آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

’’بیوی کو کیوں مارا؟‘‘
’’ایک بڑے آدمی کے ساتھ اس کے ناجائز تعلقات تھے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر مجھے پتا چلاکہ جسے میں اپنی بیٹی سمجھتا تھا ، وہ بھی اس کی بیٹی تھی۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر… بس برداشت نہیں کرسکا میں… میںغیر ت مند تھا، اسے بھی قتل کردیا، باقی اولاد کو بھی… پتا نہیں وہ بھی میری تھی یا نہیں۔‘‘
سی این این پر غلام فرید کے ساتھ ہونے والا وہ انٹر ویو انگلش سب ٹائٹلز کے ساتھ چل رہا تھا اور دنیا کے تمام بڑے چینلز اس وقت اس انٹرویو کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کررہے تھے۔ صرف دس منٹوں میں دنیا بھر میں سالار سکندر اور SIF ایک بار پھر زبان زدہ عام ہونے والی تھی اور اس بار یہ ’’شہرت‘‘ نہیں رسوائی تھی جو اس خاندان کے حصے میں آنے والی تھی۔
’’وہ بڑا آدمی کون تھا؟‘‘ انٹرویو نے غلام فرید سے اگلا سوال کیا۔
’’میں اس کا چوکیدار تھا، اس کے اسکول کا… اس نے مجھے اس لئے وہاں سے نکال دیا کہ اس کے میری بیوی سے تعلقات تھے۔‘‘
انٹرویو کرنے والے نے غلام فرید کو ٹوکا۔ ’’اس بڑے آدمی کانام کیا تھا؟‘‘
’’سالار سکندر!‘‘ غلام فرید نے بے حد روانی سے کہا۔
دنیا بھر کی ٹی وی اسکرینز پر عین اسی لمحے سالار سکندر کی تصویر نمودار ہوئی تھی اور پھراس کے چند لمحے بعد رئیسہ سالار کی… بیک وقت … ایک ہی جیسی تصویریں۔
وہ سی آئی اے کا اسٹنگ آپریشن نہیں تھا، وہ انہوں نے پوری قوت اور طاقت سے مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز کے اشتراک سے دنیا کے کامیاب ترین اسلامی مالیاتی نظام کے بانی اور SIF کی بنیادوں پر دن دہاڑے حملہ کیا تھا۔
’’غلام فرید تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ انٹرویو لینے والا اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
غلام فرید ایک لحظہ کے لئے رکا ، پھر ا س نے کہا۔ ’’سالار سکندر کے لئے پھانسی کی سزا۔‘‘
٭…٭…٭




نیروبی کے اس فائیو اسٹار ہوٹل میں ہونے والی تقریب افریقہ کی تاریخ کے یادگار ترین لمحوں میں سے ایک تھی۔ کچھ گھنٹوں کے لئے دنیا کی تمام اکنامک مارکیٹس جیسے اس ایک تقریب پر فوکس کرکے بیٹھی تھیں جہاں SIF حمین سکندر کی کمپنی TIA کے ساتھ مل کر افریقہ میں دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی فنڈز کے قیام کا اعلان کرنے والی تھی۔ وہ انضمام نہیں تھا، اشتراک تھا اور دنیا کا کوئی بڑا مالیاتی ادارہ نہیں تھا جس کا سربراہ وہاں اس فائیو اسٹار ہوٹل کے بینکوئٹ ہال میں موجود نہ ہو۔ وہاں دنیا کے بہترین دماغ تھے، اپنی اپنی فیلڈ کے نام، لوگ اور ان لوگوں کے جمگھٹے میں وہاں سالار اور حمین سکندر اس گلوبل فنڈ کا اعلان کرنے والے تھے، جس کی مالیت دنیا کے تمام بڑے مالیاتی اداروں کو بچھاڑنے والی تھی۔
9:14 پر بھی ٹیلی اسکوپ کی آنکھ سے اس ٹارگٹ کلر کو وہ ’’مہمان‘‘ لفٹ کے دروازے سے نمودار ہوتا نظر نہیں آیا… لیکن وہ دم سادھے ، آنکھ ٹیلی اسکوپ پر ٹکائے، ایک انگلی ٹریکر پر رکھے، لفٹ کا دروازہ کھلنے کا منتظر تھا۔
دس… نو… آٹھ… سات…چھ… پانچ… چار… تین… دو… ایک…
٭…٭…٭
اس بینکوئٹ ہال کے اوپر والے فلور کے ایک کمرے کی ایک کھڑکی کے شیشوں سے ایک اور ٹیلی اسکوپ رائفل بالکل اسی طرح اس ٹارگٹ کلر کو نشانہ بنائے الٹی گنتی گننے میں مصروف تھی۔ وہ چوتھا فلور تھا اور وہ کمرہ اس فلور کے اسٹور رومز میں سے ایک تھا جہاں پر صفائی ستھرائی اور اسی طرح کا سامان ٹرالیوں میں بھرا پڑا تھا۔ جن لوگوں نے اس بینکوئٹ ہال میں اس مہمان کے لئے اس پیشہ ورانہ قاتل کا انتخاب کیا تھا، ان ہی لوگوں نے اس قاتل کے لئے اس شخص کا انتخاب کیا تھا اور اس جگہ کا بھی جہاں وہ چالیس سالہ رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھے، آنکھیں اس ٹارگٹ کلر پر لگائے بیٹھا تھا۔ اس نے اس کمرے کو اندر سے لوک کر رکھا تھا۔ وہ ایک ٹرالی دھکیلتا ہوا اس کمرے میں صبح کے وقت آیا تھا جب اس فلور کے کمروں کی صفائی ہورہی تھی اور پھر وہ اپنی ٹرالی کو اندررکھ کر باہر جانے کے بجائے خود بھی اندر ہی رہ گیا تھا۔ وقتاً فوقتاً کچھ اور بھی ٹرالیاں لانے والے اندر آتے اور جاتے رہے تھے اور اس کے ساتھ ہیلو ہائے کا تبادلہ بھی کرتے رہے تھے، مگر کسی کو اس پر شبہ نہیں ہوا تھا۔ ایک مقررہ وقت پر اس نے اسٹور روم کو اندر سے لاک کرلیا تھا۔ کیوں کہ اسے پتا تھا اب اس فلور کو بھی وقتی طور پر سیل کیا جانا تھا جب تک وہ کانفرنس وہاں جاری تھی۔
اسٹور روم کی کھڑکی کے شیشے میں اس کی ٹیلی اسکوپ رائفل کے لئے سوراخ پہلے سے موجود تھا جسے ٹیپ لگا کر وقتی طور پر بند کیا گیا تھا۔ اس نے ٹیپ ہٹانے سے پہلے ایک دوسری ٹیلی اسکوپ سے سڑک کے پاس اس عمارت کے اس فلیٹ کی اس کھڑکی کو دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا۔ ابھی بہت وقت تھا اور اس کی کھڑکی سے اس پیشہ ور قاتل کی کھڑکی کا منظر بے حد زبردست تھا۔ وہ پہلا فائر مس بھی کر جاتا تو بھی قاتل اس کی رینج میں رہتا… بھاگتے ہوئے بھی… کھڑکی سے ہٹنے کی کوشش کے دوران بھی… انہوں نے جیسے اس کے لئے حلوہ بنادیا تھا۔
اسے یقین تھا اس کھڑکی میں گھات لگانے کے بعد اس پیشہ ور قاتل نے اس ہوٹل کے اوپر نیچے کے ہر فلور کی کھڑکیوں کو اپنی ٹیلی اسکوپ رائفل سے ایک بار جیسے کھو جا ہوگا… کہیں کوئی غیر معمولی حرکت یا شخص کو ٹریس کرنے کی کوشش کی ہوگی، وہ ٹیلی اسکوپ رائفل کھڑکی کے شیشے سے لگا کر بیٹھتا خود اس کی نظر میں نہ آتا تب بھی اس کی رائفل کی نال اس کی نظر میں آجاتی۔ اس لئے آخری منٹوں تک وہ کھڑکی کے پاس نہیں گیا تھا۔ اسے اس پیشہ ور قاتل پر ایک پہلا اور آخری کار گر شوٹ فائر کرنے کے لئے گھنٹے چاہیے بھی نہیں تھے۔ وہ بے ھد قریبی رینج میں تھا۔
اور اب بالکل آخری لمحوں میں اس نے بالآخر رائفل کو اس سوراخ میں ٹکایا تھا۔
اسے اس پیشہ ور قاتل کو اس وقت مارنا تھا جب وہ فائر کرچکا ہوتا۔ اس مہمان کو صرف مارنا ضروری نہیں تھا بلکہ اس سازش کے سارے ثبوت مٹائے جانے بھی ضروری تھے۔
گھڑی کی سوئیاں جیسے بھاگتی جارہی تھیں۔ ٹک… ٹک… کرتے… دو انگلیاں دو ٹریگرز پر اپنا دباؤ بڑھا رہی تھیں۔
٭…٭…٭
لفٹ کا دروازہ کھلا۔ سالار نے اپنی گھڑی دیکھی۔ اس کے دو سیکیورٹی گارڈز اس سے پہلے لفٹ سے نکل گئے تھے۔ اس کا باقی عملہ اس کے لفٹ سے نکلنے کے بعد پیچھے لپکا تھا۔ کوریڈور میں تیز قدموں سے چلتے وہ استقبال کرنے والے آفیشل سے ملا تھا۔ اس نے گھڑی ایک بار پھر دیکھی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ وقت پر پہنچا تھا۔ چند سیکنڈز کے بعد وہ بینکوئٹ ہال میں داخل ہوجاتا۔ وہاں جو ہونے والا تھا، وہ اس سے بے خبر تھا۔بے خبری زندگی میں ہر وقت نعمت نہیں ہوتی۔
ٹی وی پر چلتی اس خبرکو دیکھتے سالار گنگ تھا۔ آخری چیز جو وہ اپنی زندگی اور کیرئیر کے اس اسٹیج پر ہونے کی توقع کرسکتا تھا، وہ یہ تھی۔ رحم کھا کر گود لی گئی بچی کو اس کے گناہ کے طور پر پوری دنیا میں دکھایا جارہا تھا اور یہ سب کہنے والا اس بچی کا اپنا باپ تھا۔ جس کی بیوی کی سالار نے کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ افیئر اور ناجائز اولاد دور کی بات تھی۔ وہ طاقت کا کھیل تھا۔ جنگ تھی اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ یہ کہنا سازش کی جارہی تھی نیروبی میں ہونے والے ٹی اے آئی اور ایس آئی ایف کے اس اشتراک کو ہونے سے پہلے توڑنے کی کوشش کی جارہی تھی، بے کار تھا۔
وہ اس وقت نیویارک ایئر پورٹ پر ایک فلائٹ لینے کے لئے موجود تھا جب پہلی بار وہ خبر بریک ہوئی تھی اور اس نے بزنس کلاس کے ڈیپارچر لاؤنج میں دیکھی تھی۔ ا س کے ساتھ موجود اس کے اسٹاف نے ایک کے بعد ایک نیوز چینلز کی اپ ڈیٹ کو اس کے ساتھ شیئر کرنا شروع کردیا تھا۔ سالار سکندر نے وہاں بیٹھے سب سے پہلی کال امامہ کو کی تھی۔ اور امامہ نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس سے کہا تھا۔
’’مجھے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں،نہ مجھے، نہ اپنے بچوں کو…‘‘
’’رئیسہ سے بات کرو۔ مجھے اپنے سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے وہ اس کی تصویریں چلا رہے ہیں۔‘‘ اس نے امامہ سے کہا تھا۔ وہ اپ سیٹ تھا۔ اس کا اندازہ امامہ کو اس کی آواز سے بھی ہورہا تھا۔
’’یہ وقت بھی گزر جائے گا سالار۔‘‘ امامہ نے اس سے کہا تھا، تسلی دینے والے انداز میں ۔ ’’تم نے اس سے زیادہ برا وقت دیکھا ہے۔‘‘
سالار نے سرہلایا تھا، ممنونیت کے عیب سے احساس کے ساتھ۔ گھر میں بیٹھی وہ عورت ان سب کے لئے عجیب طاقت تھی۔ عجیب طرح سے حوصلہ دیے رکھتی تھی۔ ان کو… عجیب طریقے سے ٹوٹنے سے بچاتی تھی۔
ٹھیک نو بج کر پندرہ پر لفٹ کا دروازہ کھلا تھا اور دو سیکیورٹی گارڈز تیز رفتار قدموں سے باہر نکلے تھے اور ان دونوں کے بالکل پیچھے چند قدموں کے فاصلے پر وہ تھا۔ اس پورے کوریڈور میں یک دم ہلچل مچ گئی تھی۔ وہاں پہلے سے کھڑے سیکورٹی آفیشیل اور پروٹوکول کے اہلکار یک دم الرٹ ہوگئے تھے۔
’’وہ‘‘ بے حد تیز قدموں سے ان دو سیکورٹی گارڈز کے عقب میں چل رہا تھا اور اس کے بالکل پیچھے اس کے اپنے عملے کے چند افراد بے حد تیز قدموں سے اس سے قدم سے قدم ملانے کی کوشش کررہے تھے۔
’’ایک، دو، تین، چار، پانچ…‘‘ زیر لب گنتی کرتے ہوئے اس ٹارگٹ کلر نے ’’ایک ‘‘ کا لفظ زبان سے ادا کرتے ہی اپنی رینج میں آنے والے اپنے ٹارگٹ کو فائزہ کردیا تھا۔ اس نے بینکوئٹ ہال کے شیشے کے پرخچے اڑتے دیکھے۔
٭…٭…٭
اس نے اپنی ٹیلی اسکوپ رائفل سے اس ٹارگٹ کلر کو ٹریگر دباتے دیکھا۔ بے حد سکون اور اطمینان کے عالم میں، اس نے ہلکی سی مسکراہٹ بھی دیکھی تھی۔ پھر اس نے اس ٹارگٹ کلر کو بے حد مطمئن انداز میں سراٹھاتے اور ٹیلی اسکول رائفل سے آنکھ ہٹاتے دیکھا اور اس وقت اس نے اسے شوٹ کیا۔ ایک مدھم ٹک کی آواز کے ساتھ اس نے کھڑکی سے اس کے بھیجے کو اڑتے دیکھا اور اپنے کمرے کے باہر بھاگتے قدموں کا شور… اس کا مشن پورا ہوچکا تھا، اب اسے یہاں سے فرار کرانے والے اس کے منتظر تھے۔
٭…٭…٭
نو بج کر پندرہ منٹ پر بالآخر لفٹ کا دروازہ کھلا تھا اور حمین سکندر اپنے دو ذاتی محافظوں کے پیچھے باہر نکلا تھا۔ اس کے پیچھے اس کے عملے کے باقی افراد تھے۔ کوریڈور میں پریس فوٹو گرافرز اور چینلز کے افراد بھی تھے جو ہر آنے والی اہم شخصیت کی کوریج کررہے تھے۔ اس سے پانچ منٹ پہلے وہاں سے سالار سکندر گزر کر گیا تھا اور اب وہ وہاں آیا تھا… دونوں تقریب کے دو اہم ترین افراد تھے…
بے حد تیز رفتاری سے قدم اٹھاتے ہوئے حمین سکندر کوریڈور میں اپنی آمد کی کوریج کرتے پریس فوٹو گرافر پر نظر ڈالتے، اپنا استقبال کرتے حکام کے ساتھ بڑی تیزی سے بینکوئٹ ہال کے داخلہ دروازے کی طرف جارہا تھا، جب اسے یک دم اپنے عقب میں آتے اپنی ٹیم کے ایک ممبر سے کچھ پوچھنے کا خیال آیا اپنے چیف فائنانس اسٹریٹجسٹ سے… وہ لمحہ بھر کے لئے رکا، پلٹا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتا، اس نے اپنی گردن کی پشت میں کوئی سلاخ گھستی محسوس کی۔ پھر شیشہ ٹوٹنے کی آوازیں اور پھر چیخوں کی اور پھر کوئی اسے زمین پر گراتا ہوا اس پر لیٹا تھا… پھر کوئی چیخا تھا۔
’’سامنے والی بلڈنگ سے گولی چلائی گئی ہے۔‘‘
اور اس وقت پہلی بار حمین کو احساس ہوا اس کی گردن کی پشت پر کیا ہوا ہے۔ تکلیف شدید تھی، ناقابل برداشت تھی۔ وہ حواس میں تھا۔ سب کچھ سن رہا تھا۔ اسے اب زمین پہ ہی گھسیٹتے ، اس کی سیکیورٹی ٹیم وہاں سے لفٹ کی طرف لے جارہی تھی اور اس وقت حمین کو پہلی بار سالار سکندر کا خیال آیا تھا اور اس کا دل اور دماغ بیک وقت ڈوبے تھے۔
٭…٭…٭
سالار سکندر نے بینکوئٹ ہال میں اسٹیج پر رکھی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے، اپنی تقریر کے نوٹس پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس بینکوئٹ ہال کے داخلی دروازے کے بالمقابل شیشے ٹوٹنے کی آواز سنی تھی۔ اس نے بے یقینی سے بہت دور کھڑکی کے اس شیشے کی گرتی کرچیاں دیکھی تھیں۔ وہ ساؤنڈ پروف بلٹ پروف شیشے تھے۔ ٹوٹ کیسے رہے تھے؟ ایک لمحہ کے لئے اس نے سوچا تھا اور پھر اس نے ہال کے عقبی حصے اور باہر کوریڈور میں شور سنا تھا اور اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ سکتا، اس سمیت اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو سیکیورٹی گارڈز کور کرتے ہوئے اسٹیج کے عقب میں کھینچتے ہوئے فرش پر لیٹنے کا کہہ رہے تھے۔ ہال میں اب شور تھا۔ گارڈز چلا چلا کر احکامات دے رہے تھے اور جس جس اہم شخصیت کے ساتھ جو بھی سیکیورٹی پر مامور تھے۔ وہ اسے محفوظ کرنے میں مصروف تھے۔ وہاں موجود ہر شخص خاص تھا… اہم … وہ دنیا کے کامیاب انسانوں کا مجمع تھا، جو اب زندگی بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔
اور وہاں زمین پر اوندھے منہ لیٹے سالار کو حمین کا خیال آیا تھا اور اس کا دل کسی نے مٹھی میں لیا تھا۔ ہال میں اس کے بعد حمین سکندر کوداخل ہونا تھا۔ اور وہ نہیں آیا تھا… تو کیا یہ حملہ اس پر… وہ سوچ نہیں سکا، وہ زمین سے اٹھ گیا، گارڈز نے اسے روکنے کی کوشش کی، اس نے انہیں دھکا دیا اور چلایا۔
’’د ور ہٹو۔‘‘ وہ اس کے پیچھے لپکے تھے۔ وہ زمین پر لیٹے لوگوں کو پھلانگتا ، کھڑے گارڈز سے ٹکراتاداخلہ دروازے تک آگیا تھا جو اس وقت سیکیورٹی حکام سے بھرا ہوا تھا۔ اور اس ہجوم میں بھی اس نے ریسپشن رنر کے ساتھ سفید ماربل کے فرش پر خون کے نشانات دیکھے تھے جو پورے فرش پر لفٹ تک گئے تھے۔
’’کس کو گولی لگی ہے؟‘] اس نے اپنے سرد ہوتے وجود کے ساتھ وہاں ایک سیکیورٹی آفیشل کا کندھا پکڑ کر پوچھا۔
’’حمین سکندر۔‘‘ سالار کے قدموں سے جان نکل گئی تھی، وہ لڑکھڑایا تھا۔ ان دونوں سیکیورٹی گارڈز نے اسے سنبھالا۔
’’کیا وہ زندہ ہے؟‘‘ اس نے اس سیکیورٹی اہلکار سے دوبارہ پوچھا۔ جواب نہیں آیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!