ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

بارہ جون برو ز جمعرات(2013ء)
’’آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ پاپا نے غصے میں تھپڑ مار دیا۔ میں اس کے لیے آپ سے معافی مانگنے آئی ہوں۔‘‘
میں منہ کھولے ایک نیا تماشا دیکھ رہا تھا ۔ میں جب سے اس شہر میں داخل ہوا تھا ،میرے ساتھ سب کچھ عجیب اور ناقابل فہم ہو رہا تھا۔ کچھ بھی نارمل نہیں تھا۔ ایک چھوٹو کے علاوہ …پہلے گھر کی جگہ جھگی میں پہنچ گیا۔ پھر وہیں پر بیرا گیری کرنے لگا ۔ پھر بلاوجہ کا تھپڑ اور گالیاں کھا لیں اور اب رات کے بارہ بجے ایک انجان لڑکی جس کی شکل ابھی تک میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پایا تھا۔ مجھ سے اپنے ناکردہ گناہ کی معافی مانگ رہی تھی۔
صورت حال عجیب تر تھی۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا ‘اس کا دماغ ماؤف ہو جاتا ۔
وہ چند ساعتوں تک میرے جواب کا انتظار کرتی رہی۔ مگر میں کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھا۔
ایک باپ… جو چھوٹی سی بات پر آپے سے باہر ہو کر تشدد پر اتر آتا ہے۔گالیاں دیتا اور ناحق ذلیل کرتا ہے اور اس کی بیٹی رات کے بارہ بجے اچانک کہیں سے آٹپکتی ہے اور معافی تلافی کرنے لگتی ہے۔
میں بولتا بھی تو کیا بولتا۔خاموش کھڑا رہا ۔
’’کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا؟‘‘ یہ انداز میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ معافی تلافی کا…
جیسے کوئی ڈیوٹی سر انجام دی جا رہی ہو۔ کوئی بوجھ سر سے اُتارا جا رہا ہو۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔ ’’میراکام ختم ہو چکا ہے ۔کیامیں جاؤں؟‘‘
میں نے اندھیرے میں اس کے چہرے کے مبہم نقوش دیکھے اور صرف اتنا دیکھ سکا کہ وہ مجھے دیکھ رہی ہے ۔
’’آپ نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔‘‘ میں نے پست لہجے میں کہا۔
’’مگر پاپا نے کی ہے۔ میں اس وقت گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھی تھی۔ یہ ہمارا گھر ہے… کریم پیلس۔‘‘ اس نے ہاتھ سے کریم پیلس کے مین گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
’’وہ آپ سے معافی نہیں مانگیں گے ۔ وہ کسی سے معافی نہیں مانگتے ۔ اگر انہوں نے آپ کو یہاں بیٹھے دیکھ لیا‘ تو وہ آپ کویہاں کام بھی نہیں کرنے دیں گے ۔ آپ اُن کی غلطی معاف کر دیں ۔‘‘
وہ معافی مانگے جا رہی تھی مگر نہیں… وہ فرض نبھا رہی تھی۔بے تاثر لہجے میں ‘ جیسے یہ کام اس کی ذمے داری ہو اور اسے ہر حال میں کرنا ہو۔
’’آپ نے مجھے کیسے دیکھا؟‘‘ میں نے اچانک ذہن میں در آنے والا سوال پوچھا۔
’’وہاں سے…‘‘ وہ اپنے مخصوص مشینی انداز میں کہتے ہوئے مڑ کر ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی تین منزلہ کوٹھی کی چھت کا ایک کونہ دکھانے لگی۔
اس کے ہاتھ کی سیدھ میں دیکھتے ہوئے میں نے چھت کا وہ کونہ دیکھا جہاں سے وہ مجھے اس بنچ پر بیٹھا ہوا دیکھ سکتی تھی۔
’’میں پچھلے دو گھنٹے سے آپ کو دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اس نے مزید کہا تھا۔
میں نے دل ہی دل میں حساب کتا ب لگایا۔ اس کا مطلب تھا وہ مجھے اپنے گھر والے رستے پر چلتا ہوا ۔۔۔۔بلکہ چلنے کے ساتھ ساتھ دھاڑیں مار مار کر روتا ہوا بھی دیکھ چکی تھی۔ میں نے سر جھکا کر اندھیرے میں کالی نظر آنے والی سبزگھاس کو دیکھا۔
’’یہ محض ہمدردی میں آ گئی ہو گی۔ اتنی زور سے کسی کو روتا ہوا دیکھ کر تو کوئی بھی پسیج سکتا ہے۔پر اس لڑکی میں کچھ نہ کچھ عجیب بھی ہے۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا اور پھر سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
’’آپ جائیے ۔ اگر آپ کے پاپا نے آپ کو یہاں دیکھ لیا‘ تو وہ مجھے گولی مار دیں گے۔‘‘ جو شخص اپنی گاڑی کے بونٹ پر ایک گلاس پانی برداشت نہیں کر سکتا،وہ اپنی بیٹی کے ساتھ پانی پھینکنے والے چھپر ہوٹل کے بیرے کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ وہ بھی رات کے اس وقت … پارک میں۔ وہ کوئی سوال جواب کیے بغیر مجھ پر ایک عدد گولی ضائع کر سکتا تھا۔





پر وہ انجان اور عجیب لڑکی ابھی تک معافی پر اٹکی ہوئی تھی ’’آپ نے مجھے معاف کر دیا؟‘‘
’’آپ نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اس لیے آپ کو مجھ سے معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘
اور یہ صحیح بھی تھا۔
’’اوکے ۔ آپ نے پاپا کی غلطی کو معاف کر دیا؟‘‘
کمال مہارت تھی اسے صرف لفظوں کی حد تک رہنے کی ۔میں نے اتنے پتھریلے انداز میں کم ازکم کسی لڑکی کو اس سے پہلے بات کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ اس پر وقت اثر انداز ہو رہا تھا اور نہ ماحول ۔ وہ بے نیاز تھی کہ وہ انجان لڑکے کے پاس تنہا کھڑی ہے ۔ وہ بے خبر تھی کہ پارک کے پچھواڑے مین روڈ سے گزرنے والا ہر موٹر سائیکل سوار اِسے دیکھ کر کیا سوچ رہا ہے۔ وہ صرف ایک ہی بات پر مصر تھی۔ جیسے جو ٹھان کے آئی تھی اسے کر کے ہی جائے گی ،جیسے کوئی ضدی کر سکتا ہے یا پھر کوئی بہت مجبور ۔۔۔۔اور میرے خیال میں وہ مجبور بالکل بھی نہیں تھی۔
’’آپ کے پاپا کی غلطی کی معافی آپ پر فرض نہیں ہے ۔‘‘ مجھے اس پر کوئی رحم نہیں آیا تھا ۔
آ بھی کیسے سکتا تھا؟ میرے خیال میں مجھ سے زیادہ قابل رحم تو اس دن پورے شہر میں کوئی نہیں ہو گا۔ مگر اس کی ایک ہی جون اب مجھے حیرانگی سے زیادہ غصہ دلانے لگی تھی۔سمجھتی کیا تھی وہ ؟ کہ وہ چل کے میرے پاس آجائے گی اور میں اس کے اس احسان کے بدلے اس کے بد مزاج اور مغرور باپ کو معاف کر دوں گااور اس کا ممنون و مشکور ہو جاؤں گا ۔
’’وہ میرا اور پاپا کا معاملہ ہے ۔ آپ بس انہیں معاف کر دیجیے۔‘‘
بے تکے انداز میں بولتی ہوئی مجھ سے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑی لڑکی اب میرا امتحان لینے لگی تھی ۔
’’آپ کا اور آپ کے پاپا کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ میرا اور آپ کے پاپا کا معاملہ ہے ۔ آپ خواہ مخواہ بیچ میں آ رہی ہیں اور آخر آپ کو آنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ آپ کے امیر کبیر پاپا کے سامنے میری اوقات کسی بھیک منگے سے زیادہ نہیں ہے ۔ میں اگر آپ کے پاپا کو معاف نہیں بھی کروں گا‘ تو ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ نجانے اب تک میرے جیسے کتنوں کو تھپڑ مار چکے ہوں گے آپ کے گریٹ پاپا۔ آپ کیا سب کے پاس جا کر معافی نامہ لکھوالیتیں ہیں ان کے لیے؟ آپ کو اگر اپنے پاپا اتنے ہی پیارے ہے، تو ان کے ستائے ہوئے لوگوں سے زبردستی معافی وصولنے کے بجائے اپنے پاپا کو انسانیت کا سبق پڑھانے کی کوشش کیجیے۔ میں نے کون سا اتنا بڑا جرم کر دیا تھا کہ یوں درجنوں لوگوں کے بیچ آپ کے پاپا نے مجھے تھپڑ مار دیا اور صرف ہاتھ نہیں چلایا ۔ زبان بھی چلائی تھی انہوں نے۔ آپ اگر وہاں تھیں تو سنا بھی ہو گا آپ نے … میرے مرے ہوئے باپ کو گالیاں دی ہیں آپ کے اچھے پاپا… میرے ماں باپ نے آج تک کسی انسان کو تو کیا کبھی کسی جانور کو بھی گالی نہیں دی ۔ میں نے اپنے باپ کے مرتے دم تک ان کے منہ سے کسی کے لیے اتنے بے ہودہ الفاظ نہیں سنے جتنے آج آپ کے پاپا کے منہ سے اپنے لیے سنے ہیں۔ تھپڑ مارنا تو بہت دور کی بات ہے‘ میرے لیے یہ سب کچھ نیا ہے محترمہ۔
مگر آپ کے پاپا اور شاید آپ جیسے لوگ کبھی اس احساس کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔ میرے باپ نے مجھے آپ جیسی شاندار زندگی نہیں دی مگر وہ مجھے عزت نفس کے معنی سمجھا گیا ہے ۔ اسی لیے آج اذیت سے گزر رہا ہوں۔ آپ کیا جانیں عزت نفس مجروح ہو جائے‘ تو کیسا لگتا ہے؟ آپ کو بھرے بازار میں کبھی کسی نے تھپڑ مارا ہوتا ‘تو آج آپ یوں مجھے روتے دیکھ کر اپنے پاپا کے لیے معافی نامہ لکھوانے نہ آ جاتیں،آپ کبھی میرا سامنا ہی نہ کرتیں‘مگر آپ انجان ہیں اس کیفیت سے جس سے میں دوچار ہوں ۔ آپ نے سوچا ٹٹ پونجیا ہے ۔ تین لفظ منہ پر مار کر اپنے شاندار پاپا کے لیے معافی چھین کر لے آؤں گی۔ جائیے نہیں کرتا معاف آپ کے پاپا کو ۔ میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اسی لیے میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ میں پھٹ پڑا تھا۔
گزرے دن کی سب تلخیاں … جو ایک غبار کی شکل میں میرے اندر جمع ہو چکی تھیں۔ اب بھاپ بن کر باہر آرہی تھیں ۔
میں چلا اُٹھا۔ اس شہر میں آ کر پہلی بارکسی پر چلایا تھا۔
کس پر؟ جو مجھ سے بنا قصور کے معافی مانگنے آ گئی تھی۔
میں نے اس کے ساتھ لگ بھگ وہی کر ڈالا جو اس کے باپ نے میرے ساتھ کیا تھا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں دیکھنے اور سننے والے تھے۔ مگر یہاں کوئی نہیں تھا سوائے اس کے۔
اب صرف تھپڑ مارنے کی کسر رہ گئی تھی۔ بات کرتے کرتے میں ہانپنے لگ گیا تھا۔
میں نے پھر سے بنچ پر بیٹھ کر مجرموں کی طرح سر جھکا کر میری کڑوی کسیلی سننے والی انجان لڑکی کو دیکھا۔ وہ ابھی تک اس انتظار میں کھڑی تھی کہ شاید میں کچھ اور بولوں گا اور اسے اس طرح جھکے سر کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر مجھے بولنا ہی پڑا۔
’’دیکھیں محترمہ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میرے جیسے معمولی آدمی سے معافی مانگ کر اپنا بڑا پن دکھایا۔ مجھے آپ سے نہ پہلے کوئی شکایت تھی اور نہ اب ہے۔ آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ کر یہاں سے چلی جائیں کیونکہ اگر آپ نہ گئیں تو مجھے واپس اپنی کٹیا میں جانا پڑے گا جہاں ابھی دو تین گھنٹے تک جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔‘‘
میری بات کے جواب میں جو اس نے کیا۔ وہ میری توقع کے بالکل ہی برعکس تھا۔
وہ ہولے ہولے چار فٹ کا فاصلہ ختم کر کے میرے پاس بنچ پر آ بیٹھی۔ تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر ۔
اس کا چہرہ اور بھی واضح ہوا گیا۔ میں نے ایک طرف سمٹتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
اسے حسین کہا جا سکتا تھا‘مگر میں اس کی بات سننے کے بعد اسے نفسیاتی مریضہ سمجھنے لگا تھا۔
’’آپ نے درست کہا۔ عزت نفس مجروح ہو جائے‘ تو کیسا احساس ہوتا ہے‘ یہ میں نہیں جانتی۔ میں شام کو ٹھیک اسی وقت آپ کے ہوٹل پر آؤں گی جس وقت آپ کو میرے پاپا نے تھپڑ مارا تھا۔ آپ مجھے وہیں پر سب کے سامنے تھپڑ مار کر اپنا بدلہ اتار لینا‘مگر اس کے بعد آپ کو یہاں سے جانا ہو گا۔ اگر آپ کو پیسوں کا مسئلہ ہے تو میں دے سکتی ہوں ۔‘‘
واہ ! کیا پریکٹیکل حل نکالا تھا اس نے۔ میرا دماغ گھوم گیا ۔
’’آپ یہ سب کیوں کرنا چاہتی ہیں؟‘‘ میں نے حیرت سے اس خبطی لڑکی کو دیکھا۔
’’تا کہ آپ پاپا کو معاف کر دیں؟‘‘ وہی کمپیوٹرائزڈ آواز۔۔۔۔
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ تھپڑ کھانے کے بعد بھی آپ چاہیں گی کہ میں آپ کے پاپا کو باقاعدہ معاف کروں ؟ اس کی کیا ضرورت رہے گی تب؟‘‘
میں اسے سمجھنا چاہ رہا تھا اور جتنا چاہ رہا تھا۔پہلے سے کہیں زیادہ الجھ رہا تھا۔
’’ضرورت ہے۔ اسی لیے میں رات کو اس وقت آپ کے پاس آئی ہوں ۔ اسی لیے آپ کی ساری باتیں خاموشی سے سن رہی ہوں اور اسی لیے آپ کو بدلہ اُتار نے کا موقع دے رہی ہوں۔‘‘
’’آخر ایسی کون سی بات ہے جو آپ میرے منہ سے اپنے پاپا کے لیے معافی کا لفظ سننے کو اتنی بے چین ہیں؟‘‘ مجھے پکا یقین ہو چلا تھا کہ یہ لڑکی کھسکی ہوئی ہے ۔
اور جو اس نے اب کی بار کہا تھا۔ میرے لیے ایک شاک تھا۔
’’جس خود ترسی ،بے وقعتی اور بے بسی کے احساس کو آپ پچھلے چند گھنٹوں سے جھیل رہے ہیں۔ اسے میں پچھلے پندرہ سال سے پال رہی ہوں ۔ جانتی ہوں یہ احساس جب ہمارے ساتھ پلتا ہے، تو کیسا لگتا ہے۔ اسی لیے آپ کو اس کیفیت سے باہر نکالنا چاہتی ہوں جس کا شکار آپ انجانے میں میرے سامنے میرے پاپا کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ میںجتنا کر سکتی ہوں اتنا کر رہی ہوں ۔ شام کو آؤں گی ‘آگے آپ کی مرضی ۔‘‘
یہ الفاظ کسی خبطی لڑکی کے نہیں ہو سکتے اور کسی کھسکے ہوئے دماغ میں سوچ بن کر نہیں ابھر سکتے تھے۔ ہاں ‘مگر پتھر کی طرح بے حسی سے کہے جا سکتے تھے۔ جیسے اس نے کہے تھے۔
اور کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔ ایک جھٹکے سے اٹھی اور باڑھ کراس کرتے ہوئے کریم پیلس میں داخل ہو اور میں صُمٌ بُکْمٌ کی تصویر بنا اسے دیکھتا رہ گیا۔
٭…٭…٭
بارہ جون بروز جمعرات (2013ء)
وہ اسے حیرت زدہ چھوڑ کر واپس آگئی۔ وہ اس کی سوچ سے زیادہ حساس لڑکا ثابت ہوا، اسی لیے شدید ناراض تھا۔اپنا اندر کا سارا غبار نکال کر بھی وہ پرسکون نہیں ہو سکا تھا۔ شدید احساس کمتری کا شکا ر لگتا تھا۔جو کچھ بھی ہوا وہ اس کی توقع کے خلاف ہوا تھا۔ ایک بار اس کے باپ نے فاطمہ آنٹی کے بیٹے کو پیٹا تھا اور جب وہ تلافی کی نیت سے اس کے پاس گئی‘ تو اُلٹا وہ اس کے پاؤں پڑ گیا۔
’’چھوٹی بی بی جی… آپ کے تو وہ صرف باپ ہیں ‘مگر میرے مائی باپ ہیں ۔ وہ نہ ہوتے‘ تو میری ماں مجھے لے کر نجانے کہاں کہاں دھکے کھاتی۔ آپ یوں اس طرح کر کے مجھے میری نظروں میں شرمندہ مت کریں ۔ میں صاب جی سے ناراض نہیں ہوں۔ وہ اپنے ہیں ۔۔۔۔ماریں گے ضرور‘ مگر چھاؤں میں بھی ڈالیں گے؟‘‘
’’جو اپنا ہو گا۔ وہ مارے گا ہی کیوں ؟‘‘ دل ہی دل میں یہ سوچتے ہوئے خاموشی سے واپس آگئی تھی۔
کمال چاچا نے بھی اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’چھوٹی مالکن … وہ ہم پر خفا نہیں ہوں گے‘ تو کس پر ہوں گے؟ ہمارے اپنے صاب جی ہیں وہ ۔ آپ ہم سے معافی مانگ کر ہمیں غیروں میں شامل مت کریں۔ ہم جب بھی دروازہ لیٹ کھولیں گے‘ صاب جی کو پورا پورا حق ہے ہم پر ناراض ہونے کا۔‘‘
’’اپنوں سے ناراض ہونے والے گالیاں دے کر ذلیل نہیں کیا کرتے کمال چاچا۔‘‘ وہ کہنا چاہتی تھی ‘مگر اس کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس نے چھپر ہوٹل کے لڑکے کو بھی اکبر اور کمال چاچا کی طرح سمجھ لیا تھا۔ اس کے اندر کہیں یہ بات چھپی ہوئی تھی کہ اس کے پاپا کے خلاف بات کر کہ وہ اپنے لیے مشکل نہیں بڑھائے گا اور اکبر اور کمال چاچا کے جملوں سے ملے جلے الفاظ کہہ کر چپ ہو جائے گا‘مگر ایسا نہیں ہوا۔
’’کیا میں منافقت سے کام لے رہی تھی؟ اس نے خود سے سوال کیا ۔اپنی مخصوص جگہ پر کھڑے ہو کر۔
وہ اب تک بنچ پر ہی بیٹھا تھا اور اسی طرف دیکھ رہا تھا‘مگر اب وہ اس سے انجان تھی۔
’’نہیں تمہیں واقعی دکھ تھا۔‘‘ اسے خود سے جواب موصول ہوا تھا۔
’’تو مجھے اکبر اور کمال چاچا کی باتیں کیوں یاد آ رہی ہیں؟‘‘ ایک اور سوال۔۔۔۔۔
’’کیونکہ ان کے علاوہ تم آج تک کسی کے سامنے اپنے باپ کے گناہوں کو دھونے کے لیے پیش نہیں ہوئیں۔‘‘ وضاحت آچکی تھی۔
’’میں پاپا کی وجہ سے خود کو کیوں اس کے سامنے گرا رہی ہوں؟‘‘ اس بار اس کے اندر چھپا ہوا منصف کچھ نہیں بولا تھا۔
اس نے نظریں گھما کر بنچ کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی بیٹھا تھا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’اب تم وہی کرو گی جو اس سے کہہ کے آئی ہو۔‘‘
’’اور اگر اس نے وہی کر ڈالاجو پاپا نے کیا تھا ‘تب ؟‘‘
’’نہیں وہ ایسا نہیں کرے گا۔‘‘
’’تمہیں اتنا یقین کیونکر ہے ۔ وہ بہت رنجیدہ ہے۔ شدید غصے میں بھی ہے۔ تم نے دیکھا میرے بار بار معافی مانگنے پر بھی اس نے پاپا کو معاف نہیں کیا۔‘‘
’’تو تمہیں اب ڈر کس بات کا ہے؟‘‘ اس کے اندر چھپا ہوا انسان جھنجھلا اٹھا تھا۔
’’یہی کہ وہ تمہیں تھپڑ مار دے گا‘ تو مار دے ۔یہی تو طے کر کے آئی ہو تم اپنی مرضی سے ۔ اب لوگوں کے سامنے ذلیل ہونے سے ڈرتی ہو؟‘‘
’’نہیں میں اس بات سے تو نہیں ڈر رہی۔‘‘ اس نے نفی میں سرہلایا۔
’’تو پھر کس بات کا خوف ہے تمہیں؟‘‘
وہ سوچنے لگی تھی۔ واقعی مجھے کس بات کا خوف ہے ؟ تاروں سے بھرا آسمان دیکھتے ہوئے اس نے تھک ہار کر کہا۔
’’پتا نہیں؟‘‘
’’سوچو۔۔۔۔‘‘ اس کے اندر کوئی زور دے کر بولا…
’’شاید مجھے فرق مٹ جانے کا خوف ہے۔‘‘ کچھ پل تک سوچنے کے بعد اس نے با آواز بلند کہا تھا۔
آسمان کو دیکھتے ہوئے‘جیسے اپنی بات تاروں تک پہنچانا چاہ رہی ہو۔ مگر اس کی بات خود اس تک پہنچی تو جیسے کوئی گھسیٹتا ہوا ایک بار پھر کٹہرے میں لے آیا تھا۔سوالات کا ڈھیر لیے ۔۔۔۔۔
’’تم ہوش میں ہو؟ اس کے اور تمہارے پاپا کے درمیان کا فرق تو ویسے بھی نہیں مٹ سکتا ۔ تم کون سے فرق کو قائم رکھنا چاہتی ہو رانیہ کریم خان ؟‘‘
آسمان پر دور کہیں ستاروں کی طرح دکھنے والا ایک سیارہ چلتے ہوئے بالکل ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بھی ان انگنت ستاروں میں سے کوئی ایک ہو ‘مگر وہ ان سے الگ تھا۔ ان کے جتنا اونچا نہیں تھا۔چمکدار اور روشن بھی نہیں تھا۔پر وہ چل سکتا تھا‘ستارے اور سیارے میں یہی تو سب سے بڑا فرق ہوتا ہے۔سیارہ چل سکتا ہے اور ستارہ نہیں چلتا۔
’’کن سوچوں میں گم ہو‘ جو پوچھا ہے اس کا جواب دو ۔‘‘
اسے کٹہرے میں لا کر سوالوں کی بوچھاڑ کرنے والی ہستی اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔
’’ظرف کا فرق۔‘‘
بہت سوچ سوچ کر اس نے خود کو جواب دیاتھا۔
’’پاپا نے اسے بنا کسی قصور کے تھپڑ مارا ‘ ذلیل کیا۔یہ پاپا کا ظرف ہے۔ اس نے مجھے بنا کسی قصور کے تھپڑ مارا اور ذلیل کیا ‘۔تو اس میں اور پاپا میں کیا فرق رہا؟ اسے لگا اس نے بہت اعلیٰ جواب دیا تھا‘مگر یہ جو اس کی سوچ کی لہروں میں چھپی ہوئی مخلوق تھی۔ نئے نئے سوالات ڈھونڈ کر پریشان کرنا بہت پسند تھا اسے۔
’’اوہ !ظرف کا فرق …تو تمہیں یہ خوف ہے کہ اس کا ظرف بھی تمہارے باپ کے جیسا نہ نکلے ‘کیوں…کیوں ؟‘‘
بہت چبا چبا کر بولی تھی اس سے حساب کتاب کرنے والی ۔
’’کیوں کہ وہ پہلا انسان ہے جس نے میرے سامنے میرے پاپا کو غلط کہا ہے۔‘‘ وہ اس نہج پر سوچتے ہوئے خود پر حیران ہو رہی تھی ۔
’’تو اس میں کیا انوکھی بات ہے؟ تمہارے باپ کے سامنے اسے غلط تو نہیں کہا نا اس نے اور کبھی کہے گا بھی نہیں ۔۔۔۔اور تم یہ کیوں چاہ رہی ہو کہ کوئی تمہارے باپ کو غلط کہے ؟‘‘
سوال ہی سوال تھے۔۔۔۔۔ ’’وہ جتنا غصے میں تھا۔ اگر پاپا ہوتے‘ تو ان سے بھی کہہ ڈالتا۔ اسے دھچکا لگا ہے‘ تو اس نے وہی کیا جو انسان کو کرنا چاہیے ۔ وہ کمال چاچا کی طرح گالیاں کھا کر بھی سر جھکانے والوں میں سے نہیں ہے ۔وہ اکبر کی طرح انہیں اپنا مائی باپ نہیں مان رہا اور نہ ہی میری طرح پوری دنیا سے روٹھ کر اپنی ذات کی سسکتی ہوئی کوٹھڑی میں دبک کر بیٹھ گیا ہے ۔ اس نے برملا کہا ہے کہ وہ کبھی انہیں معاف نہیں کرے گا۔‘‘ وہ آج پہلی بار اپنی عدالت میں ہار ماننے کو تیار نہیں تھی ۔
’’تو۔۔۔۔؟ مان لیا وہ غصے میں ہے۔ وہی کر رہا ہے جو کرنا چاہیے۔ رو رہا ہے ،خود سے لڑ رہا ہے ۔ تمہارے باپ کو غلط کہہ رہا ہے اور اسے معاف کرنے کو ہرگز تیار نہیں، تو کیا ہوا؟ تم اسے اتنا اسپیشل کیوں بنا رہی ہو؟ کیوں کہ وہ تمہارے باپ سے نفرت کرنے لگا ہے یا اس نے تمہاری معافی تلافی کو ٹھکرا دیا ہے؟ اور اب تم یہ بھی چاہتی ہو کہ کل وہ تمہیں کچھ کہے بغیر تمہارے پاپا کو معاف کر دے اور ان سے بلند ظرف رہے۔ کیوں؟ اس کا بلند ظرف تمہارے لیے کیوں ضروری ہے؟ تم تو پاپا کا گناہ دھونے اور اسے بہلانے گئیں تھیں اور اب اسے دعوت تذلیل بھی دے آئی ہو تاکہ وہ اس کیفیت سے باہر نکلے جس کا تم شکار ہو‘ اوہ ! تم یہ کیوں چاہتی ہو کہ وہ اس کیفیت سے نکل آئے؟ وہ ایسا محسوس نہ کرے جیسا تم کرتی ہو؟ کیوں۔ تمہارا باپ تمہیں یوں ہی ڈاکٹرز کے پاس نہیں لے کر جا رہا۔ تمہیں سچ مچ ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ تم اپنے حواس کھو چکی ہو۔ اپنے اس باپ پر ایک معمولی لڑکے کو فوقیت دے رہی ہو جس نے تمہیں شہزادیوں جیسی زندگی دے رکھی ہے۔‘‘
سوالات کی بارش تھی۔ اب تو اس کے اندر چھپی ہوئی نامعلوم ہستی اسے پاگل بھی قرار دے چکی تھی۔
’’میں تمہارے سب سوالوں کے جواب اس آنے والی شام کے گزر جانے کے بعد دوں گی۔‘‘
اس نے اندر سے اٹھتی آوازوں کو دبا نا چاہا۔
’’تم غلط کرنے جا رہی ہو رانیہ کریم خان۔‘‘
سوال کرنے والا اب اسے وارننگ دے رہا تھا ۔۔۔۔تنبیہ کر رہا تھا۔‘‘
’’مگر پہلے تو تم نے کہا تھا کہ مجھے جانا چاہیے اور تمہیں یقین تھا کہ وہ مجھے کچھ بھی نہیں کہے گا۔ میرا خوف بے بنیاد لگ رہا تھا تمہیں۔‘‘
اس نے جیسے خود کو یاد دلایا تھا۔
’’ہاں کہا تھا… کیوں کہ مجھے لگا تم اپنے باپ کے لیے اس کے پاس جا رہی ہو ‘مگر نہیں ۔تم اس کے لیے اس کے پاس جا رہی ہو۔ تم غلط راستے پرچل پڑی ہو ۔ اس پر صرف ترس کھاؤ ۔۔۔۔اسے راستہ مت بناؤ ۔‘‘
دل کے نہاں خانوں میں چھپا اس کا خیر خواہ اسے بار بار سمجھا رہا تھایا ڈرا رہا تھا۔
’’میں تھک چکی ہوں ترس کھاتے کھاتے ۔ بچپن سے آج تک ترس ہی کھا رہی ہوں۔تنگ آ گئی ہوں میں تم سے لڑتے لڑتے اور تمہارے آگے جھکتے جھکتے۔ آج زندگی میں پہلی بار میں اپنی تنہائی کو شدت سے محسوس کر رہی ہوں۔ کیا ہو جائے گا اگر وہ تمہارے معیار پر پورا نہ اترا تو ۔ وہ بس میرے معیار پر پورا اُتر جائے۔ میں اپنی تنہائی اس سے بانٹ لوں گی ۔ میں اپنے خول کو توڑ ڈالوں گی جس میں پچھلے پندرہ سال سے تم نے مجھے قید کر رکھا ہے ۔ وہ چیخ پڑی تھی۔
’’تم تو بہت بے نیاز ہوا کرتیں تھیں ؟ بہت الگ رکھتی تھیں خود کو دنیا سے ۔ تم تو اپنی سالگرہ تک نہیں مناتیں ۔ اپنی ماں سے بات نہیں کرتیں ۔باپ کے کمرے میں نہیں جاتیں اور آج صرف پانچ منٹ میں ہی ڈھیر ہو گئیں ۔ اتنا ہار گئیں ؟ اتنا کہ اسے خود سے اور اپنے باپ سے جتوا دینا چاہتی ہو۔ تم ایسی تو نہیں تھیں ؟ یہ کیا ہو گیا تمہیں ؟ واپس آجاؤ۔ تمہارا باپ زندگی بھر اسے زمین پر رینگنے والے کیڑے سے زیادہ اہمیت زندگی بھر نہیں دے گا اور تم چلی ہو اس سے اپنی تنہائیاں بانٹنے ۔ تم اس کے کندھے پہرپاؤں رکھ کے اپنے باپ کو نیچا دکھانا چاہتی ہو ؟سیٹھ کریم خان کو ہرانے چلی ہو؟ اور اگر اس کا کندھا کمزور نکلا تب؟ دھڑام سے منہ کے بل گرو گی تم اور تب شاید مجھے بھی منہ دکھانے لائق نہیں رہوگی ۔باز آ جاؤ ۔۔۔۔۔رک جاؤ ۔۔۔۔۔تم کنویں میں بیٹھے ہوئے مینڈک سے یہ توقع کر رہی ہو کہ وہ تمہاری زندگی میں روشنیاں بھر دے ۔ تم بہت پچھتاؤ گی رانیہ کریم خان ۔۔۔۔بہت ۔‘‘
سوچ کی لہروں سے بنا ہوا ان دیکھا وجود اسے شدت سے روک رہا تھا ۔باز آجانے کو کہہ رہا تھا ‘مگر آج وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔
’’وہ اگر سچ مچ کم زور نکلا…
تو میں مر جاؤں گی اور میری تم سے اور اس دنیا سے جان ہی چھوٹ جائے گی۔‘‘
’’تمہیں انتظار کرنا چاہیے۔‘‘
اس کے اندر چھپا ہوا وجود اب پست ہونے لگا تھا۔جیسے ہارنے لگا ہو۔
’’کس کا انتظار ؟پاپا جیسے ہی کسی انسان کے ہونہاربیٹے کا انتظار جس کی پراپرٹی میرے جتنی ہوجس کا گھر میرے جیسا ہو ۔ جیسے وہ ہمدانی کا چپکو بیٹا؟ کیا وہ یا اس جیسا کوئی اور ساری زندگی سمجھ پائے گا مجھے ؟ یا وہ بھی پاپا کی طرح آدھی رات کو گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے ’’ہائے کوئین‘‘ کہہ کر غائب ہو جائے گا اور سمجھے گا اس نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ مجھے ایسے کسی اپنے کا انتظار نہیں کرنا جس کے پاس میرے لیے اپنا پن نہ ہو۔‘‘ اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔
’’تو کیا وہ تمہیں سمجھ پائے گا جو نکڑ پر بنے ہوئے چھپر ہوٹل کا ملازم ہے ؟ جس کا اتا پتا تم نہیں جانتیں جس سے زیادہ اچھی حالت میں تمہارے گھر کے نوکر ہیں۔ تمہیں تو اس کا نام بھی معلوم نہیں ہے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں دھتکار دے۔ پانچ منٹ میں ایسا کیا جادو کر دیا اس نے کہ تم اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھی ہو؟‘‘
اس کے خیر خواہ نے ایک آخری کوشش کی تھی ۔پھر سے اسے راہ راست پرلانے کی ۔
دور کہیں سے اذان کی آواز آنے لگی تھی۔ اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔
’’میں جانتی ہوں وہ ستارہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ سیارہ ہو یا پھرٹوٹنے والا وہ تارا ہو جو صرف تھوڑی دیر کے لیے ہوا کو چیر کر چمک اٹھتا اور پھر ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا ہے‘ تو کیا ہوا؟ ختم تو آسمان پر سجے ہوئے ستارے بھی ہو جاتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ میں وہ تارا چنوں جسے پوری رات دیکھنا نصیب ہو۔ میں تو وہ ہوا بن جانا چاہتی ہوں جو تھوڑی دیر کے لیے کسی ٹوٹے ہوئے تارے کو چمکا دے۔ مجھے کسی ستارے کی آغوش میں بیٹھ کر پوری رات نہیں دیکھنی۔ مجھے صرف ٹوٹے ہوئے تارے کی تھوڑی دیر کی وہ چمک دیکھنی ہے جو صرف ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘
اس نے نظروں کا زاویہ بدل کے دیکھا۔ وہ ابھی تک وہیں بیٹھا تھا اور اندھیرے میں لپٹے اس کے وجود کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس نے تاحد نظر پھیلے ہوئے آسمان کو دیکھا ۔ رات کے آخری پہر ستارے اپنی سجاوٹ سے نرالی چھب دکھلا رہے تھے ۔
اچانک ایک ٹوٹا ہوا تارا تھوڑی دیر کے لیے چمکا۔ تیزی سے زمین کی طرف آتا ہوا۔ شہاب ثاقب جس نے ایک پل کے لیے سب ستاروں کی چمک چھین لی اور دوسرے پل ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا تھا۔ رانی نے یہ منظر دلچسپی سے دیکھا تھا اور زندگی میں پہلی بار وہ کھل کر مسکرا اُٹھی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!