ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

گیارہ جون بروز بدھ (2013ء)
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس دن میں اپنے باپ کو آخری بار صحن میں لیٹے آسمان کو گھورتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ وہ اُن کی زندگی کی آخری شام تھی۔ اگلے دن صبح وہ مجھے اکڑی ہوئی لاش کی صورت میں نظر آئے۔ شاید رات کے کسی پہر اُن کی روح نے اُن کے جسم سے ناتا توڑ لیا تھا۔ میرا باپ مر چکا تھا۔
میں نے دکھی دل کے ساتھ اُنہیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں لٹایا۔ میری فیملی کا ایک فرد کم ہو گیا تھا۔ اب مٹی کے اس کچے گھر میں صرف میں اور میری ماں رہتے تھے۔ میرے سامنے اب بھی ایک سوال موجود تھا جسے حل کیے بغیر میں اس گاؤں کو چھوڑ کر شہر نہیں جا سکتا تھااور وہ سوال تھا میری ماں…
میری وہ ماں جس کے ہاتھ میرے بچپن کو سنوارنے کے لیے دوسروں کے گھروں میں جھاڑو لگا لگا کر سخت ہو چکے تھے۔ میں اسے گھر میں تنہا چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا تھا اور ساتھ لے کر بھی نہیں جا سکتا تھا‘ مگر ماں کو میرے پاؤں کی زنجیر بننا منظور نہیں تھا۔ ابا کی موت کے پانچ ماہ بعد ہی اس نے مجھے شہر جانے کے لیے راضی کر لیا۔
’’دیکھ پرویز! تجھے پڑھا لکھا کر بڑا دمی بنانے کا خواب صرف میرانہیں، بلکہ تیرے ابا کا بھی تھا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تیرے باپ کی بیماری نے تیرا راستہ روک لیا تھا۔ اب وہ خدا کی مرضی سے نہیں رہا اور میرے اندر اتنی ہمت ہے کہ میں تیری کامیابی کے لیے اس گھر میں اکیلی رہ لوں، تو شہر چلا جا بیٹا۔ تیرے پاس تھوڑی بہت تعلیم بھی ہے‘ کمپیوٹر بھی سیکھتا رہا ہے۔ اللہ کرے گا تجھے نوکری مل جائے گی اور اس آدھی ادھوری دہاڑی سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔ جب تو وہاں سیٹ ہو جائے گا تو میں بھی تیرے پاس آجاؤں گی۔ یہاں رہ کر خود کو ضائع مت کرــ۔‘‘ میری ماں کی ساری باتیں بجا تھیں، مگر انہیں اس طرح تنہا چھوڑ کر جانا میرے لیے آسان نہیں تھا۔
’’مگر اماں! میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں اور پھر میں شہر میں رہوں گا کس کے پاس؟ میں تو وہاں کسی کو جانتا بھی نہیں… نوکری کیسے ڈھونڈوں گا میں؟‘‘ میں ان سب سوالوں کے جواب ڈھونڈ سکتا تھا مگر ماں کے سامنے رکھ کہ میں یہ چاہتا تھا کہ شاید میری ماں بھی انہی سوالوں کے بہانے مجھے اپنے پاس روک لے… مگر میرا خیال غلط تھا۔
’’میں نے خالد صاحب سے تمہاری بات کی ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک نمبر دیا ہے مجھے۔تم وہاں جا کر اسے ٹیلی فون کر لینا۔ وہ تمہارا سب بندوبست کر دے گا۔خالد صاحب نے کہا ہے وہ تمہیں نوکری بھی دلوا دے گا ۔ وہاں اس کی کافی جان پہچان ہے؟‘‘ ماں نے یہ کہتے ہی اپنی چادر کے پلو سے باندھا ہوا ایک چھوٹا سا مڑا تڑا کاغذ کا ٹکڑا میرے حوالے کردیا۔
میں نے کاغذ لیتے ہوئے بے یقینی سے ماں کی طرف دیکھا۔ اس کا مطلب اس نے پہلے ہی سے مجھے بھیجنے کا سوچ رکھا تھا۔
’’یہ خالد صاحب کا کوئی رشتہ دار ہے؟‘‘ میں نے کاغذ پر لکھا ہوا نمبر دیکھ کر ماں سے پوچھا تھا۔
’’نہیں… ان کا ڈرائیور تھا پہلے۔ پھر کسی وجہ سے چھوڑ کر شہر چلا گیا۔ اب بھی جو ڈرائیور رکھا ہوا ہے خالد صاحب نے وہ اسی کا کوئی رشتہ دار ہے۔ تم فکر نہ کرو خالد صاحب نے مجھے پوری تسلی کروائی ہے کہ وہ اچھا آدمی ہے۔ وہاں تمہارا خیال رکھے گا۔‘‘
’’مگر میں آپ کو اس طرح اکیلے کیسے چھوڑ دوں؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا۔ میں جانتا تھا ماں اب مجھے بھیج کر ہی دم لے گی ۔
’’تم میری فکر نہ کرو… میں پہلے بھی تو اکیلی ہی رہتی تھی ۔ جب تم پڑھتے تھے اور تمہارے ابا کام پر جاتے تھے اور میں ویسے بھی اکیلی کہاں رہنے والی ہوں، چلی جایا کروں گی کبھی خالد صاحب کے ہاں اور کبھی اڑوس پڑوس میں۔ تم میری فکر مت کرو پرویز…تم شہر جاؤ بیٹا اور کچھ کر کے دکھاؤ اپنی ماں کو۔‘‘ ماں نے میرا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ اندر سے اس کی کیا کیفیت ہو گی، اس کا مجھے اچھی طرح اندازہ تھا۔





اگلے دن صبح پہلی گاڑی سے میں کراچی کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ ماں نے مجھے رخصت کرتے وقت ڈھیر ساری نصیحتیں اور دعائیں بھی میرے ساتھ ہی رخصت کی تھیں ۔میں نے گھر سے نکلتے وقت خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی ماں کی باقی زندگی ان تمام خوشیوں سے بھر دوں گا جن کے لیے وہ زندگی بھر ترستی رہی تھیں۔ میں ان کے بڑھاپے کو ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت دور بنانے کا عزم لے کر گھر سے نکلا تھا۔
مرتضیٰ نامی اس آدمی کے ساتھ میری بات ہو چکی تھی۔ اس نے مجھے سہراب گوٹھ اترنے کا کہا تھا۔
گاڑی چوبیس گھنٹے کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد میری منزل پر پہنچی تھی۔ جونہی کنڈکٹر کی آواز میرے کانوں میں پڑی ’’سہراب گوٹھ والے آ جائیں‘‘ تو میں نے شکر کا کلمہ پڑھا اور اپنا بیگ جس میں چند کپڑوں کے جوڑوں کے علاوہ ایک عدد جوتوں کا جوڑا تھا، لے کر بس سے اُتر آیا۔
میرے سامنے بسوں ،رکشوں ،موٹر سائیکلوں ،کاروں اور چلتے پھرتے انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ پائیدان سے نیچے پاؤں رکھتے ہی درجن بھر ٹیکسی اور رکشا ڈرائیور بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور میرے ہاتھ سے بیگ چھیننے کی کوشش کرنے لگے ۔ان میں سے ہر ایک مجھے اپنی طرف گھسیٹ رہا تھا ۔
’’مجھے کہیں نہیں جانا بھائی ۔‘‘
میں نے چیختے ہوئے چار قدم پیچھے ہٹ کر کہا اور بڑی مشکل سے اپنا بیگ ان کے چنگل سے آزاد کرایا۔
زندگی میں پہلی بار مجھے اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہوا تھا۔
میں نے اس سے پہلے گاؤں کے نزدیک ایک قصبہ نما چھوٹا سا شہر دیکھا ہوا تھا جہاں میں کالج میں پڑھتا تھا۔ اس لیے کراچی جیسے بڑے شہر میں آتے ہوئے گھبراہٹ کا ہونا ایک فطری عمل تھا۔
وہاں آدھا گھنٹا دھوپ میں سوکھنے کے بعد مجھے مرتضیٰ کی شکل نظر آئی ۔
مرتضیٰ ادھیڑ عمر اور سر سے گنجا تھا۔ پہلی نظر میں اسے دیکھ کر کچھ اچھا سوچنا کافی مشکل بات تھی‘ مگر جس صورتِ حال میں وہ مجھے نظر آیا میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا تھا۔
اس کے پاس ایک گھسی پٹی موٹر سائیکل تھی جس پر اس کے پیچھے دس بارہ سال کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے موٹر سائیکل سے اُترے بغیر ہی ہاتھ کے اشارے سے مجھے بھی پیچھے بیٹھنے کو کہا، میں نے بیگ کاندھے پر لٹکایا اور لڑکے کے پیچھے بیٹھ گیا۔ موٹر سائیکل ایک جھٹکے سے چل پڑی۔ میرے لیے پہلا جھٹکا خاصا زوردار ثابت ہوا تھا۔ یوں سمجھ لیں میں نے گرنے سے بچنے کے لیے بچے کا کالر پکڑا۔
’’آرام سے بھا جی‘‘ بچے نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
آدھے گھنٹے کے انتہائی تکلیف دہ سفر کے بعد ہم ایک چھپر ہوٹل کے سامنے کھڑے تھے۔ موٹر سائیکل سے اتر کر میں نے حیرت سے مرتضیٰ نامی گنجے شخص کی طرف دیکھا۔اس نے پورے راستے سوائے بے ہودگی سے موٹر سائیکل چلانے کے کوئی بات نہیں کی تھی۔
’’اپنا ہی ہے باؤ… آؤ بیٹھ جاؤ اِدھر ۔‘‘ اس نے چھپر کے اندر رکھے ہوئے اکلوتے مگر لمبے چوڑے پھٹے پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
میں نے دل شکستگی کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اپنا بیگ پھٹے کی ایک سائیڈ پر رکھا اور خود بھی کونے پر ٹک سا گیا۔
’’جوتا اُتار کے اوپر بیٹھ جاؤ باؤ… بلکہ کچھ دیر آرام کر لو۔ میں تمہارے لیے چائے بنواتا ہوں۔ اوئے چھوٹے! چل چائے بنا کر لا اِس کے لیے ۔‘‘ میں نے بے دلی سے جوتے اُتار کر پاؤں اوپر کر لیے اور ایک سرسری سی نظر سے اس چھوٹے سے چھپر ہوٹل کا جائزہ لیا۔
ہوٹل کیا تھا، بس ایک گھرکے عام کچن سے کچھ بڑا ہو گا۔ دو چولہے ،کچھ برتن، چار ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور دو ٹوٹے ہوئے ٹیبل اور ایک یہ چوکور پھٹا۔ بس یہ ہوٹل تھا ،چاروں طرف سے آزاد… یہاں بیٹھ کر صرف دھوپ سے بچا جا سکتا تھا۔ اس ہوٹل کی سب سے خاص بات لوکیشن تھی۔ میں نے چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا۔ پیپل کے گھنے درخت کے نیچے بنے ہوئے اس چھپر کے پچھواڑے ٹریفک رواں دواں تھی اور سامنے رہائشی علاقہ تھاجہاں تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ قطار میں بنی ہوئی کوٹھیاں تپتی دھوپ میں چمکتی نظر آرہی تھیں۔ یقینا اس ایریا میں رہنے والے لوگ اچھے خاصے کھاتے پیتے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے قطار کے بیچوں بیچ بنی ہوئی وسیع و عریض اور شان دار تین منزلہ کوٹھی کو دیکھا۔
’’کتنی خوبصورت اور پرسکون زندگی ہو گی اس عالی شان محل میںرہنے والوں کی۔‘‘ میں نے کوٹھی کی شان و شوکت دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا۔
قطار میں بنی کوٹھیوں اور مین روڈ پر چلتے ہوئے ٹریفک کے درمیان ایک چھوٹا سا پارک بنا ہوا تھاجو اس وقت سنسان پڑا تھا۔
’’چائے!‘‘
چھوٹا چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے میرے سامنے کھڑا تھا۔
میں نے پارک سے نظریں ہٹا کر پہلے چھوٹے کو، پھر پھٹے پر قمیص اُتار کے لیٹے ہوئے مرتضیٰ کو دیکھا۔
’’چاچا آپ کا گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے چائے کا کپ ہاتھ میں لیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
مرتضیٰ نے سر اُٹھا کر ترچھی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر سے نیچے پھٹے پر ٹکا دیا اور دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔ مجھے اس کی سرد مہری کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔
’’ہمارا یہی ٹھکانہ ہے بھا جی… دن میں کام ،رات کو آرام۔‘‘ چھوٹے نے مسکرا کر مجھے بتایا۔
’’یہاں…؟‘‘ میں نے حیرت سے منہ کھول کر چھوٹے سے پوچھا۔
’’ہاں! یہاں……‘‘ مرتضیٰ نے جھٹکے سے اُٹھ کر مجھے دیکھا ۔
’’اس سے پہلے کبھی نکلے ہو گھر سے ؟ کبھی دیکھا ہے پہلے کو ئی بڑا شہر ؟ یہاں اس جگہ پر اپنا ہوٹل چلانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں سو طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ ہم تو پھر بھی خوش نصیب ہیں جو اپنا ہوٹل چلاتے ہیں اور یہیں پر سونے کی جگہ بھی مل جاتی ہے ورنہ اس شہر میں ہزاروں لوگوں کے پاس سر چھپانے تک کو آسرا نہیں ہے… مجھے ایک بات تو بتا، یہاں رہنے میں تجھے تکلیف کس بات کی ہے؟ اور تو کون سا محل سے اُٹھ کے آیا ہے جو اتنے دیدے پھاڑ رہا ہے اس جگہ کو دیکھ کے؟ وہ تو خالد صاحب نے تیری ماں کے ترلوں سے تنگ آ کے فون کر دیا۔ ورنہ مجھے تو تیری ضرورت ہی نہیں تھی۔‘‘ مرتضیٰ نام کے اس چاچا کے اندر مروت رتی بھر بھی نہیں تھی۔ مجھے میری اوقات یاد دلانے میں ذرا دیر نہ کی تھی اُس نے۔ میں نے کچھ اور ہی سو چ رکھا تھا گھر سے نکلتے وقت۔ میرا خیال تھا وہ مجھے اپنے گھر لے جائے گا جہاں میں نہا دھو کے کھانا کھا کے پہلے اپنی نیند پوری کروں گا پھر نوکری ڈھونڈنا شروع کروں گا اور جب تک مجھے اچھی نوکری نہیں ملے گی ،میں اس کے گھر رہوں گا اور جب کچھ کمانے لگ جاؤں گا، تو اس کا سارا حساب برابر کر کے اپنے لیے الگ رہائش کا بندوبست کر وں گا اور پھر ماں کو بھی یہیں بلوا لوں گا۔ میں نے نوکری کے ساتھ ساتھ پڑھائی کا بھی سوچ رکھا تھا مگر خالد صاحب کے اس پرانے ڈرائیور نے دو منٹ میں میرے سارے خواب چکنا چور کر دیے تھے۔ میرے ارادے اس کی باتیں سن کر دھوئیں کی طرح اُڑ چکے تھے۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی آسرا بھی نہیں تھا۔میں اس کے رحم و کرم پر زیادہ دن تک رہنے والا نہیں تھا‘ مگر اس وقت اس کے پاس رہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
اس کے تیور دیکھ کر دل میں آئے سوالات کا گلہ گھونٹ کر میں نے جوتے پہنے اورایک سائیڈ پر لگے ہوئے نل کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ منہ پر لگ بھگ دس بارہ چھینٹے مارنے کے بعد مجھے کچھ بہتر محسوس ہوا مگر بھوک اور نیند کا غلبہ ابھی تک اپنی جگہ قائم تھا۔ میں نے چھوٹو کی طرف دیکھا اور خالی ہاتھ کانوالہ بنا کر منہ کی طرف کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ وہ حسبِ معمول مسکرایا اور ہاتھ کے اشارے سے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔
میں ٹیبل کے پاس جا کر ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تبھی دو آدمی آپس میں باتیں کرتے ہوئے سیدھے آ کر میرے ساتھ والی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دونوں کے ہا تھ میں سلگتے ہوئے سگریٹ تھے۔ ان میں سے ایک نے چھوٹو کی طرف دیکھ کر آواز لگائی۔
’’اے چھوٹو! دو چائے ملائی مار کے۔‘‘ ان کے اس طرح چھوٹو کو بلانے سے پتا چلتا تھا وہ یہاں روزانہ آتے تھے۔ چھوٹو نے میرے لیے کھانا گرم کرنے کے ساتھ ساتھ کیتلی میں چائے کا پانی چڑھا دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد میرے اندر نیند کی طلب اور بھی زور پکڑ چکی تھی۔ میں نے پھٹے پر ٹانگیں اور بازو پھیلائے مرتضیٰ کو دیکھا۔ اس کے خراٹوں سے لگتا تھا کہ اس کا ابھی دو چار گھنٹوں تک اُٹھنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔
’’آتے ہی مر گیا… جانے کب سے نہیں سویا گنجا۔‘‘ میں نے نیند سے بوجھل آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے غصے سے سو چا تھا۔
’’آپ بھی سو جاؤ بھا جی اس طرف ۔‘‘ چھوٹو نے دانت نکوستے پھٹے کی دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے مشورہ دیا۔
’’مگر چاچا ڈسٹرب ہو جائے گا۔‘‘ میں نے مرتضیٰ کی پھیلی ہوئی ٹانگوں کو گھورتے ہوئے کہا۔ اس کی بنیان سے اس کی بڑھی ہوئی توند بھی واضح نظر آ رہی تھی۔
’’کیا ہو جائے گابھا جی ؟‘‘ چھوٹو کو سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
’’میں نے کہا چاچا جاگ جائے گا۔‘‘ میں نے وضاحت کر دی۔
’’او جی نئیں جاگے گا… ہم روز رات کو اکٹھے ایک ہی پھٹے پر سوتے ہیں اور کبھی کبھی مہمان آجائے تو وہ بھی ساتھ ہی سو جاتا ہے۔ اتنا بڑا پھٹا اسی لیے تو لگایا ہے بھا جی۔ آپ سو جاؤ یہ نہیں جاگے گا۔‘‘ چھوٹو نے میری بات کو رد کر کے پھر سے کہاتھا۔
’’اور اگر گاہک آگئے تو؟‘‘ میں نے اس کی ننھی سی جان کو دیکھ کر کہا۔
’’کیا آ گئے جی؟‘‘ اس نے ایک بار پھر ناسمجھی کے انداز میں میری طرف دیکھا۔ میں بے اختیار مسکرا دیا۔
چھوٹو بھولی بھالی شکل کا چھوٹا سا بچہ تھا۔ یہ اس کی اسکول میں پڑھنے کی عمر تھی مگر قسمت نے اسے اس چھپر ہوٹل میں لا کھڑا کیا تھا۔ قسمت نے کیا تو میرے ساتھ بھی ایسا ہی تھا مگر میں چھوٹو کی عمر میں شہزادوں کی طرح رہا کرتا تھا۔
’’میں نے کہا اگر چائے پینے والے یا کھانا کھانے والے آ گئے تب تم کیا کرو گے؟
’’اس ٹائم کوئی نہیں آتا جی۔ کوئی ایک دو گاہک آ جائیں تو آ جائیں … انہیں میں سنبھال لوں گا۔ زیادہ ہجوم تو شام کو ہو تا ہے یا پھر سویرے ناشتے کے ٹائم پر۔‘‘ میں نے اس کی بات سن کر سر ہلایا اور پھٹے کی دوسری طرف چڑھ کے لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں خوابوں کی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔
میری آنکھ مرتضیٰ کی آواز سے کھلی ۔
’’چل اُٹھ جا کاکا… کام کا وقت ہے ابھی۔‘‘ میں نے پھٹے پر کسمساتے ہو ئے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ چاچا مرتضیٰ کا چھپر ہوٹل چالو ہو چکا تھا۔ مجھے اب کرسیوں کے ساتھ ساتھ لوہے کے بنے ہوئے تین چار بنچ بھی نظر آ رہے تھے جہاں لوگ بیٹھ کر چائے پینے اور گپیں ہانکنے میں مشغول تھے ۔
ـ’’مجھے نہاکر کپڑے بدلنے ہیں۔‘‘ میں نے ہاتھ منہ دھو کر چاچا مرتضیٰ سے کہا۔
’’یہاں سے حمام قریب ہی ہے پر تو کل سویرے چلے جائیو … کپڑے بھی کل ہی بدل لیو۔‘‘ میں نے اس کی بات سن کر بہ غور اس کی اور چھوٹو کی حالت دیکھی ۔ میرا اندازہ تھا یہ لوگ ہفتے میں ایک با ر ہی حمام جاتے ہوں گے۔ یہاں منہ ہاتھ دھو کے ہی کام چلایا جاتا ہو گا۔
چاچا مرتضیٰ نے میرے ذمے برتن دھونے اور چائے بنانے کا کام لگایا تھا۔ اس کے خیال میں یہ دونوں کام آسان تھے جو میں کر سکتا تھا۔ شام کی روٹی اور صبح کا ناشتا اس نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور چھوٹو باہر سے سودا سلف اور دودھ لانے کے علاوہ ہم دونوں کی مدد کرنے پر معمور کر دیا گیا تھا۔
میں نے اس سے پہلے کبھی چائے نہیں بنائی تھی اور نہ ہی برتن دھونے کا تجربہ تھا مگر فی الحال یہ سب کرنا میری مجبوری تھی۔ جب تک میں یہاں اپنی جان پہچان نہیں بنا پاتا ،اس چھپر ہوٹل کا بیرا بن کے رہنا ہی مجھے مناسب لگ رہا تھا۔
’’مہینا بھر کام کر لوپھر دیکھوں گا تمہیں کتنی تنخواہ دینی ہے، پر بے فکر رہو۔ گاؤں میں دہاڑی کر کے جتنا کماتے تھے، اس سے کچھ نہ کچھ زیادہ ہی مل جائے گا تمہیں۔‘‘ چاچا مرتضیٰ نے شام میں جب گاہک کچھ کم تھے، مجھے کہا میں صرف اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا۔ میں یہاں اس کی نوکری کرنے نہیں بلکہ نوکری ڈھونڈنے آیا تھا مگر یہ بات بتاکر اس سے رحم کی توقع کرنا بے وقوفی تھی۔
میں نے دونوں بازوؤں کے کف چڑھا ئے اور بڑے شہر کی پہلی نوکری شروع کر دی ۔
ہر وقت مسکراکر بات کرنے والا چھوٹو جانے کیوں اس وقت مجھے برتن اٹھائے دیکھ کر افسردہ سا ہو گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خلا — ایم اے ایقان

Read Next

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!