ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

گیارہ جون بروز بدھ(2013ء)
’’بیٹا آپ آخری بار کب ہنسی ہو؟‘‘ بہ غور ڈاکٹر جیلانی نے رانی کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا لیکن وہ اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس کے شاندار آفس کا جائزہ لے رہی تھی ۔
’’آفس بہت اچھا ہے آپ کا… ویل ڈیکوریٹڈ!‘‘ اس کا لہجہ ہمیشہ کی طرح بے تاثر تھا۔
’’اوہ ! تھینک یو… مگر میں نے ابھی ابھی آپ سے ایک سوال کیا ہے ۔ آپ آخری بار کب ہنسی تھیں؟‘‘ ڈاکٹر جیلانی نے اپنا سوال نظر انداز کیے جانے پر برا منائے بغیر پھر سے دہرایا۔
’’آپ پاپا کو کب سے جانتے ہیں ؟‘‘ اس نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا تھا ۔
’’تقریباً قریب دس سال سے… کیوں؟‘‘ ڈاکٹر نے تعجب سے پوچھا۔
’’پاپا مجھے دس سال پہلے یہاں لے کر آتے تو شاید کچھ فائدہ ہو ہی جاتا۔‘‘ اس نے شیشے کے پار ویٹنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھتے سیٹھ کریم کو دیکھ کر کہا۔
’’اوہ ہاہاہا…‘‘ ڈاکٹر نے ایک چھوٹا سا قہقہہ لگایا۔
’’چلو کوئی بات نہیں… مثل مشہور ہے دیر آید درست آید۔‘‘ ہلکے پھلکے لہجے میں کہتے ہوئے ڈاکٹر جیلانی نے تیسری بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
’’ہاں تو میں پوچھ رہا تھا کہ آپ آخری بار کب ہنسی تھیں؟‘‘
’’یاد نہیں۔‘‘ اس کا لہجہ حد درجہ سپاٹ اور مشینی تھا۔
’’اوکے!‘‘ ڈاکٹر نے گہرائی سے اس کے سپاٹ لہجے اور بے تاثر آنکھوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے پرسوچ انداز میں سر ہلاکر کہا:
’’میں آپ سے کچھ سوال کروں گا اور آپ نے ان کا جواب صرف یس یا نو میں دینا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسا کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے تھوڑا سا آگے کی طرف جھک کر کہا۔
’’آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ڈاکٹر۔‘‘ اس کا لہجہ اب بھی کسی قسم کے تاثر سے عاری تھا۔
’’وہ تو میری عادت ہے۔ آپ نے بس وہ کرنا ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ ٹیبل پر پڑے ہوئے گلاس کو گھورنے لگی۔
’’ہاں تو شروع کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور سوالات کا سلسلہ شروع کردیا۔
’’آپ کا نام رانیہ کریم عرف رانی ہے؟‘‘
’’یس۔‘‘
’’آپ فالکن یونیورسٹی سے ریلیشن شپ میں ماسٹرز کر رہی ہیں؟‘‘
’’یس۔ ‘‘
’’آپ نے میٹرک میں پورے کراچی سے ٹاپ کیا اور وزیرِ تعلیم نے آپ کو میڈل دیا تھا۔‘‘
’’یس۔‘‘
’’آپ دوست بناتی ہیں؟‘‘
’’نو‘‘
’’آپ بنانا چاہتی ہیں؟‘‘





’’نو‘‘
’’آپ تنہائی پسند ہیں؟‘‘ ڈاکٹر جیلانی نے سوالات کا زاویہ گھماتے ہوئے اگلا سوال کیا:
’’یس‘‘
’’آپ کو غصہ زیادہ آتا ہے؟‘‘
’’نو‘‘
’’کم آتا ہے ؟‘‘
’’نو‘‘
’’اس کا مطلب آپ کو غصہ نہیں آتا؟‘‘
’’نو‘‘
’’آپ کو ترس آتا ہے۔؟‘‘
’’یس۔‘‘
’’غریبوں، کم زوروں لاچاروں اور معذوروں پر جن کے ساتھ زندگی اچھا سلوک نہیں کرتی؟‘‘
’’نو!‘‘
’’واٹ! تو پھر آپ کو کس پر ترس آتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر جیلانی نے حیرت سے پوچھا۔
’’آپ نے صرف یس اور نو کہنے کا بولا تھا ڈاکٹر ۔‘‘ اس نے گلاس سے نظریں ہٹا کر ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے سرد میری سے کہا۔
’’اوکے اوکے اوکے! ہم وہیں سے شروع کرتے ہیں۔‘‘ اس بار ڈاکٹر جیلانی تھوڑی خجالت سے بولے۔
’’آپ اپنی سالگرہ نہیں مناتیں؟‘‘
’’نو۔‘‘
’’گھر آئے مہمانوں سے بات نہیں کرتیں ؟‘‘
’’نو۔‘‘
’’پاپا کے کہنے پر بھی نہیں؟‘‘
’’یس۔‘‘
’’آپ اپنے پاپا سے پیار کرتیں ہیں؟‘‘
’’یس۔‘‘
’’اور ماما سے بھی۔‘‘
’’یس۔‘‘
’’آپ پچھلے دو سال سے ماما کے ساتھ فون پر بات نہیں کرتیں؟‘‘
’’یس۔‘‘
’’آپ پاپا کی بات نہیں مانتیں مگر ان سے پیار کرتی ہیں؟‘‘
’’یس۔‘‘
آپ ماما کا فون کاٹ دیتی ہیں، مگر ان سے پیار کرتی ہیں؟‘‘
’’یس۔‘‘
’’آپ کے پاپا اور ماما آپ سے پیار کرتے ہیں؟‘‘
’’آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہیں ڈاکٹر۔‘‘ اس نے اپنے لہجے اور آواز کو بے تاثر رکھنے کی پوری کوشش کی تھی مگر ڈاکٹر جیلانی کی گھاگ نظریں اس کے چہرے کے تاثرات ٹٹول رہی تھیں۔ اس نے مشینی انداز میں بات کرنے والی لڑکی کی آواز میں ہلکا سا ارتعاش پا لیا تھا۔
’’آپ شاید بھول گئی ہیں… آپ کو صرف یس یا نو کہنا ہے۔‘‘ ڈاکٹر جیلانی قدرے اطمینان سے اسے یاد کرایا اور کچھ دیر توقف کے بعد اپنا سوال پھر سے دہرایا:
کیا آپ کے پاپا اور ماما آپ سے پیار کرتے ہیں؟‘‘
’’یہ سوال آپ کو پاپا اور ماما سے کرنا چاہیے … مجھ سے نہیں۔‘‘ اس بار اس نے اپنا مخصوص انداز آسانی سے اپنا لیا تھا۔
ڈاکٹر چند لمحے خاموشی سے اس کا جائزہ لیتا رہا۔
’’اوکے… میں آپ سے آخری سوال کرنے لگا ہوں اور آپ کو اس کا صحیح جواب دینا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے ہلکا سا توقف کیا اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:
’’آپ کو کن لوگوں پر ترس آتا ہے۔‘‘
رانی نے گہری سانس لی اور ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یخ بستہ لہجے میں صرف دو الفاظ کہے۔
ــ’’یتیموں پر…‘‘
’’اٹس اوکے بیٹا! آپ باہر ویٹنگ روم میں بیٹھیے اور کریم صاحب کو اندر بھیج دیجیے۔‘‘ ڈاکٹر جیلانی کی بات ختم ہوتے ہی راینہ وہاں سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔
کچھ دیر بعد سیٹھ کریم ڈاکٹر کے سامنے بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے انہیں گھور رہے تھے ۔
’’کریم صاحب! میرے خیال میں آپ کی بیٹی آپ سے اور آپ کی مسز سے نالاں ہے۔ اس کے خیال میں آپ اور آپ کی مسز اس سے پیار نہیں کرتے۔ میں نے یہ چیز اکثر بچوں میں دیکھی ہے جو ماں باپ کی عدم توجہی کا شکار رہتے ہیں اور بڑے ہو کر کمپلیکس کا شکار ہو جاتے ہیں اور…‘‘
’’اوہ سٹاپ ڈاکٹر جیلانی…‘‘ روانی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جیلانی کو سیٹھ کریم کی قدرے غصیلی آواز نے روک دیا۔
’’آپ کو لگتا ہے کہ میری بیٹی… میری …یعنی کہ سیٹھ کریم کی بیٹی کسی قسم کے کمپلیکس کا شکار ہے؟”doctor are you mad?” اسے کس چیز کی کمی ہے ؟ وہ سوچتی بعد میں ہے اور وہ چیز اسے مل پہلے جاتی ہے۔ سب اسے ایسے ہی رانی نہیں کہتے ۔ وہ رانیوں سے بڑھ کر زندگی گزار رہی ہے ڈاکٹر۔‘‘ سیٹھ کریم شاید ڈاکٹر جیلانی کی بات کو خود پر طنز سمجھے تھے اسی لیے آگ بگولہ ہورہے تھے۔
’’میرا وہ مطلب نہیں ہے کریم صاحب! میں جانتا ہوں آپ شہر کے دولت مند اور با اثر افراد میں سے ایک ہیں مگر سائیکالوجسٹ ہونے کے ناتے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کی بیٹی کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمپلیکس چھپا ہوا ہے اور عین ممکن ہے یہ آپ کی اور آپ کی مسز کی وہ عدم توجہی ہو جسے آپ کی بیٹی نے بچپن میں بے تحاشا محسوس کیا ہو۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنی بات کی مکمل وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیے کریم صاحب! میرے خیال میں آپ کو اور آپ کی مسز کو اس وقت اپنی توجہ کا محور صرف اور صرف اپنی بیٹی کو رکھنا چاہیے۔ وہ عمر کے جس دور سے گزر رہی ہے اس میں اسے اس بات کا یقین اور اطمینان ہونا بہت ضروری ہے کہ اس کے ماں باپ اس سے بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں آپ کی بیٹی کا اس سے بہتر اور کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے حتمی انداز میں بات کرتے ہوئے کہا۔
سیٹھ کریم نے سر گھما کر شیشے کے پار بیٹھی رانی کو دیکھا۔ وہ ٹھیک اسی جگہ بیٹھی تھی جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ اخبار پڑھ رہے تھے ۔
’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو ڈاکٹر! مگر میری بیٹی نے آج تک مجھ سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ اپنی ماں سے کرتی ہے۔۔۔۔وہ ہماری بیٹی ہے۔ ہم بھلا کیسے اسے پیار نہیں کریں گے؟‘‘ ڈاکٹر جیلانی نے ان کی بات سن کر اثبات میں سر ہلا تے ہوئے کہا:
’’بے شک وہ آپ کی اکلوتی بیٹی ہے ۔ آپ اس سے پیار بھی کرتے ہیں مگر کیا وہ یہ جانتی ہے کہ آپ اس سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں؟ کیا کبھی آپ نے اسے یہ احساس دلوایا ہے کہ آپ اس سے پیار کرتے ہیں؟ کریم صاحب جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں آپ کی بیٹی آپ کی ذات سے نامانوس ہے اور اپنی ماں سے بھی۔ آپ نے ابھی کہا کہ آپ کی بیٹی نے سوچا بعد میں اور وہ پورا پہلے ہو گیا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آج تک آپ کی بیٹی نے کیا کیا سوچا جو سوچنے سے پہلے پورا ہو گیا؟ کیا آپ اس کی پسند ناپسند سے واقف ہیں؟ کیا آپ اس کی پسندیدہ ڈش بتا سکتے ہیں مجھے؟ آپ کبھی نہیں بتا سکتے کریم صاحب کیوں کہ آپ بھی اپنی بیٹی سے اتنے ہی فاصلے پر کھڑے ہیں جتنی وہ آپ سے دور ہے۔ آپ نے کہا اس نے آج تک آپ سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں کیا۔ میں معذرت چاہوں گا کریم صاحب مگر اس نے کبھی آپ کو اس لائق ہی نہیں سمجھا۔‘‘ ڈاکٹر جیلانی نے سیٹھ کریم کی بارعب شخصیت کو نظر انداز کرتے ہوئے مستحکم آواز میں کہا۔
’’اوہ شٹ اپ ڈاکٹر! جسٹ شٹ اپ۔‘‘ سیٹھ کریم ایک جھٹکے سے اُٹھتے ہوئے تند لہجے میں دھاڑے:
’’میں یہاں اپنی بیٹی کو اس لیے نہیں لایا کہ تم ہماری ذاتی زندگی میں گھسنا شروع کر دو اور اس کے اس عجیب و غریب رویے کی ساری ذمے داری ہمارے سر تھوپ دو۔ اس شہر میں اور بھی بہت سارے ڈاکٹرز موجود ہیں۔ میں اس کا علاج کروا لوں گا اور وہ بہتر بھی ہو جائے گی۔ تمہیں اس کے لیے مزید زحمت اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ تنفر سے کہتے ہوئے وہ دروازے کی طرف مڑے تھے جب ڈاکٹر کی آواز نے انہیں روک لیا۔
’’آپ کی بیٹی میری تعریف کرے گی۔ اس سے پوچھیے گا ضرور۔‘‘ ڈاکٹر جیلانی نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈال کر ویٹنگ روم میں بیٹھی رانی کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔
’’ہونہہ…‘‘ سیٹھ کریم نے طنزیہ ہنکارا بھر ا اور واپس مڑ کر دروازے سے باہر نکل گئے ۔ڈاکٹر جیلانی نے دونوں باپ بیٹی کو باہر نکلتے دیکھا اور واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
رانی نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو ہونٹ بھینچ کر خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہے تھے۔
’’انکل جیلانی اچھے ڈاکٹر ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر تک باپ کو دیکھنے کے بعد اس نے سامنے روڈ پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔ سیٹھ کریم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’اوہ رئیلی…؟ چلو کوئی توآپ کو بھی پسند آیا۔ آپ اگر چاہو تو میں اسے روز گھر بلوا لیا کروں گا تا کہ آپ کو بھی کمپنی مل سکے اورآپ کا علاج بھی ہو سکے۔‘‘ سیٹھ کریم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’مجھے کوئی بیماری نہیں ہے پاپا۔‘‘ رانیہ جو کچھ دیر سے خوش گوار موڈ میں تھی، یک دم پھر سنجیدہ ہوگئی۔
’’بیٹا آپ نارمل لوگوں کی طرح بات کیوں نہیں کرتیں؟ ایسے روبوٹ کی طرح بات کرنے سے آپ اور بھی ابنارمل لگتی ہو۔‘‘ سیٹھ کریم قدرے خفگی سے بولے۔ اس نے باپ کی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا ،سو خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔
’’آپ کو پتا ہے ڈاکٹر نے مجھے کیا کہا؟‘‘ سیٹھ کریم نے کچھ دیر خاموش رہ کر پھر سے بات کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر وہ ہنوز باہر دیکھنے میں مگن تھی۔
’’کہتا ہے میں اورآپ کی ماما آپ سے پیار نہیں کرتے اس لیے آپ ایسی ہو گئی ہو اور یہ بھی کہ میں نہیں جانتا کہ میری بیٹی کی پسند ناپسند کیا ہے؟ اب اس مڈل کلاس ذہنیت کے ڈاکٹر کو میں کیسے سمجھاتا کہ ہمارے یہاں پیار جتلانے کے لیے بچوں کی پرسنل لائف میں کبھی دخل نہیں دیا جاتا۔ پھر ہم چھوٹے لوگوں کی طرح آٹھ گھنٹے کام کر کے باقی کے سولہ گھنٹے گھر بیٹھ کر بیوی بچوں کی پسند ناپسند پوچھ کر ضائع تو نہیں کر سکتے۔ ہماری کلاس کے اپنے اسٹینڈرڈز ہوتے ہیں مگر یہ اس جیلانی کے بھیجے میں گھسنے والی بات نہیں تھی۔ اس لیے میں اسے اس کی اوقات دکھائے بغیر ہی باہر نکل آیا۔ غلطی بھی میری اپنی تھی۔ میں ہمدانی کی باتوں میں آگیا تھا۔ اس نے بہت تعریف کی تھی اس کی۔ ان کی پارٹیز میں اکثر مدعو ہوتا ہے یہ… میں نے سوچا شایدآپ اس سے مل کر بہتر محسوس کرو گی مگر اس نے تو مجھے بہت ہی مایوس کیا ہے ۔ لوئر مڈل کلاس لوگوں کی طرح باتیں کر رہا تھا۔‘‘ سیٹھ کریم ڈاکٹر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا اور وہ خاموشی سے باہر دیکھنے میں مگن تھی۔
گاڑی مہران اسٹریٹ پر آچکی تھی۔ رانی کو پیپل کا وہ درخت اب نظر آنے لگا تھا جہاں سے راستہ ان کے گھر کی طرف مڑتا تھا۔ گاڑی لمحہ بہ لمحہ درخت کے قریب ہوتی جا رہی تھی اور اب اس درخت کے نیچے بنا جھونپڑی نما ہوٹل بھی نظر آنے لگا تھا۔
موڑ پر پہنچ کر گاڑی پیپل کے درخت کے پیچھے سے ہوتی ہوئی چھپر ہوٹل کے سامنے آئی جب اچانک گاڑی کے بونٹ پر پانی کا ایک زور کا چھینٹا پڑا۔
سیٹھ کریم نے فوراً بریک پر پاؤں رکھ کر گاڑی کو روکی۔
رانی نے سر گھما کر چھپر ہوٹل کی طرف دیکھا جہاں سے گاڑی پر پانی پھینکا گیا تھا۔
بیس بائیس سال کا ایک لمبا تڑنگا سانولے رنگ کا لڑکاخالی گلاس ہاتھ میں پکڑے ہکا بکا کھڑا تھا۔ رانی کو اس کی شکل پر صاف لکھا ہوا نظر آ رہا تھا کہ اس حادثے میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ گاڑی کو مڑتے ہوئے دیکھ نہیں پایا اور اپنی جھوک میں پانی کا گلاس ہوٹل کے سامنے کچی پکی سڑک پر انڈیل رہا تھا۔
دفعتہ رانی کو گاڑی کا دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز سنائی دی ۔اس نے مڑ کے دیکھا‘ تو اس کا باپ شدید غصے میں گاڑی کے آگے سے ہوتا ہوا چھپر ہوٹل کے سامنے ششدر اور پریشان کھڑے لڑکے کے پاس جا رہا تھا۔اس نے دوبارہ بے چینی سے لڑکے کی طرف دیکھا جو ابھی تک وہیں ساکت تھااور اسی لمحے اس لڑکے کے منہ پر ایک زور کا تھپڑ پڑا۔
رانی اپنی جگہ پر سن ہو گئی تھی ۔
وہ اپنے باپ کے غصے سے اچھی طرح واقف تھی جو گھر کے ملازمین کو کئی بار اس کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پیٹ چکا تھا۔
وہ سر جھکائے اپنے پاؤں گھورنے لگی تھی۔ اس میں اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ دوبارہ اس بے قصور لڑکے کی شکل دیکھ پاتی ۔
باہر چار پانچ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ ایک گنجا اور بڑھی ہوئی توند والا کریم صاحب کے آگے ہاتھ جو ڑ کر کہہ رہا تھا۔
’’اس سے غلطی ہوئی گئی صاب… اسے معاف کر دو یہ آج ہی گاؤں سے آیا ہے ۔‘‘
پھر وہ لڑکے کی طرف دیکھ کر غصے سے بولا۔
’’چل اوئے… معافی مانگ صاب سے ۔‘‘
مگر لڑکا سر زمین کی طرف جھکائے روئے جا رہا تھا۔
’’اوئے سن نہیں رہا تو… میں کیا کہہ رہا ہوں۔‘‘
توند والے نے جو اس چھپر ہوٹل کا مالک تھا اور بھی اونچی آواز میں کہا۔
مگر سیٹھ کریم اب وہاں کھڑے ہو کر اس کی معافی کا انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔
’’بس بس… اس اندھے کو سمجھاؤ کہ یہ اس کا گاؤں نہیں کراچی ہے اور یہ گاڑی بیس لاکھ کی ہے۔ ساری پالش خراب کر دی الو کے پٹھے نے ۔‘‘
رعونت سے کہتے ہوئے سیٹھ کریم نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے بڑبڑانے لگے۔
’’جاہل …گنوار…
منہ اُٹھا کر آ جاتے ہیں شہروں میں اور اوقات کنویں کے مینڈک جتنی بھی نہیں ہوتی … ہونہہ۔‘‘
گاڑی آہستہ سے آگے بڑھی اور دو منٹ بعد گھر کے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔
رانی دروازہ کھول کر باہر نکلی اور پورچ سے نکل کر لاؤنج سے سیکنڈ فلور پر جاتی سیڑھیاں تیزی سے چڑھنے لگی۔ جب اسے اپنے باپ کی آواز سنائی دی۔
’’ابھی کمرے میں مت جاؤ رانی۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔‘‘
’’موڈ نہیں ہے ۔‘‘ کہہ کر وہ بغیر رکے سیڑھیاں چڑھ کے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دروازہ اندر سے لاک کرنے کے بعد وہ بیڈ پر اوندھی جا پڑی۔
تھوڑی دیر میں اس کا تکیہ پوری طرح بھیگ چکا تھا۔
اس کا باپ جس دن اس کے سامنے کسی پر ہاتھ اُٹھاتا، اُس دن اس کا تکیہ ضرور بھیگتا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!