ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

بارہ جون بروزجمعرات (2013ء)
رات کے دس بج چکے تھے جب سیٹھ کریم کی گاڑی گھر میں داخل ہو کر سیدھی پورچ میں جا کے رک گئی۔ پورچ سے باہر آتے ہی ان کی نظر گراؤنڈ فلور پر بنے ہوئے وسیع و عریض لاؤنج میں صوفے پر نیم دراز رانی پر پڑی جو ہاتھ میں ریموٹ پکڑے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔ یہ منظر روٹین سے ہٹ کر تھا۔ وہ کبھی اپنے کمرے سے نیچے نہیں آتی تھی اور لاؤنج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ‘تو ناممکن سی بات لگتی تھی۔ سیٹھ کریم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ ہشاش بشاش موڈ میں لاؤنج میں داخل ہوئے ۔چہرے پر خوشگوار حیرت کو رانی نے بھی محسوس کر لیا تھا‘ مگر بغیر کچھ کہے ٹی وی دیکھنے میں مگن رہی ۔سیٹھ کریم چند لمحوں تک اسے ٹی وی دیکھتا ہوا تکتے رہے۔ وہ اسی طرح نیم دراز ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی رہی ۔
’’ہائے کوئین … میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔ لگتا ہے آج ہماری پرانی رانی لوٹ آئی ہے جو لاؤنج میں اسی طرح بیٹھ کر بسورتی رہتی تھی۔‘‘
وہ صوفے پر اس کے قریب بیٹھ کر ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے بولے تھے ۔
’’مگر میں تو نہیں بسور رہی پاپا۔ ٹی وی دیکھ رہی ہوں ۔‘‘
رانی نے ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔
’’ہاں یہ تو ہے۔اب آپ بڑی جو ہو گئی ہیں۔بسورنا تو آپ کو ویسے بھی نہیں چاہیے ۔‘‘
ہلکے پھلکے لہجے میں کہتے ہوئے انہوں نے اکبر کو آواز دے کر پانی کے لیے کہا تھا۔
’’آپ کا لاسٹ سمیسٹر کب ختم ہو رہا ہے۔؟‘‘
’’ابھی دو ماہ ہیں پاپا۔‘‘ وہ اب چینل بدلنے لگی تھی ۔
’’بیٹا آپ کی ماما کا فون آیا تھا۔ آج دن میں … آپ ان سے بات کیوں نہیں کرتیں ؟ ‘‘
’’دل نہیں چاہتا پاپا۔‘‘چینل تیزی سے بدلتے جا رہے تھے
’’یہ کیا بات ہوئی بیٹا… وہ آپ کی ماما ہیں ۔‘‘
سیٹھ کریم اس کے ایسے انداز سے ہمیشہ خائف رہتے تھے۔ وہ ذرا سا لحاظ کیے بغیر بے لچک انداز میں بات کرتی تھی تو وہ لاجواب ہونے لگتے تھے ۔
’’وہ آپ سے کوئی ضروری بات بھی کرنا چاہتی ہیں ۔‘‘
’’میرے ساتھ کون سی ضروری بات کرنی ہو گی ان کو پاپا ۔‘‘
اس نے چینل بدلنا ابھی تک ترک نہیں کیا تھا۔





’’یہ آپ انہی سے پوچھ لیجیے گا۔ ان کا فون آیا تھا میرے پاس سو میں نے آپ کو بتا دیا ۔‘‘
سیٹھ کریم نے سائیڈ پر رکھا ہوا بریف کیس اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیے ۔ اس سے زیادہ ضبط کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔
رانی نے انہیں اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا اور دوبارہ ٹی وی دیکھنے میں مگن ہو گئی تھی ۔تھوڑی دیر تک چینل بدلتے رہنے کے بعد اس نے ریموٹ صوفے پر پھینکا اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے چھت پر اپنے من پسند کونے میں جا کھڑی ہوئی ۔
پیپل کے درخت کے نیچے بنے ہوئے ہوٹل کے باہر خالی بنچ اور کرسیاں پڑی تھیں۔ اس نے غور سے دیکھتے ہوئے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی جس کے ہاتھ کی بنی ہوئی بدمزہ چائے پی کر ابھی تک اس کا جی متلا رہا تھا،مگر وہاں خالی بنچ اور کرسیاں بھی دھندلی دکھائی دیتی تھیں ۔
’’کل تو اس وقت آ گیا تھا ۔‘‘
اس نے خود کلامی کی۔یہ خود کلامی اسے چونکانے کے لیے کافی تھی جو اس کااحتساب کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔
’’کل تو دل دکھا ہوا تھا اس کا ،پتا ہی نہیں چلا ہو گا کہ کہاں جا رہا ہے کیوں جا رہا ہے ؟ آج وہ ہوش میں ہے ۔کیوں آئے گا اس طرف؟‘‘
’’کیوں کہ آج اسے میں نے بلایا ہے ۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا ہو گا۔‘‘
’’تم اپنے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش فہم ہوتی جا رہی ہو ۔‘‘
’’اور تم ضرورت سے زیادہ تلخ ۔‘‘
تلخ نہیں میں سچ کو مانتی ہوں اور سچ یہ ہے کہ تم اپنے ساتھ کھیل رہی ہو۔ ایک ایسا کھیل جو تم خود کو ہرا کر کھیلو گی اور ہار جاؤ گی ۔
’’کہا نا …ہار گئی تو مر جاؤں گی … تم بھی آزاد … میں بھی ۔
’’مرنا چاہتی ہو۔ ‘‘
’’نہیں … اس کے سنگ جینا چاہتی ہوں جو رات بھر میرے لیے اس بنچ پر بیٹھا رہا تھا۔‘‘
اس نے اپنی عدالت میں دلائل دیتے ہوئے خود سے کہا اور سامنے باڑھ کے ساتھ پارک کے اندر سیمنٹ کے بنے ہوئے خالی بنچ کی طرف دیکھا۔
’’وہ تمہارے لیے بیٹھا تھا…یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو ؟‘‘
’’کیوں کہ وہ رات بھر مجھے ہی دیکھتا رہا تھا۔‘‘
’’وہ تمہیں پاگل سمجھتا ہو گا۔‘‘
’’میں ہو ں ہی پاگل۔ ‘‘
’’تم زبردستی اس کی زندگی میں گھسے چلی جا رہی ہو ۔تم خود کو ارزاں کر رہی ہو۔ ‘‘
’’میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی ۔‘‘
دور نکڑ پر بنے ہوئے چھپر کے باہر اب ایک چھوٹا سابچہ اور ایک لمبے قد والا لڑکا بنچ اور کرسیاں اٹھا کر چھپر کے اندر رکھ رہے تھے ۔
’’اس میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟‘‘
اسے خود سے ایک اور چبھتا ہوا سوال ملا۔
’’کیوں کے وہ دوسروں کی طرح پاپا کی تعریفیں نہیں کرتا ۔مجھے حسرت سے نہیں دیکھتا ،بس حیرت سے دیکھتا ہے ،جو منہ میں آ جائے بول دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات ‘میں دو بار اس کے پاس گئی۔ اس نے دونوں بار مجھے لڑکی سمجھ کر مجھ سے بات نہیں کی ،اس کی آواز میں لوچ نہیں اُتری۔ پہلی بار لڑتا رہا اور دوسری بار کسٹمرکی طرح میری عزت کرتا رہا ۔ ایک دن مجھ سے پیار بھی کرے گا۔ ڈھیر سارا پیار ۔‘‘
اس نے بچوں کی طرح دونوں بانہیں پھیلا کر خود کو یقین دلایا تھا۔
’’پیار ۔۔۔پیار ۔۔۔پیار۔ تم کب جان پاؤ گی رانیہ کریم خان کہ تم سے کوئی پیار کرنے والا اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ تم سے تو تمہاری ماں بھی پیار نہیں کرتی۔ باپ تمہیں دو منٹ سے زیادہ برداشت نہیں کرتا اور یہ لڑکا … جو کل بارہ بجے اچانک تمہیں مل گیا۔ ایک نہ ایک دن یہ بھی بدل جائے گا۔ تمہیں استعمال کرے گا اور پھر بہانے بازیاں کر کے تم سے دور چلا جائے گا …دیکھنا تم ۔‘‘
’’تم سدا کی بد گمان ہو…مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔مجھے بس یہاں کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرنا ہے جو کل رات سے جاگا ہوا آج پھر میرے لیے جاگے گا،مجھے یہاں دیکھنے کے لیے ساری ساری رات اس بنچ پر بیٹھا رہے گااور جب میں نظر نہیں آؤں گی تو بے چین ہو جائے گا‘تڑپے گا اور جیسے ہی میں اس کے سامنے جاؤں گی ۔مجھے اپنی بے قراریاں سنائے گا‘اپنی بے اختیاریاں بتائے گا۔تب میں بھی اسے بتاؤں گی کہ میں اس کے انتظار میں اس سے زیادہ تڑپی ہوں ۔اس سے زیادہ مچلی ہوں۔‘‘
ہوٹل بند ہو چکا تھا۔اس کی نظریں بار بار بھٹک رہی تھیں ‘مگر ابھی تک اس طرف سے کوئی بھی آتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
’’وہ نہیں آئے گا ۔ تمہاری طرح پاگل نہیں ہے وہ ۔اسے اپنی اوقات کا پتا ہے۔‘‘
’’اوقات پتا ہو گی ‘تو ضرور آئے گا۔‘‘
اس نے ہٹ دھرمی سے اس کی بات کو رد کیا جو وقت بے وقت اسے آئینہ دکھاتی رہتی تھی ۔
گیارہ بجے پھر بارہ بھی بج گئے‘ مگر نکڑ سے ابھی تک کوئی پیدل چلنے والا دکھائی نہیں دیا تھا۔ راستہ سنسان پڑا تھا۔مہران اسٹریٹ پر بھی ٹریفک اب اِکا دُکا گاڑیوں تک رہ گیا تھا۔وہ اپنی جگہ پہ جم کے کھڑی تھی ۔
’’وہ اب تک سوچکا ہو گا ۔تم بھی جا کر سو جاؤ۔ ‘‘
’’نہیں …میں اس سے ملے بغیر نہیں سو سکتی ۔‘‘
’’کب تک کھڑی رہو گی ؟‘‘
’’جب تک وہ آ نہیں جاتا۔‘‘
’’وہ نہیں آئے گا۔‘‘
’’تو میں چلی جاؤں گی۔ ‘‘
’’کیا؟…تم اس وقت اس کے پاس جاؤ گی ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں جا گرو گی ؟ کیا عزت رہ جائے گی اس کی نظر میں تمہاری ۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘
بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے ۔
’’سچ کو تسلیم کر لو اور اسے بھول جاؤ … اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔‘‘
’’مجھے اپنی بھلائی عزیز نہیں۔ ‘‘
’’اور عزت؟‘‘
وہ خاموش ہو گئی تھی ۔
’’عزت سے بڑی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ اپنی عزت کی خاطر ہی اسے بھولنے کی کوشش کرو ۔‘‘
’’نہیں کر سکتی۔ میں نے پہلی بار کسی کی طرف قدم بڑھایا ہے ۔پیچھے نہیں ہٹ سکتی ۔‘‘
وہ بار بار سر جھٹک رہی تھی۔پاؤں پٹخ رہی تھی۔آنسو بہا رہی تھی۔ راستہ ویسے کا ویسا سنسان پڑا تھا ۔ایک بجنے کو تھا اوراُمید مرنے لگی تھی‘ مگر وہ اسے مرنے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ بڑی مشکلوں سے پہلی بار اپنے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئی تھی‘ اب ہارنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے الٹے ہاتھ سے آنسو صاف کیے ۔
’’میں ساری رات یہاں کھڑی رہوں گی ۔جب تک تم نظر نہیں آؤ گے یہاں سے نہیں ہلوں گی۔‘‘
اس نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کر کے اپنے مصمم ارادے بتائے تھے ۔
رات سرکتی جا رہی تھی اور اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی ۔کوئی ذرا سے فاصلے پر بلکتی ہوئی لڑکی سے انجان بے خبر سو رہا تھا۔ وہ کوئی …کوئی بھی ہو سکتا تھا۔
اس کا باپ۔ اس کے گھر کے نوکر۔
یا دور دراز سے آیا ہوا بانس کی طرح لمبا اور سانولا سا لڑکا جسے قسمت اس کے قریب لے آئی تھی۔
ماں تو اس کی پہنچ سے بہت دور تھی۔ اتنی دور جہاں اس کے رونے کی آواز قیامت تک بھی نہ پہنچ سکے ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!