ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

تین جنوری بروز منگل (2013ء)
کراچی دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک شہر، جسے انسانوں کا جنگل کہنا قطعاً غلط نہ ہو گا اور انسانوں کا یہ جنگل ہر طرح کے انسانوں سے بھرا ہوا ہے ۔ یہاں قانون بھی جنگل کا چلتا ہے۔ کم زور کو بھنبھوڑ لیا جاتا ہے، طاقت ور کے پأؤں چاٹے جاتے ہیں یا دُم دبا کے بھاگ لیا جاتا ہے۔ یہاں شہنشاہ بھی رہتے ہیں اور ان کے محلوں کے پچھواڑے فقیروں کی جھگیاں بھی نظر آتی ہیں۔ مگر یہ شہنشاہ ان جھگیوں سے بے نیاز ہی رہتے ہیں۔
ایسے ہی ایک بے نیاز شہنشاہ کے تین منزلہ محل کو آج دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔
مین روڈ پر چلتی ہوئی گاڑیوں میں بیٹھے ڈرائیور ز دور ہی سے محل کی چمک دمک دیکھ کر گنگ ہو رہے تھے۔ رات کے دامن میں جانے کب سے تاروں نے پناہ لے لی تھی۔ شہر کی روشنیاں دیکھ کر آسمان بھی اپنی سجاوٹ پر جزبز ہورہا تھا مگر اس پل مہران اسٹریٹ سے گزرنے والی ہر گاڑی میں بیٹھے اور پیدل چلنے والے شہر کی روشنیوں کو بھول کر نیلی چھتری کی تاروں بھری سجاوٹ نظر انداز کر کے بس اسی بے نیاز شہنشاہ کے محل کی چمک دمک میں کھو سے گئے تھے۔
یہ محل آج یونہی نہیں سجایا گیا تھا بلکہ اس محل میں شہنشاہ اپنی اکلوتی بیٹی جو شہزادیوں سے زیادہ آن بان رکھتی تھی، کے ساتھ رہتا تھا اور اسی شہزادی کی زندگی کے انیس سال پورے ہونے میں بس چند منٹ رہ گئے تھے۔
یہ عالی شان جشن شہزادی کی انیسویں سالگرہ منانے کے لیے تھا۔
یہ روشنیاں، یہ رنگ، اور یہ سنگار… رانی کی زندگی کی انیس بہاریں پوری ہو جانے کے لیے ہوا تھا۔
رانی… شہر کے مشہور بزنس مین سیٹھ کریم کی واحد اولاد تھی۔ اس کا پورا نام رانیہ کریم خان تھا پر اسے صرف رانی ہی پکارا جاتا تھا اور اس پر یہ نام سوٹ بھی کرتا تھا۔
وہ رانیوں سے بڑھ کر تھی۔ صورت بھی رانیوں جیسی۔ اسے نصیب بھی رانیوں جیسا۔
پر یہ رانی بہت عجیب تھی ۔ صورت اور نصیب کی بلندیوں سے بے نیاز…یا بے خبر۔ دنیا کے رسم و رواج سے انجان۔ نہ مغرور۔ نہ مشکور۔ مگر وہ ناشکری بھی نہیں لگتی تھی۔ خاموش رہتی تھی۔ الگ تھلگ…
جیسے اسے اس دنیا سے اور اس کی رنگینیوں سے کوئی مطلب نہ ہو ۔
دنیا اسے اپنی طرف کھینچ نہیں پاتی تھی۔ مگر دنیا اس کے پیچھے کھنچی چلی آتی تھی۔
اس کے باپ کے امیر کبیر دوستوں کی بگڑی ہوئی اولادیں جن کی صبح ناز نخروں سے شروع ہوتی اور رات موج مستی میں ختم ہوتی تھی۔ مگر رانی کو دیکھتے ہی ان کے نخرے جانے کہاں چلے جاتے تھے؟
وہ اسے دیکھتے ہی بھول جاتے تھے۔ اپنی اوقات … اپنا معیار۔ مگر رانی کو پروانہ تھی۔ جیسے آج بھی نہ تھی۔
محل کے لان میں رونقیں اس وقت اپنے عروج پر تھیں۔ سیٹھ کریم کے سارے دوست احباب اور خاندان کے لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ ہنسیاں پھوٹ رہی تھیں، قہقہے لگ رہے تھے مگر ان قہقہوں میں چھپی ہوئی غرض کی بدبو بآسانی محسوس کی جا سکتی تھی۔ آج بڑا دن تھا۔ بڑا موقع۔ ہر کوئی سیٹھ کریم سے اپنے بیٹوں کا تعارف کروا رہا تھا۔
’’ان سے ملیے سیٹھ صاحب! ہمارے صاحب زادے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکا سے اپنی تعلیم مکمل کر کے آئے ہیں۔ بھئی میں نے تو صاف کہہ دیا ہے ان سے، بزنس اپنی مرضی کا شروع کر لو مگر… شادی تو تمہاری میں اپنی مرضی ہی سے کروں گا۔‘‘ ہمدانی صاحب نے بے وجہ قہقہہ لگایا اور پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر بولے:
’’بھئی اپنی رانی نہیں نظر آ رہی… ان سے ملوا دیں صاحب زادے کو۔‘‘ سیٹھ کریم نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔ وہ جانتے تھے اس وقت سب نظریں ایک ہی وجود کو تلاش کررہی ہیں۔





بارہ بجنے میں وقت بہت کم بچا تھا مگر رانی کا کہیں کچھ پتا نہیں تھا۔ اُن کا بلڈ پریشر حسب معمول بڑھنے لگا تھا۔
ان کی کلاس میں ایک دوسرے کے معاملات میں گھسنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ وہاں ہر کوئی چوبیس گھنٹے اپنی مرضی سے جی سکتا تھا اور ان کے گھر میں تھے ہی کتنے لوگ…؟ اک وہ اور دوسری رانی ۔
رانی چار سال کی تھی جب اس کی ماں نے اس کے باپ سے طلاق لے کر کینیڈا شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ اس کے باپ کی خالہ زاد تھی اور بزنس میں بھی برابر کی حصے دار۔کینیڈا میں بزنس ٹرپ کے دوران اسے کوئی اور پسند آگیا۔ واپس آکر اس نے سیٹھ کریم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ سیٹھ کریم کی اپنی دل چسپیاں تھیں۔ اسے چھے سال پرانی بیوی اور چار سالہ بچی کی ماں سے کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی۔ نتیجہ وہی نکلا جو اس طرح کی صورتِ حال میں نکلتا ہے ۔ طلاق کے پیپرز پر سائن کرتے وقت دونوں کے دل میں کہیں بھی چار سال کی رانی نہیں تھی۔ اس کے باپ کو اس کی پرورش کے لیے ایک ماں کی ضرورت کی فکر سے زیادہ اپنی سرگرمیوں سے دل چسپی تھی اور اس کی ماں کو اس سے زیادہ اپنے کینیڈین محبوب کی فکر… بچی کو باپ کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی اس کی ماں کا تھا۔ وہ چار سالہ رانی کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے کینیڈا چلی گئی اور پچھلے پندرہ سال میں رانی کے لیے شاید پندرہ فون آئے ہوں گے اس کے۔
رانی کے باپ نے اُس کی پرورش کے لیے وہی کیا جو اس جیسی سوچ رکھنے والا کوئی بھی کروڑ پتی باپ کر سکتا ہے۔ اس نے اسے نوکروں کی فوج کے حوالے کر دیا۔ رانی کو اُٹھانے کے لیے الگ،سلانے کے لیے الگ ،نہلانے کے لیے الگ اور کھلانے پلانے کے لیے الگ الگ نوکر نوکرانیاں رکھ دیں مگر رانی پھر بھی سنبھالے نہ سنبھلتی۔ وہ باپ کو دیکھتے ہی چیخ کر اس کی طرف دوڑ پڑتی، ماں سے ملنے کے لیے مچل جاتی مگر وہ بے نیازی سے اسے گھر کے کسی بھی نوکر کے حوالے کر کے اپنے کمرے میں گھس جاتا اور پھر اگلے دن گھر سے نکلتے ہوئے ہی نظر آتا۔ رانی رات رات بھر نوکروں کے جھرمٹ میں گھری کبھی ماں کے لیے تڑپتی اور کبھی پوری پوری رات جاگ کر باپ کے لوٹنے کا انتظار کرتی مگر اس کا باپ اکثر رات بھر باہر ہی رہتا اور اگر کبھی واپس آ بھی جائے تو صرف ایک ’’ہائے کوئین ‘‘ کے علاوہ اس سے کوئی بات نہ کرتا اور رانی ترستی ہی رہ جاتی۔
وقت کے ساتھ ساتھ رانی کی تڑپ تبدیل ہو کر ایک خاموشی کا روپ دھار گئی اس نے خاموشی اور بے نیازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔
نو سال کی عمر سے اس نے اپنی ماں اور باپ کا انتظار کرنا چھوڑ رکھا تھا۔ اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ماں کا فون کتنے ماہ بعد آیا اور باپ نے اسے کتنے ہفتوں بعد اپنی صورت دکھائی۔ وہ اپنی عمر کے بچوں کو ماں اور باپ کے بیچ ان دونوں کی انگلی تھام کر چلتے دیکھتی تو جیسے اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا طوفان امڈ آتا۔ اس کے اندر ماں اور باپ کے پیار کو ترسی بچی دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی مگر اس تڑپ کو اس نے خاموشی کے لبادے میں اوڑھ لیا تھا۔ وہ اپنی زندگی کی کسی بھی اسٹیج پر نارمل نہیں رہ سکی۔ اسکول، کالج اور اب یونیورسٹی میں بھی اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ایک کروڑ پتی باپ کی اکلوتی بیٹی کے اس رویے کو ہر کوئی اس کا غرور سمجھتا تھا،مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس خاموشی کے پیچھے وہ کمپلیکس چھپا ہوا ہے جس نے اسے اس دنیا سے اور اس کی ہر خوبصورت اور دلچسپ شے سے بے زار کر دیا تھا۔ وہ اپنے خول میں قید ہو کر رہ گئی تھی ۔کوئی نہیں تھا جسے وہ اپنے دل کی بات بتلا سکتی اور کوئی نہیں تھا جو پہلی نظر میں جان جاتا کہ وہ اندر سے کتنی ویران اور خالی ہے۔ اس کی خود سے اور رشتوں سے لا تعلقی کا پہلا نوٹس اس کے باپ نے تب لیا جب وہ چودہ سال کی تھی۔ وہ رات گئے گھر لوٹ کر اپنے کمرے میں گھسے اور حسبِ عادت ٹی وی آن کیا اور ٹی وی آن ہوتے ہی ایک خبر ان کی منتظر تھی ۔
’’میٹرک میں پورے کراچی سے ٹاپ کرنے والی رانیہ کریم خان کو وزیرِ تعلیم نے آج ان کے اسکول میں میڈل سے نوازا۔‘‘
اور ساتھ ہی متعلقہ ویڈیو چلائی گئی جس میں وزیرِ تعلیم اپنے ہاتھوں سے اس کی بیٹی کو میڈل دے رہے تھے۔
’’واؤ!‘‘ بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔
’’یہ تو بہت بڑی نیوز ہے ،سیلیبریٹ کرنا چاہیے۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ پھر ایک جھٹکے سے رک گئے۔
’’اس نے تو مجھے بتایا ہی نہیں کہ آج اس نے اتنی بڑی اچیومنٹ کی ہے؟‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچ کر تھوڑی دیر کے لیے رک سے گئے تھے، اگلے ہی لمحے ان کے قدم پھر سے رواں ہو گئے۔
رات بارہ بجے رانی کے دروازے پر ٹک ٹک کی آواز آئی۔ وہ جاگ رہی تھی‘ مگر اس آواز کی عادی نہیں تھی۔ پچھلے دس سالوں سے اسے جگانے کی ڈیوٹی فاطمہ نام کی ایک ملازمہ کی تھی جسے وہ فاطمہ آنٹی کہہ کر بلایا کرتی تھی۔
ایک بار باپ کے سامنے کہہ بیٹھی تھی تو وہ جو ہاتھ میں بریف کیس لیے اسے ’’ہائے کوئین‘‘ کہنے والے تھے، فوراً ایک غصے بھری نگاہ سے اسے گھور کر بولے۔
’’وہ آپ کی آنٹی نہیں ملازمہ ہے۔ آیندہ اسے آنٹی کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اوکے ؟‘‘
’’مگر پاپا… وہ مجھے بیٹا کہتی ہیں۔‘‘ حیران حیران سی وہ پاپا کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
’’اٹس اوکے! میں اُسے سمجھا دوں گا۔ آیندہ وہ آپ کو چھوٹی مالکن کہہ کر بلایا کرے گی۔‘‘ وہ اپنی بات پوری کر کے آگے بڑھ گئے اور رانی ناسمجھی میں انہیں پیچھے سے جاتا دیکھ رہی تھی۔
اس کے بعد وہ تو فاطمہ کو فاطمہ آنٹی ہی کہتی تھی‘ مگر فاطمہ کے لیے وہ چھوٹی مالکن بن چکی تھی۔ فاطمہ کے پاس اس کے کمرے کی چابی موجود تھی۔ وہ صبح اسے اٹھانے کے لیے دروازہ کھول کر اندر آجایا کرتی تھی۔
رانی کے کان ٹک ٹک کی آواز سے نامانوس تھے۔
آواز دوبارہ آئی۔ اس نے کمبل ہٹایا اور سر اُٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا۔
’’کون ہے ؟‘‘ اس کی آواز میں تعجب نمایاں تھا۔
اور باہر کھڑا اس کا باپ فرطِ حیرت میں ڈوبی اس آواز کو سن کر زندگی میں پہلی بار نروس ہوا تھا۔ اک لمحے کے لیے انہوں نے سوچا کہ واپس ہو لیں۔ ان کے قدم آہستہ سے پیچھے ہٹے اور وہ واپس پلٹ ہی چکے تھے۔ مگر دوسرے ہی لمحے انہیں رکنا پڑا۔ دروازہ کھل چکا تھا اور پھر حیرت سی حیرت لیے رانی کی آواز آئی۔
’’پاپا!‘‘ انہیں واپس پلٹنا پڑا۔
سامنے دروازے کے بیچوں بیچ ان کی اکلوتی بیٹی کھلے ہوئے بالوں اور سرخ آنکھیں لیے کھڑی تھی ۔
یہ سرخ آنکھیں اس کے رت جگوں کی غماز تھیں ۔ اسے نیند بہت کم آتی تھی۔ وہ جب بھی آنکھ بند کرتی تو اس کے دماغ کے پردے پر تصویریں بننے لگ جاتیں۔ ہنستے مسکراتے ہوئے بچوں کی تصویریں جو اپنے ماں باپ کے ساتھ کبھی پارک میں ٹہل رہے ہیں تو کبھی جھولا جھول رہے ہیں۔ کبھی پیرنٹس ڈے پر اپنے بچوں کی انگلی تھامے بڑے فخر سے ٹیچرز کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔ کبھی کوئی باپ اپنے بچے کو ہوا میں اُچھالتا ہے، تو کبھی کوئی ماں اپنی بچی کے پیچھے بچوں کی طرح بھاگ کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے بچوں کی وہ خوشی اور زندگی سے بھرپور قلقاریاں بھی سنائی دیتی تھیںجو دن میں اکثر وہ سنتی رہتی تھی۔ تب ہی سو نہیں پاتی تھی۔
سیٹھ کریم نے سالوں بعد غور سے اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا تھا جو اس وقت حیرت کے سمندر میں ڈوبی سرخ آنکھوں کے ساتھ منہ کھولے اپنے باپ کو تکے جا رہی تھی جیسے وہ اس کا باپ نہیں کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی کوئی مخلوق ہو۔
’’اہمم…‘‘ وہ ہاتھ کی مٹھی بنا کر کھنکارتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر جانے کیوں… انہیں الفاظ کے چناؤ میں بہت دقت پیش آ رہی تھی۔
’’ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا‘میں اتنا نروس کیوں ہوں؟‘‘ انہوں نے خود سے سوال کیا ۔
اور وہ جو حیرت کے اچانک اور شدید جھٹکے سے سنبھل چکی تھی۔ اب مجسم سوال بن کر ان کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔
’’وہ میں… اہمم! ابھی ابھی ٹی وی آن کیا تو … پتا چلا کہ آج ہماری کوئین کو میڈل ملا ہے؟‘‘ سیٹھ کریم کو خود اپنے شکایتی لہجے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔
’’تو…؟‘‘
بیٹی کے یک لفظی سوال نے انہیں اور بھی بوکھلا دیا تھا۔اس کے لہجے میں موجود حیرت ابھی تک ویسی کی ویسی تھی۔
’’تو یہ کہ آپ کو بتانا چاہیے تھا نا کہ آج آپ نے اتنی بڑی اچیومنٹ کی ہے تا کہ آپ کے پاپا آپ کے ساتھ مل کر اس خوشی کو آج ہی سیلیبریٹ کرتے ۔ چلو کوئی بات نہیں‘کل میں اپنے دوستوں کو انویٹیشن بھیج دوں گااور آپ بھی اپنے فرینڈز کو ود فیملی انوائٹ کر لینا پرسوں شام کی پارٹی کے لیے… ٹھیک ہے؟‘‘
نارمل اور ہلکا پھلکا انداز اپنا کر وہ خود کو نارمل کر رہے تھے، ورنہ بیٹی کے تاثرات دیکھ کر وہ اندر سے بری طرح متزلزل تھے۔ ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں پاپا۔‘‘ رانی نے سپاٹ لہجے میں کہا اور تیزی سے واپس کمرے میں گھس گئی۔ بند دروازہ ان کا منہ چڑا رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار انہیں بیٹی کی کسی حرکت پر غصہ آیا تھا کیوں کہ پہلی بار انہوں نے اس کے بارے میں کچھ سوچنے کی زحمت کی تھی۔
وہ دن باپ اور بیٹی کے درمیان سرد جنگ کا پہلا دن تھا۔
وہ نہیں جانتے تھے کہ اس سرد جنگ کا آغاز رانی برسوں پہلے ہی سے شروع کر چکی تھی ۔ انہوں نے پہلے کبھی نوٹ ہی نہیں کیا تھاکہ جب ان کی سالگرہ پر سب انہیں مبارکباد دے رہے ہوتے تھے ،تب رانی تیسری منزل کی چھت پر کھڑی مین روڈ پر چلتی ہوئی رواں دواں ٹریفک دیکھنے میں مصروف ہوتی تھی اور جب وہ بیمار پڑ کر کمرے میں بند ہو جاتے تھے تب ان کے ڈاکٹرز ،ان کے دوست اور گھر کے ملازم ان کے پاس آتے تھے ‘مگر رانی کبھی نہیں آتی تھی۔ رانی نے برسوں سے خود کو ان کی ہر خوشی غمی سے الگ کر لیا تھا۔ بس وہ ہی محسوس نہ کر سکے یا انہوں نے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی تھی۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ اب اپنی ماں کا چھے ماہ بعد آنے والا فون بھی کاٹ دیا کرتی تھی ۔
’’رانی کہاں رہ گئی کریم صاحب؟ مسز درانی کی آواز انہیں خیالوں کی دنیا سے واپس کھینچ لائی۔ ’’آں… ہاں وہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہی ہو گی ،میں لے کر آتا ہوں اسے۔‘‘ مگر وہ جانتے تھے کہ رانی کمرے میں نہیں تھی۔
وہ سست قدموں سے چلتے ہوئے چھت پر جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔
رانی چھت پر اپنے مخصوص کونے میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی محویت سے آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ رہی تھی۔ گھر میں جب بھی کوئی فنکشن ہوتا ،رانی یہاں آکر کھڑی ہو جاتی اور تب تک نہ لوٹتی تھی جب تک گھر میں ایک بھی مہمان باقی ہوتا۔ اس کی آدم بے زاری روزبہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ سیٹھ کریم نے ہر طریقہ اپنا لیا تھا مگر وہ اپنی روش تبدیل کرنے پر راضی ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے آج رات بارہ بجے اس کی سالگرہ منانے کا فیصلہ بھی اسی لیے کیا تھا تا کہ اس پارٹی کو اسپیشل بنا کر اسے لوگوں سے گھلنے ملنے کے لیے مجبور کیا جائے۔
ــ’’آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں …کیوں؟ سیٹھ کریم نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’میں نے منع کیا تھا آپ کو پاپا۔‘‘ اس کا یہ دو ٹوک اور روکھا لہجہ ہمیشہ ان کے ضبط کے بندھن توڑ دیتا تھا۔
’’آپ کوکچھ احساس بھی ہے نیچے لان مہمانوں سے بھرا ہوا ہے،سب آپ کاپوچھ رہے ہیں، بتاؤ میں انہیں جا کر کیا کہوں اب…؟ ان کا ضبط جواب دے چکا تھا۔
’’کیوں کر رہی ہو ایسا؟آج آپ کی سالگرہ ہے ۔ میں نے اپنے تمام دوستوں اور خاندان والوں کو مدعو کر رکھا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے گھر کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے کہ آج بارہ بجے آپ کیک کاٹو تو پورے شہر کو پتا چلے کہ آج میری کوئین کی سالگرہ ہے اور آپ یہاں کھڑے ہو کر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی ہو۔ آپ کے نزدیک ہم دونوں کی خوشی کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ اس بے ہنگم ٹریفک کو دیکھنا آپ کے لیے بہت ضروری ہے‘ آخر چاہتی کیا ہو رانی ؟‘‘ بات ختم ہونے تک ان کی آواز اچھی خاصی اونچی ہوگئی تھی۔ مگر اس اونچی آواز اور بپھرے ہوئے لہجے کا رانی پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا۔
’’میں نے کہا نا پاپا… میں نے منع کیا تھا آپ کو مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے اپنی سالگرہ سیلیبریٹ کرنے اور آپ کے اسپیشل گیسٹس سے ملنے… آپ نے خود ہی سب کچھ کیا ہے، اب کیک بھی خود ہی کاٹیے۔‘‘ اس نے ٹریفک سے نظریں ہٹائے بغیر بے نیازی سے کہا۔
سیٹھ کریم بے بسی سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے ان کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی وہ نہیں آئے گی۔
سیڑھیاں اترنے سے پہلے انہوں نے ایک بار مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ہنوز ٹریفک دیکھنے میں مگن تھی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!