آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

امامہ نے اس اسکریپ بک کو پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا۔ وہ اس ہی کی اسکریپ بک تھی۔ وہ اسکریپ بک جس میں اس نے کبھی تصویراتی گھر کے لئے ڈیزائننگ کی تھی۔ مختلف گھروں کی مختلف چیزوں کی تصویریں کھینچ کھینچ کر ایک کلیکشن بنائی تھی کہ جب وہ اپنا گھر بنائے گی تو اس کا فلور اس گھر جیسا ہوگا۔ کھڑکیاں اس گھر جیسی ، دروازے اس گھر جیسے… ہاتھ سے بنائے اسکیچز کے ساتھ… اور ان میں بہت سے خوب صورت گھروں کی میگز ینز سے کاٹی گئی تصویریں بھی چسپاں تھیں۔
وہ اسکریپ بک چندسال پہلے اس نے پھینک دینے کے لئے بہت ساری ردی کے ساتھ نکالی تھی، اور حمین نے اسے پھینکنے نہیں دی تھی۔ اس سے وہ اسکریپ بک لے لی تھی اور اب امامہ نے ا س اسکریپ بک کو یہاں دیکھا تھا۔ حمین سکندر کے اس پینٹ ہاؤس کی ایک دراز میں… اس کی مرمت کی جاچکی تھی اور وہ بہت صاف ستھری اور اس سے بہتر حالت میں نظر آرہی تھی جس میں امامہ نے اسے آخری بار حمین کو دیتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’تم کیا کروگے اس کا ؟‘‘ اس نے حمین سے پوچھا تھا۔
’’آپ کو ایسا ایک گھر بناکر دوں گا۔‘‘ اسے وہی جواب ملا تھا جس کا اسے پہلے سے اندازہ تھا، وہ حمین سکندر کے سرپرائز کو بوجھنے میں ماہر تھی۔
’’مجھے اب ایسے گھر کی تمنا نہیں ہے۔‘‘ امامہ نے اسے کہا تھا۔
’’ایک وقت تھا جب تھی پر اب نہیں، اب مجھے ایک چھوٹا سا گھر چاہیے جہاں پر میں تمہارے بابا کے ساتھ رہوں اور تمہارے بابا کے پاس وہ ہے۔ اس لئے تم اس گھر کو بنانے میں اپنی انرجی اور وقت ضائع مت کرنا۔‘‘ اس نے حمین کو نصیحت کی۔
’’میری خواہش ہے یہ ممی!‘‘ حمین نے اس سے کہا تھا۔
’’یہ گھر میں نے تمہارے بابا سے مانگا تھا، وہ نہیں دے سکے اور تم سے میں لوں گی نہیں، میں کبھی سالار کو یہ احساس نہیں ہونے دوں گی کہ تم نے مجھے وہ دیا ہے جو وہ نہیں دے سکا۔‘‘ حمین کو اس کی بات… سمجھ میں آگئی تھی۔
’’سوچ لیں۔‘‘ اس نے امامہ کو چیلنج کرنے والے انداز میں کہا تھا۔
’’سوچ لیا۔‘‘ وہ چیلنج قبول کرتے ہوئے ہنس پڑی۔
’’آپ کو دنیا میں بابا کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا۔‘‘ حمین نے شکایتاً اس سے کہا۔
’’ہاں نہیں آتا۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’زیادتی ہے یہ۔‘‘ اس نے جتایا۔




’’اتنا تو کرسکتی ہوں۔‘‘ اس نے جواباً چھیڑا۔
’’دادا کہتے تھے آپ دونوں پتھر کے زمانے میں بھی ہوتے تو مل جاتے۔‘‘ وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا، وہ بے اختیار ہنسی تھی اور ہنسی چلی گئی تھی۔
اور اب وہ اس اسکریپ بک کو کھولتے ہوئے اسے ورق بہ ورق دیکھ رہی تھی۔ جیسے اپنی زندگی کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس کے پاس وہ اسکریپ بک آدھی خالی تھی اور اب وہ ساری بھر چکی تھی۔ اس نے کچھ تجسس کے عالم میں ان صفحوں سے آگے دیکھنا شروع کیا جو اس نے بھرے تھے۔ وہاں بھی تصویریں تھیں۔ خوب صورت گھروں کی۔ وہ حمین سکندر کا انتخاب تھا۔ اس ہی کی طرح کاٹ کاٹ کر لگائی ہوئی تصویریں، مگر فرق صرف یہ تھا کہ وہ میگزینز سے کاٹی ہوئی تصویریں نہیں تھیں، وہ کھینچی ہوئی تصویریں تھیں۔ حمین سکندر کے اپنے گھروں کی، وہ چہرے پر مسکراہٹ لئے بڑے اشتیاق سے ان گھروں کی تصویروں کو دیکھتی جارہی تھی۔ وہ یقینا خوش نصیب تھا، تیس سال کی عمر تک پہنچے بغیر درجنوں گھروں کا مالک تھا۔ اس کی ساری اولادوں میں دولت کے معاملے میں سب سے زیادہ امیر اور خرچ کرنے میں سب سے زیادہ فیاض… اس نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی کمپنی امامہ سے قرض لے کر شروع کی تھی۔
’’صرف اس لئے لے رہا ہوں آپ سے کہ بابا نے بھی SIF آپ کے قرض سے شروع کیا تھا۔‘‘ اس نے امامہ کو منطق بتائی تھی اور اس وقت پہلی بار امامہ نے سالار سے SIF میں دی جانے والی اپنی اصل رقم واپس مانگی تھی۔
’’وہ ڈبو دے گا… مجھے یقین ہے۔‘‘ سالار نے اسے خبردار کیا تھا۔ وہ اس وقت سولہ سال کا بھی نہیں تھا اور اگر سالار یہ تبصرہ کررہا تھا تو غلط نہیں تھا۔
’’جب تمہیں SIF کے لئے یہ رقم دی تھی تو پاپا نے بھی یہ ہی کہا تھا۔ تم نے ڈبو دی کیا؟‘‘ اس نے سالار کو جتایا تھا۔
’’تم میرا حمین سے موازنہ کررہی ہو۔‘‘ سالار ناخوش ہوا تھا۔
’’پہلی بار نہیں کررہی۔‘‘ اس نے جواباً کہا تھا۔
کتنا وقت گزر گیا تھا۔ گزر گیا تھا یا شاید بہہ گیا تھا۔ زندگی بہت آگے چلی گئی تھی۔ خواہشات نفس بہت پیچھے چلی گئی تھیں۔
امامہ نے ہاتھ میں پکڑی اسکریپ بک اپنے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہاں پڑا چائے کا مگ اٹھا لیا۔ وہ اب سراٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگی تھی۔ وہ چند دن پہلے پاکستان سے مستقل طور پر امریکہ شفٹ ہوئی تھی اور حمین کا گھر اس کا پہلا پڑاؤ تھا۔ سالار بھی چند دن کے لئے وہیں تھا اور اس وقت صبح سویرے وہ اپنے لئے چائے بناکر پینٹ ہاؤس کے اس حصے میں آکر بیٹھی تھی جس کی چھت بھی شیشے کی تھی۔نیلے آسمان پر تیرتے ہلکے بادلوں اور اڑتے پرندوں کو وہ اس پر سکون خاموشی میں بچوں کے سے اشتیا ق سے دیکھ رہی تھی۔ تب ہی اس نے اپنے عقب سے آہٹ سنی۔ وہ سالار تھا۔ چائے کے مگ کے ساتھ۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تھے۔ ایک طویل مدت کے بعد وہ یوں امریکہ میں اس طرح فرصت سے مل رہے تھے۔ سالار کی زندگی کی بھاگ دوڑ کے بغیر۔ وہ بھی اس کے قریب کاؤچ پر بیٹھ گیا تھا، کاؤچ پر اس کے برابر بیٹھے چائے کے مگ ہاتھ میں لئے، وہ دونوں آج بھی ویسے ہی تھے۔ سالار کم گو، وہ سب کچھ کہہ دینے والی… سالار سنتے رہنے والا، وہ دنیا جہاں کی باتیں دہرا دینے والی… مگر ان کے پاس فرصت صرف چائے کے مگ جتنی ہوتی تھی۔ چائے کا مگ بھرا ہوتا تو ان کی باتیں شروع ہوتیں اور اس کے ختم ہونے تک باتیں اور فرصت دونوں ختم ہوجاتیں۔ چائے کا وہ مگ جیسے ان کی قربت میں گزاری ہوئی زندگی تھی۔ نرم گرم، رک رک کر ، ٹھہر ٹھہر کر گزرتی ہوئی ، لیکن جتنی بھی تھی تسکین بھری تھی…
سالار نے سامنے پڑی اسکریپ بک کو سرسری نظر سے دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے اٹھا کر الٹا پلٹا پھر واپس رکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہارے جیسے شوق ہیں تمہارے بیٹے کے۔‘‘ وہ مسکرادی۔ وہ دونوں اس کے پاس پینٹ ہاؤس میں پہلی بار آئے تھے۔
’’اس سال ریٹائر ہونے کا سوچ رہا ہوں۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔ وہ دھیرے سے ہنسا۔
’’نہیں، اب تم آگئی ہو امریکہ تو اب ریٹائر ہوسکتا ہوں۔ پہلے تو تنہائی کی وجہ سے کام کرنا میری مجبوری تھی۔‘‘ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔
’’بیس سال کی ہوئی تو تمہاری اس بات پر خوش ہوتی۔‘‘ امامہ نے بے ساختہ کہا۔
’’خیر بیس سا ل کی عمر میں میرے پاس اس جملے پر تو تم کبھی خوش نہیں ہوتیں۔‘‘ اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔ دونوں بیک وقت ہنسے۔
’’یہ ویسا ہی گھر ہے جیسا ایک بار تم نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس جھیل کے کنارے؟‘‘ سالار نے ایک دم آسمان کو دیکھتے ہوئے، اس سے پوچھا۔ وہ بھی سراٹھا کر شیشے سے نظر آتے آسمان کو دیکھنے لگی۔
’’نہیں، ویسا گھر نہیں ہے۔‘‘ امامہ ایک لمحے کے بعد کہا۔ سکندر عثمان کی موت کے بعد امامہ نے ایک بار پھر وہی جھیل کنارے ایک گھر دیکھا تھا۔ جو وہ اپنی زندگی کے کئی سالوں میں باربار دیکھتی رہی تھی۔ مگر اس بار وہ خواب اس نے بہت عرصے کے بعد دیکھا تھا۔
’’وہ گھر ایسا نہیں تھا۔‘‘ وہ اس پینٹ ہاؤس کو گردن گھما کر دیکھتے ہوئے بڑبڑارہی تھی۔ ’’وہ آسمان ایسا نہیں تھا۔ نہ وہ پرندے ایسے تھے نہ وہ شیشہ ایسا۔‘‘ کاؤچ پر اس کے برابر بیٹھے چائے کے دو مگ ہاتھ میں لئے بولی۔
’’وہ گھر دنیا میں کبھی کہیں نہیں دیکھا میں نے۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’اس گھر کی کوئی چیز دنیا بھر میں پھرنے کے باوجود کہیں نظر نہیں آئی مجھے… کبھی کبھی مجھے لگتا ہے وہ جنت میں ملے گا ہمیں۔‘‘ وہ کہہ کر خاموش ہوگئی تھی۔ وہ بھی چونکے بغیر خاموش ہی رہا تھا۔
’’تم نے کچھ نہیں کہا۔‘‘ امامہ نے اس کی خاموشی کو کریدا۔ اس نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے امامہ کو دیکھا اور بڑبڑایا۔
’’آمین۔‘‘ وہ چپ رہی، پھر ہنس پڑی، وہ آج بھی ویسا ہی تھا۔ مختصر مگر اگلے کو لاجواب کردینے والی باتیں کہہ دینے والا۔
’’اگر وہ جنت ہے تو پھر میں تم سے پہلے وہاں جاؤں گا۔‘‘ وہ امامہ سے کہہ رہا تھا۔ ’’تمہیں یاد ہے نا، میں وہاں تمہارا انتظار کررہا تھا۔‘‘
’’ضروری نہیں۔‘‘ لمحہ بھر کے لئے وہ چائے پینا بھولی۔ ’’خوابوں میں سب کچھ سچ نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا تھا۔ آج بھی بچھڑ جانے کا خیال اسے بے کل کر گیا تھا۔
’’اگر واقعی وہ جنت ہے تو کیا تم چاہتی ہو، وہ خواب جھوٹا ہو؟‘‘ وہ عجیب انداز میں مسکرایا تھا۔ اک بار پھر لاجواب کردینے والے جملے کے ساتھ…
’’بس اتنا کہ تم وہاں پہلے انتظار میں مت کھڑے ہو۔ دونوں اکٹھے بھی تو جاسکتے ہیں۔‘‘ امامہ نے چائے کا مگ خالی کرکے سامنے پڑی میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ اس نے اب سالار کے بازو پر ہاتھ رکھا تھا۔
وہ مسکرادیا۔
’’اب بھی کہو نا؟‘‘ وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
’’کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’آمین…‘‘
وہ ہنس پڑا۔ ’’آمین۔‘‘
٭…٭…٭
’’تم نے اس سے کیا کہا ہے کہ اس نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی؟‘‘ ہشام سے ملاقات کے کئی دن بعد تک بھی اس ملاقات کے حولاے سے کوئی تازہ خبر نہ ملنے اور ہشام کی طرف سے ہوجانے والی پراسرار خاموشی نے رئیسہ کو فکر مند کیا اور وہ حمین سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’اس نے تمہارا پیچھا کیوں چھوڑ دیا۔ یہ تو اچھا ہے، تم یہی تو چاہتی تھیں نا۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
رئیسہ کو جواب نہیں سوجھا۔ وہ اس کی یونیورسٹی آیا ہوا تھا۔
’’ٹھیک ہے، مگر تم نے اس سے کیا کہا؟‘‘ رئیسہ نے کچھ بجھے ہوئے انداز میں حمین سے کہا تھا۔ وہ اس کے لئے برگر لایا تھا اوراپنا راستے میں ہی کھاتا آیا تھا۔ اب اس کے پاس صرف ایک ٹکڑا رہ گیا تھا جسے وہ بڑے بے ڈھنگے پن سے نگل رہا تھا۔ رئیسہ نے اپنا برگر نکال کر کھانا شروع کردیا، اسے پتا تھا وہ اپنا ختم کرنے کے بعد اس کا برگر بھی کھانا شروع کردیتا۔
’’میں نے اس سے کہا، اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو بادشاہت چھوڑ دیتا۔‘‘ اس نے آخری ٹکڑا نگلتے ہوئے کہا اور رئیسہ کی بھوک مرگئی تھی۔ کیا الٹا مشورہ تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
’’لیکن میں نے اس سے صرف یہ نہیں کہا تھا۔‘‘ حمین اب اپنی انگلیاں چاٹ رہاتھا۔ پھر اس نے رئیسہ سے بڑے اطمینان سے کہا۔ ’’تمہاری بھوک تو مرگئی ہوگی، میری ابھی اٹھی ہے۔ تم نے نہیں کھانا تو میں یہ باقی بھی کھالوں۔‘‘
رئیسہ نے خاموشی سے اسے برگر تھمادیا۔ اس کی بھوک واقعی مرگئی تھی۔
’’میں نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ ولی عہد کے لئے مناسب امیدوار ہے ہی نہیں۔ نہ اہلیت رکھتا ہے، نہ صلاحیت… اور یہ شادی ہو یا نہ ہو… جلد یا بدیر وہ ویسے بھی ولی عہد کے عہدے سے معزول کردیا جائے گا۔ (اس لئے اس کے پا س دو راستے ہیں) یا تو اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرے اور ولی عہد کا عہدہ ابھی چھوڑ دے یا پھر بادشات کے خواب دیکھتے رہنے میں محبت بھی گنوائے اور تخت بھی۔‘‘ حمین نے بڑے اطمینان سے اسے گفتگو کاباقی حصہ سنایا تھا۔
’’تم نے یہ سب کہا اس سے، اس طرح۔‘‘ رئیسہ کو شدید صدمہ ہوا۔
’’نہیں ایسے نہیں کہا، تمہیں تو میں مہذب انداز میں بتارہا ہوں، اسے تو میں نے صاف صاف کہا کہ زیادہ سے زیادہ تین مہینے ہیں اور اس کے پاس… اگر تین مہینے میں وہ معزول نہ ہو اتو پھر رئیسہ سے دوسری شادی کرلینا۔‘‘
وہ دانت پر دانت رکھے حمین سکندر کو دیکھتی رہ گئی۔ اس ’’گفتگو‘‘ کے بعد اگر ہشام بن صباح نے اسے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا تو کوئی بھی خودار شخص یہ ہی کرتا۔
’’صباح بن جراح کے خلاف شاہی خاندان کے اندر شدید لابنگ ہورہی ہے اور صباح بن جراح اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے پرانے امیر کی فیملی میں شادی کروانا چاہتا ہے ہشام کی… اور یہ ہو بھی گئی تب بھی وہ بہت دیر تخت پر نہیں رہ سکتا، اس کے حریف بہت طاقت ور لوگ ہیں اور صباح سے زیادہ بہتر حکمران ہوسکتے ہیں۔ اگر صباح ہٹ جاتا ہے تو پھر ہشام کو کون رہنے دے گا وہاں۔ میں نے ہشام کو یہ سب نہیں بتایا، تمہیں بتارہا ہوں۔‘‘ اس نے برگر ختم کرتے ہوئے ہاتھ جھاڑے اور رئیسہ سے کہا۔
’’تم فائناسنس کررہے ہو اس کے حریفوں کو؟‘‘ اسے رئیسہ سے جس آخری سوال کی توقع تھی وہ یہ ہی تھا۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے، پھر حمین نے کہا۔
’’میں صرف ’’بزنس‘‘ کررہا ہوں۔ امریکہ میں صباح کے ساتھ… بحرین میں اس کے مخالفین کے ساتھ۔‘‘ اس نے بالآخر کہا۔ وہ گول مول اعتراف تھا۔
’’کیوں کررہے ہو؟‘‘ رئیسہ نے جواباً اس سے زیادہ تیکھے انداز میں اس سے کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا، پھر اس نے کہا۔
’’اپنی فیملی کے لئے۔‘‘ رئیسہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔
’’مجھے خیرات میں ملی ہوئی محبت نہیں چاہیے۔‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’وہ تمہارے لئے میرے اندازے سے زیادہ مخلص ہے۔ نہ ہوتا تو میں تمہیں بتا دیتا۔ وہ تمہارے لئے بادشاہت چھوڑ دے گا۔‘‘ حمین نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!