راشیل نے مختصر جواب دیا کیوں کہ اب وہ جلد از جلد اس بلا سے جان چھڑوانا چاہتی تھی۔
’’اوکے بائے…‘‘
سامنے لگے بڑے سے آئینہ میں اچھی طرح جائزہ لیتے ہوئے وہ راشیل سے مخاطب ہوئی اور پھر اس کا جواب سنے بغیر ہیل کی ٹھک ٹھک کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے باہر نکلتے ہی جیسے راشیل نے سکھ کا سانس لیا، دانیہ سے اُس کی دوستی زیادہ پرانی نہ تھی۔ ویسے تو وہ دونوں ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم تھیں جہاں دانیہ کی امی کینٹین میں کام کرتی تھی اور پھر اتفاق کی بات کہ دونوں کا داخلہ بھی ایک ہی گورنمنٹ کالج میں ہوگیا۔ اسکول میں تو راشیل نے کبھی دانیہ سے اتنی بات نہیں کی تھی کیوں کہ دونوں الگ الگ سیکشن میں پڑھتی تھیں مگر کالج میں چوں کہ ایک ہی کلاس تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اُن دونوں کی دوستی ہوگئی جس میں زیادہ ہاتھ دانیہ کا تھا اور پھر وہ بنا ظاہر کیے راشیل کو اپنے مختلف مقاصد میں استعمال کرنے لگی اُس سے کپڑے مانگ کرلے جانا، لپ اسٹک اور دیگر میک اپ کا سامان ایسے ہتھیانا کہ اُسے علم بھی نہ ہوتا۔ پیسے اُدھار مانگنا تو جیسے اُس کا روز کا معمول تھا سب سے زیادہ حیرت تو راشیل کو اُس وقت ہوتی جب وہ گھر سے کالج آتی مگر راستے میں ہی غائب ہوجاتی۔ اُس کی سہیلیوں کا ایک مخصوص گروپ تھا جن کا کام امیر لڑکوں سے دوستی کرنا اور پھر ان کے ساتھ مختلف ریسٹورنٹ میں جاکر موج مستی کرنا تھا یہاں تک کہ اکثر وہ گھروالوں کے علم میں لائے بغیر اپنے دوستوں کے ساتھ فارم ہاؤس اور ساحلِ سمندر جاتی جس سے اُس کے گھر والے قطعی لاعلم تھے۔ اس کی بیوہ ماں کو کبھی پتا نہ چلا کہ اُس کی بیٹی تعلیم حاصل کرنے کہاں جاتی ہے؟ گھر سے وہ یونی فارم میں آتی، اُس کے بیگ میں ہر وقت ایک اضافی شرٹ موجود ہوتی۔ جسے وہ کالج کے باتھ روم میں تبدیل کرتی اور پھر باہر نکل جاتی۔ کئی بار تو وہ اس وقت صبح صبح راشیل کے گھر پہنچ جاتی جب کبھی اُس نے کالج سے آف کیا ہوتا اور پھر وہاں وہ اپنا یونیفارم تبدیل کرتی اور راشیل کے کپڑے پہن لیتی۔
جب بھی دانیہ راشیل کو فون کرتی تو وہ ہمیشہ گھر کے گیٹ کے باہر ہوتی یہ وجہ تھی جو راشیل اُسے اندر آنے سے منع نہ کرسکتی تھی۔ وہ روزانہ ہی دوسروں کی کمائی سے ناشتا اور لنچ اُڑاتی اور پھر چار بجے جب گھر واپس جاتی تو بے چاری ماں یہ سمجھتی کہ بیٹی پڑھ کر آئی ہے۔ دانیہ کی چند ماہ کی دوستی نے راشیل کو دنیا کے بارے میں اتنا کچھ سمجھا دیا تھا جو وہ اپنی اٹھارہ سالہ زندگی میں نہ جان پائی تھی۔ اُسے حیرت ہوتی کس طرح اولاد اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو جلتے ہوئے کوئلوں کی بھٹی میں گرا دیتی ہے خاص طور پر دانیہ جیسی لڑکیاں جو صرف تفریح کی خاطر اپنی عزت اتنی بے مول کردیتی ہیں کہ کوئی بھی راہ چلتا لفنگا اس سے فائدہ اُٹھائے۔
٭…٭…٭
’’ناراض ہو؟‘‘
بہت دن کی خاموشی کے بعد تنگ آکر حور عین نے خود ہی اُسے میسج کیا حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ ناراض ہوا تو جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کرے گا مگر خلاف توقع اگلے ہی سیکنڈ اس کے فون کی اسکرین جگمگا اُٹھی جہاں سعدی کا نام لکھا دیکھ کر مانو اس کا سیروں خون بڑھ گیا جلدی جلدی میسج کھولا۔
’’ تمہیں آج میں کیسے یاد آگیا؟‘‘
جانے شکوہ تھا یا طنز، وہ سمجھ نہ سکی ویسے بھی الفاظ تاثرات نہیں بتا پاتے اُس کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ سعدی کا جواب آگیا۔
’’میں تمہیں کبھی بھولتی ہی نہیں۔‘‘
جلدی جلدی ٹائپ کرکے بھیج دیا اگلے ہی پل سعدی کی کال آگئی اور جیسے حورعین کا مردہ دل کھِل اُٹھا۔
’’کل تم کتنے بجے فارغ ہوگی؟‘‘
تین بجے۔‘‘وہ جلدی سے بول اُٹھی۔
’’ٹھیک ہے میں تمہیں پک کرلوں گا، ہم اکٹھے لنچ کریں گے تم گھر پر بتا کر جانا واپسی پہمیں تمہیں خود ڈراپ کردوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
سعدی سے ملنے کی خوشی نے اُسے ساری رات سونے نہ دیا۔ کل جانے کتنے دنوں بعد وہ سعدی کے ساتھ لنچ کرنے جانے والی تھی اور اس کے لیے یہ خوشی شاید دنیا کی سب سے بڑی خوشی تھی۔
٭…٭…٭
’’ہائے۔‘‘
انجان نام سے آنے والا یہ پیغام یقینا کسی لڑکی کا تھا، مقیت جواب دیے بنا اُس کی پروفائل میں جاپہنچا جہاں کوئی خاص پرائیویسی نہیں تھی۔ اُس نے پروفائل کھولی ہی تھی کہ ایک پیغام اور آگیا۔
’’ آپ بہت ہینڈسم ہیں۔‘‘
مقیت نے جلدی جلدی چیک کیا اُس کی فرینڈ لسٹ میں موجود راشیل کا نام اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ انجان لڑکی اُس کی دوست ہے شاید دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتی تھیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ راشیل کی ہم عمر ہی تھی یعنی سترہ، اٹھارہ سال پروفائل پر درج نام دیکھ کر اُس کے ہونٹ مسکرا اُٹھے۔
’’راج کماری دیا تم کہاں کی راج کماری ہو؟‘‘
راشیل کی دوست ہونے کے ناطے وہ لڑکی اُسے ایک بچی سی محسوس ہوئی اس لیے وہ مسکراتے ہوئے اُس سے بات کر بیٹھا جو شاید اُس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کیوں کہ تمام ہم عمر لڑکیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور یہ بات اس لمحہ مقیت فراموش کر بیٹھا تھا۔
’’ آپ کے دل کی، اگر آپ چاہیں تو۔‘‘
جواب کے ساتھ بہت سارے دل بنے ہوئے آگئے جنہیں دیکھتے ہی اُس کا ماتھا ٹھنکا۔
’’تم راشیل کی دوست ہو؟‘‘
جواب کے بجائے اُس کی فرینڈ لسٹ آگئی۔ مقیت کا ارادہ اُس سے مزید بات کرنے کا نہ تھا اسی لیے اس نے اپنی آئی ڈی بند کردی، دل ہی دل میں اُسے خاصا غصہ آیا، راشیل جانے کس ٹائپ کی لڑکیوں سے دوستی کرلیتی ہے۔ شام کو پوچھتا ہوں یہ لڑکی کون ہے؟ مگر وہ اتنا مصروف ہوا کہ پھوپھو کے گھر ہی نہ جاسکا اور نہ راشیل سے یہ پوچھنا ہی یاد رہا کہ یہ راج کماری دیا کون ہے؟
٭…٭…٭
ویسے تو اس کی کلاس پورے تین بجے ختم ہوجاتی تھی مگر آج جانے کیوں سربخاری کا موڈ بہت خراب تھا بلاوجہ ہی بگڑے ہوئے تھے اور اب تو پچھلے پندرہ منٹ سے کرسی ٹیڑھی کرکے ساری کلاس سے ناراض بیٹھے تھے۔ ان کی اس حرکت کو دیکھتے ہوئے حورعین مسلسل بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی کیوںکہ جانتی تھی کہ باہر یقینا سعدی آچکا ہوگا بلکہ وہ اس کے فون پر کئی میسج بھی کرچکا تھا جنہیں وہ بخاری صاحب کے خوف سے پڑھ نہیں رہی تھی کیوں کہ کلاس میں موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی آج تو ویسے بھی سرخاصے غصّے میں تھے ایسے میں اگر وہ اس کے فون کی ہلکی سے روشنی بھی دیکھ لیتے تو ضرور اس پر جرمانہ لگا دیتے جس میں اس کا مزید ٹائم ضائع ہوتا۔ حورعین نے گھڑی میں ٹائم دیکھا سوا تین ہوچکے تھے جب بخاری صاحب نے پھولے ہوئے منہ کے ساتھ اپنا حاضری رجسٹر اُٹھایا اور کلاس سے باہر نکل گئے انہیں جاتا دیکھ کر حورعین کے منہ سے ایک گہری سانس خارج ہوئی اور وہ اپنا بیگ اُٹھائے تیزی سے کلاس سے باہر لپکی۔ بھاگ کر کاریڈور عبور کیا۔ مین گیٹ تک پہنچی تو سامنے نظر آنے والے منظر کو دیکھتے ہی مانو اس کے تنِ مردہ میں جان پڑ گئی گیٹ کے بالکل سامنے سعدی کی گاڑی موجود تھی اس سے قبل کہ وہ گیٹ سے باہر نکلتی پیچھے سے آتی مقیت کی آواز نے اس کے بڑھتے قدم روک دیے۔
’’حورعین… حورعین‘‘
حورعین نے پلٹ کر دیکھا، وہ اُسے پکارتا گیٹ کی جانب ہی آرہا تھا مجبوراً حورعین کو رُکنا پڑا۔
’’ارے یار تم عجیب بے تکی لڑکی ہو اپنا کیلکولیٹر کلاس میں چھوڑ آئیں، حد ہے تمہاری بیپروائی کی۔‘‘
ہانپتیہوئے مقیت نے ہاتھ میں پکڑا کیلکولیٹر اس کی جانب بڑھایا جسے دیکھتے ہی حورعین کھِل اُٹھی کیوں کہ یہ اُس کو ابھی دو دن پہلے ہی بابا نے بھیجا تھا۔
’’اوہ تھینک یو سو مچ مقیت تم بہت اچھے ہو۔‘‘
اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حورعین نے کیلکولیٹر تھام کر بیگ میں رکھا اور جلدی سے گیٹ سے باہر نکل کر جیسے ہی سامنے نظر دوڑائی وہ جگہ خالی تھی جہاں کچھ دیر قبل سعدی اپنی گاڑی سمیت موجود تھا۔’’یہ کہاں گیا؟‘‘
حیرت سے حور عین نے یہاں وہاں نظر دوڑائی ۔ سڑک خالی پڑی تھی اس کا کھلا دل یک دم مرجھا گیا اسی پل اس کے موبائل پر ہونے والی بیپ نے اُسے کسی میسج کی آمد کی اطلاع دی۔ حورعین نے دیکھا میسج سعدی کا تھا اُس نے جلدی سے کھولا۔’’ میں ایک گھنٹہ سے باہر دھوپ میں کھڑا ہوں اور تم مقیت کے ساتھ کھڑی ٹھٹھے لگا رہی تھیں۔ کلاس میں ٹائم نہیں ملتا ان فضولیات کے لیے۔ مرو اب اُسی کے ساتھ میں جارہا ہوں۔‘‘ میسج تھا یا آگ کا شعلہ، اس کا دماغ جیسے بھک سے اُڑ گیا۔ کوئی شخص اتنا شکی اور بے اعتبار بھی ہوسکتا ہے اور اس پر ایسی زبان، یہ کسی پڑھے لکھے شخص کا میسج نہ لگ رہا تھا۔ غصہ کی شدت نے اُس سے سوچنے سمجھے کی صلاحیت چھین لی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا، مقیت پارکنگ کی جانب جارہا تھا وہ تیزی سے اُس کے پیچھے بھاگی۔
’’مقیت… ایک منٹ رکو۔‘‘
اس کی آواز سُن کر مقیت نے پلٹ کر دیکھا۔
’’مجھے گھر ڈراپ کردو گے؟‘‘
مقیت کو لگا جیسے اُس کی آنکھیں گیلی ہیں، شاید وہ رو رہی تھی جس کا اندازہ اُس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر بہ خوبی لگایا جاسکتا تھا مگر وہ کچھ بولا نہیں کیوں کہ وہ جانتا تھا اس وقت اُس سے کچھ پوچھنا بے کار ہے وہ کچھ نہیں بتائے گی۔’’ کیا سوچ رہے ہو؟ گاڑی ہے نا تمہارے پاس؟‘‘
اُسے سوچوں میں گم دیکھ کر حورعین نے ایک بار پھر پوچھا۔
’’ہاں ہاں آجاؤ یار چھوڑ دوں گا۔ اس میں بھلا پوچھنے والی کیا بات ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے مجھے لنچ بھی کرنا ہے اس لیے بہتر ہے ہم پہلے کسی اچھے کیفے چلیں۔‘‘
حورعین ایک دم ہلکی پھلکی ہوگئی ایسے جیسے کچھ دیر قبل کچھ ہوا ہی نہ تھا اور جب مقیت نے لنچ کے بعد تقریباً پانچ بجے اُسے گھر چھوڑا تو سعدی کی گاڑی گھر کے گیٹ کے عین سامنے کھڑی دیکھ کر اُسے بالکل بھی پریشانی نہ ہوئی کیوں کہ اب وہ اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت خود میں پیدا کرچکی تھی یاشاید اُس کی بے اعتباری نے حورعین کے دل کے اندر انتقام جیسے جذبے کو ہوا دے دی تھی۔
٭…٭…٭