آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

عنایہ نے اپنے اسپتال کی پارکنگ میں داخل ہوتے ہوئے عبداللہ کی کال اپنے فون پر دیکھی۔ ایک لمحہ کے لئے وہ الجھی، پھر اس نے اس کی کال ریسیو کی۔
’’مل سکتے ہیں؟‘‘ اس نے سلام دعا کے بعد پہلا جملہ کہا۔ وہ ایک لمحہ خاموش رہی۔
’’تم یہاں ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تمہاری گاڑی کے پیچھے ہی ہے میری گاڑی۔‘‘ عنایہ نے بے اختیار بیک ویو مرر سے عقب میں عبداللہ کی گاڑی کو دیکھا جو اسے لائٹ سے اشارہ کررہا تھا۔ دس منٹ بعد پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوئے وہ اس کی گاڑی میں آگیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پھول کے ساتھ دو شاخیں تھیں۔ عنایہ نے کچھ کہے بغیر اسے دیکھا، پھر وہ تھام لیں۔
وہ فون پر پہلے ہی احسن اور عائشہ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں اسے بتاچکا تھا۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ عنایہ نے جواباً کہا۔
’’میں نے اسپتال میں ڈاکٹر احسن کی امامت میں نماز چھوڑ دی۔‘‘
عنایہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’میں نے اسے بتادیا کہ اپنی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والا شخص امام کا اہل نہیں، اسے عائشہ کے خلاف سارے الزامات واپس لینے ہوں گے، اگر وہ دوبارہ امامت کروانا چاہتا ہے تو۔‘‘ عبداللہ بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
’’اوہ، تو اس لئے اس نے کیس واپس لیا ہے۔‘‘ عنایہ نے بے اختیار کہا۔
عبداللہ چونکا۔ ’’اس نے کیس واپس لے لئے؟‘‘
’’ہاں۔ جبریل نے بتایا مجھے۔ اس نے ایک معذرت کا خط بھی لکھا ہے عائشہ کے نام۔‘‘ عنایہ نے مزید بتایا۔
’’یہ سب بے کار ہے اب، وہ بہت زیادہ نقصان کرچکا ہے۔‘‘
’’عائشہ کا؟‘‘
’’نہیں اپنا۔‘‘ عبداللہ کے لہجے میں افسردگی تھی۔
’’اچھے انسان ری کور کر جاتے ہیں ہر نقصان سے، کیوں کہ اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، برے نہیں کرسکتے۔‘‘ عبداللہ کہہ رہا تھا۔
’’وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔‘‘
’’وہ اپنے پیرنٹس کے ساتھ بابا سے بھی ملنے آئے تھے، جبریل کی شکایت کرنے۔‘‘ عنایہ کہہ رہی تھی۔




’’بابا نے اس کے باپ سے کہا کہ وہ دیکھے اس کی منافقت اور تنگ نظری نے اس کے اکلوتے بیٹے کو کیا بنادیا ہے۔‘‘
’’وہ شرمندہ ہوئے؟‘‘ عبداللہ نے پوچھا۔
’’پتا نہیں، خاموش ہوگئے تھے۔ البتہ احسن سعد کی ماں رونے لگی تھی، پتا نہیں کیوں، پھر وہ چلے گئے۔‘‘ عنایہ نے کہا۔
’’تم نے مجھے معاف کردیا؟‘‘ عبداللہ نے یک دم پوچھا۔
وہ مسکرا دی۔ ’’ہاں… ایسی کوئی بڑی غلطی تو نہیں تھی تمہاری کہ معاف ہی نہ کرتی۔‘‘
عبداللہ نے ایک کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ بے اختیار ہنسی۔
’’اب سب کچھ زبان سے کہنا سیکھو۔ سب کچھ لکھ لکھ کے کیوں بتاتے ہو۔‘‘ وہ کارڈ کھولتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی، پھر وہ بات کرتے کرتے ٹھٹک گئی۔ ایک ہاتھ سے بنے ہوئے کارڈ پر صرف ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔
’’تم مجھ سے شادی کروگی؟‘‘
عنایہ نے اپنی شرٹ کی جیب میں اٹکے بال پوائنٹ کو نکال کر اس تحریر کے نیچے لکھا۔ ’’ہاں۔‘‘
عبداللہ مسکرایا اور اس نے اس کا بال پوائنٹ لیتے ہوئے لکھا۔ ’’کب؟‘‘
عنایہ نے لکھا۔ ’’پھولوں کے موسم میں۔‘‘
’’بہار؟‘‘ عبداللہ کا سوال تھا۔
جواب میں عنایہ نے لکھا۔ ’’ہاں۔‘‘
عبداللہ نے ایک کارڈ پر ایک دل بنایا، عنایہ نے ایک اور … عبداللہ نے مسکراہٹ کا علامتی نشان بنایا۔ عنایہ نے ایک اور …
کارڈ لکیروں ، حرفوں، ہندوسوں ، جذبوں سے بھرتا جارہا تھااور ہرشے صرف محبت کی ترجمان تھی جو اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے اور جسے پانے والے خوش نصیب… وہ دونوں خوش نصیب تھے جو اس کارڈ کو عہد اور تجدید عہد سے بھر رہے تھے۔
٭…٭…٭
ٹیلی اسکوپ سے اس نے ایک بار پھر اس بینکوئٹ ہال کی کھڑکی سے اندر نظر ڈالی۔ ہال میں سیکیورٹی کے لوگ اپنی اپنی جگہوں پر مستعد تھے۔ کیئرٹیکر اسٹاف بھی اپنی اپنی جگہ پر تھا۔ اس بینکوئٹ ہال کا داخلہ دروازہ اس قد آدم کھڑکی کے بالکل سامنے تھا جس کھڑکی کے بالمقابل ساٹھ فٹ چوری، دو رویہ مرکرزی سڑک کے پر ایک عمارت کی تیسری منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں وہ موجود تھا۔ اس اپارٹمنٹ کے بیڈ روم کی کھڑکی کے سامنے ایک کرسی رکھے وہ ایک جدید اسنائپر رائفل کی ٹیلی اسکوپ سائٹ سے کھڑکی کے پردے میں موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے اس بینکوئٹ ہال میں جھانک رہا تھا۔ بینکوئٹ ہال کا داخلی دروازہ کھلا ہوا تھا اور کوریڈور میں استقبالی قطار اپنی پوزیشن لے چکی تھی۔ اس کی گھڑی میں نو بجے تھے۔ مہمان نو بج کر پندرہ منٹ پر اس کوریڈور میں داخل ہونے والا تھا اور تقریباًایک گھنٹہ اور پندرہ منٹ وہاں گزارنے کے بعد وہ وہاں سے جانے والا تھا۔ مہمان کے اس ہوٹل میں پہنچنے سے لے کر اس کی روانگی کے بعد تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے لئے ہر طرح کا مواصلاتی رابطہ جام ہونے والا تھا۔
یہ سیکیورٹی کے ہائی الرٹ کی وجہ سے تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ کے لئے وہاں سیل فون اور متعلقہ کوئی ڈیوائسز کام نہیں کرسکتی تھیں لیکن وہ ایک پروفیشنل ٹارگٹ کلر تھا۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے ہائی الرٹس میں کامیابی سے کام کرتا رہا تھا۔ اس کو ہائر کرنے کی وجہ بھی اس کی کامیابی کا تناسب تھا جو تقریباً سو فیصد تھا۔ وہ صرف دو افراد کو مارنے میں ناکام رہا تھا اور اس کی وجہ اس کے نزدیک اس کی بڑی قسمت تھی۔ پہلی بار اس کی رائفل لاسٹ سیکنڈز میں اس اسٹینڈ سے ہل گئی تھی جس پر وہ رکھی تھی اور دوسری بار… خیر دوسری بار کا قصہ طویل تھا۔
وہ پچھلے دو مہینے سے اس اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔ اس دن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے سے جب یہ ہوٹل اس بینکوئٹ ہال کے لئے مختص کیا گیا تھا، جنہوں نے اسے اس اہم کام کے لئے ہائر کیا تھا۔ اس تقریب کے لئے اس ہوٹل اور اس کے اس بینکوئٹ ہال کا انتخاب کرنے والے بھی وہی تھے۔
اس ’’مہمان ‘‘ کو ختم کرنے کا فیصلہ چار ماہ پہلے ہوا تھا۔ وقت، جگہ اور قاتل کا انتخاب بے حد ماہرانہ طریقے سے بڑے غور و خوض کے بعد کیا گیا تھا۔ اس مہمان کی سال بھر کی مکمل مصروفیات کے شیڈول میں سے مقام، ملک اور ممکنہ قاتلوں کے نام شارٹ لسٹ لئے گئے تھے پھر ہر جگہ اور تاریخ پر ہونے والے اس حادثے کے اثرات پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔
فوری اثرات اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر بات کی گئی تھی۔ ممکنہ ردعمل کے نقصانات سے بچنے کے لئے منصوبے تیار کئے گئے تھے۔ قاتلانہ حملے کے ناکام ہونے کی صورت میں ہونے والے ممکنہ ردعمل اور نقصانات پر غور کیا گیا تھا اور ہر میٹنگ کے بعد کام کی جگہیں اور تاریخیں بدلتی رہتی تھیں لیکن قاتل ایک ہی رہا تھا کیونکہ وہ موزوں ترین تھا۔
اس شہر میں،اس تاریخ پر، اس تقریب کے لئے سیکیورٹی کی وجوہات کے باعث تین مختلف ہوٹلز کانام لسٹ میں رکھا گیا تھا لیکن اسے ہائر کرنے والے جانتے تھے کہ تقریب کہاں ہوگی۔
اس کو دو ماہ پہلے ہی اس اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ستائیس سالہ لڑکی سے دوستی کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ اس لڑکی کے چار سالہ پرانے بوائے فرینڈ سے بریک اپ (تعلقات ختم کرنے) کے لئے ایک پروفیشنل کال گرل کا استعمال کیا گیا تھا جو اس کے کارڈ یلر بوائے فرینڈ سے ایک کار خریدنے کے بہانے ملی تھی اور اسے ایک ڈرنک کی آفر کرکے ایک موٹیل لے گئی تھی۔
اس کال گرل کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی ریکارڈنگ دوسرے دن اس لڑکی کو میل میں موصول ہوئی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ نشے میں تھا۔ اسے پھنسایا گیا تھا اور یہ سب ایک غلطی تھی۔ اس کے بوائے فرینڈ کی کوئی تاویل اس کے غصے اور رنج کو کم نہیں کرسکی تھی۔ اس کی گرل فرینڈ کے لئے یہ بات اس لئے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ زیادہ ناقابل برداشت تھی کیونکہ وہ تین ہفتے میں شادی کرنے والے تھے۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کا سامان گھر کے دروازے سے باہر نہیں پھینکا تھا، اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے باہر پھینکا تھا۔
سڑک پر بکھرے سامان کو اکٹھا کرتے ہوئے خود کو اور اس کال گرل کو کوستے ہوئے بھی اس کا بوائے فرینڈ یہ سوچ رہا تھا کہ چند ہفتوں میں اس کا غصہ ٹھنڈ ا ہوجائے گا اور وہ دونوں دوبارہ اکٹھے ہوجائیں گے۔ جنہوں نے ان کا تعلق ختم کروایا تھا انہیں اس بات کا اندیشہ بھی تھا۔ چنانچہ معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اس لڑکے کے کمپیوٹر کو ہیک کیا گیا تھا۔ اس کی اور اس کی گرل فرینڈز کی بے حد قابل اعتراض تصویروں کو اس کی ای میل آئی ڈی کے ساتھ بہت ساری ویب پر اپ لوڈ کردیا گیا تھا۔
یہ جیسے تابوت میں آخری کیل تھی۔ اس لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کی ای میل آئی ڈی سے بھیجا ہوا پیغام پڑھا تھا جس میں لکھا کہ اس نے اپنے بریک اپ کے بعد اس کی ساری پکچزکو قابل اعتراض ویب سائٹس پر اپ لوڈ کردیا تھا۔ اس کی گرل فرینڈ نے پہلے وہ لنکس کھول کر دیکھے تھے، پھر اپنے بوائے فرینڈ کی اس کال گرل کے ساتھ ویڈیو کو اپ لوڈ کیا تھا اور اس کے بعد اپنے سابقہ بوائے فرینڈ کو اس کے شوروم میں جاکر اس کے کسٹمرز کے سامنے اس وقت پیٹا تھا جب وہ انہیں ایک جدید ماڈل کی گاڑی بیچنے میں تقریباً کامیاب ہوچکا تھا۔
“Happy Families Drive this Car.”(یہ گاڑی خوش باش لوگ چلاتے ہیں۔)
اس نے تقریباً ایک سو چھین بار یہ جملہ اس جوڑے کے سامنے دہرایا تھا جو ٹیسٹ ڈرائیو کے لئے وہاں موجود تھے اورا س کے ساتھ اس نے ایک سوچھین بار یہ جھوٹ بھی بولا تھا کہ کس طرح خود بھی اس کار کو ذاتی استعمال میں رکھنے کی وجہ سے اس کا اور اس کی گرل فرینڈ کا تعلق مضبوط ہوا تھا۔ اس کے بوائے فرینڈ کو مار کھانے پر اتنا شاک نہیں لگا تھا۔ چار سالہ کورٹ شپ کے دوران وہ اپنی گرل فرینڈ کے ہاتھو ں اس شہر کی تقریباً ہر مشہور پبلک پلیس پر پٹ چکا تھااور یہ تو بہر حال اس کا اپنا شو روم تھا، جتنا اسے اپنی گرل فرینڈ کا الزام سن کر شاک لگا تھا۔
اس کے چیخنے چلانے اور صفائیاں دینے کے باوجود اس کی گرل فرینڈ کو یقین تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں یہ حرکت کی ہوگی ورنہ اس کے ذاتی لیپ ٹاپ میں موجود تصویریں اس کے ای میل ایڈریس کے ساتھ کون اپ لوڈ کرسکتا تھا۔
اس بریک اپ کے ایک ہفتے کے بعد وہ نائٹ کلب میں اس سے ملا تھا۔ چند دن ان کی ملاقاتیں یوں ہی بے مقصد انداز میں ہوتی رہی تھیں۔
وہ میڈیکل ٹیکنیشن تھی اور اس نے اپنا تعارف پینٹر کے طور پر کرایا تھا۔ وہ ہر بار اس لڑکی کے ڈرنکس کی قیمت خود ادا کرتا رہا تھا۔ چند دن کی ملاقاتوں کے بعد اس نے اسے گھر پر مدعو کیا تھا اور اس کے بعد وہاں اس کا آناجانا زیادہ ہونے لگا تھا۔ وہ اس بلڈنگ کے افراد کو … روزانہ کا ملاقاتی ہونے کا تاثر دینا چاہتا تھا اور دو ماہ کے اس عرصہ کے دوران وہ اس اپارٹمنٹ کی دوسری چابی بنوا چکا تھا اور ایک ہفتہ پہلے وہ اس لڑکی کی عدم موجودگی میں اس کے اپارٹمنٹ پر وہ اسنائپر رائفل اور کچھ دوسری چیزیں بھی منتقل کرچکا تھا۔ وہ جانتا تھا، اس تقریب سے ایک ہفتہ پہلے اس علاقے کی تمام عمارتوں پر سیکیورٹی چیک ہوگا۔ وہ تب ایسا کوئی بیگ اسکریننگ کے بغیر عمارت میں منتقل نہیں کرسکے گا اور اس وقت بھی اس علاقے کی تمام عمارات بے حد سخت سیکیورٹی میں تھیں۔ وہ ایک ریگولر وزیٹر نہ ہوتا تو اس وقت اس بلڈنگ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
اس بلڈنگ سے پچا س میل دور اس کی گرل فرینڈ کو ہسپتال میں کسی ایمرجنسی کی وجہ سے روک لیا گیا تھا ورنہ وہ اس وقت اپنے اپارٹمنٹ میں ہوتی۔ پارکنگ میں کھڑی اس کی کار کے چاروں ٹائرز پنکچرڈ تھے اور اگر وہ ان دونوں رکاوٹوں سے کسی نہ کسی طرح بچ کر پھر بھی گھر روانہ ہوجاتی تو راستے میں اس کو روکنے کے لئے کچھ اور بھی انتظامات کئے گئے تھے۔
نو بج کر تیرہ منٹ ہورہے تھے۔ وہ اپنی رائفل کے ساتھ مہمان کے استقبال کے لئے بالکل تیار تھا۔ جس کھڑکی کے سامنے وہ تھا، وہ کھڑکی بلٹ پروف شیشے سے بنی ہوئی تھی۔ ڈبل گیز ڈبلٹ پروف شیشہ…
یہی وجہ تھی کہ ان کھڑکیوں کے آگے سیکیورٹی اہلکار تعینات نہیں تھے۔ تعینات ہوتے تو اسے یقینا نشانہ باندھنے میں دقت ہوتی لیکن اس وقت اسے پہلی بار یہ محسوس ہورہا تھا کہ اسے اس سے پہلے کسی کو مارنے کے لئے اتنی شاندار سہولیات نہیں ملی تھیں۔مہمان کو کوریڈور میں چلتے ہوئے آنا تھا۔ ایلویٹر سے نکل کر کوریڈروں میں چلتے ہوئے بینکوئٹ ہال کے داخلی دروازے تک اس مہمان کو شوٹ کرنے کے لئے اس کے پاس پورے دو منٹ کا وقت تھا۔ ایک بار وہ اپنی بینکوئٹ ہال کی ٹیبل کی طرف چلا جاتا تو اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا لیکن دو منٹ کا وقت اس جیسے پروفیشن کے لئے دو گھنٹے کے برابر تھا۔
اس بینکوئٹ ہال کی کھڑکیاں بلٹ پروف تھیں، صرف اس کھڑکی کے سوا جس کے سامنے وہ تھا۔ تین ہفتے پہلے بظاہر ایک اتفاقی حادثے میں اس کھڑکی کا شیشہ توڑا گیا تھا۔ اسے تبدیل کروانے میں ایک ہفتہ لگا تھا اور تبدیل کیا جانے والا شیشہ ناقص تھا۔ یہ صرف وہی لوگ جانتے تھے جنہوں نے یہ منصوبہ بندی کی تھی۔
اسٹیج تیار تھا اور اس پر وہ فنکار آنے والاتھا جسکے لئے یہ ڈراما تیار کیا جارہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!