آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

’’ہشام مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘ اپنے سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے حمین نے رئیسہ سے کہا، وہ بھی ابھی سکندر عثمان کے گھر پر ہی تھی اور چند دن اسے بھی وہاں ٹھہرنا تھا۔ وہ حمین کو اس کا کچھ سامان دینے آئی تھی جب اس نے اچانک اس سے کہا تھا۔
’’وہ شاید دادا کی تعزیت کے لئے ملنا چاہتا ہوگا۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لئے اٹکی، پھر اس نے روانی سے اس سے کہا۔
’میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ حمین نے اسی طرح کام میں مصروف ہوتے ہوئے کہا ۔ ’’ تعزیت کے لئے وہ تم سے ملتایا بابا سے ملتا، مجھ سے ملنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تم دونوں کے درمیان کچھ بات چیت ہوتی ہے کیا؟‘‘
اس نے اپنے ہمیشہ کے دوٹوک اور صاف گو انداز میں رئیسہ سے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے پوچھا۔ رئیسہ چند لمحے سوچتی رہی، پھر اس نے حمین سے اپنی اور ہشام کی کچھ ہفتے پہلے ہونے والی ملاقات اور گفتگو دہرائی تھی۔
’’تو اب وہ کیا چاہتا ہے؟‘‘ حمین نے پوری بات سننے کے بعد صرف ایک سوال کیا تھا، کوئی تبصرہ نہیں۔
’’پتا نہیں… شاید تم سے کہے گا کہ تم مجھے منالو۔‘‘
حمین نے نفی میں سرہلایا۔ ’’نہیں وہ مجھ سے یہ کبھی نہیں کہے گا کہ میں تمہیں اس کی دوسری بیوی بننے پر آمادہ کروں، اتنا عقل مند تو ہے وہ کہ ایسا پروپوزل میرے پاس لے کر نہ آئے۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’رئیسہ! تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ چند لمحے کے بعد اس نے دوٹوک انداز میں رئیسہ سے پوچھا۔
’’میری چوائس کا ایشو نہیں ہے۔‘‘ وہ کچھ بے دلی سے مسکرائی۔ ’’اس کا مسئلہ جینوئن ہے، تم نے ٹھیک کہا تھا، وہ شاہی خاندان ہے اور اس کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ اپنی سوچ ہے، مجھے بہت پہلے ہی اس میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔‘‘
حمین اسے دیکھتا رہا، اس کے سامنے بیٹھی وہ جیسے خود کلامی کے انداز میں بولتی جارہی تھی، یوں جیسے اپنے آپ کو سمجھا نے کی کوشش کررہی تھی۔
’’بادشاہ بزدل ہے۔‘‘ حمین نے مدہم آواز میں اس سے کہا۔ وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ ’’اور بزدل نہ پیار کرسکتے ہیں نہ حکومت، نہ وعدہ نبھاسکتے ہیں نہ تعلق۔‘‘ حمین نے جیسے اسے ہشام بن صباح کا مسئلہ چارجملوں میں سمجھایا تھا جو وہ سمجھنے سے گریزاں تھی۔
’’لوگ پیار کے لئے تخت و تاج ٹھکراتے ہیں نا، تو وہ ٹھکرائے… اگر بادشاہ رہ کر تمہیں زندگی کا ساتھی نہیں بناسکتا تو بادشاہت چھو ڑدے۔‘‘ رئیسہ ہنس پڑی۔
’’بادشاہت چھوڑ دے… میرے لئے؟ میں اتنی قیمتی نہیں ہوں حمین کہ کوئی میرے لئے بادشاہت چھوڑتا پھرے۔‘‘ اس نے بڑی صاف گوئی سے کہا تھا۔
’’ہوسکتا ہے ہو… ہوسکتا ہے تمہیں پتا نہ ہو… اور اگر وہ تمہاری قدر و قیمت پہچاننے کے قابل نہیں ہے۔‘‘ وہ دوٹوک انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’تو حل میرے پاس ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس کی سمجھ میں آتا ہے یا نہیں… میں واپس جاکر اس سے ملوں گا۔‘‘
حمین نے اعلان کرتے ہوئے کہا۔ رئیسہ اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
٭…٭…٭




’’ڈاکٹر احسن سعد آپ کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے والد صاحب بابا کے بھی بڑے قریبی دوست تھے۔ عبداللہ ہی بتارہا تھا کہ وہ اور ان کے والد، داداکی تعزیت کے لئے امریکہ میں آکر ملیں گے بابا سے۔‘‘ عنایہ چہل قدمی کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
وہ اور جبریل لان میں چہل قدمی کررہے تھے جب عنایہ کو اچانک عبداللہ کے ذکر چھڑجانے پر احسن سعد یاد آیا تھااور اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو اس نے جبریل سے اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔
احسن سعد کا نام ہی جبریل کو چونکا نے کے لئے کافی تھا، لیکن وہ یہ سن کر زیادہ حیران ہوا تھاکہ جس احسن سعد کی وہ بات کررہی تھی وہ نہ صرف جبریل سکندر کو جانتا تھا بلکہ اس کا باپ سالار کا قریبی دوست تھا۔ وہ الجھا تھا، جس احسن سے وہ ملا تھا اس نے ایسا کوئی ذکر یا حوالہ نہیں دیاتھا۔ اسے عائشہ کے سابقہ شوہر کی تفصیلات کا پتا نہیں تھاسوائے اس کے نام، پروفیشن اور اسٹیٹ کے… فوری طور پر وہ یہ سمجھ نہیں سکا کہ یہ وہی احسن سعد تھا یا وہ کسی اور کا ذکر کررہی ہے، یہ بات کنفیوز کررہی تھی۔
’’عبداللہ نے تو بے حد انسپائرڈ ہے اس سے کہہ رہا تھا نکاح کے گواہوں میں سے ایک وہ احسن سعد کا رکھے گا… اس نے تو احسن سعد کو پیرو مرشدبنایا ہوا ہے، ہر بات میں اس کا حوالہ دیتا ہے…‘‘ وہ کہتی جارہی تھی اور جبریل بے چین ہونے لگا تھا۔
’’عبداللہ ان ہی کے ساتھ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے۔ مجھے بھی اچھا لگا وہ … ذکر تو پہلے بھی عبداللہ سے سنتی رہی تھی لیکن مل کر مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ کافی ینگ ہے… بہت باعلم ہے دین کے بارے میں… اور حافظ قرآن بھی ہے۔‘‘
مماثلت بڑھتی جارہی تھی۔ جبریل اب بولے بغیر نہ رہ سکا۔
’’شادی شدہ ہے؟‘‘ اس نے خواہش کی تھی، وہ کوئی اور احسن سعد ہو۔ ’’نہیں ، بس یہی ٹریجڈی ہوئی ہے اس کے ساتھ۔‘‘ عنایہ کے جواب نے جیسے اس کا دل نکال کر رکھ دیا تھا۔
’’بیوی سائیکواور خراب کریکٹر کی تھی۔ کسی کے ساتھ اس کا افیئر چلتا رہا اور احسن سعد بے چارے کو پتا ہی نہیں تھا پھر ڈائی وورس ہوگئی لیکن بیوی نے بچے کی کسٹڈی بھی نہیں دی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر اس معذور بچے کو جان سے مار دیا تاکہ دونوں شادی کرسکیں اور بچے کے نام جو جائیدادتھی، وہ اسے مل جائے… احسن نے کیس کیا تھا پانی سابقہ بیوی کے خلاف قتل کا… تو اس عورت نے کچھ پیچ اپ کرنے کی کوشش میں اس بچے کے نام جو جائیداد تھی، وہ اس کے نام کرکے معافی مانگی ہے۔ بہت اچھا انسان ہے، وہ کہہ رہا تھا معاف کردے گا، اب بیٹا تو چلا گیا۔‘‘ عنایہ بڑی ہمدردی کے ساتھ وہ تفصیلات سنارہی تھی۔
’’تم جانتی ہو وہ بوائے فرینڈ کون ہے جس نے احسن سعد کی بیوی کے ساتھ مل کر اس کے معذور بچے کا قتل کیا ہے؟‘‘ جبریل نے یک دم اسے ٹوکا تھا۔ عنایہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ جبریل کا سوال جتنا عجیب تھا، اس کا لہجہ اور تاثرات اس سے زیادہ عجیب۔
’’نہیں، میں کیسے جان سکتی ہوں، ویسے عبداللہ، احسن سعد سے کہہ رہا تھا کہ اسے اپنی سابقہ بیوی اور اس کے بوائے فرینڈ کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ عنایہ نے روانی میں کہا اور جبریل کے اگلے جملے نے اس کا ذہن جیسے بھک سے اڑادیا تھا۔
’’وہ بوائے فرینڈ میں ہوں۔‘‘ بے حد بے تاثر آواز میں جبریل نے اس سے کہا تھا۔
’’اور عنایہ! میں ایرک عبداللہ سے تمہاری شادی بھی نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ اس کا اگلا جملہ پہلے سے بھی ناقابل یقین تھا۔
٭…٭…٭
سالار سکندر ، سکندر عثمان کے بیڈروم کا درواز کھول کر اندر چلاگیا۔ لائٹ آن کرکے اس نے سکندر عثمان کے بستر کو دیکھا۔ وہاں اب کوئی نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی نمی دوڑی تھی۔ کئی سال سے اب اس کے اور ان کے درمیان صرف خاموشی کا رشتہ ہی رہ گیا تھا۔ بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ اس کے باوجود اسے ان کے وجود سے ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔
’’میں اپنی نظروں کے سامنے تمہیں جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا سالار اس لئے بس یہی دعا کرتا ہوں کہ تم سے پہلے چلا جاؤں… تمہارا دکھ نہ دکھائے اللہ کسی بھی حالت میں مجھے۔‘‘
سالار کو لگا جیسے یہ جملے پھر اس کمرے میں گونجے تھے۔ انہوں نے اس کی بیماری کے دوران کئی بار اس سے یہ باتیں کہی تھیں اور ان کی دعا قبول ہوگئی تھی، وہ سالار کا دکھ دیکھ کر نہیں گئے تھے۔
’’کیا فرق پڑتا ہے پاپا… ہر ایک کو جانا ہے دنیا سے… جس کا رول ختم ہوجائے وہ چلا جاتا ہے۔‘‘ سالار کئی بار انہیں جواباً کہتا تھا۔
’’جوان بیٹے کا غم اللہ کسی کو نہ دکھائے سالار۔‘‘ وہ روپڑے تھے اور یہ آنسو سالار نے ان کی آنکھوں میں صرف اپنی بیماری کی تشخیص کے بعد یکھنا شروع کئے تھے، وہ اور امامہ اب وہاں سے جانے والے تھے۔ وہ کمرہ اور وہ گھر اب بے مکین ہونے والا تھا۔ وہ دو ہفتوں سے وہاں تھا اور اس سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ حمین پہلے جاچکا تھا اور اب جبریل اور عنایہ بھی اس کے پیچھے چلے جاتے، پھر امامہ… جو سب سے آخر میں وہاں سے جاتی اور پھر پتا نہیں اس گھر میں دوبارہ کبھی وہ یوں اکٹھے بھی ہوپاتے یا نہیں… اور اکٹھے ہوتے بھی تو بھی پتا نہیں کب…
زندگی کیا شے ہے، کیسے ہاتھ سے نکل جاتی ہے… وقت کیا شے ہے رکتا ہے تو رک ہی جاتا ہے، چلتا ہے تو پہیوں پر…
’’میں آپ جیسا باپ کبھی بھی نہیں بن سکا اپنی اولاد کے لئے، پاپا۔‘‘ اس نے مدہم آواز میں وہاں بیٹھے خود کلامی کی۔
’’میں آپ جیسا بیٹا بھی کبھی نہیں بن سکا۔‘‘ وہ رک کر دوبارہ بولا۔
’’لیکن میرے بیٹے آپ جیسے باپ بنیں اور آپ جیسے ہی بیٹے…میرے جیسے نہیں… میری صرف یہ دعا ہے۔‘‘
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ ٹیبل پر پڑے ان کے گلاسز اٹھا کر چھوئے پھر انہیں ٹیبل پر رکھ کر دوبارہ اٹھ گیا۔
٭…٭…٭
امامہ جبریل کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔ اسے کچھ دیر کے لئے جیسے اس کی بات سمجھنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے جو عنایہ اور عبداللہ کے حوالے سے کہا، جو احسن اور عبداللہ کے حوالے سے اور جو اپنے اور عائشہ کے حوالے سے، وہ سب کچھ عجیب انداز اس کے دماغ میں گڈ مڈ ہوگیا تھا۔
’’میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا جبریل۔‘‘ وہ اس سے کہے بغیر نہیں رہ سکی۔ ’’ممی… ایم سوری۔‘‘ جبریل کو بے اختیار اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوا کہ اس نے ماں کو پریشان اور حواس باختہ کردیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار ماں کسی لڑکی کے حوالے سے اپنے کسی ’’افیئر‘‘ کی بات کررہا تھا، وہ بھی ایک ایسا معاملہ جس میں اس پر الزامات لگائے جارہے تھے۔
عائشہ عابدین کون تھی؟ امامہ نے زندگی میں کبھی اس کا نام نہیں سنا تھا اور جبریل پر کیوں اس کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام ایک ایسا شخص لگارہا تھا جو اس کے ہونے والے داماد کے لئے انسپائریشن کی حیثیت رکھتا تھا… اور جبریل کیوں عنایہ کی شادی عبداللہ کے ساتھ کرنے کے اچانک خلاف ہوگیا تھا جب کہ وہی تھا جو ماضی میں ہمیشہ امامہ کو عبداللہ کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
’’میں یہ سب آپ سے شیئر نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اب اس کے علاوہ اور کوئی حل میری سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ وہ شرمندہ زیادہ تھا یا پریشان، اندازہ لگانا مشکل تھا۔
’’لیکن اس سب میں عنایہ اور عبداللہ کا کیا قصور ہے؟‘‘
’’ممی! اگر وہ اس شخص کے زیر اثر ہے تو وہ بیوی کے ساتھ رویے کے لحاظ سے بھی ہوگا… جو کچھ میں نے احسن سعد کو عائشہ کے ساتھ کرتے دیکھا ہے، وہ میں اپنی بہن کے ساتھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ جبریل نے غیر مبہم لہجے میں کہا۔
’’تم نے عنایہ سے بات کی ہے؟‘‘ امامہ نے بے حد تشویش سے اس سے پوچھا۔
’’ہاں، میں نے کی ہے اور وہ بہت اب سیٹ ہوئی ‘‘لیکن اس نے جبریل کو کبھی اس طرح پریشان اور اس طرح کسی معاملے پر اسٹینڈ لیتے نہیں دیکھا تھا۔
’’اتنے مہینے سے عائشہ عابدین کا مسئلہ چل رہا ہے، تم نے پہلے کبھی مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
وہ بے حد سنگین الزامات تھے جو جبریل پر کسی نے لگائے تھے اور اپنی اولاد پر اندھا اعتماد ہونے کے باوجود امامہ ہل کر رہ گئی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے اپنی اولاد کے حوالے سے ایسی کسی بات کو سننا پڑرہا تھا، وہ بھی جبریل کے بارے میں… حمین کے حوالے سے کوئی بات سنتی تو شاید پھر بھی اس کے لئے غیر متوقع نہ ہوتی، وہ حمین سے کچھ بھی توقع کرسکتی تھی، لیکن جبریل…؟؟
’’بتانے کے لئے کوئی بات تھی ہی نہیں ممی…‘‘ جبریل نے جیسے صفائی دینے کی کوشش کی۔‘‘ ایک دوست کی بہن ہے وہ… دوست نے اس کی مدد کرنے کے لئے کہا اور میں اس لئے considerate تھا کیوں کہ مجھے لگا، آپریشن میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ویزل سے… اگرچہ اس میں میرا قصور نہیں تھا پھر بھی میں اس سے ہمدردی کررہا تھا… مجھے یہ تھوڑی پتا تھا کہ ایک سائیکو آخر خوامخواہ میں مجھے اپنی ایکس وائف کے ساتھ انوالو کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘
وہ کہتا جارہا تھا۔
’’That man is…… ‘‘ جبریل کہتے کہتے رک گیا، یوں جیسے اس کے پاس احسن سعد کو بیان کرنے کے لئے الفاظ ہی نہ رہے ہوں۔
’’تمہارے پاپا سے بات کرنی ہوگی ہمیں… اتنا بڑا فیصلہ ہم خود نہیں کرسکتے۔‘‘ امامہ نے اس کی بات ختم ہونے کے بعد کہا۔
’’فیصلہ بڑا ہو یا چھوٹا، ممی! میں عنایہ کی عبداللہ سے شادی نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ جبریل نے شاید زندگی میں پہلی بار امامہ سے کسی بات پر ضد کی تھی۔
’’کسی دوسرے کے جرم کی سزا ہم عبداللہ کو تو نہیں دے سکتے جبریل…‘‘ امامہ نے مدھم آواز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’عبداللہ میری ذمہ داری نہیں ہے، عنایہ ہے… میں رسک نہیں لے سکتا اور نہ ہی آپ کو لینا چاہیے۔‘‘ وہ ماں کو جیسے خبردار کررہا تھا اور امامہ اب واقعی پریشان ہونے لگی تھی۔
’’تمہارے بابا جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ بہتر فیصلہ ہوگا… اور تم ٹھیک کہتے ہو، ہم عنایہ کے لئے کوئی رسک نہیں لے سکتے، لیکن ہم عبداللہ کی بات سنے بغیر اس طرح سے قطع تعلق بھی نہیں کرسکتے۔‘‘ امامہ نے کہا۔ ’’عبداللہ سے ایک بار بات کرنی چاہیے۔‘‘
جبریل کچھ ناخوش ہوکر اٹھ کر جانے کے لئے کھڑا ہوگیا تھا۔ وہ دروازے کے قریب پہنچا جب امامہ نے اسے پکارا، وہ پلٹا۔
’’ایک بات پوری ایمان داری سے بتانا مجھے۔‘‘ وہ ماں کے سوال اور انداز دونوں پر حیران ہوا۔
’’جی؟‘‘
’’تم عائشہ عابدین کو پسند کرتے ہو؟‘‘ جبریل ہل نہیں سکا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!