آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

حمین سکندر سے ہشام متاثر زیادہ تھایا مرعوب… اسے کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ مگر وہ اس سے جلن محسوس کررہا تھا۔ اس کے بارے میں اسے شبہ نہیں تھا۔ رئیسہ سے ملنے اور اس کی فیملی کے بارے میں جاننے سے بھی پہلے وہ حمین سکندر کے بارے میں جانتا تھا۔ اپنے تقریباً ہم عمر اس نوجوان کے بارے میں وہ اتنا ہی تجسس رکھتا تھا جتنا بزنس اور فائنانس کی دنیا میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص۔
ہشا کا باپ امریکا میں سفارت کاری کے دوران بھی بہت ساری کمپنیز چلارہا تھا اور ان کمپنیز میں سے کچھ کا واسطہ حمین سکندر کی کمپنیز سے بھی پڑتا تھا۔ وہ خود حمین سے رئیسہ سے متعارف ہونے سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا، لیکن اس کا باپ مل چکا تھا اور اس کا مداح تھا۔ اپنی زندگی کی دوسری دہائی کے اوائل میں وہ جن بزنس ٹائیکونز سے ڈیل کررہا تھا، وہ عمر میں اس سے دوگنا نہیں چار گناہ بڑے تھے، اس کے باوجود حمین سکندر کی بزنس اور فائنانس کی سمجھ بوجھ پر کوئی سوال نہیں کرتا تھا تو اس پر تبصرے آتے تھے۔ پروڈکٹ پلان دیتا تھا تو یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مارکیٹ میں نوٹس نہ ہو… اور بزنس مینج کرتا تھا تو یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنی ناکامی سے دوچار ہو…
اور اس حمین سکندر سے متاثر ہونے والوں میں ایک ہشام بھی تھا متاثر بھی، مرعوب بھی، لیکن اس سے رقابت کا جذبہ اس نے رئیسہ کی وجہ سے رکھنا شروع کیا۔ وہ لڑکی جس پر ہشام جان چھڑکتا تھا۔ وہ صرف ایک شخص پر اندھا اعتماد کرتی تھی، صرف ایک شخص کا حوالہ بار بار دیتی تھی اور بدقسمتی سے وہ شخص وہ تھا جس سے ہشام پہلے ہی مرعوب تھا… پھر رقابت کے علاوہ کوئی اور جذبہ ہشام اپنے دل میں محسوس کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ رئیسہ اسے صرف ایک دوست اور بھائی سمجھتی تھی اور یہ جاننے کے باوجود کہ حمین کے بھی رئیسہ کے لئے احساسات ایسے ہی تھے۔ وہ رئیسہ سے متعارف ہونے کے بعد حمین سے چند بار سرسری طور پر مل چکا تھا، مگر یہ پہلا موقع تھا جب وہ اس سے تنہائی میں ملنے جارہا تھا اور وہ بھی اس کے گھر پر۔ وہ اب بحرین کا ولی عہد نہ ہوتا تو اس شخص سے ملنے کے لئے جاتے ہوئے بے حد احساس کمتری کا شکار ہورہا ہوتا۔ حمین سکندر کی کامیابی اور ذہانت کسی کو بھی اس احساس سے دوچار کرسکتی تھی۔
نیویارک کے ایک مہنگے ترین علاقے میں ستاون منزلہ عمارت کی چھت پر بنے اس پینٹ ہاؤس میں حمین سکندر نے بے حد گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا۔ اس کے ساتھ اب سائے کی طرح رہنے والے باڈی گارڈ اس عمارت کے اندر نہیں آسکتے تھے کیوں کہ انٹرنس پروزیٹرز میں صرف ہشام کا نام تھا۔ ولی عہد یا شاہی خاندان کے القابات کے بغیر۔




ان چند مہینوں میں پہلی بار ’’His Royal Highness‘‘ صرف ہشام بن صباح کے طور پر پکارے گئے تھے۔ اسے برا نہیں لگا صرف عجیب لگا۔ وہ نام اس کے پینٹ ہاؤس کے دروازے پر اندر داخلے کے وقت حمین نے اور بھی چھوٹا کردیا تھا۔
’’مجھے خوشی ہے کہ تم بالکل وقت پر آئے ہو ہشام۔‘‘ اس سے مصافحہ کرتے ہوئے سیاہ ٹراؤزر اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس حمین سکندر نے کہا۔
وہ اتوار کا دن تھا اور وہ لنچ کے بعد مل رہے تھے۔ وہ دنیا کے امیر ترین نوجوانوں میں سے ایک کے گھر پر تھا اور ہشام کا خیال تھا اس پینٹ ہاؤس میں بھی وہی سب الزامات ہوں گے جو وہ اپنے خاندانی محلات اور اپنے سوشل سرکل میں دیکھتا آیا تھا۔ پرتعیش رہائش گاہ جہاں پر دنیا کی ہر آسائش ہوگی، ہر طرح کے لوازمات کے ساتھ۔ بہترین انٹیریر، فرنیچر، شوپیسز، بارز اور دنیا کی بہترین سے بہترین شراب۔ اس کا خیال تھا نیوریارک کے اس مہنگے ترین علاقے میں اس پینٹ ہاؤس میں حمین سکندر نے ایک دنیاوی جنت بسا رکھی ہوگی کیوں کہ ہشام ایسی ہی جنتیں دیکھتا آیا تھا۔
حمین سکندر کے اس پینٹ ہاؤس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بہت مختصر تقریباً نہ ہونے کے برابر فرنیچر … دیواروں پر چند کیلی گرافی کے شاہکار اور کچن کاؤنٹر پر ایک رحل میں کھلا قرآن پاک جس کے قریب پانی کا ایک گلاس اور کافی کا ایک مگ تھا۔
ہشام بن صباح رعب میں آیا تھا، اس شخص کے جس سے وہ ’’مل‘‘ رہا تھا، جسے بزنس اور فائنانس کی دنیا کا گرو نہیں، جن مانا جاتا تھا اور جس کے کروڑوں روپے کے اس پینٹ ہاؤس میں بھی رکھی جانے والی نمایاں چیز قرآن پاک تھا۔ وہ سالار سکندر کا چشم و چراغ تھا۔
’’یہ میرے دادا کا دیا ہوا قرآن پاک ہے، اسے ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں میں… گھر پر تھا، فرصت بھی تو تمہارے آنے سے پہلے پڑھ رہا تھا۔‘‘ حمین نے رحل پر رکھے قرآن پاک کو بند کرتے ہوئے کہا۔
’’بیٹھو۔‘‘ اس نے کاؤنٹر کے قریب پڑے کچن اسٹولز کے بجائے لاؤنج میں پڑے صوفوں کی طف اشارہ کرتے ہوئے ہشام سے کہا۔ وہ پورا پینٹ ہاؤس اس وقت دھوپ سے چمک رہا تھا۔ سفید انٹیریئر میں گلاس سے چھن چھن کر آتی ہوئی روشنی کی کرنیں ان صوفوں تک بھی آرہی تھیں جن پر اب وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہشام بن صباح شاہی محل کے تخت پر بیٹھ کر آیا تھا، مگر … اپنے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے شخص کے جیسا طمطراق اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
بات کا آغاز مشکل ترین تھا اور بات کا آغاز حمین نے کیا تھا، اسے چائے کافی کی آفر کے ساتھ۔
’’کافی!‘‘ اس نے جواباً آفر قبول کرتے ہوئے کہا۔ حمین اٹھ کر اب سامنے کچن ایریا میں کافی میکر سے کافی بنانے لگا۔
’’رئیسہ سے تمہارا بہت ذکر سنا ہے میں نے اور ہمیشہ اچھا۔‘‘ وہ کافی بناتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
’’میں نے بھی۔‘‘ ہشا م کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ حمین کافی انڈیلتے ہوئے مسکرایا اور اس نے کہا۔ ’’I am not surprised‘‘
وہ اب کافی کے مگ اور کوکیز کی ایک پلیٹ ایک ٹرے میں رکھے واپس آکر بیٹھ گیا تھا۔
ہشام نے کچھ کہے بغیر کافی کا مگ اٹھایا، حمین نے ایک کوکی…
’’تم مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔‘‘ کوکی کو کھانا شروع کرنے سے پہلے اس نے جیسے ہشام کو یاد دلایا۔
’’ہاں۔‘‘ ہشام کو ایک دم کافی پینا مشکل لگنے لگا تھا جس مسئلے کے لئے وہ وہاں آیا تھا، وہ مسئلہ پھر گلے کے پھندے کی طرح یاد آیا تھا۔
’’میں رئیسہ سے بہت بہت محبت کرتا ہوں۔‘‘ اس نے اس جملے سے آغاز کیا جس جملے سے وہ آغاز کرنا نہیں چاہتا تھا۔
’’گڈ۔‘‘ حمین نے بے حد اطمینان سے جیسے کوکی کو نگلنے سے پہلے یوں کہا جیسے وہ اس کا چیس کا اسکور تھا۔
’’میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ہشام نے اگلا جملہ ادا کیا۔ اسے اپنا آپ عجیب چغد محسوس ہورہا تھا اس وقت۔
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ حمین نے کافی کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ ’’مگر سوال یہ ہے کہ یہ کروگے کیسے؟‘‘ اس نے جیسے ہشام کی مدد کرتے ہوئے کہا۔ وہ اسے سیدھا اس موضوع پر بات کرنے کے لئے لے آیا تھا جس پر بات کرنے کے لئے وہ آیا تھا۔ ہشام اگلے کئی لمحے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا رہا یہاں تک کہ حمین کو اس پر ترس آنے لگا تھا۔
’’اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟‘‘ ہشام نے یک دم اس سے پوچھا۔ حمین کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
’’میں جو کرتا، وہ تم کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے۔‘‘حمین نے جواباً کہا۔ ہشام کو عجیب سی ہتک محسوس ہوئی۔ وہ اسے چیلنج کررہا تھا۔
’’تم بتائے بغیر مجھے جج نہیں کرسکتے۔‘‘ اس نے حمین سے کہا۔
’’ٹھیک ہے بتادیتا ہوں۔‘‘ حمین نے کافی کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
’’رئیسہ کو چھوڑ دینے کے علاوہ کوئی بھی حل بتادو مجھے میرے مسئلے کا۔‘‘ پتا نہیں اسے کیا وہم ہوا تھا کہ حمین کے بولنے سے پہلے وہ ایک بار پھر بول اٹھا تھا۔ حمین اس بار مسکرایا نہیں، صرف اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔
’’میں اگر تمہاری جگہ ہوتا تو…‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
٭…٭…٭
وہ عنایہ کے کہنے پر عائشہ عابدین سے ملنے آیا تھا، یقین اور بے یقینی کی ایک عجیب کیفیت میں جھولتے ہوئے۔ وہ اسلام سے ایک بچے کے طور پر متعارف ہوا تھا۔ ایک بچے کے طور پرمتاثر۔ وہ ایک ایسے خاندان کے ذریعہ اس مذہب کے سحر میں آیا تھا کہ ان جیسے لوگ اس نے دیکھے ہی نہیں تھے ان کی نرمی، فیاضی اور ہمدردی نے ایرک کا وجود نہیں دل اپنی مٹھی میں کیا تھا اور اتنے سالوں میں وہ اسلام کی اسی روشن خیالی ، اسی فیاضی اور نرمی کو ہی آئیڈیلائز کرتا رہا تھا۔ اور اب وہ اپنے mentor کے بارے میں ایسی باتیں سن رہا تھا جو اس کے لئے ناقابل یقین تھیں۔ وہ اس نے عنایہ کی زبان سے نہ سنی ہوتیں تو وہ انہیں جھوٹ کے پلندے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ سمجھتا… ڈاکٹر احسن سعد وہ نہیں ہوسکتے تھے اور وہ نہیں کرسکتے تھے، جس کا الزام عنایہ ان پر لگا رہی تھی۔
عنایہ نے امریکا پہنچنے کے فوراً بعد اسے کال کرکے بلایا تھا، اور پھر احسن سعد کے معاملے کو اس سے ڈسکس کیا تھا۔ جبریل پر ڈاکٹر احسن کے الزاما ت کو بھی اور عائشہ عابدین کے ساتھ ہونے والے معاملات کو بھی۔ وہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ احسن سعد، اتنا بے حس اور جھوٹا ہوسکتا ہے۔ اور جس پر وہ الزامات لگ رہے تھے اس کے بارے میں بھی عبداللہ قسم کھا سکتا تھا کہ وہ یہ نہیں کرسکتا۔
دونوں کے درمیان بحث ہوئی پھر تکرار اور پھر ان کی زندگی کا پہلا جھگڑا۔ دو بے حد ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کے لوگوں میں۔
’’میںیقین نہیں کرسکتا… میں یقین نہیں کرسکتا… ڈاکٹر احسن سعد علی مسلمان ہیں۔ نماز کی امامت کرواتے ہیں، وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہ سلوک کریں گے… یہ سب…؟ اور بغیر وجہ کے، میں مان ہی نہیں سکتا… میں مان ہی نہیں سکتا۔‘‘ وہ اس کے علاوہ کچھ کہتا بھی تو کیا کہتا۔
’’تو جاؤ، تم پھر عائشہ سے مل لو اور خود پوچھ لو کہ کیا ہوا تھا اس کے ساتھ، لیکن میرا بھائی جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ عنایہ نے بھی جواباً بے حد خفگی سے کہا تھا۔
ملاقات کا اختتام بے حد تلخ موڑ پر ہوا تھا اور اس وقت پہلی بار عنایہ کو احساس ہوا کہ جبریل کے خدشات بے جا نہیں تھے۔ عبداللہ اگر اس حد تک احسن سعد سے متاثر تھا تو ان دونوں کے تعلق میں یہ اثر بہت جلد رنگ دکھانے لگتا۔ وہ عبداللہ سے مل کر آئی تو اس کا ذہن بری طرح انتشار کا شکار تھا۔ وہ مصیبت جو کسی اور کے گھر میں تھی ان کی زندگی میں ایسے آئی تھی کہ انہیں اندازہ بھی نہیں ہو اتھا۔
عبداللہ نے اس سے ملنے کے بعد اسے کال کی تھی، اس نے جبریل کو کال کی تھی… ایک بے حد شکایتی کال… یہ پوچھنے کے لئے کہ وہ احسن سعد کے حوالے سے یہ سب کیوں کہہ رہا تھا؟ کیا وہ نہیں جانتا تھا احسن کتنا اچھا انسان اور مسلمان تھا؟ وہ بہت دیر جبریل کی بات سنے بغیر بے حد جذباتی انداز میں بولتا ہی چلا گیا تھا۔ جبریل سنتا رہا تھا۔ وہ اس کی زندگی کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک تھا۔ ایک نو مسلم کو یہ بتانا کہ اس کے سامنے جو بھی سب سے زیادہ عملی مسلمان تھا، وہ اچھا انسان ثابت نہیں ہوا تھا۔
وہ عبداللہ کا دل مسلمانوں سے نہیں پھیرنا چاہتا تھا، خاص طور پر ان مسلمانوں سے جو تبلیغ کا کام کررہے تھے۔ وہ ایک حافظ قرآن ہوکر ایک دوسرے حافظ قرآن کے بارے میں ایک نو مسلم کو یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ وہ جھوٹا تھا، ظالم تھا، بہتان لگانے والا ایک لالچی انسان تھا، اس کے باوجود کہ وہ صوم و صلوۃ کا پابند ایک مسلمان تھا۔ جبریل سکندر کا مخمصہ ایک بڑا مخمصہ تھا مگر اس کی خاموشی اس سے زیادہ خرابی کا باعث بنتی تو وہ خاموش نہیں رہ پایا تھا۔
’’احسن سعد کے بارے میں جو میں نہیں جانتا ہوں اور جو میں کہوں گا، تم پھر اس سے ہرٹ ہوگے، اس لئے سب سے بہترین حل یہ ہے کہ تم اس عورت سے جاکر ملو اور وہ سارے ڈاکومنٹس دیکھو جو اس کے پاس ہیں۔‘‘ اس نے عبداللہ کی باتوں کے جواب میں اسے کہا۔
اور اب عبداللہ یہاں تھا، عائشہ عابدین کے سامنے اس کے گھر پر، وہ جبریل کے حوالے سے آیا تھا۔ عائشہ عابدین اس سے ملنے سے انکار نہیں کرسکی۔ وہ اس رات آن کال تھی اور اب گھر سے نکلنے کی تیاری کررہی تھی جب عبداللہ وہاں پہنچا تھا اور وہاں اب اس کے سامنے بیٹھا اسے بتارہا تھا کہ اس کی منگیتر نے احسن سعد کے حوالے سے کچھ شبہات کا اظہار کیا تھا خاص طور پر عائشہ عابدین کے حوالے سے اور وہ ان الزامات کی تصدیق یا تردید کے لئے وہاں آیا تھا… لیکن یہ کہنے سے پہلے اس نے عائشہ کو بتایا تھا کہ وہ احسن سعد کو کیا درجہ دیتا تھا اور اس کی زندگی کے پچھلے کچھ سالوں میں وہ اس کے لئے ایک رول ماڈل رہے تھے۔
وہ جیسے ایک ’’بت‘‘ لے کر عائشہ عابدین کے پاس آیا تھا جسے ٹوٹنے سے بچانے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا تھا اور گفتگو کے شروع میں ہی اتنی لمبی تمہید جیسے ایک حفاظتی دیوار تھی جو اس نے صرف اپنے سامنے ہی نہیں، عائشہ عابدین کے سامنے بھی کھڑی کردی تھی۔
اس نے بھی جبریل جیسی ہی خاموشی کے ساتھ اس کی باتیں سنی تھیں۔ بے حد تحمل اور سکون کے ساتھ۔ کسی مداخلت یا اعتراض کے بغیر۔ عبداللہ کو کم از کم اس سے یہ توقع نہیں تھی۔ وہ یہاں آنے سے پہلے عائشہ عابدین کا ایک امیج ذہن میں رکھ کر آیا تھا۔ وہ پہلی نظر میں اس امیج پر پوری نہیں اتری تھی۔ بے حجاب ہونے کے باوجود اس میں عبداللہ کو بے حیائی نظر نہیں آئی۔ بے حد سادہ لباس میں میک اپ سے بے نیاز چہرے والی ایک بے حد حسین لڑکی جس کی آنکھیں اداس تھیں اور جس کی آواز بے حد دھیمی، عبداللہ وہاں ایک تیزز طرار، بے حد فیشن ایبل، الٹرا ماڈرن عورت سے ملنے کی توقع لے کر آیا تھا جسے اس کے اپنے خیال اور ڈاکٹر احسن سعد کے بتائے ہوئے کردار کے مطابق بے حد قابل اعتراض حلیے میں ہونا چاہیے تھا، مگر عبداللہ کی قسمت میں شاید مزید حیران ہونا باقی تھا۔
عنایہ اور جبریل دونوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ اسے ڈاکومنٹس دکھائے گی، احسن سعد سے طلاق کے کاغذات، کورٹ کا فیصلہ، کسٹڈی کی تفصیلات اور وہ حقائق جو صرف وہی بتاسکتی تھی، عائشہ عابدین نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
’’احسن سعد برا شخص نہیں ہے، صرف میں اور وہ compatible نہیں تھے۔ اس لئے شادی نہیں چلی۔‘‘ تقریباً دس منٹ تک اس کی بات سننے کے بعد عائشہ نے بے حد مدھم آواز میں اسے کہا تھا۔
’’وہ یقینا اتنے ہی اچھے مسلمان ہیں، جتنا آپ اسے سمجھتے ہیں اور اس میں بہت ساری خوبیاں ہیں۔ آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ کا واسطہ ان کی خوبیوں سے پڑا۔ میں شاید اتنی خوش قسمت نہیں تھی یا پھر مجھ سے کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی اور عبداللہ کے دل کو جیسے تسلی نہیں ہورہی تھی، یہ وہ کچھ نہیں تھا جو وہ سننا چاہتا تھا، لیکن وہ بھی نہیں تھا جس کی اسے توقع تھی۔
’’وہ آپ کے لئے ایک انسپائریشن اور رول ماڈل ہیں… یقینا ہوں گے۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا، مگر چند غلطیاں کرنے پر ہم کسی کو نظروں سے نہیں گراسکتے۔ میرے اور احسن سعد کے درمیان جو بھی ہوا، اس میں اس سے زیادہ میری غلطی ہے اور آپ کے سامنے میں ان کے بارے میں کچھ بھی کہہ کر وہ غلطی پھر سے دہرانا نہیں چاہتی۔‘‘
عائشہ نے بات ختم کردی تھی۔ عبداللہ اس کی شکل دیکھتا رہ گیا تھا۔ اسے تسلی ہونی چاہیے تھی، نہیں ہوئی… وہ وہاں احسن سعد کے بارے میں کچھ جاننے اور کھوجنے نہیں آیا تھا، اس کا دفاع کرنے آیا تھا، اس عورت کے سامنے جو اس کی تذلیل اور تضحیک اور دل شکنی کا باعث بنی تھی، لیکن اس عورت نے جیسے اس کے سامنے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی کسی صفائی، کسی وضاحت کی۔ اس نے ہر غلطی، ہر گناہ خاموشی سے اپنے کھاتے میں ڈال لیا تھا۔
اس کے لاؤنج میں بیٹھے عبداللہ نے دیواروں پرلگی اس کے بیٹے کی تصویریں دیکھی تھیں۔ اس کے کھلونوں کی، ایک چھوٹا سا صاف ستھرا گھر، ویسی جگہ نہیں جیسا وہ اسے تصور کرکے آیا تھا، کیوں کہ احسن سعد نے اسے اس عورت کے ’’پھوہڑین‘‘ کے بھی بہت قصے سنا رکھے تھے جو احسن سعد کے گھر کو چلانے میں ناکام تھی، جس کا واحد کام اور مصروفیت ٹی وی دیکھتے رہنا یا آوارہ پھرنا تھا اور جو گھر کا کوئی کام کرنے کے لئے کہنے پر بھی برہم ہوجاتی تھی۔ عبداللہ کے دماغ میں گرہیں بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔ وہ اس لڑکی سے نفرت نہیں کرسکا، اسے ناپسند نہیں کرسکا۔
’’جبریل سے آپ کا کیا تعلق ہے؟‘‘ وہ بالآخر ایک آخری سوال پر آگیا تھا جہاں سے یہ سارا مسئلہ شروع ہوا تھا۔
’’میں اس سے پیار کرتی ہوں۔‘‘ وہ اس کے سوال پر بہت دیر خاموش رہی پھر اس نے بعداللہ سے کہا، سراٹھا کر نظریں چرائے بغیر۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!