اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

جویریہ آنٹی کے گھر محفل میلاد کی تقریب تھی اور ظاہر ہے کوئی اور جائے یا نہ جائے حورعین کا وہاں جانا اور اس محفل میں شریک ہونا ضروری تھا جس کی خاص ہدایت اُسے آنٹی نے فون کرکے دے دی تھی ۔ اسی لیے اس نے آج چھٹی کی تھی حالاں کہ آج اُسے اپنی ایک ضروری اسائنمنٹ بھی جمع کروانی تھی جب وہ تیار ہوکر گھر سے نکل رہی تھی کہ مقیت کا فون آگیا۔
’’کہاں ہو آج تم؟‘‘
’’میں، سعدی کے گھر جارہی ہوں۔‘‘فون کان سے لگائے وہ گاڑی کی جانب بڑھی۔
’’چلو جی! اسائنمنٹ کہاں ہے تمہاری؟ سر باقر رضوی بلا رہے ہیں فوراً یونیورسٹی آکر اپنی اسائنمنٹ جمع کرواؤ۔‘‘
مقیت کا جملہ سنتے ہی اُس کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔
’’افوہ میں تو بھول ہی گئی۔‘‘
ممی گاڑی کا دروازہ کھولے اُس کے اندر بیٹھنے کی منتظر تھیں جب کہ اُسے اسائنمنٹ یاد آتے ہی باقی سب کچھ بھول گیا۔
’’دراصل آج سعدی کے گھر میلاد تھا اور جویریہ آنٹی کے بہ قول اُس میں میری شرکت زیادہ ضروری تھی بانسبت اسائنمنٹ جمع کروانے کے۔‘‘ لہجہ میں ہلکا سا شکوہ لیے اُس نے جیسے اپنی ممی کو سنایا۔ اس کی امی نہیں چاہتی تھیں کہ آج حورعین یونیورسٹی جائے۔ انہیں شاید یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں کسی کام میں الجھ کر اُسے گھر آنے میں دیر نہ ہوجائے جس کے باعث وہ جویریہ کے گھر جانے سے معذرت کرلے یہ سوچ کر انہوں نے حورعین کو آج چھٹی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
ایسا کرو تم اپنی فائل نکالو میں آرہا ہوں۔‘‘
’’مطلب میری اسائنمنٹ تم جمع کروا دو گے؟‘‘
’’ظاہر ہے یار اب اور کیا ہوسکتا ہے میں سر باقر سے بات کرلیتا ہوں کہ تمہاری طبیعت بہت خراب ہے اور تم نہیں آسکتیں۔‘‘
’’تھینک یو مقیت تھینک یو سو مچ شکر ہے جو مجھے تمہارے جیسا دوست ملا۔ تم میرے بہت کام آتے ہو میں ہمیشہ تمہاری قرض دار رہتی ہوں۔‘‘ مارے تشکر کے اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں ایک اِتنا خیال کرنے والا دوست، جو مخلص اور بے لوث ہو، بنا کسی فائدے کے آپ کے کام آئے اس زمانے میں کم از کم ملنا نہایت مشکل ہے اور سعدی کہتا ہے کہ میں صرف اُس کی ضد میں اپنی دوستی قربان کردوں جب کہ خود کبھی میرے فون کرنے پر نہیں آیا چاہیے کتنا ضروری کام ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے میں جہاں اُسے مقیت کا اپنے لیے یہ احساس اچھا لگا وہاں سعدی کی بے جا ضد یاد کرکے اُس کا دل مزید خراب ہوگیا۔
’’جلدی کرو حورعین جویریہ بار بار فون کررہی ہے۔‘‘
ممی نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اُسے پکارا۔





’’سوری ممی آپ کو کچھ دیر رکنا پڑے گا میں اندر سے اپنی اسائنمنٹ لے آؤں مقیت آرہا ہے وہ جمع کروا دے گا ورنہ بلاوجہ میرے بیس نمبروں کا حرج ہوگا۔‘‘
ماں کو جواب دے کر وہ جلدی سے گھر میں داخل ہوئی اور پھر اپنی فائل لئے وہ روڈ پر ہی کھڑی رہی تقریباً پندرہ منٹ میں ہی مقیت آگیا۔ حورعین فائل کے ساتھ اندر سے ایک چاکلیٹ اور کولڈڈرنک بھی لے آئی تھی جو اُس نے مقیت کے حوالے کردی اور مسکراتے ہوئے بولی۔
’’میری مدد کرنے کا انعام‘‘
’’شکریہ لیکن میں تمہاری مدد کسی انعام کی لالچ میں نہیں کرتا۔‘‘
’’ اچھا تو پھر کیوں کرتے ہو؟‘‘
گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا مقیت رُک گیا۔
’’بس میرا دل چاہتا ہے ہر دم تمہارے کام کروں‘‘ وہ ذرا سا مسکرایا۔
’’صرف میرے کام…‘‘وہ ہلکا سا ہنسی۔
’’ڈفر تم تو سب کے کام آتے ہو۔‘‘
جانتی تھی مقیت ایسا ہی ہے ہمیشہ سب کے کام آنے والا۔
’’اور میرا سب صرف تم ہو‘‘
یہ جملہ کہہ کر وہ تیزی سے گاڑی آگے بڑھاتا ہوا نکل گیا۔ مقیت نے یہ کیا کہا ، بہتدیر تک حورعین کی سمجھ میں ہی نہ آیا۔ وہ اپنی جگہ کھڑی راستہ دیکھتی رہی جس طرف مقیت گاڑی لے کر گیا تھا اور جانے کب تک کھڑی رہتی اگر ممی ہارن بجا کر اُسے اپنی جانب متوجہ نہ کرتیں اور پھر وہ تیزی سے بھاگ کر گاڑی میں جا بیٹھی مبادا زیادہ لیٹ ہوجائے اور جب وہاں پہنچی تو گیٹ پر کھڑے سعدی کو دیکھ کر سب کچھ بھول گئی۔ اونچا لمبا سعدی کلف والی شلوار قمیص میں کہنیوں تک آستینیں فولڈ کیے دل میں اتر جانے کی حد تک خوب صورت لگ رہا تھا۔ دل ہی دل میں ماشاء اللہ کہتی جیسے ہی وہ گیٹ کے قریب پہنچی تو وہ جلدی سے آگے بڑھا۔
’’السلام علیکم آنٹی۔‘‘
مخاطب ممی تھیں مگر نظریں اُس پر تھیں جنہیں محسوس کرکے وہ تھوڑی سی کنفیوز ہوگئی۔
’’وعلیکم السلام بیٹا جیتے رہو۔‘‘
ممی نے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے دعا دی۔ سیدھا ہوتے ہی وہ حورعین کی جانب پلٹا۔
’’تمہیں کسی نے بڑوں کو سلام کرنا نہیں سکھایا۔‘‘
حورعین نے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا جب کہ ممی ان دونوں کو باتیں کرتا چھوڑ کر آگے بڑھ گئیں تھیں۔
’’نہیں!‘‘روٹھے انداز میں کہتی وہ آگے بڑھی تھی کہ سعدی یک دم سامنے آگیا۔
’’ اچھی لگ رہی ہو۔‘‘بڑے نارمل انداز میں کی گئی سعدی کی یہ تعریف حورعین کو ساتویں آسمان پر لے گئی اور وہ پچھلی ساری باتیں بھول گئی۔
’’تم مجھ سے زیادہ اچھے لگ رہے ہو۔‘‘اس کی بات سن کر سعدی ہنس دیا۔
’’چلو آج یہ تو ثابت ہوگیا کہ عورت ہمیشہ اپنی تعریف کی بھوکی ہوتی ہے جیسے تم، اب دیکھو میں نے ذرا سی تمہاری تعریف کیا کی تم تو ساری ناراضی بھول گئیں۔
’’میں ناراض تھی ہی نہیں۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولی اور سعدی کی سنگت میں چلتی اوپر چھت پر آگئی جہاں آج کی اس بابرکت محفل کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایسے میں اسے احساس ہوا کہ اچھا کیا جو آج یونیورسٹی نہیں گئی ورنہ بیس نمبروں کے چکر میں شاید سعدی کا یہ خوب صورت ساتھ نصیب نہ ہوتا اور اس سوچ نے اس کو مکمل طور پر مطمئن کردیا۔ وہ پرانی کیفیتیں بھلا بیٹھی۔ سچ کہتے ہیں عورت محبت کے دوبول سنتے ہی سب کچھ بھول جاتی ہے جب کہ مرد کی طبیعت اس کے برخلاف ہے وہ بھولتا ضرور ہے مگر شاید وقتی طور پر اور سعدی بھی یقینا ایک ایسا ہی مرد تھا۔
٭…٭…٭
اس کا سمسٹر ختم ہونے والا تھا۔ آج کل امتحانات کا زمانہ چل رہا تھا اس لیے تقریباً تمام ہی طلباء و طالبات اپنا زیادہ وقت لائبریری میں گزارتے جن میں ایک وہ بھی تھی ۔اُس دن بھی وہ سب مل کر پڑھ رہے تھے جب اس کے فون پر سعدی کی کال آگئی، حور عین پڑھنے میں اتنی مصروف تھی کہ اُسے پتا بھی نہ چلا اور فون وائبریٹ کرکرکے بند ہوگیا ویسے بھی جب مقیت پڑھاتا تو وہ ہمیشہ سب سے یہی کہتا کہ اپنے فون کی آواز بند کرکے بیگ میں رکھ لو تاکہ اس کی آواز کسی دوسرے کو ڈسٹرب نہ کرے۔ دو گھنٹہ پڑھنے کے بعد وہ اپنے اگلے پرچہ سے خاصی مطمئن ہوکر جب اُٹھی تو بیگ میں ہاتھ ڈال کر فون چیک کیا اور یہ دیکھتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی کہ فون پر آنے والی دس مِس کالز صرف اور صرف سعدی کی تھیں اور ساتھ ہی دو عدد میسج بھی، حور عین نے جلدی سے اپنا اِن باکس کھولا اور پہلا پیغام پڑھا۔
’’میں باہر کھڑا ہوں جلدی سے آجاؤ۔‘‘
اُسے حیرت ہوئی سعدی کے ساتھ اُس کی کوئی ایسی میٹنگ طے نہ تھی جس کے تحت وہ یونیورسٹی کے باہر آن کھڑا ہو جب کہ رات بارہ بجے تک ان دونوں کی آپس میں بات ہوئی تھی اس حیرت کے پیش نظر اس نے جلدی سے دوسرا پیغام پڑھا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت مصروف ہو اور کلاس ختم ہونے کے بعد بھی نہ میرا فون ریسیو کررہی ہو اور نہ ہی میسج کا جواب دے رہی ہو، بہرحال اب میں واپس جارہا ہوں۔‘‘
صاف لگ رہا تھا کہ وہ ناراض ہوگیا ہے حورعین نے جلدی سے جوابی کال ملائی دوسری طرف پہلی بیل جاتے ہی سعدی نے لائن کاٹ دی اور پھر اُس کی ہر کوشش کے جواب میں وہ لائن کاٹتا رہا اور کچھ دیر بعد اس نے اپنا سیل بھی آف کردیا وہ روہانسی ہوگئی۔
’’کیا بات ہے حورعین سب خیریت تو ہے؟‘‘اپنا بیگ سمیٹ کر مقیت اُس کی جانب آیا تو اُسے پریشان کھڑا دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
’’پتا نہیں…‘‘وہ اس قدر روہانسی ہوگئی کہ اُس کے حلق سے آواز بھی نہ نکل پائی۔
’’ آؤ میں تمہیں پارکنگ تک چھوڑ دوں ڈرائیور آگیا ہے تمہارا؟‘‘
اُسے دیکھتے ہی مقیت کو ڈرائیور یاد آگیا۔
’’ نہیں میں نے ممی سے کہا تھا جب میسج کروں تب گاڑی بھیجیں۔‘‘
’’اچھا پھر چھوڑ دو، میں گاڑی لایا ہوں آجاؤ تمہیں بھی چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’مگر۔‘‘وہ کہتے کہتے رک گئی ایک طرف مقیت کے حوالے سے سعدی کا رویہ اور دوسری جانب سب کچھ جانتے ہوئے بھی مقیت کا طرز عمل جس نے کبھی بھی اس کے سامنے آج تک سعدی کی برائی نہ کی۔
’’آجاؤ رک کیوں گئیں۔‘‘
آگے بڑھتے ہوئے مقیت نے پلٹ کر اُسے دیکھا۔
’’میں سوچ رہی ہوں کہیں سعدی ناراض نہ ہوجائے۔‘‘
’’چلو پھر جیسے تمہاری مرضی میں چلتا ہوں اللہ حافظ‘‘
مقیت نے بنا برُا مانے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور آگے کی جانب چل دیا جب وہ تیز تیز چلتی اس کے پیچھے آگئی۔
’’میرا خیال ہے تم مجھے چھوڑ دو کیوں کہ میں بہت تھک گئی ہوں اور اب مزید آدھ گھنٹہ گاڑی کے انتظار میں یہاں نہیں رک سکتی۔‘‘
ایک تو حساب پڑھنا اوپر سے سعدی کے بچگانہ رویہ نے اُسے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح تھکا دیا تھا۔ وہ چڑ کر مقیت کے ساتھ گھر آگئی تھی یا شاید سعدی نے ایک بار پھر اُس کی ضد کو جلا بخشی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Read Next

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!