آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

’’تم اگر احسن کے اس الزام پر کورٹ میں یہ کہوگی تو میں اپنی غلطی کورٹ میں جاکر بتاؤں گا۔‘‘ اس نے عائشہ سے کہا۔ ’’تمہیں کوئی سمجھانے والا نہیں ہے، ہوتا تو تمہیں یہ نہ کرنے دیتا… اور نہیں… تمہارے پاس آنے کی واحد وجہ میرا احساس جرم نہیں ہے… زندگی میں احساس جرم ہمدردی تو کروسکتا ہے محبت نہیں۔‘‘
جبریل اس دن جانے سے پہلے اس سے کہہ کر گیا تھا… ایسے ہی معمول کے انداز میں… یوں جیسے سر درد میں ڈسپرین تجویز کررہا ہو یا نزلہ ہوجانے فلو تشخیص کررہا ہو۔
اس کے جانے کے بعد بھی عائشہ کو لگا تھا اس نے جبریل سکندر کی بات سننے میں غلطی ی تھی اور اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس بات کو دوبارہ سننے کا اصرار کرتی تاکہ اپنی تصیح کرسکے، بعض وہم جی اٹھنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں، بعض شبہات متاع حیات ہوتے ہیں، یقین میں نہ بھی بدلیں توبھی۔
اور اب وہ ایک بار پھر سامنے کھڑا تھا۔ نہیں کھڑا تھا۔ برف پر اپنے نشان بنانے میں مصروف تھا، یوں جیسے اس کے پاس دنیا بھر کی فرصت تھی۔ اس کی چاپ پر جبریل نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ لانگ کوٹ کے اندر اپنی گردن کے مفلر کو بالکل ٹھیک ہونے کے باوجود ایک بار پھر ٹھیک کرتی اوس کی طرف آرہی تھی، اس کی طرف متوجہ نہ ہونے کے باوجود۔
’’گروسری میں بہت وقت لگے گا۔‘‘ اس کے قریب آتے ہوئے غیر محسوس انداز میں اسے جتاتے ہوئے اس نے جبریل سے کہا تھا۔ ’’ہم پھر کسی دن فرصت میں مل سکتے تھے۔‘‘
2جبریل کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے ایک بار پھر جبریل کو جیسے اپنے ساتھ جانے سے روکنے کے لئے کہا۔ اس کے باوجود کہ جبریل نے اسے انتظار کرنے کا نہیں کہا تھا، وہ اس کے ساتھ سودا سلف کی خریداری کرنے جانے کے لئے تیار تھا۔ اسے صرف اتنا وقت ہی چاہیے تھا جتنا وہ گروسری کرتی۔ ساتھ چلتے پھرتے وہ بات کرسکتا تھا۔
’’میںجانتا ہوں، مگر میرے پاس تو بہت فرصت ہے، تمہارے پاس بالکل نہیں۔‘‘ اس نے جواباً اس سے کہا۔ ’’گاڑی میں چلیں؟‘‘ جبریلنے بھی اپنے جواب پر اس کے تبصرہ کا انتظار نہیں کیا تھا۔
’’نہیں یہاں قریب ہی ہے اسٹور، چند قدم کے فاصلے پر، گاڑی کی ضرورت نہیں ہے، مجھے بہت زیادہ چیزیں نہیں چاہئیں۔‘‘ عائشہ نے قدم روکے بغیر سونی سڑک کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
’’تم نے عبداللہ سے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘ وہ چند قدم خاموشی سے چلتے رہے تھے، پھر جبریل نے اس سے پوچھنے میں دیر نہیں کی تھی۔ عائشہ نے گہرا سانس لیا۔ اسے اس سوال کی توقع تھی، لیکن اتنی جلدی نہیں۔
’’بزدلی اچھی چیز نہیں عائشہ۔‘‘ اس نے چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد کہا تھا۔ وہ طنز نہیں تھا، مگر اس وقت عائشہ کو طنز ہی لگا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے دونوں اب فٹ پاتھ پر آگئے تھے۔ برف کی چادر پر وہ نشان جو کچھ دیر پہلے جبریل اکیلا بنارہاتھا، اب وہ دونوں ساتھ ساتھ بنارہے تھے۔
’’تمہیں لگتا ہے میں بزدل ہوں اس لئے میں نے احسن سعد کے بارے میں عبداللہ کو سچ نہیں بتایا؟‘‘ اس نے ساتھ چلتے ہوئے پہلی بار گردن موڑ کر جبریل کو دیکھا تھا۔
’’بزدلی یا خوف… اس کے علاوہ تیسری وجہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔‘‘ جبریل نے جیسے اپنی بات کی تصدیق کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا۔ ’’تمہیں ڈر تھا کہ احسن سعد تمہیں پریشان کرے گا، تمہیں فون کرے گا اور تنگ کرے گا۔‘‘ جبریل نے کہا تھا۔ ’’مگر تم نے عبداللہ سے جھوٹ بول کر احسن سعد کو بچا کر زیادتی کی… تم نے مجھے اور عنایہ کو جھوٹا بنادیا۔‘‘ اس کا لہجہ اب شکایتی تھا۔




’’آپ لوگوں کو جھوٹا ہونے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا احسن سعد کے جھوٹا ہونے پر عبداللہ کو ہوتا۔‘‘ عائشہ نے جواباً کہا۔
’’وہ حافظ قرآن ہے تو میں بھی ہوں۔‘‘ جبریل نے کہا۔
’’آپ کو وہ اس مقام پر بٹھا کر نہیں دیکھتا جس پر احسن کو دیکھتا ہے۔‘‘ عائشہ نے جواباً کہا۔ ’’وہ نومسلم نہ ہوتا تو میں احسن کے بارے میں اب سب کچھ بتادیتی اسے۔ وہ مجھ سے ملنے کے بعد دوبارہ احسن کی شکل بھی نہ دیکھتا شاید… مگر وہ نومسلم ہے… میں اس سے کس منہ سے یہ کہتی کہ اتنے سالوں سے وہ جس شخص کو بہترین مسلمان اور انسان سمجھ رہا ہے، وہ ایسا نہیںہے۔ عبداللہ صرف احسن کو جھوٹانہیں ماننا تھا، میرے دین سے اس کا دل اچاٹ ہوجانا تھا۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی، اس مدھم آواز میں جو اس کا خاصا تھی۔
’’میرے ساتھ ہوا تھا ایک بار ایسے … میں احسن سعد سے ملنے سے پہلے بہت اچھی مسلمان تھی، آنکھیں بند کرکے اسلام کی پیروی کرنے والی… جنون اور پاگل پن کی حد تک دین کے راستے پر چلنے والی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے اندھی محبت اور عقیدت رکھنے والی لیکن پھر میری شادی احسن سعد سے ہوگئی اور میں نے اس کا اصل چہرہ دیکھ لیا اور میرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس مجھے دین سے بے زار کردیا ۔ مجھے اب دین کی بات کرنے والا ہر شخص جھوٹا اور منافق لگتا ہے۔ داڑھی اور حجاب سے مجھے خوف آتا ہے، میرا دل جیسے عبادت کے لئے بند ہوگیا ہے۔ اتنے سال میں دن رات اتنی عبادتیں اور وظیفے کرتی رہی اپنی زندگی میں بہتری کے لئے اب مجھے لگتا ہے مجھے اللہ سے کچھ مانگنا ہی نہیں چاہیے۔ میں مسلمان ہوں لیکن میرا دل آہستہ آہستہ منکر ہوتا جارہا ہے اور مجھے اس احساس سے خوف آتا ہے لیکن میں کچھ کر نہیں پارہی اور یہ سب اس لئے ہوا کیوں کہ مجھے ایک اچھے عملی مسلمان سے بہت ساری توقعات اور امیدیں تھیں اور میں نے انہیں چکنا چور ہوتے دیکھا اور میں عبداللہ کو اس تکلیف سے گزارنا نہیں چاہتی تھی۔ اگر وہ احسن سعدکو اچھا انسان سمجھتے ہوئے ایک اچھا انسان بن سکتا ہے تو اسے بننے دیں۔‘‘
وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں اور گالوں کو رگڑنے کی کوشش کررہی تھی۔
’’میں کافر ہوں لیکن میں کسی کو کافر نہیں کرسکتی، بس مجھ میں اگر ایمان ہے تو صرف اتنا۔‘‘ وہ اب ٹشو اپنی جیب سے نکال کر آنکھیں رگڑ رہی تھی۔
’’پسند…؟ مجھے پسند کا نہیں پتا ممی! مگر عائشہ عابدین میری عقل اور سمجھ سے باہر ہے۔ میں اس سے شدید ہمدردی رکھتا تھا مگر اب ہمدردی توبہت پیچھے رہ گئی۔ میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پاتا… بار بار اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا اور میرا کوئی فیوچر نہیں ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ لائف پارٹنر کے طور پر مجھے جیسی لڑکی کی خواہش ہے، عائشہ اس کی متضاد ہے… مجھے بے حد مضبوط، پراعتماد، زندگی سے بھرپور کیرئیر اور نیٹڈ ہر وقت ہنستی رہنے والی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں جو بہت اچھی (تربیت) بھی رکھتی ہوں اور عائشہ میں ان سب چیزوں میں صرف دو ہوں گی… یا تین… لیکن اس کے باوجود میں عائشہ سے (علیحدہ ) نہیں رہ سکتا۔‘‘
امریکا آنے سے پہلے اس نے امامہ کے اس سوال پر اسے اپنی بے بسی بتائی تھی۔
’’اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی۔‘‘ امامہ نے جواباً اس سے پوچھا تھا۔ ’’کیا خصوصیت ہے اس میں ایسی کہ وہ تمہارے ذہن سے نہیں نکلتی؟‘‘ اس نے جبریل سے پوچھا تھا۔
’’وہ عجیب ہے ممی، وہ بس عجیب ہے۔‘‘
اس نے جیسے امامہ کو اپنی بے بسی سمجھانے کی کوشش کی تھی اور وہ بے بسی ایک بار پھر سے در آئی تھی۔ اس کے ساتھ چلتی ہوئی اس لڑکی کی منطق صرف اس کی منطق ہوسکتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بے دین کافر کہہ رہی تھی اور وہ اس کے ظرف پر حیران تھا۔
’’تم بے حد عجیب ہو۔‘‘ وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
’’ہاں میں ہوں۔‘‘ عائشہ عابدین نے اعتراف کیا۔
’’مجھے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ تم سولہ سال کی عمر میں زیادہ اچھی تھیں یا اب…؟‘‘ بے حد غیر متوقع جملہ تھا، عائشہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
’’عبداللہ نے مجھ سے کہا، تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘ عائشہ کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس وقت وہیں اس میں سما جائے۔ ندامت کا یہ عالم تھا اس کا۔ وہ جملہ جبریل تک پہنچانے کے لئے نہیں تھا، پھر بھی پہنچ گیا۔
’’میں نے اس سے کہا، میں جانتا ہوں۔‘‘ وہ اس طرح جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ پانی پانی اس جملے نے بھی کیا تھا اسے…وہ اس کے دل تک کب پہنچا تھا۔
’’عبداللہ کا خیال ہے، ہم دونوں اچھے لائف پارٹنر ہوسکتے ہیں۔‘‘ وہ اس جملے پر رک گئی۔ پتا نہیں کون زیادہ مہربان تھا، کہنے والا یا پہنچانے والا۔
’’میں نے اس سے کہا، میں یہ بھی جانتا ہوں۔‘‘ وہ بھی رک گیا تھا۔ وہ دونوں اب ایک دوسرے کے بالمقابل فٹ پاتھ پر کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے۔برف باری پھر سے ہونے لگی تھی۔
’’زندگی میں ایک اسٹیج وہ تھی جب میں سوچتی تھی میری شادی اگر آپ جیسے کسی شخص سے ہوجائے تو بس پھر میں خود کو بے حد خوش قسمت مانوں گی… سب مسئلہ حل ہوجائیں گے۔‘‘ اس نے بالآخر کہنا شروع کیا تھا۔
’’آج اس اسٹیج پر میں سوچتی ہوں شادی کوئی حل نہیں ہے۔ اچھی زندگی کی گا رنٹی بھی نہیں ہے… تو اب میں ایک اچھی زندگی کے لئے کسی سہارے کی تلاش میں نہیں ہوں۔ میں کیریئر پر فوکس کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی زندگی اپنے لئے جینا چاہتی ہوں… ورلڈ ٹور پر جانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’میں تمہیں اسپانسر کرسکتا ہوں۔‘‘وہ تم آنکھوں سے بے اختیار ہنسی، بے حد سنجیدگی سے کہا گیا وہ جملہ اسے ہنسانے کے لئے ہی تھا۔
’’آپ عجیب ہیں۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ بے ساختہ کئے گئے تبصرے کا بے ساختہ ہو جواب آیا تھا۔ ’’عبداللہ نے بھی مجھ سے یہ ہی کہا تھا کہ آپ دونوں ہی عجیب ہیں۔ انہیں مدرٹریسا بننے کا شوق ہے آپ کو اپنے مفروضوں پر دوسروں کی خوشیاں خراب کرنے کا ۔ ’’You compliment each other‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
’’راستے سے ہٹ جائیں۔‘‘ وہ ایک راہ گیر تھا جو انہیں راستہ دینے کے لئے کہہ رہا تھا۔ وہ دونوں بیک وقت راستے سے ہٹے تھے۔
’’کبھی کسی اچھے موسم میں، میں تم سے ایک بار پھر پوچھوں گا کہ کیا میں تمہارے ورلڈ ٹور کو اسپانسر کرسکتا ہوں۔‘‘ راہ گیر کے گزر جانے کے بعد جبریل نے اس سے کہا تھا۔
’’مجھ جیسوں کو ڈھونڈنے کے بجائے تم اگر مجھ سے بات ہی کرلیتیں تو سولہ سال کی عمر میں بھی میں تمہیں ’’نہیں۔‘‘ نہیں کہتا۔ انتظار کرنے کو کہہ دیتا زیادہ سے زیادہ۔‘‘
اس نے جبریل کو کہتے سنا۔ ’’ میں نیوروسرجن ہوں، دماغ پڑھ سکتا ہوں، دل نہیں اور میں روایتی قسم کی رومانٹک باتیں بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’تم سولہ سال کی عمر میں بھی مجھے اچھی لگی تھیں۔ آج بھی لگتی ہو۔ میں نے اپنی ماں سے بھی یہ کہا، انہوں نے مجھ سے کہا اگر اللہ نے جبریل سکندر کے دل میں اس کی محبت اتاری ہے تو پھر وہ بہت اچھی لڑکی ہوگی جس کی کوئی خوبی اللہ کو پسند ہے… میں اپنی ماں کا جملہ دہرا رہا ہوں، اسے خود پسندی مت سمجھنا۔‘‘
آنسوؤں کا ایک ریلا آیا تھا عائشہ عابدین کی آنکھوں میں اور اس کے پتھر ہوتے دل کو گھلانے لگاتھا۔
’’پتا نہیں ہم کتنے مومن، کتنے کافر ہیں لیکن جو بھی ہیں۔ اللہ ہمارے دلوں سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘
عائشہ عابدین نے ایک بار کہیں پڑھا تھا۔
’’اچھا وقت، اچھے وقت پر آتا ہے۔‘‘ اس کی نانی کہا کرتی تھیں۔
وہ عجیب جملے تھے… اور سالوں بعد اپنا مفہوم سمجھا رہے تھے۔
’’تم میری ممی کی طرح بہت روتی ہو بات بات پر… تمہاری اور ان کی اچھی نبھے گی۔‘‘ جبریل نے گہرا سانس لیتے ہوئے اس کی سرخ بھیگی ہوئی آنکھوں اور ناک کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کافی پیوگی یا اب بھی گروسری کروگی؟‘‘ وہ اسے اب چھیڑ رہا تھا۔
’’گروسری زیادہ ضروری ہے۔‘‘ اس نے اپنی ندامت چھپاتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پاکر کہا۔
’’اگر اتنی ضروری ہوتی تو تم گروسری اسٹور کو پیچھے نہ چھوڑ آتیں۔‘‘ عائشہ نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ وہ واقعی بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ بہت ساری دوسری چیزوں کی طرح… آگے بہت کچھ تھا… اس نے جبریل کا نم چہرہ دیکھا، پھر نم آنکھوں سے مسکرائی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!