الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

حسن نے آہ سرد بھری، بہ دلِ پرُدرد بھری اور کہا: ‘‘عرصے تک مجھے اپنے باپ کی وفات کا ملال رہا، بہت برا حال رہا۔ پھر آہستہ آہستہ احباب سے ملنے جلنے لگا اور دعوتیں ہونے لگیں۔ ضیافتوں اور تحفے تحائف میں کروڑہا خرچ ڈالے۔ میری ماں مجھے سمجھاتی تھی کہ‘ حسن بدرالدین فضول خرچی عقل ِ سلیم کے خلاف ہے۔ اس کا نتیجہ افلاسِ وفاداری ہے، فضول خرچ کی عقل دور اندیشی سے عاری ہے’، لیکن میں نے ایک نہ مانی اور میری فضول خرچی بڑھتی گئی اور نوبت بہ ایں جار سیر کہ سب کچھ لٹا کر کنگال ہوا، اصراف جی کا جنجال ہوا۔’’
زلیخا نے حسن کا کندھا تھپک کر اسے تسلی دی اور پچکار کر کہا:‘‘بہت برا ہوا۔ اب اٹھو یہاں بہت لوگ آرہے ہیں، بیٹھنا اچھا نہیں لگتا، آؤ وہ سامنے والے ہال میں چلیں۔ باقی کہانی وہاں سنانا۔’’
حسن تابعداری سے اٹھا اور اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ دونوں ایک کمرے میں پہنچے جہاں پرانے زمانے کی میز، کرسیاں، الماریاں، تخت وغیرہ پڑے تھے۔ زلیخا سرسری نظر سے سب چیزیں دیکھتی ہوئی آگے بڑھنے لگی اور حسن سے پوچھا:‘‘اچھا تو تمہارا دیوالیہ نکل گیا پھر کیا ہوا۔’’
حسن نے کہا:‘‘میری ماں بہت عقلمند و دوراندیش عورت تھی۔ اپنے مال کی آپ مالک تھی۔ لاکھوں کا روپیہ تجارت میں لگاتی تھی اور مال کا ایک جز ہمیشہ گھر میں چھپا کر رکھتی تھی کہ اگر نخواستہ خدا جہاز ڈوب جائے، تجارت میں نقصان ہو جائے تو تنگدستی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ قسمت کسی ایسے برے پھیر میں آپڑی کہ ان کے تین جہاز جن پر لاکھوں کا مال لدا تھا، ڈوب گئے۔ میری ماں مدبری و منشی گری میں طاق تھی، شہرہ آفاق تھی۔ گھر میں دبایا ہوا روپیہ نکال کر میرے حوالے کیا کہ تجارت میں لگاؤں اور روپیہ بناؤں۔ میں روپیے لیے جاتا تھا کہ راستے میں جیب کٹ گئی۔ کنگال ہوکر واپس آیا اور ماں کو یہ احوالِ بد سنایا۔ میری ماں اس غم کو سہار نہ سکی اور بیمار ہوگئی۔ میں نے بہت دوا دارو کرنے کی کوشش کی مگر مرض میں روزافزوں ترقی ہوتی گئی۔ آخر وہ دن آیا جب میرے پاس دوا خریدنے کے بھی پیسے نہ رہے۔ میں پریشانی کے عالم میں باہر نکلا کہ ان دوستوں سے مدد مانگوں جن پر میں آنکھ بند کرکے روپیہ لٹاتا تھا۔ اس کڑے وقت ضروت میں کوئی بھی کام نہ آیا، کسی نے پلہ نہ پکڑایا۔ جس وقت میں واپس آیا، میری ماں آخری سانسیں لے رہی تھی ۔میں بھاگ کر پایۂ علالت کے پاس بیٹھا اور ماں کا ہاتھ تھام کر رونے لگا۔ ماں نے اکھڑتی سانسوں کے ساتھ آنکھ سے باہر کی طرف اشارہ کیا اور بس اتنا کہا۔۔۔
‘‘دراز…… دراز……دراز……؟’’
حسن کی آنکھیں پھٹ گئیں اور آوازسرگوشی میں تبدیل ہوگئی۔ زلیخا نے حیران ہوکر اسے دیکھا۔ حسن پھٹی پھٹی آنکھوں سے دور کسی چیز کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا رنگ سفید پڑ چکا تھا اور ہونٹوں سے بغیر آواز ‘‘دراز…… دراز’’ کے الفاظ ادا ہورہے تھے۔ زلیخا نے گھبرا کر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ کمرے کی آخری دیوار کے پاس ایک بڑی سی سنگھار میز رکھی تھی۔ اس کے آگے ایک پتلی سی سنہری زنجیر لگا کر حلقہ بند کردیا گیا تھا تاکہ لوگ آگے نہ آئیں اور اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ زلیخا کو سمجھ نہ آیا کہ اس میز میں ایسی کیا بات تھی جس نے حسن کو حواس باختہ کردیا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر حیران ہوکر حسن کو دیکھا۔ حسن کے چہرے کا رنگ سفید سے سرخ ہوگیا تھا گویا تمام خون سمٹ کر چہرے پر آگیا ہو۔ ابھی زلیخا کچھ پوچھ نہ پائی تھی کہ حسن نے چھلانگ لگائی اور تیزی سے اس سنگھار میز کی طرف دوڑا۔ زلیخا ہکا بکا رہ گئی۔ چشمِ زدن میں حسن نے سنہری زنجیر پھلانگی اور سنگھار میز کے پاس پہنچ گیا۔ زلیخا کا اوپر سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اگر کسی نے حسن کو ان نوادرات کو ہاتھ لگاتے دیکھ لیا تو سیدھا تھانے جائے گا۔ اس نے تیزی سے ادھر ادھر دیکھا۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ وہ تیر کی سی تیزی سے حسن کی طرف بھاگی تاکہ اس کو یہاں سے ہٹائے اور کسی کے آنے سے پہلے پہلے اسے نکال لے جائے۔
حسن کے پاس پہنچ کرزلیخا نے اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹا اور ڈانٹ کر کہا:‘‘پاگل ہوگئے ہو؟ یہ کیا کررہے ہو؟ چلو یہاں سے۔’’
حسن نے اپنا بازو چھڑایا اور جوش و جذبات سے بھری آواز میں کہا:‘‘زلیخا! یہ میری ماں کی سنگھار میز ہے۔’’
زلیخا کو بے حد غصہ آیا۔ دانت پیس کر بولی:‘‘حسن بدرالدین! بس بند کرو اب یہ ڈرامہ، بہت بکواس سن لی میں نے تمہاری۔ اب چلو یہاں سے کسی نے دیکھ لیا تو بڑی مصیبت ہو جائے گی۔’’ لیکن حسن اس کی ایک نہ سن رہا تھا۔ اس نے زلیخا کا ہاتھ جھٹکا اور سنگھار میز کے دراز کھول کھول کر دیکھنے لگا۔
زلیخا کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے حسن کا بازو کھینچااور ملتجی لہجے میں کہا:‘‘پلیز حسن! دیکھو یہ پاگل ہونے کا کوئی موقع نہیں۔ گھر جا کر تم جو کہو گے میں سنوں گی۔ تمہاری ہرfar fetchedسٹوری پر یقین کروں گی۔ پلیز اس وقت یہاں سے چلو۔’’
حسن نے سرخ چہرے اور جوش و خروش سے بھری آواز میں کہا:‘‘زلیخا یہ میری ماں کی میز ہے۔ تمہیں میرا یقین نہیں آتا؟ یہ دیکھو۔ ادھر آؤ میں تمہیں ایک خفیہ چیز دکھاؤں جس کا میرے اور ماں کے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا۔’’
یہ کہہ کر میز کو گھسیٹ کر تھوڑا آگے کیا۔ زلیخا اپنی تمام تر پریشانی اور بدحواسی کے باوجود رہ نہ سکی اور متجسس ہوکر آگے جھک کر دیکھنے لگی۔ حسن نے لکڑی کی ہموار سطح پر ہاتھ پھیرا اور ایک جگہ کو انگوٹھے سے زور سے دبایا۔ ایک گول سی میخ اندر کو دھنس گئی۔ اس کے دھنستے ساتھ ہی ایک جھری نمودار ہوئی ور ایک پتلا سا دراز باہر نکلا۔ اس دراز میں ایک لکڑی کی چابی پڑی تھی۔
زلیخا ہکا بکا رہ گئی۔ بدحواس ہوکر ہکلا کر بولی:‘‘یہ ۔۔۔یہ کیا۔۔۔ یہ تمہیں کیسے معلوم۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ۔۔۔’’
حسن نے فخریہ انداز میں زلیخا کو دیکھا اور ایک دوسری جگہ کو دبایا، کچھ نہ ہوا۔ حسن نے الجھن سے اس پر ہاتھ پھیرا اور سوچتے ہوئے بولا:‘‘میز پرانی ہوگئی ہے۔ تیل دینا پڑے گا۔’’ یہ کہہ کر اس نے اردگرد یوں نظر دوڑائی گویا آس پاس کہیں تیل پڑا مل جائے گا۔ زلیخا اپنے حواسوں میں واپس آئی اور جلدی سے اپنا لنڈے کا تھیلا کھول کر اس میں سے ایک شیشی نکالی۔ جلدی سے بولی:‘‘تیل تو نہیں، یہ ویزلین ہے میرے پاس۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!