرو اور کام کی بات کرو، مجھے دیر ہورہی ہے۔’’
کنیز خفا ہوکر بولی:‘‘ہاہائے ،اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے؟ میں تو آپ کے فائدے کی ہی بات کرنے آئی تھی۔’’
حسن نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا:‘‘جلدی سے اپنی بات بتاؤ اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔’’
کنیز اور بھی خفا ہوئی۔ تنک کر بولی:‘‘جلدی سے کیا بولوں؟ کوئی آلو پیاز کی قیمتوں پر تبصرہ تو نہیں کرنا میں نے کہ جلدی سے کرکے چل پڑوں۔ میں نے تو آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ اب کرن باجی سے ملاقات کا کیا کرنا ہے؟ آپ تو ہاتھ ہی نہیں آتے۔ میں خوامخواہ آپ کی ہمدردی میں مری جارہی ہوں۔’’
حسن کو بھی اس کے یوں رعب جمانے پر غصہ آیا۔ خفا ہوکر بولا:‘‘بس معلوم ہوا کہ تو جنون کی پرداختہ ہے، الو کی دم فاختہ ہے۔ تو نے کبھی کوئی کام اپنے فائدے کے بغیر نہیں کیا۔ تجھے میں نے دو ہزار روپے دیے تو تھے۔’’
کنیز بددماغ ہوکر بولی:‘‘دو ہزار روپے، وہ بھی چھے مہینے پہلے دیے تھے۔ وہ پچھلے محلے والے آفتاب بھائی تو مجھے دس ہزار روپے دے رہے ہیں۔ آپ صاف صاف بتا دیں۔ آپ کا ارادہ نہیں تو ان کی لائن سیٹ کرادوں؟’’
یہ سن کر حسن کو طیش آیا، بہت جھلایا۔ کہا:‘‘اے کنیز بے تمیز، یہ کیا دغا بازی ہے اور کیسی اختراپردازی ہے؟ تیری کیا مجال کہ تو میری محبوبہ کو رقیب سے ملائے، گویا آسمان میں تھگلی لگائے؟’’
کنیز نے بے اعتنائی سے کہا:‘‘مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کا پتا کاٹنے کا، لیکن میں بھی مجبور ہوں۔ میرے بھی گھر والے ہیں، ضرورتیں ہیں اور آپ مجھے کچھ دیتے ہی نہیں۔’’
حسن نے غصے کو پی کر کہا:‘‘تنخواہ ملنے دے، تجھے کچھ نہ کچھ ضرور دوں گا۔’’ کنیز منہ بنا کر بولی:‘‘کچھ نہ کچھ؟ اس کچھ نہ کچھ کا کیا مطلب؟ صاف صاف بتائیں کتنے دیں گے؟’’
حسن کو پھر سے غصہ آیا۔ بے حد جھنجھلایا، تیوری چڑھا کر کہا:‘‘اے ناہنجار و نامعقول عورت! میں تجھ پر اس قدر عنایت کرتا ہوں اور تو اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتی ہے۔ لالچ میں مری جاتی ہے، اپنی حرکتوں پر ذرا نہ شرماتی ہے۔’’
وہ تنک کر بولی:‘‘تو اور کیا کروں؟ یہی تو انکم ہے میری۔ آپ مجھ سے صاف بات کریں، ورنہ یہ نہ ہوکہ میں مایوس ہو جاؤں اور آپ کی جگہ آفتاب بھائی ملنے پہنچ جائیں کرن باجی کو۔’’
حسن نے جو چشمِ تصور سے پچھلے محلے والے آفتاب کو کرن کے خلوت کدے میں پایا تو غیض و غضب سے تاب نہ لایا۔ غضبناک ہوکر بولا:‘‘یہ کیا ہرزہ درائی ہے؟ کنیز ہے یا سڑی سودائی ہے؟ دفع دور ہو جا،۔مجھے جو کرنا ہوگا میں خود کرلوں گا۔ ملاقات بھی کروں گا، نکاح بھی کروں گا۔’’
کنیز غصے سے بولی:‘‘زیادہ شوخے نہ ہوں بھائی جان، مجھ سے پنگا نہ لیں۔ یہ نہ ہو میں ناراض ہو جاؤں اور ایک دن آپ کوان کی شادی کا کارڈ وصول ہو۔ پھر ہاتھ ملتے رہ جانا۔’’
حسن نے طیش میں آکر کہا:‘‘بس خاموش ہو جاؤ، بہت بڑھ بڑھ کر باتیں نہ بناؤ۔ ٹھنڈی گرمیاں ہمیں نہ دکھاؤ۔ تم نے اڑائی ہیں تو ہم نے بھون بھون کھائی ہیں۔ اللہ نے چاہا تو تیری کوئی سازش کارگر نہ ہوگی۔ شاخِ ریشہ دوانی بارآور نہ ہوگی۔’’
یہ سن کر کنیز نے بہ صد استہزاء و انتقام منہ پر ہاتھ پھیرا اور بولی:‘‘اچھا بچوُ، اب دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔’’
حسن نے جھلا کر کہا۔‘‘دفع دور، شیطان کا منہ کالا، خیر کا بول بالا۔’’
کنیز غصے سے پاؤں پٹختی دفع دور ہوگئی اور حسن دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا باہر کو سدھارا۔ لیکن ابھی فلک کج رفتار نے اس کا دل جلانے کا مزید بندوبست کر رکھا تھا۔
حسن گلی میں چلا جاتا تھا کہ سامنے سے کرن کا باپ آتا دکھائی دیا۔ ساتھ میں وہ سگِ پلیدوروسیاہ بھی تھا کہ اگر قصرِ جہنم میں ہوتا تو وہاں کے کتوں کا سردار ہوتا۔ کرن کے باپ کے ہاتھ میں کتے کی زنجیر تھی، جانے آج حسن کی کیا تقدیر تھی۔ ان دونوں ارواحِ خبیثہ کو یوں سامنے سے آتے دیکھا تو حسن بدر الدین کا کلیجہ منہ کو آیا ،بے حد گھبرایا۔
اتنے میں وہ پدرِ نامراد اور قریب آیا۔ ٹھٹکا اور غور سے حسن کو گھورنے لگا، گویا پہچاننے کی کوشش کرتا ہو۔ یہ دیکھ کر حسن مزید گھبرایا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ گلی اس وقت سنسان تھی۔ نہ جن نہ انسان، نہ بوڑھا نہ جوان، اس وقت اگر کہیں بھاگتا یا چھپنے کی کوشش کرتا تو وہ ترگِ باداں دیدہ ضرور تاڑ جاتا کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے، بہت فتور ہے۔ حسن نے دل میں سوچا، اس شخص سے تعرض نہ کرنا چاہیے، سر جھکائے درگذر کیے ٹھنڈے ٹھنڈے گزر جانا چاہیے کہ اگر اس نے پہچان لیا تو ضرور آمادۂ شر ہوگا، باعث ِتخریب و ضرر ہوگا۔
اب سنیے کہ حسن صاحب تو اس پریشانی میں مبتلا تھا کہ کہیں یہ شخص پہچان نہ جائے اور کوئی آفت نہ ڈھائے، ادھر وہ کتا سیاہ فام، آبنوس کا کندہ، حسن کو پہچان گیا۔ اس زور سے اچھلا کہ زنجیر مالک کے ہاتھ سے نکل گئی اور مارے غصے کے بھونکتا، چلاتا، تھر تھراتا حسن پر لپکا۔ حسن نے جو یوں اسے مانند ِشیرزیاں آتے دیکھا تو خون نے جوش مارا۔ ایک تو طبیعت میں جوانی کی جولانی تھی، دوسرے موجِ عشق طوفانی تھی، تیسرے ابھی کنیز سے منہ ماری کے سبب سے خون ابھی تک گرم تھا، اور چوتھے شوٹنگ پہ جنگ و جدل، تلوار بازی اور ڈنڈ بیلنے کا اثر تھا کہ جونہی کتے نے اس پر چھلانگ لگائی ،حسن بدر الدین نے جھپٹ کر اسے اگلی دونوں ٹانگوں سے پکڑا اور تیزرفتارسے اسے دو تین مرتبہ سر کے اوپر گھمایا اور ایک طرف کو دے مارا۔
اپنی طرف سے تو حسن نے کتے کو دیوار میں مارا تھا لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وہ دیو زاد کتا بومِ شوم کی طرح اڑتا ہوا سیدھا کرن کے باپ کی طرف گیا اور اِس زور سے اُس سے ٹکرایا کہ وہ اس زور دار دھکے کو سہہ نہ پایا اور الٹ کر آدھا کوس دور جاگرا۔ پہلے تو حسن کے جی میں آئی کہ جا کر دیکھے کہ کہیں وہ اجل سے دوچار تو نہیں ہوگیا،ملک الموت سے ہمکنار تو نہیں ہوگیا، لیکن پھر خیال آیا کہ اس موقع پر اس کے قریب جانا عقل سلیمِ سے منزلوں دور ہے، بندہ تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے۔ چنانچہ حکمت کا راستہ اختیار کیا، خود کو وہاں سے فرار کیا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!