ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

بارہ جون بروز جمعرات (2013ء)
شدید گرمی میں بار بار چائے بناتے اور برتن دھوتے ہوئے میں بالکل بھول ہی چکا تھا کہ آج شام میری ایک سر پھری لڑکی سے ملاقات متوقع ہے ۔ دن بھر بھانت بھانت کے لوگوں کے لیے چائے بنانا،مرتضیٰ کی کڑوی کسیلی سننا اور گندے برتن رگڑنا میرے لیے اتنا آسان نہیں تھا جتنا میں سمجھ رہا تھا۔
مجھے کسی چیز کا ہوش نہیں رہاتھا ۔پسینے میں شرابور قمیص میری کمر سے تقریباً چپک چکی تھی ۔ میں نے آئینہ نہیں دیکھا تھا‘ مگر مجھے پکا یقین تھا کہ میرا گندمی مائل سانولا رنگ اب گہرا سانولا ہو چکا ہو گا۔
لگ بھگ وہی پچھلے دن والی منحوس گھڑی ہو گی جب ایک بلیک کلر کی سیڈان چھپر ہوٹل کے کھلے ہوئے منہ کے عین سامنے کچے راستے پر آکر رکی تھی ۔
مرتضیٰ پھٹے پر نیم دراز کسی سے فون پر باتیں کرنے میں مصروف تھا۔
چھوٹو کو اس نے تھوڑی دیر پہلے کچھ سامان لانے مارکیٹ بھیجا تھااور میں اپنی ہی دھن میں مگن برتن رگڑے جا رہا تھا ۔
ہوٹل کے اندر اور باہر بچھی کرسیوں اور بنچوں پر درجن بھر لوگ چائے پینے میں مصروف تھے جب گاڑی کا ہارن بجا۔
میں نے چائے کے دھلے ہوئے کپ ترتیب سے رکھتے ہوئے سرسری نظروں سے گاڑی کو دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا جب گاڑی کا ہارن ایک بارپھر بج اٹھا۔
مرتضیٰ نے بات کرتے کرتے رک کر گاڑی کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف منہ کر کے آواز لگائی ۔
’’اوے بھاؤ پرویز ۔۔۔۔۔۔کار والے سے آرڈر لے کب کا ہارن بجا رہا ہے ۔‘‘
میں نے برتن وہیں چھوڑے اور قمیص کے دامن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے گاڑی کی طرف چل پڑا ۔ میں ابھی گاڑی سے چند فٹ دور ہی تھا جب گاڑی کا دروازہ کھلا اور سیاہ چشمہ آنکھوں پر سجائے ،کاٹن کا گلابی دوپٹا گلے میں ڈالے ،کمر تک آتے کھلے بالوں والی ددھیا رنگ لڑکی سادہ مگر دلکش سے دکھنے والے کپڑوں میں ملبوس گاڑی سے باہر نکلی ۔
مجھ سمیت وہاں بیٹھ کر چائے پیتے درجن بھر لوگوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
مرتضیٰ بات کرتے کرتے ایک بار پھر رُک گیا تھا اور راستے سے گزرنے والوں کے قدم سست پڑ چکے تھے۔ گھڑی بھر کے لیے وقت رُک سا گیا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان اب بھی چھے یا سات فٹ کا فاصلہ تھا۔
اس نے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے مجھے اشارہ کر کے اپنے قریب بلایا تھا۔
میں ٹرانس کی سی کیفیت میں کھینچتا ہوا اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ گاڑی کے ادھ کھلے دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ میرے قریب آتے ہی اس نے اپنا قیمتی سیاہ چشمہ اُتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔
تب میں نے اور میرے آس پاس بت بنے لوگوں نے اس کی بڑی بڑی کالی سیاہ آنکھوں کو دیکھا تھا ‘مگر ان آنکھوں پر پہرا دیتی لانبی پلکیں صرف میں ہی دیکھ سکتا تھا کیوں کہ اس وقت اس کے اتنا قریب صرف میں ہی تھا۔
’’میں آ گئی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر ہولے سے کہا تھا ۔
یہ آواز۔۔۔۔۔۔ مجھے گزری رات کے وہ پانچ منٹ جھٹ سے یاد آگئے تھے۔ میرا تنفس حد سے زیادہ تیز ہو چکا تھا۔ اس کی خوبصورتی کا معترف تو میں اس کے مبہم سراپے کو دیکھ کر ہی ہو گیا تھا۔ اتنی دلکش لڑکی ہو گی‘اس کا اندازہ مجھے ہرگز ہرگز نہیں تھا۔ میری حالت خراب ہونے لگی۔ اس لڑکی کو میں رات کھری کھری سنا کر آیا تھا۔ میں نے چشم تصور میں خود کو اور اسے ایک ساتھ کھڑے دیکھا تھا ۔
میں تو اس سے بات کرنے کے لائق بھی نہیں تھا۔کجا کہ اس کے منہ پر اس کے باپ کو برا بھلا کہنا۔
’’تم نے جو کرنا ہے کر سکتے ہو‘ بس پاپا کو معاف کر دو ۔‘‘
اس نے دھیمی آواز میں بہ غور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
ارد گرد کے تمام لوگ ہم دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے، کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ پسینے میں شرابور چھیر ہوٹل کے لڑکے کو بلیک سیڈان سے نکلنے والی دوشیزہ کیا کہہ رہی ہو گی ۔
’’آرڈر لے لیا ہے تو آ جا اب ۔کیا چائے کا بول رہی ہے میم صاب؟‘‘
مرتضیٰ نے بے صبری سے کہا تھا۔ اس کی آواز میں بے یقینی سی بے یقینی تھی۔ لڑکی کا کروفر بتا رہا تھا وہ ایسے ہوٹلوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی ہو گی۔
’’جی چاچا۔۔۔۔
چائے کا بول رہی ہیں میم صاب ۔‘‘





میں نے مڑ کر مرتضیٰ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اس کی طرف دیکھنے کے بہ جائے سر جھکا کر زمین پر دیکھتے ہوئے پست لہجے میں کہا تھا۔
’’چینی کتنی لیتی ہیں آپ ؟‘‘
’’جتنی تم لیتے ہو ۔‘‘
اس کے انداز رات کے مقابلے میں بدلے بدلے سے نظر آتے تھے پر میں اس کے انداز سے زیادہ اس کے طرزِ تخاطب پر حیران تھا۔
میں چپ چاپ واپس ہو لیااور چائے بنانی شروع کر دی ۔ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے، مجھے اب بھی یقین نہیں تھا، جو میں دیکھ رہا ہوں وہ سچ ہے یا نظر کا دھوکا؟
پانچ منٹ بعد چائے کا کپ ٹرے میں سجائے سر جھکائے میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔
اس نے کپ اُٹھایا اور میں نے واپسی کے لیے مُڑنا چاہا ۔
’’ایک منٹ …‘‘
اس کی نرم و ملائم آواز نے میرے پاؤں پکڑ لیے ۔
اُس نے وہیں کھڑے کھڑے چائے کی ایک چسکی لی۔ میں آس پاس کی تمام نظروں کو اس پر مرکوز پا کر نروس تھااور وہ ایسے کھڑی تھی جیسے اس کے اور میرے علاوہ یہاں سب اندھے ہوں۔
’’تم چائے اچھی نہیں بناتے ۔ان فیکٹ تمہیں چائے بنانا نہیں آتا۔‘‘
پہلی ہی چسکی لیتے اُس نے بے دھڑک بتا دیا۔
’’ایسے ہوٹلوں میں ایسی چائے ہی ملتی ہے۔‘‘ میں نے سرگوشی کی۔ اس سے زیادہ آواز ہمارے قریب بیٹھے ہوئے عادی چائے خور سن سکتے تھے۔
’’کیوں ؟ ایسے ہوٹلوں میں چائے دودھ اور چینی سے نہیں بنتی ؟‘‘
دوسری چسکی لیتے ہوئے اس نے جرح کی تھی ۔
’’میں نے آج سے پہلے کبھی چائے نہیں بنائی ۔‘‘
اس نے میری بات کے جواب میں کچھ کہنا چاہا تھا ‘مگر میں نے تیزی سے اسے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر کہا۔
’’میں کل والی بات بھول چکا ہوں ۔۔۔۔آپ بھی بھول جایئے ۔‘‘
کچھ کہنے کے لیے کُھلا ہوا اس کا منہ بند ہوا اور اس نے چائے کی تیسری چسکی لی۔
میں نے مڑنے کے لیے پر تولے جب اس نے اچانک مرتضیٰ کی طرف دیکھ کر اونچی آواز میں کہا۔
’’انکل آپ کے ہوٹل کی چائے زبردست ہے ۔ اب تو اکثر آنا پڑے گا۔‘‘
’’بوت مربانی میم صاب ‘آپ کا اپنا ہوٹل ہے ۔ جب دل کرے آؤ ۔۔۔۔۔میں تابعدار ہوں۔‘‘
مرتضیٰ صدقے واری ہونے لگا، میں نے مڑنے کے لیے قدم اُٹھایا جب اس نے اسی طرح اونچی آواز میں کہا تھا۔
’’ایک منٹ ‘خالی کپ لے کر جانا۔‘‘
میں نے پلٹ کر مرتضیٰ کی طرف دیکھا۔اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے وہیں جم کر کھڑا رہنے کو کہا تھا۔
’’معاف کرنے میں اور بھولنے میں فرق۔‘‘
’’جی میں نے معاف کیا ۔آپ جلدی سے کپ خالی کر کے جایئے یہاں سے ۔‘‘
میں نے دھیمے‘ مگر تیز لہجے میں اس کی بات کاٹ کر کہا تھا ۔میں اس سین کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس سے کچھ بعید نہیں تھا ،اگلے پل میں جانے کیا کر دے ۔
’’تمہاری جھوٹی تعریف کی میں نے ‘اس لیے معاف کیا نا۔‘‘
میں نے سر جھکایا ہوا تھا۔اس لیے دیکھ نہیں سکتا تھا‘ مگر مجھے یقین سا ہو چلا تھا کہ یہ بات اس نے مسکرا کر کہی تھی ۔
’’نہیں … اس لیے کہ کل رات آپ میرے پاس آئی تھیں۔ آپ ان کی بیٹی ہو کران کی غلطی مان سکتی ہیں‘ تو اس میں بھی ان ہی کا ہاتھ ہے۔ میں رات غصے میں جانے کیا کیا کہہ گیا۔ آپ وہ سب بھول جایئے گا۔‘‘
میں اس وقت اپنی جان چھڑانا چاہ رہا تھا ۔
مگر وہ پتا نہیں کیا سوچ کر آئی تھی۔ اسے دیکھ کر اور اس کی باتیں سُن کر میں اندر ہی اندر مشکوک سا ہو گیا۔
’’اللہ جانے وہی ہے یا کسی اور کو تفریح لینے بھیج دیا اس نے ۔ ان بڑے لوگوں کے ڈرامے بھی تو عجیب ہوتے ہیں ۔ رات کو معافی مانگنے آ گئی۔ شاید تفریح کے لیے اور اب کسی اور کو موقع فراہم کر رہی ہو گی ؟‘‘
’’میں نہیں بھول سکتی۔‘‘ اس نے اسی طرح مسکراتے لہجے میں کہا تھا۔
میں نے ہمت کر کے اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔کپ خالی تھا ‘مگر اس نے ایسے ہی پکڑ رکھا تھا جیسے ابھی تک اس میں چائے موجود ہو۔
’’کیا آپ بتا سکتی ہیں رات ہمارے درمیان کیا کیا باتیں ہوئیں تھیں؟‘‘
میں نے اسی طرح دھیمے مگر مشکوک لہجے میں کہا تھا۔
میری بات سن کر یک بارگی اس کی آنکھوں میں حیرانی تیرنے لگی ۔
’’آف کورس بتا سکتی ہوں ۔ میں نے تو وہ باتیں حفظ کی ہوئی ہیں اور میں یہ بھی بتا سکتی ہوں کہ تم سپیدی سحر تک مجھے تاڑتے رہے تھے۔ میں نے سوچ رکھا تھا پہلے تم جاؤ گے ۔پھر میں چھت سے نیچے اتروں گی‘ مگر تم نے مجھے ہرا دیا۔۔۔۔ مجھے ہی جانا پڑا۔‘‘
وہ بات ایسے کر رہی تھی جیسے ہم دونوں دیرینہ دوست ہوں ۔
میں پزل بھی ہو رہا تھا، حیران بھی تھا۔ مجھے اس صورتِ حال کا ایک ہی حل نظرآیا تھا… خاموشی۔
’’تمہاری آنکھیں کہتی ہیں تم لگاتار جاگ رہے ہو ،اور یہ ماتھے پہ چوٹ کیسے لگی ؟‘‘
’’گر گیا تھا۔‘‘ میں نے مختصراً کہا تھا۔
’’اوکے ‘تو پھر ملتے ہیں رات کو اسی بنچ پر ۔‘‘
اس نے چائے کا خالی کپ میرے ہاتھ میں پکڑایا اور واپس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ دروازہ ابھی تک کھلا تھا۔
’’جی …؟‘‘
میں نے اُلجھ کر اسے دیکھا تھا۔
اس نے سائیڈ والی سیٹ سے پرس اٹھایا بیس کا نوٹ نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے وہ مسکرائی تھی ۔
یہ پہلی بار تھا جب میں نے اس کی مسکراہٹ دیکھی تھی ۔آنکھوں سے ہونٹوں تک سفر کرتی مسکراہٹ۔
’’میں ٹپ نہیں دیتی ۔‘‘
اس نے کہا اور گاڑی کا دروازہ بند کرکے چشمہ آنکھوں پر لگا لیا ۔
میں ایک ہاتھ میں چائے کا خالی کپ اور دوسرے ہاتھ میں بیس کا نوٹ لیے ہکا بکا کھڑا اور کالے رنگ کی سیڈان کو مہران اسٹریٹ پر ٹریفک کے ہجوم میں مدغم ہوتا دیکھ رہا تھا۔
’’اوئے باؤ خوش کر دیا یار تو نے تو آج تک اس ہوٹل پر ایسی کوئی میم نہیں رکی حالاں کہ یہ ایریا ایسی میموں سے بھرا پڑا ہے ۔پر تو نے آتے ہی اپنے ہوٹل کی عزت بڑھا دی۔‘‘
مرتضیٰ میرے پاس آ کر میری پیٹھ ٹھونک رہا تھا۔
’’اچھا سچ بتا …کتنی ٹپ دے کر گئی؟‘‘
اس نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے پوچھا تھا۔
’’ٹپ نہیں دیتی وہ۔ ‘‘
میں نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہاتھا۔ میں ابھی تک ٹریفک کے ہجوم کو دیکھ رہا تھا ۔
’’کیا ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔اتنی مہنگی گاڑی لیے گھوم رہی تھی۔ چائے کی تعریف بھی کر رہی تھی‘ ٹپ تو لازماً دے گئی ہو گی ۔ اب تو نہ بتا تو مرضی تیری … میں نے کون سا چھین لینے تھے پیسے تجھ سے ۔‘‘
مرتضیٰ تیز لہجے میں کہتے ہوئے پیچھے ہٹ کے کھڑا ہو گیا۔ اس کے لہجے میں چھپی ناراضی دیکھ کر میں نے بیس کا نوٹ اس کے طرف بڑھایا۔
’’یہ دے کے گئی ہے چاچا۔پندرہ کی چائے ہے ۔ بیس دے کر چلی گئی۔پانچ روپے تم ہی رکھ لینا۔‘‘
میں نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔
’’زیادہ تیور نہیں دکھا مجھے۔ایک لڑکی نے تعریف کیا کر دی‘ سر پر چڑھنے لگ گیا تو ؟‘‘
مرتضیٰ اپنی پرانی جون میں واپس آچکا تھا۔
میں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا تھا۔ اس کی بڑبڑاہٹ اب ایک گھنٹے سے پہلے ختم نہیں ہونے والی تھی ۔
میں نے چائے کا خالی کپ ٹوٹی کے نیچے رکھا اور ٹوٹی کھولتے کھولتے بند کر دی۔کپ اٹھا کر ویسے ہی پکڑا جیسے تھوڑی دیر پہلے وہ پکڑ کے کھڑی تھی ۔
’’بھا جی میں دھو دوں ؟‘‘
مجھے چائے کے خالی کپ کو گھورتا پا کر چھوٹو میرے قریب آکر بولا۔
’’آں ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔میں دھو دیتا ہوں۔‘‘
میں نے چونک کر چھوٹو کو دیکھا ۔ وہ سامان لے کر واپس آ چکا تھا۔
اس بار ٹوٹی کھلی تو کپ دھلنے کے بعد ہی بند ہوئی ۔
کپ پہلے جیسا ہو گیا تھا۔ میں نے بے دلی سے اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیا۔
’’رات کے بارہ بجے پارک کے بنچ پر ملنے کا کیوں کہہ گئی ہے ؟‘‘
سوچتے سوچتے میرا دماغ دکھنے لگا تھا۔
’’بھاڑ میں جائے … میں نے کون سا جانا ہے ۔‘‘
جھنجلا کر سوچا تھا میں نے اور چائے کی کیتلی اُٹھا کر ٹوٹی کے نیچے پٹخی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!