آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

امامہ اس ہوٹل کے ساتویں فلور پر سالار سکندر کے کمرے میں تھی۔ وہ ایک سوئٹ تھا اور ان کے برابر کے کمرے میں حمین رہ رہا تھا۔ امریکہ شفٹ ہوجانے کے بعد امامہ، سالار کے ہر سفر میں اس کے ساتھ جارہی تھی۔ اس سفر میں حمین بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ اسی کے ذاتی طیارے پر آئے تھے۔ وہ افریقہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے کے بعد آئی تھی اور اس بار وہ کانگو بھی جانا چاہتے تھے۔ اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے کے لئے۔ ان تینوں نے کچھ دیر پہلے اکٹھے ہی کمرے میں ناشتا کیا تھا۔ اس کانفرنس کے بعد وہ سہ پہر کو کنشاسا جانے والے تھے اور امامہ اس وقت اپنی پیکنگ میں مصروف تھی۔ وہ کچھ ہی دیر پہلے اس سوئٹ میں اپنے اور حمین کے بیڈروم کا درمیان دروازہ کھول کر اس کا سامان بھی پیک کر آئی تھی۔ اپنے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے اس نے اپنے کمرے کے دروازے پر زور دار دستک سنی تھی۔ وہ بری طرح ہڑبڑائی، پھراس نے جاکر دروازہ کھولا۔ پورا کوریڈرور سیکیورٹی حکام سے بھر… ہوا تھا اور تقریبا ہر کمرے کے دروازے پر تھے۔
’’آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ ان میں سے ایک نے پوچھا۔
’’ہاں…کیوں؟‘‘ اس نے حیرانی سے کہا۔ وہ دونوں بڑی تہذیب سے اسے ہٹاتے ہوئے اندر چلے آئے تھے اور انہوں نے اندر آتے ہی کھڑکی کے کھلے ہوئے بلائنڈز بند کئے۔ پھر ان میں سے ایک حمین کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا اور کچھ دیر بعد لوٹا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ امامہ اب شدید تشویش کا شکار ہوئی تھی۔
’’ایک ایمرجنسی ہوگئی ہے۔ آپ کمرے سے باہر مت نکلیں۔ اگر کچھ مسئلہ ہو تو ہمیں بتادیں۔‘‘
ان میں سے ایک کہہ رہا تھا، دوسرا اس کا باتھ روم اور وارڈ روب برق رفتاری سے چیک کر آیا تھا۔ وہ جس تیز رفتاری سے آئے تھے، اسی تیز رفتاری سے باہر نکل گئے تھے۔
امامہ پر جیسے گھبراہٹ کا حملہ ہوا تھا۔ وہ سالار اور حمین کو اس وقت فون نہیں کرسکتی تھی، کیوں کہ فون سروس اس وقت کام نہیں کررہی تھی مگر اس نے ٹی وی آن کرلیاتھا، جہاں پر مقامی اور بین الاقوامی چینلز اس کانفرنس کی براہ راست کوریج کرنے میں مصروف تھے۔ اسکرین پر پہلی تصویر ابھرتے ہی امامہ کھڑی نہیں رہ سکی، وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ ٹی وی کی اسکرین پر وہ ٹوٹی ہوئی کھڑکی تھی اور بینکوئٹ ہال کے باہر ڈرون کیمروں کے ذریعے فضائی مناظر دکھائے جارہے تھے۔ اسکرین پر سرخی بار بار نمودار ہورہی تھی۔ جو اس گلوبل کانفرنس پر ہونے والے حملے اور فائرنگ کی خبر کی بریکنگ نیوز کی طرح سے چلارہے تھے۔ مگر وہ نیوز نہیں تھی، جس نے امامہ کو بدحواس کیا تھا۔
وہ دوسرا ٹکرتھا جو بار بار آرہا تھا۔
’’ٹی اے آئی کے سربراہ حمین سکندر اس حملے میں شدید زخمی۔‘‘
امامہ کو لگا اسے سانس آنا بند ہوگیا ہے۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی وہ اٹھ نہیں سکی، اس نے چیخنے کی کوشش کی تھی، مگر وہ چیخ بھی نہیں سکی… افریقہ اس کے لئے منحوس تھا۔ اس نے سوچا تھا اور اپنے کمرے کے دروازے پر اس نے دھڑ دھڑاہٹ سنی اور پھر اس نے حمین سکندر کے کمرے کا دروازہ کھلتے دیکھا۔
٭…٭…٭




وہ افریقہ کی تاریخ کا یا دگار ترین دن تھا جب کئی سالوں کے بعد تاریخ ایک بار پھر دہرائی جارہی تھی۔
بینکوئٹ ہال میں تمام وفود ایک بار پھر اپنی سیٹوں پر براجمان تھے۔ خوف و ہراس کی ایک عجیب سی فضا میں بے حد ناخوش گوار، مگر کانفرنس جارہی تھی۔ منسوخ نہیں ہوئی تھی۔ اس کھڑکی کا وہ شیشہ اسی طرح ٹوٹا ہوا تھا، مگر اب سامنے والی بلڈنگ سیکیورٹی حکام کے حصار میں تھی۔ کانفرنس ایک گھنٹے کی تاخیر سے اب دوبارہ شروع ہونے جارہی تھی۔
سالار سکندر اور حمین دونوں امامہ کے کمرے میں تھے۔ میڈیکل ٹیم حمین کو فرسٹ ایڈ دے چکی تھی اور فرسٹ ایڈ دینے کے دوران انہیں پتا چلا تھا کہ گولی اس کی گردن میں نہیں گھسی تھی۔ وہ اس کی گردن کی پشت پر رگڑ کھاتی اور جلد اور کچھ گوشت اڑاتے ہوئے گزر گئی تھی۔ اس کی گردن پر تین انچ لمبا اور آدھا انچ گہرا ایک زخم بناتے ہوئے… میڈیکل ٹیم نے اس کی بینڈیج کردی تھی اور پین کلر لگا کر اس کے زخم کو کچھ دیر کے لئے سن کیا تھا، تاکہ وہ کانفرنس اٹینڈ کرسکے۔ اسے خون چڑھانا تھا لیکن وہ فوری طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوا تھا۔ اس وقت اس کے لئے اہم تیرین چیز اس کانفرنس ہال میں دوبارہ بیٹھنا تھا۔ ان لوگوں کو دکھانا تھا کہ وہ اسے گرا نہیں سکے۔ڈرا بھی نہیں سکے۔
سالار سکندر اس سے پہلے کمرے سے نکال تھا اور اب کپڑے تبدیل کرنے کے بعد حمین سکندر امامہ سے گلے مل رہا تھا۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سالار سکندر کا بیٹا تھا، اسے کون روک سکتا تھا۔ اس نے صرف اسے گلے لگایا تھا چوما اور دروازے پر رخصت کردیا تھا۔
اس لفٹ کا دروازہ دس بج کر چالیس منٹ پر ایک بار پھر کھلا تھا۔ اس بار حمین سکندر کے ساتھ سیکورٹی کا کوئی اہلکار نہیں تھا۔ صرف اس کے اپنے اسٹاف کے لوگ تھے۔ اس کے لفٹ سے کوریڈور میں قدم رکھتے ہی وہاں تالیوں کا شور گونجنا شروع ہوا تھا۔ وہ پریس فوٹو گرافرز اور اس کوریڈور میں کھڑے سیکیورٹی اہلکار تھے جو اسے اس دلیری کی داد رہے تھے جو وہ دکھا رہا تھا۔ لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اس نے ٹوٹے شیشے والی اس کھڑکی کو بھی دیکھا جو ہال کے داخلی دروازے کے بالکل سامنے ایک عجیب سا منظر پیش کررہی تھی۔ اگرچہ اس کے سامنے اب سیکیورٹی اہلکاروں کی ایک قطار تھی۔
تیز قدموں سے لمبے ڈگ بھرتا حمین سکندر جب ہال میں داخل ہوا تو ہال میں تالیاں بجنی شروع ہوئی تھیں، پھر وہاں بیٹھے وفود اپنی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے تھے۔
حمین سکندر مسکراتا، سر کے اشارے سے ان تالیوں کا جواب دیتا، اسٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ آہستہ آہستہ کھڑا ہونے شروع ہوئے تھے اور پھر حمین نے سالار سکندر کو کھڑا ہوتے دیکھا تھا۔ حمین چلتے چلتے رک گیا تھا۔ وہ اس کے باپ کی طرف سے اس کی تعظٰم تھی جو اسے پہلی بار دی گئی تھی۔ ایک لمحہ ٹھٹکنے کے بعد حمین سکندر نے اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کردیا تھا۔
دنیا بھر کے ٹی وی چینلز وہ مناظر دکھا رہے تھے۔ دلیری کا ایک مظاہرہ وہ تھا جو دنیا نے کئی سال پہلے اسی افریقہ میں سالار سکندر کے ہاتھوں دیکھا تھا، جرأت کا ایک مظاہرہ یہ تھا جو آج اسی افریقہ میں وہ حمین سکندر کے ہاتھوں دیکھ رہے تھے۔
اسٹیج پر اب ٹی اے آئی اور ایس آئی ایف کے دونوں سربراہان مل رہے تھے اور اس میمورنڈم پر دستخط کررہے تھے جس کے لئے وہ وہاں آئے تھے اور پھر اس کے بعد حمین سکندر نے تقریر کی تھی۔ اس نے اسی آخری خطبے سے اپنی تقریر کا آغاز کیا تھا جس کا حوالہ کئی سال پہلے اس کے باپ نے افریقہ کے اسٹیج پر دیا تھا۔
’’بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قاد رہے۔‘‘ اس نے سورۃ ملک کی آیات سے تقریر کا آغاز کیا۔
’’وہ ذات جس نے پیدا کیا ، موت اور زندگی کو تاکہ آزمائش کرے، تمہاری کہ کون تم میں سے زیادہ اچھا ہے عمل میں… اور وہ زبردست ہے، بے انتہا اور معاف فرمانے والا بھی۔‘‘
اس ہال میں ایسی خاموشی تھی کہ سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز آتی۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ دو کن کہتا ہے تو چیزیں ہوجاتی ہیں۔ جو دشمنوں کی چالیں ان ہی پر الٹا دیتا ہے۔
’’کئی سال پہلے ایس آئی ایف نے سود کے خلاف اپنی پہلی جدوجہد افریقہ سے شروع کی تھی، یہ وہ زمین تھی جس پر میرے باپ نے ایک سودی نظام کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہوئے سود کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سود کو جسے آخری خطبے میں نبی آخر الزماںﷺ نے حرام قرار دیا تھا اور اس آخری خطبے میں یہ صرف سود نہیں تھا جس کے خاتمے کا فیصلہ کیا تھا، یہ مساوات بھی تھی جس کا حکم دیا گیا تھا۔ انسانوں کو ان کے رنگ، نسل، خاندانی نام و نسب کے بجائے صرف ان کے تقویٰ اور پارسائی پر جانچنے کا۔ ایس آئی ایف اور ٹی اے آئی آج اسی مشن کو آگے بڑحانے کے لئے دنیا کے سب سے بڑے گلوبل فنڈ کا قیام عمل میں لایا ہے۔‘‘
وہ بات کررہا تھا اور پوری دنیا سن رہی تھی۔ وہ آخری ﷺ کا حوالہ دیتا ہوا بات کررہا تھا اور وہ پھر بھی سننے پر مجبور تھے۔ کیوں کہ وہ باعمل بہترین مسلمان تھے، جن کے قول و فعل میں دنیا کو تضاد نظر نہیں آرہا تھا۔ جو طاقت ور تھے تو دنیا ان کے دین کوبھی عزت دے رہی تھی اور اس دین کے پیغمبرکو بھی… وہ ایک گولی جو دنیا کی تاریخ بدلنے آئی تھی، وہ کاتب تقدیر کے سامنے بے بس ہوگئی تھی۔
تاریخ ویسے ہی لکھی جارہی تھی جیسے اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اور وہی لکھ رہے تھے، جن کو اللہ نے منتخب کیا تھا۔
بے شک طاقت کا سرچشمہ اللہ ہی کی ذات ہے جس کی محبت وہ آب حیات ہے جو زندگی کو دوام بخشتا ہے، اس دنیا سے اگلی دنیا تک۔
٭…٭…٭
رئیسہ سالار صرف ایک سوال کا جواب چاہتی تھی اپنے باپ سے… صرف ایک چھوٹے سے سوال کا… اس نے اس کی فیملی کو کیوں مار ڈالا تھا؟ اور اگر انہیں مار ڈالا تھا اور اسے کیوں چھوڑ دیا تھا۔ یا اس کی زندگی اس کے باپ کی چوک کا نتیجہ تھی؟ سوالات کا ایک انبار تھا جو وہ اس سے کرنا چاہتی تھی۔
اس نے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے اپنی سلگتی آنکھوں کو ایکبار پھر مسلا، وہ پتا نہیں کتنی راتوں سے سو نہیں پائی تھی… ایک بھیانک خواب تھا پچھلے دو ہفتے جس میں اسے پہلی بار میڈیا سے پتا چلا تھا کہ اس کا باپ کون تھا، وہ کون تھی، کہاں سے تھی، وہ سالار سکندر اور امامہ ہاشم کی بیٹی نہیں تھی، وہ یہ جانتی تھی لیکن اسے ہمیشہ یہی بتایا گیا تھا کہ وہ سالار کے ایک دوست کی بیٹی تھی جو ایک حادثہ میں اپنی بیوی سمیت ہلاک ہوگیا تھا اور پھر سالار نے اسے اڈاپٹ کرلیا۔ مگر اب اس کی زندگی میں اچانک فرید آگیا تھا جسے ٹی وی دیکھتے ہوئے بھی اس کا ذہن اس سے کسی بھی رشتہ سے انکاری تھا۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ حقیقت کو جھٹلانہیں سکتی تھی۔
وہ سب اس بھونچال میں اس کے پاس آگئے تھے، حمین، جبریل، عنایہ، امامہ، سالار اور ہشام بھی۔ اسے یہ بتانے کہ انہیں فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون تھی، کیا تھی؟ وہ ان کے لئے رئیسہ تھی… وہی پہلے والی رئیسہ… وہ ان سب کی شکر گزار تھی، ممنون تھی، احسان مند تھی اور اس نے ان سب کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک تھی، مگر وہ ٹھیک نہیں تھی اندر ہونے والی توڑ پھوڑ بے حد تھی۔اس لئے بھی کہ وہ اس خاندان کی ذلت اور رسوائی کا سبب بن رہی تھی جنہوں نے اس پر رحم کھاتے ہوئے اس کوپالا تھا۔ اس ایک لحظہ بھر کے لئے بھی سالار سکندر پر اپنے باپ کے لگائے ہوئے الزامات کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوا تھا اور اس کے یہاں آنے کی وجہ بھی وہی الزامات بنے تھے۔ وہ کسی کو بتائے بغیر صرف اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے یہاں تک آنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اپنے خاندان کو بے خبر رکھتے ہوئے۔
غلام فرید جیل کے ایک اہلکار کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوا تھا، جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ دونوں نے خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر وہ جیل اہلکار وہاں سے چلا گیا۔ غلام فرید کچھ نروس انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کئی لمحے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے مدہم آواز میں کہا۔
’’آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ایک لحظہ کی تاخیر کے بعد فرید نے کہا۔
’’میں آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوں… جسے مارنا بھول گئے تھے آپ۔‘‘ وہ طنز نہیں تعارف تھا اور اس کے علاوہ اپنا تعارف کسی اور طرح سے نہیں کرواسکتی تھی وہ ۔
’’چنی۔‘‘ بہت دیر سے غلام فرید اس کا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد بے ساختہ بڑبڑایا تھا۔
رئیسہ نے ہونٹ بھینچ لئے، اس کی آنکھیں پانی سے بھر گئی تھیں۔ اس کے باپ نے اسے پہچان لیا تھا۔ وہ اب اس کا وہ نام یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا جو اس نے لکھوایا تھا پریاد نہیں کرسکا۔ اس نے چنی کو ایک بار پھر دیکھا… بغور دیکھا… وہ میم صاحب لگ رہی تھی۔ اپنی سانولی رنگت کے باوجود… اس کی بیٹی تو نہیں لگ رہی تھی۔ وہ جانتا تھا۔ اس کی آخری اولاد کی پرورش سالار سکندر نے کی تھی… یہ اسے لوگوں نے بتایا تھا جو بار بار اسے بہت کچھ یاد کروانے اور بار بار دہرانے کے لئے آتے تھے۔ اسے چنی کو دیکھ کر اپنی بیوی یاد آئی تھی۔ نیلی جینز اور سفید شرٹ میں بال ایک جوڑے کی شکل میں لپیٹے گلاسز آنکھوں پر لگائے، گلے میں… ایک باریک چین میں لٹکتا اللہ کا نام کا لاکٹ پہنے، کلائی میں ایک قیمتی گھڑی پہنے، اس کے سامنے ایک کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے چنی نے، اسے اس کی بیوی کی، جو چنی کی ماں تھی، کی یاد دلائی تھی… اس کے نین نقش ویسے ہی تھے… سارے حلیے میں صرف نین نقش ہی تھے جو وہ پہچان پایا تھا اور نہ وہ بیمار رہنے والی لاغر، کمزور اور ہر وقت روتی ہوئی چنی ایسے کیسے بن گئی تھی کہ اس کے سامنے بیٹھے غلام فرید کو اس کے سامنے اپنا وجود کمتر لگنے لگا تھا۔ پر پتا نہیں اپنی ایک بچ جانے والی اولاد کو ایسے اچھے حلیے میں دیکھتے ہوئے غلام فرید کو ایک عجیب سی خوشی بھی ہوئی تھی۔ وہ اس لمحے بھول گیا تھا کہ وہ اپنی اس اولاد پر ناجائز اولاد کا لیبل لگا رہا تھا۔ برسوں بعد اس نے کوئی ’’اپنا‘‘ دیکھا تھا اور اپنا دیکھ کر وہ پھر بھول گیا۔
ایک لفافے میں موجود کچھ کھانے پینے کی چیزیں اس نے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ میں آپ کے لئے لائی تھی۔‘‘ غلام فریند نے عجیب حیرت سے اس لفافے کو دیکھااور پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اسے تھام لیا۔ وہ سارے سوالات جو وہ غلام فرید سے کرنا چاہتی تھی۔ ایک دم دم توڑتے چلے گئے تھے۔ وہ نحیف و نزار شخص جو اس کے سامنے اپنی زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑا تھا، اس سے وہ سوال جواب کرنا بے کار تھا۔ اسے اس پر ترس آگیا تھا، وہ اسے اب کسی کٹہرے میں کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
غلام فرید نے گلاسز اتار کر اپنی آنکھوں صاف کرتی ہوئی اس لڑکی کو دیکھا جس نے کچھ دیر پہلے اس سے اپنا تعارف کرایا تھا۔
’’تم پڑھتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا، عجیب سے انداز میں۔
رئیسہ نے سراٹھا کر غلام فرید کا چہرہ دیکھا ، پھر سرہلایا۔
غلام فرید کا چہرہ چمکا۔ ’’زیادہ پڑھنا۔‘‘
رئیسہ کی آنکھوں میں نمی پھر اتری۔
’’میں اور تمہاری ماں سوچتے تھے کبھی پڑھائیں گے بچوں کو زیادہ… اور … ‘‘ غلام فرید نے یادوں کے کسی دھند لکے کو لفظوں میں بدلا پھر چپ ہوگیا۔
’’صاحب کو میرا شکریہ کہنا اور دوبارہ جیل مت آنا۔‘‘ غلام فرید نے چند لمحے بعد کہا اور رئیسہ کی آنکھوں کی نمی اب اس کے گالوں میں پھیلنے لگی تھی۔ غلام فرید کے لئے سالار سکندر ایک بار پھر’’صاحب‘‘ ہوگیا تھا۔ اپنی اولاد کو ایسی اچھی حالت میں دیکھ کر رئیسہ کو لگا تھا اس کاباپ شرمندہ بھی تھا۔
وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ وہ بھی کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر وہ آگے بڑھا اور اس نے رئیسہ کے سر پر ہاتھ پھیرا، وہ اسے گلے لگاتے ہوئے جھجکا تھا… شاید لگانا چاہتا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر خود غلام فرید کے گلے لگ گئی پھر وہ اس سے لپٹ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا… اپنے باقی بچوں اور بیوی کے ناموں کو پکارتے ہوئے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز

Read Next

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!