استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 8

لئے طبقاتی فرق کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
میری بہن نے فون پرپوچھا کہ آپا لاہور سے کیا لے کرآئوں۔ میں نے جواب دیا کہ ابو کی وردی والی تصویر سے آنا۔ بہن سن کر آبدیدہ ہوگئی مگر اس نے اپنا وعدہ وفا کیا۔ ہم گوجرانوالہ چلے گئے۔ گھر سیٹ کیا، لائونج کی دیوار پر ابو کی تصویر لگائی ۔ یہ بھلا کب سوچا تھا کہ ابو اک یاد بن جائیںگے۔
پھرایک دن ہمیں اطلاع ملی کہ میرے میاںعزیز دوست کیپٹن سلمان سرور پشاور میں شہید ہوگئے ہیں۔ ان کا جنازہ لاہور میں تھا۔





ہم فوراً لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔ سلمان بھائی میرے میاں کے قریبی دوست اور میرے بھائیوں کی طرح تھے۔ اس بار ہم آئے تو لاہور بھی سوگوار لگا۔ گھر میں ابو نہیں تھے مگر ہر جگہ ان کی یادیں تھیں۔ اس حقیقت کو قبول کرنے میں ہمیں بہت وقت لگا، اتنا کہ ہمارے اپنے بالوں میں سفیدی اتر آئی۔ وقت کی گردشیں صدمے اور دکھ کی کیفیت کو کم تو نہیں کرتیں مگر وقت کے ساتھ انسان صبر کرنا سیکھ لیتاہے۔
پھر ایسا ہوا کہ ہم لاہور آگئے۔
دل کو تسلی ملی کہ اپنے شہر لوٹ آئے ہیں۔ طویل مسافتوں کے بعد اپنے شہر آئے تو ہر چیز بدل چکی تھی مگر لاہور وہی تھا۔
لاہور نے ہمیں حوصلہ دیا، ہمارے غم بانٹ لئے۔ دل یہیں رہتا تھا، یہیں لوٹ آیا۔
اے لاہور! تیرے عشق نے ہمیں ہر شہر میں خوار کیا۔
یونہی سوچتے ہوئے ہم ماضی سے حال میں لوٹ آئے۔
جہاز لاہور ائیر پورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا۔
کھڑکی کے پاس بیٹھی بچی خوشی سے بولی۔
امی لاہور آگیا۔
امی لاہور آگیا۔
جہاز میں اک ہلچل سی مچ گئی۔





طویل سفر کے بعد لوگ جہاز سے اترنے کے لئے بے تاب تھے۔
میں نے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو دیکھا۔ اب اس کا رنگ سبز تھا۔ میں چونکی اور حیران ہوئی۔ رنگ بدلتے پتھر والی انگوٹھی حیرت انگیز تھی۔
علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر جہاز نے لینڈنگ کی۔
سب مسافر خوش تھے۔ ہم نے اپنا ہینڈ کیری اٹھایا اور طویل مسافت کے بعد لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا تو دل کا عجب عالم تھا۔
سکون، اطمینان، خوشی کے وہ جذبات ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر جذبے کو کاغذپر لکھ کر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہم تھکے ہوئے تھے مگر خوش تھے۔ اپنے وطن میں قدم رکھنے کی خوشی انہونی ہوتی ہے۔
شام کا وقت تھا۔ وہ شام یہیں بے حد خوبصورت محسوس ہوئی۔ ہم نے امیگریشن کروائی اور سامان لیا۔ گھر والے لینے آئے ہوئے تھے۔
اتنے دنوں بعد گھر والوں سے مل کر دل باغ باغ ہوگیا، ہم نے بچوں کوپیار کیا گھر آئے تو گھر میں سارا خاندان جمع تھا۔بچوں نے فوراً ہی بیگ کھول کر اپنے تحفے نکال لئے۔
گھر میں اک جشن کاسماں تھا۔
اتنے دنوں بعد گھر والوں کے ساتھ بیٹھے تو ساری تھکن دور ہوگئی۔
واپس گھر آکر ہم خوش بھی تھے مگر دل میں ترکی کی یادوں کا عکس بھی تازہ تھا۔ یہ سفر ہماری زندگی کا خوبصورت اور اہم سفر تھا جس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ہم نے اک نئے دیس اور نئے کلچر کو قریب سے دیکھا تھا۔
ترکوں کی محبت نے ہمیں گرویدہ کرلیا تھا کہ محبت چاہے افراد میں ہو یا اقوام میں اپنا گہرا اثر رکھتی ہے۔
ہم اپنے کمرے میں چلے آئے اور آرام سے بیٹھ گئے۔ انسان خواہ کہیں بھی چلا جائے، اپنے شہر اپنے گھر کی یاد اسے اپنا اسیر رکھتی ہے۔
دل کی ڈائری میں ترکی کی یادیں نقش ہیں۔ استنبول کی رونقیں ، عالی شان توپ کاپی محل، توپ کاپی محل میں موجود تبرکات ، نیلا سمندر ، اسقلال اسٹریٹ کی گہما گہمی، مولانا رومی کا مزار ، پاموکلے کا سفید قلعہ ، انقرہ کا بازار، کپاڈوکیہ کے پراسرار غار، نمک کی جھیل اور جدہ ائیرپورٹ ، کتنی دیر تک ہم گھر والوں اور دوستو ں کو ترکی کے قصے سناتے رہے۔
آج بھی جب کبھی ترکی کی بات ہوتی ہے ہم ترکی کے سفرکے قصے سناتے ہوئے ان کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔
٭…٭…٭





Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 7

Read Next

دیارِ خلیل – فرحین خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!