الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

ایک دن شہریار نظیر نے اعلان کیا:‘‘شوٹنگ کا پہلا سپیل ختم ہوگیا ہے۔ جنگوں شنگوں کے سین ہم نے کرلئے ہیں۔ اب محلوں شحلوں کے سین کرنے ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ sub continent کی ہسٹری پڑھو، لٹریچر پڑھو۔ (ویسے حسن کو تو پڑھنے کی ضرورت نہیں یہ تو ویسے ہی بڑی جناتی اردو بولتا ہے۔) ہاں تو کوئی شعر و شاعری وغیرہ پڑھو اور ایک مشورہ میں ضرور دوں گا کہ جا کر میوزیم ضرور دیکھ کر آؤ۔ اس سے تم لوگوں کو بڑی ہیلپ ہوگی۔ پتا چلے گا کہ وہ لوگ کیسے رہتے تھے اور کیا کیا چیزیں استعمال کرتے تھے۔’’
حسن نے آکر زلیخا کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ بولی:‘‘ارے ہاں، میوزیم میں تو مجھے بھی کام ہے۔ ایک آرٹیکل لکھنا ہے مجھے۔ چلو میں اور تم چلتے ہیں۔’’ چنانچہ اگلے دن حسن نے زلیخا کو بائیک پر بٹھایا اور خود کو عجائب گھر پہنچایا۔ یہ وہ عمارت تھی جہاں لوگوں نے تاریخی نوادرات اور پرانے زمانے کی چیزیں رکھ چھوڑی تھیں اور انہیں کبھی کبھی دیکھ کر خوش ہو لیا کرتے تھے۔
حسن بھی اندر گیا تو ان چیزوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ کہا:‘‘ہماری حویلی میں بھی کچھ ایسا ہی سامان ہوا کرتا تھا۔’’
زلیخا نے کہا:‘‘پلیز یہاں نہ شروع کردینا اپنے خیالی قصوں کی داستان، آگے چلو بہت چیزیں ہیں دیکھنے کو۔’’
انہوں نے پتھر کے بت دیکھے، آلاتِ جنگ و حرب دیکھے۔ اس کے بعد تصاویر کے کمرے میں آئے۔ چلتے چلتے حسن تھک گیا تو ایک جگہ بیٹھ گیا۔ زلیخا گھوم پھر کر ساری تصویریں دیکھ آئی۔
اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی:‘‘بیٹھ کیوں گئے؟ اچھا نہیں لگا کیا؟’’
حسن نے اداس لہجے میں کہا:‘‘اچھا لگا، وہ دروازہ دیکھ رہی ہو؟ میرے مکان میں بعینہ ایسا ہی دروازہ لگا تھا۔ میری ماں اس دروازے کے پیچھے کھڑی ہوکر لوگوں سے بات چیت کیا کرتی تھی، اپنی تجارت کے معاملات درست کیا کرتی تھی۔’’
زلیخا نے کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر حسن کے چہرے پر رنج و حزن کے آثار دیکھ کر خاموش ہوگئی۔ پھر نرمی سے بولی:‘‘اچھا آج سنا ہی دو مجھے یہ سارا قصہ جو کچھ بھی تم اپنے دل میں یہ خیالی داستان بنائے بیٹھے ہو، آج  ساری سنا دو۔ تمہارا کتھارسس ہو جائے تو تمہاری تھیرپی شروع کراؤں گی۔’’
حسن نے جو موقع پایا تو زلیخا کو سب کچھ بلا کم و کاست کہہ سنایا۔ کہا:‘‘اے زلیخا جگر تھام کے سنو کہ یہ قصہ جگر خراش ہے، اس کے اثر سے میرا دل پاش پاش ہے۔ میں حسن بدرالدین سوداگر بچہ، ایک بڑے نامی گرامی سوداگر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ والد بزرگوار سوداگروں کے سرمایۂ ناز تھے، بڑے صاحبِ ثروت و بااعزاز تھے۔ بڑے بڑے شہروں میں دکانیں، گودام، کوٹھیاں تھیں۔ تمام ہندوستان میں نام تھا۔ تجارت کے جہاز چلتے تھے، ان کا نام مشہورِ روم وشام تھا۔’’
زلیخا ہاتھ پر ٹھوڑی ٹکائے انہماک سے اسے دیکھتی اور اس کی بات سنتی رہی۔
حسن کہتا رہا:‘‘اپنا حالِ زار اور جہد فلکِ کج رفتار کیا عرض کروں
؂
سیاہ بخت و تبہ روزگار ہیں ہم
جوابِ زلفِ پریشان یار ہیں ہم


میں عیش و عشرت میں رہتا تھا، کبھی کوئی غم کاہے کو سہتا تھا کہ نصیب نے پلٹا کھایا، بدقسمتی نے جلوہ دکھایا۔ ایک ساحرہ مکارہ کسی بات پر میرے باپ سے ناراض ہوئی اور بزورِ سحر حرام و نفس ِ نافرجام میرے والد بزرگوار کو بکرا بنایا، ذرا ترس نہ کھایا۔ منڈی لے جا کر کوڑے کیے اور چلتی بنی۔ اتفاق دیکھو اسی دن میرے گھر دعوت تھی۔ باورچی بازار سے بکرا خرید کر لایا اور قورمہ بنانے کو جو اس کے گلے پر چھرا چلایا تو یکایک بکرا انسانی جون میں آیا۔ دیکھا تو بکرے کی جگہ والد ماجد پڑے تھے۔ وہ لمحات بہت کڑے تھے۔ دم کے دم میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ میں دوڑا گیا۔ اس وقت وہ آخری سانسیں لے رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو اشارے سے پاس بلایا۔ دمِ آخر مجھے تین نصیحتیں کیں۔ پہلی یہ کہ‘ خدا کے سوا اور کسی کو اس کا شریک نہ ماننا’، دوسری‘ خدا کو حاضر و ناظر جان کر تجارت کے وہ تمام اصول جو میں نے تمہیں سکھائے ہیں انہیں دیانتدارانہ استعمال میں لانا’ اور تیسری یہ کہ‘ مکار عورت کا کبھی اعتبار نہ کرنا خواہ کتنی بھی خوبصورت لگے اور نیک عورت کو ہمیشہ فوقیت دینا خواہ کتنی ہی کم صورت ہو’۔ یہ کہہ کر کلمہ پڑھا اور ایک ہچکی لے کر عالم ِ فانی سے پردہ کرگئے۔’’
زلیخا کی آنکھوں میں ترس، ہمدردی، رنجیدہ مسکراہٹ اور شفقت ایک ساتھ ابھرے اور اس نے ان تمام جذبات سے لبریز لہجے میں صرف اتنا کہا:‘‘اوہ حسن۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!