ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

بارہ جون بروز جمعرات (2013ء)
میں پرویز گل۔ ایک مزدور کا بیٹا۔ جو گاؤں کے کچے مکان میں اپنی ماں کو تن تنہا چھوڑ کر شہر میں نوکری کی تلاش میں آیا تھا اور گزرے چند گھنٹوں کو بھلانے کے لیے وہ سب کچھ کر چکا تھا ۔۔۔جو میرے جیسے بے بس لوگ کرتے ہیں۔
مگر پھر نئے دن کی شروعات ہوتی ہے اور اس نئی تاریخ کے پہلے پانچ منٹ مجھے ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
اک لڑکی آتی ہے اور میرے چھلنی وجود کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتی ہے۔
میں اس سے لڑ پڑتا ہوں اور اسے وہ سب کچھ کہہ ڈالتا ہوں جو شاید میں اس شہر میں کسی کو کہہ نہ پاتا۔
مگر وہ میری روح کو مندمل کرنے کے لیے وہ کچھ کرنے کو تیار ہو جاتی ہے جسے کو ئی بھی ذی ہوش کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔
تو کیا وہ لڑکی سچ مچ پاگل تھی؟ میرے کانوں میں اب تک اس کے کہے ہوئے جملوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جو اس نے جاتے سمے کہے تھے ۔
’’جس خود ترسی ،بے وقعتی اور بے بسی کے احساس کو آپ پچھلے چند گھنٹوں سے جھیل رہے ہیں۔ اسے میں پچھلے پندرہ سال سے پال رہی ہوں ۔۔۔۔جانتی ہوں یہ احساس جب ہمارے ساتھ پلتا ہے تو کیسا لگتا ہے ۔ اسی لیے آپ کو اس کیفیت سے باہر نکالنا چاہتی ہوں جس کا شکار آپ انجانے میں میرے سامنے میرے پاپا کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ میںجتنا کر سکتی ہوں اتنا کر رہی ہوں۔ شام کو آؤں گی۔ آگے آپ کی مرضی ۔‘‘
اس کا دو ٹوک انداز بتاتا تھا اس نے جو کہا ہے وہ کرے گی مگر وہ کیسے خود ترسی میں مبتلا ہو سکتی تھی؟
کیوں کر بے وقعت ہو سکتی تھی ؟ اور زندگی کا کون سا موڑ تھا جس نے اسے پندرہ سال سے بے بس کر رکھا تھا؟ میرے پاس ان تمام سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
میں نے اس کے باپ کے آگے گھگیاتے ہوئے مرتضیٰ کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اس ایریا کا نامی گرامی اور اثرورسوخ والا آدمی ہے۔ ایسے آدمی کی بیٹی جو اتنے شاندار محل میں رہتی تھی۔ آخر کون سادکھ اپنے ساتھ پال رہی تھی ؟
ان سب باتوں کے جواب تو صرف اسی سے مل سکتے تھے ‘مگر وہ مجھے کیوں کر بتاتی؟ وہ تو صرف اپنے باپ کے رویے پر پشیمان تھی۔
مگر نہیں… کچھ نہ کچھ الگ تھا اس لڑکی میں۔ میں سوچ سوچ کر تھکنے لگا تھا‘مگر اس کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کر پا رہا تھا۔
اسے گئے دس منٹ ہوئے تھے۔ اور میں ان دس منٹ میں پچاس بار اس مخصوص کونے کو دیکھ چکا تھاجہاں سے اس نے مجھے دیکھا تھا۔
اور پھر مجھے اندھیرے میں ایک مدہم انسانی ہیولا نظر آ ہی گیا۔ یہ وہی ہو سکتی تھی ۔
’’پتا نہیں کیا سوچا ہو گا اس نے میرے بارے میں ۔۔۔۔کیسا لڑکا ہوں میں ؟ ۔۔۔۔۔۔وہ مجھ سے اپنے باپ کی غلطی کی معافی مانگنے آئی تھی اور میں نے اسے بے نقط سنا کر ایک نئی آزمایش میں ڈال دیا ۔ کیا ہوتا اگر میں وہ سب کہہ دیتا جو وہ مجھ سے کہلوانے آئی تھی۔ میں اگر اس کے باپ کو معاف نہیں بھی کروں گا، تو اسے کون سا فرق پڑئے گاـ؟ اب وہ آنے والی شام کے بارے میں سوچ رہی ہو گی۔ہو سکتا ہے اس نے جذبات کی رو میں آکر ایک بات کر دی ہو اور اب پچھتا رہی ہو ‘مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
میں اب دل ہی دل میں پشیمان ہوا رہا تھا۔ اس کا مدہم ہیولا ایک ہی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ پتا نہیں وہ وہاں کیوں کھڑی تھی۔ کیا سوچ رہی تھی ۔
مگر میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ وہ مرتضٰی کے ہوٹل پر آ گئی اور مجھے مخاطب کر لیا تو کیا ہو گا؟
مرتضیٰ میری جان کو آسکتا تھا اور بعید نہیں کہ وہ اس کے باپ کو بتا دے ۔ تب میں کہاں جاؤں گا؟
اس نے کہا تھا مجھ سے پیسے لے لو اور واپس چلے جاؤ۔ تو کیا میں اس لیے یہاں آیا تھا کہ ایک لڑکی سے واپسی کا کرایہ پکڑوں اور دوبارہ گاؤں جا کر دہاڑیاں کرنا شروع کر دوں؟
نہیں۔۔۔۔ یہ نہیں ہونا چاہیے ۔





میں عجیب مشکل میں پھنس گیا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے تک ساری دنیا سے نالاں جو کمزور کو عزت سے جینے کا حق بھی نہیں دیتی اور اب پریشان تھا کہ اسی دنیا کی ایک شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے رہنے والی لڑکی میرے ایسے معمولی لڑکے سے بے عزت ہونے کے لیے شام کو سر عام مجھے للکارنے والی تھی۔ ’’کیا کرنا چاہیے؟‘‘
میں اسے دیکھتے ہوئے سب کچھ بھول کر اب صرف یہی سوچ رہا تھا۔
رات دھیرے دھیرے آخری پہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ شدید گرمی کے بعد چلنے والی ہلکی ہلکی ہواگرمی کے احساس کو کافی حد تک کم کر رہی تھی اور میرا دماغ سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
کبھی ماں کی تنہائی کا احساس، کبھی باپ کو قبر میں اتارنے کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا، کبھی مرتضیٰ کا بے ہنگم وجود سوچ کر دماغ کھولنے لگتا اور کبھی گزری شام کا تھپڑ یاد آ جاتا ۔
پھر ایک مبہم سا سراپا …جسے میں اب بھی وقفے وقفے سے دیکھ رہا تھا۔بہت سارے سوالوں کو جنم دینے لگتا۔ سوچوں سے جنگ لڑتے لڑتے میں تب چونکا جب کہیں دور سے اذان کی ہلکی ہلکی آواز آنے لگی تھی۔
مجھے اس کا اتنی دیر تک جاگتے رہنا‘عجیب سا لگا تھا۔
’’کسی سے بات کرتی ہو گی۔ گھر والوں سے چھپ کر … نہیں۔ تب وہ اتنی الگ اور مشکل نہ لگتی۔ رات کو گھر والوں سے چھپ کر بات کرنے والی لڑکیا ں گھر والوں کی زیادتیاں نہیں دھویا کرتیں۔ ان کی غلطیوں کی معافیاں نہیں مانگتیں ۔کچھ تو انوکھا سا ہے اس میں؟‘‘ دل خود ہی سوچ رہا تھا ۔۔۔۔خود ہی پلٹ رہا تھا۔
’’خیر جیسی بھی ہو مجھے کیا ؟ بس آج کی شام کوئی سین نہ بنا دے۔ ورنہ یہاں سے بوریا بستر گول۔‘‘
یہ سوچتے ہوئے میں بینچ سے اُٹھ گیا تھا اور باڑھ پھلانگ کر مہران ٹاؤن کی اس کچی پکی سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے میں واپس اپنی کٹیا کی طر ف جا رہا تھا جو چند گھنٹوں بعد ڈھابا بننے والی تھی اور میں اس ڈھابے کا بیرا…
ماں نے کیا خوب انتظام کیا تھا اپنے لاڈلے کے لیے شہر میں۔ سب کچھ تو تھا یہاں۔۔۔۔۔ رہائش، کھانا پینا اور نوکری ڈھونڈنے کی تو ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی ۔
مرتضیٰ جانے کب سے میرے ایسے کسی ہونہار ویٹر کے انتظار میں سوکھ رہا تھا اور اللہ کو جانے اس کی کون سی ادا پسند آ گئی تھی اور مجھ سے جانے کون سی خطا ہو گئی تھی۔
جس کی سزا دینے کے لیے اللہ نے مجھے مرتضیٰ سے ملوا دیا تھا۔ مل تو دو اور لوگ بھی گئے تھے۔ ایک چھوٹا سا معصوم بچہ اور ایک بے حد عجیب لڑکی۔
لڑکی۔۔۔۔۔۔۔
میری عمر کے لڑکے جب کسی لڑکی سے اتفاقیہ ملاقات کر بیٹھتے ہیں‘تو انہیں وہ بس لڑکی لگتی ہے۔ عجیب ذرا بھی نہیں لگتی۔ مگر میرا معاملہ مختلف تھا۔
میں اپنی آرام گاہ کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ اتنا پاس کہ چوکور پھٹے پر بنیان پہن کر اپنی توند کی نمایش کرنے والے دنیا و مافیہا سے بے خبر مرتضیٰ کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر سوتے چھوٹو کو بھی جو اس کے رویے سے شدید نالاں ہونے کے باوجود اب سوتے ہوئے اس کی موٹی بھدی ٹانگ سے بھالو کا کام لے رہا تھااور ایک آوارہ کتاجو کٹیا کے سامنے جانے کب سے پڑا اُونگھ رہا تھا۔
میں کتے کوجگانا نہیں چاہتا تھا‘ مگر پانی کا وہ اکلوتا سرخ رنگ کا کولرجس میں دن کو گاہے گاہے برف ڈال کر گاہکوں کو ٹھنڈا پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ تین ٹانگوں والی میز کے اوپر رکھا تھا۔ میز کی چوتھی ٹانگ کب ٹوٹی ہو گی۔ اللہ جانے، مگر اس چوتھی ٹانگ کی غیر موجودگی میں پانی کا گلاس بھرتے وقت ایک ہاتھ سے میز کو پکڑناپڑتا تھا۔ میز کے نیچے کتا خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا اور میں میز کے پاس کھڑا پلاسٹک کا گلاس جس میں جمی ہوئی کائی نکالنے کا اس وقت میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تھامے سوچ رہا تھا کہ کیا ایسا کروں کے کتا بھی نہ جاگے اور میں اپنی پیاس بھی بجھا لوں ۔ میں ہولے سے زمین پر بیٹھا۔ایک ہاتھ سے ٹیبل پکڑا اوردوسرے سے گلاس پکڑ کے ٹوٹی کے قریب لایا۔ اب ٹوٹی چالو کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔ گلاس والے ہاتھ کے انگوٹھے سے میں نے ٹوٹی کا بٹن دبایا۔پانی پلاسٹک کے گلاس میں گرنا شروع ہوا۔ہلکی سی آواز آئی اور کتا جاگ گیا۔ دوسرے لمحے اس نے بدحواسی میں وہاں سے بھاگنا چاہا اور میز کی ٹانگ اس کے راستے کی رکاوٹ بن گئی۔ لرزتی کانپتی کمزور ٹانگ کتے کی ٹکر برداشت نہ کر پائی اور اپنے ساتھ ساتھ ’’دھڑام‘‘ کی آواز کے ساتھ میز کو بھی لے کر زمیں بوس ہو گئی۔ پانی کا کولر میری ناک سے ٹکرایا ‘ادھ بھرا گلاس میرے ہاتھ سے چھوٹ کر لڑھکتا ہوا دور جا پڑا۔میں نے پھٹی ہوئی ناک کے ساتھ کتے کو اندھیرے میں غائب ہوتے دیکھاجس کام کو کرتے وقت میں کتے کو نہیں جگانا چاہتا تھا۔اس ادھورے کام نے مرتضیٰ کو ہڑبڑا کر جاگنے پر مجبور کر دیاتھا۔
’’کون ہے؟‘‘
اس نے بے دردی سے چھوٹو کو ٹانگ سے پرے دھکیلتے ہوئے تیزی سے اُٹھ کر کہا تھا۔
میں نے اپنے اوپرپڑے کولر کو ایک سائیڈ پر کیا اور جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ میری ناک سے ہلکا سا خون بہ رہا تھا اور ماتھے پر بھی خراش کی وجہ سے جلن محسوس ہو رہی تھی۔
’’او باؤ تم ؟ ۔۔۔۔کیا شور مچا رکھا ہے آدھی رات کو ۔۔۔۔اور یہ ۔۔۔یہ کیا ؟ میز توڑ دی تو نے ؟ کولر کا بھی ستیاناس مار دیا ۔ تجھے کولر میں سے پانی ڈالنا بھی کسی نے نہیں سکھایا؟آتے ہی نقصان کر دیا میرا ۔ اب بھرے گاکون ؟ تجھ سے تو کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔شام کو کریم صاب کی گاڑی پر پانی پھینک کر مجھے ان کے سامنے شرمندہ کروا دیا اور اب ہوٹل میں توڑ پھوڑ شروع کر دی تو نے ۔ خالد صاب نے تجھے میرے متھے مار کر تو ہے آزمایش میں ڈال دیا۔‘‘
وہ دونوں ہاتھ نچانچا کر بولتا جا رہا تھا اور میں دل ہی دل میں کھول رہا تھا۔
چھوٹو بھی آنکھیں ملتا ہوا آکھڑا ہوا اور اب حیرت سے کبھی زمین پر اوندھی پڑی میز اور کولر کو دیکھ رہا تھا‘ تو کبھی ہم دونوں کی طرف ۔
’’بھا جی ۔۔۔۔۔آپ کی ناک سے خون نکل رہا ہے ۔‘‘
غور سے مجھے دیکھتے ہوئے اس نے بوکھلا کر کہا تھا۔
’’ہاں تو الٹے سیدھے ہاتھ مارے گا ‘تو الٹا ہی ہو گا اس کے ساتھ ۔ میرا نقصان بھی کر دیا اور اپنی ناک بھی پھوڑ دی جاہل نے ۔
وہ اب بھی جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہا تھا‘مگر چھوٹو نے تیزی سے برتن میں پانی بھرا اور میرے پاس پہنچ کے بولا۔
’’بھا جی آپ ادھر سر جھکا کے بیٹھ جاؤ۔۔۔۔میں سر پر پانی ڈالوں گا تو خون بہنا بند ہو جائے گا۔‘‘
میں چپ چاپ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ اس نے تھوڑا تھوڑا کر کے پانی میرے سر پر ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
’’بھا جی رکا کہ نہیں ؟‘‘
وہ پانی ڈالتے ہوئے بار بار پوچھے جا رہا تھا اور میری آنکھیں اک بار پھر نم ہونا شروع ہو گئیں تھیں ۔
’’بس کر دو چھوٹو‘ خون رک گیا ہے ۔‘‘میں نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا اور کھڑا ہو گیا۔
وہ جانے کہاں سے ایک میلا کچیلا تولیا لے آیا۔ میں نے تولیے سے سر خشک کیا۔ تبھی اسے میرے ماتھے پر پڑی ہلکی سی خراش بھی نظر آگئی۔
’’بھاجی۔۔۔ آپ کا ماتھا بھی پھوٹ گیا۔‘‘
اس نے بے اختیار بہت روانی میں کہا تھا۔
میں نے ایک گہری سانس بھر کے اسے دیکھا۔
’’واقعی یار چھوٹو ۔۔۔۔۔ماتھا تو بہت برا پھوٹا میرا۔‘‘
اس نے میری بات کو سمجھے بغیر تیزی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’نئیں جی ۔۔۔اتنا زیادہ تو نہیں پھوٹا ۔۔بس ہلکی سی خراش ہے ۔ میرے پاس سنی پلاسٹ پڑا ہے میں لے کر آتا ہوں۔
سنی پلاسٹ لگا کر میں نے ایک لمبی جماہی لی اور پھٹے پر جا کے بیٹھا ہی تھا جب کلی کرتے ہوئے مرتضیٰ کی آوا ز میرے کانوں میں الارم کی طرح بجی ۔
’’ساری رات سو سو کے تھکا نہیں تو تیری وجہ سے مجھے بھی ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔ تو آج سے زمین پر ہی سو جایا کر۔ یہ کون سا جنگل ہے جہاں سانپ بچھو ہوں گے ۔ آرام سے کپڑا بچھا کے سو جایا کر اب سونے کا وقت نہیں ہے ۔ چل چھوٹو کے ساتھ مل کر بنچ اور کرسیاں باہر نکال اور سن لیو۔۔۔۔اب اگر کچھ ٹوٹا تو تیری تنخواہ سے کاٹ لوں گا۔ سویرے سویرے ہزار پندرہ سو کا ٹیکا لگا دیا تو نے۔‘‘
میں منہ کھولے اس کی گل افشانیاں سن رہا تھا۔
بہت سارے سفید جھوٹ ایک ساتھ بول دیے تھے اس نے ۔
نہ اس کی نیند میری وجہ سے خراب ہوئی تھی اور نہ ہی یہ تین ٹانگوں والی میز اور کولر ہزار پندرہ سو کے تھے ۔میں بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
’’جنگل نہیں ہے پر جنگلی تو ہے ۔‘‘
میں نے خود کلامی کی تھی ۔۔۔۔بہت دھیمی آواز میں ۔
اذانیں کب کی بند ہو چکی تھیں اور اب صبح دھیرے دھیرے نمودار ہونے لگی تھی ۔
میں نے ایک اور لمبی جماہی لی اور سست قدموں سے چلتا ہوا ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کی طرح رکھی ہوئی کرسیوں کے پاس پہنچ گیا۔
آج میں نے اپنی پہلی باقاعدہ ڈیوٹی کا آغاز کیا تھا۔
٭…٭…٭
بارہ جون بروز جمعرات (2013ء)
وقت دھیرے دھیرے سرِکتا جا رہا تھا اور رانی کی اپنے کمرے میں چہل قدمی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی ۔
اس نے ساری رات خود سے لڑتے ہوئے اور خود کو سمجھاتے ہوئے گزار دی تھی ۔ اپنے اور اس کے اسٹیٹس کا فرق ‘پاپا کی مخالفت‘ خاندان برادری والوں کی باتیں ‘ پاپا کی سبکی اور ایک احساس کمتری میں مبتلا لڑکے کی ٹوٹی پھوٹی شخصیت ۔۔۔۔کچھ بھی اسے وہاں جانے سے روک نہیں پا رہا تھا۔
’’احساس کمتری میں تو میں بھی مبتلا ہوں ۔ اسے دنیا نے دھتکارا ہے ۔ میں تو اپنوں کی دھتکاری ہوئی ہوں ‘تو پھر ہمارے بیچ فرق کیسا؟‘‘
’’کیا کیا کیا ۔۔۔۔خاندان برادری؟ خاندان برادری تب کہاں تھی جب میں اکیلی ماما اور پاپا کے بغیر اسکول اور کالج سے میڈلز لیا کرتی تھی۔ جب میں چار سال کی عمر میں اکیلی سوتی تھی ؟ ‘‘
’’اوہ ۔۔۔۔۔پاپا کی نیک نامی پر حرف آ جائے گا؟
کیوں کیوں کیوں ۔۔۔۔۔جب وہ ساری ساری رات گھر سے غائب رہتے ہیں‘ تب تو ان کی نیک نامی میں کوئی فرق نہیں آتا اور زندگی میں پہلی بار کوئی دوست بناتے وقت میں ان کی نیک نامی کے بارے میں سوچتی رہوں؟‘‘
’’میں آج شام اس سے ضرور ملوں گی اور اگر اس نے وہ نہ کیا جو پاپا نے اس کے ساتھ کیا تھا تو بدلے میں اسے انعام ملے گا۔ مجھ سے دوستی کی صورت میں ۔
’’انعام تو تم سمجھ رہی ہو ۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے وہ نہ سمجھے ۔‘‘
’’کیوں نہیں سمجھے گا ؟
کیا کمی ہے مجھ میں ؟‘‘
زندگی میں پہلی بار وہ اپنے کمرے میں رکھے ہوئے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔
اس کے چہرے پر ٹین ایجرز جیسی بے فکری کی جگہ سنجیدگی کی گہری چھاپ ضرور تھی‘ مگر اِسے ریجیکٹ کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ کم از کم اس کے لیے تو بالکل نہیں جس کے لیے وہ آج آئینہ دیکھنے پر مجبور ہوئی تھی۔
’’کیا کر رہی ہو…؟
کیوں کر رہی ہو؟‘‘
آئینے کے پار دکھنے والی لڑکی اچانک بولنے لگی تھی ۔
وہ سمجھ گئی یہ وہی ہے جو پچھلے پندرہ سال سے اسے اپنی انگلیوں پر نچاتی آئی تھی۔ جب بھی وہ زندہ انسانوں کی طرح جینے کی کوشش کرتی تھی۔ یہ اپنی عدالت لگا کر اسے ہرا دیتی تھی اور اپنی باندی بنا کر دنیا سے جدا کر دیتی تھی۔ مگر آج وہ حیرت سے گنگ تھی ۔
’’کیوں کرنے جا رہی ہوں؟‘‘
اس نے آگے بڑھ کر آئینے پر اپنا ماتھا ٹکا دیا اور آئینے کے پار نظر آنے والی اپنی ہستی کی حکمران سے نظریں چار کیں ۔
’’کیوں کہ میں پاگل ہوں ۔۔۔۔نفسیاتی ہوں ۔۔۔۔سائیکو ہوں ۔‘‘
اس نے زور دار قہقہہ لگایا تھا۔
اور کچن سے نکل کر اس کے کمرے کے پاس سے گزرتی ہوئی فاطمہ ایک پل کو ٹھٹک کر رکی تھی اور تعجب سے بند دروازے کو دیکھا تھا۔۔۔
’’ٹھیک ہی کہتے ہیں صاب… چھوٹی مالکن پاگل ہوتی جا رہی ہیں ۔‘‘
خود کلامی کرتے ہوئے وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی ۔
اور بند دروازے کے اندر آئینے کے سامنے کھڑی رانی ہنستی چلی جا رہی تھی
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!