آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

تالیوں کی گونج نے حمین سکندر کی تقریر کے تسلسل کو ایک بار پھر توڑا تھا، روسٹرم کے پیچھے کھڑے چند لمحوں کے لئے رک کر اس نے تالیوں کے اس شور کے تھمنے کا انتظار کیا۔ وہ ایم آئی ٹی کے گریجویٹنگ اسٹوڈنٹ کا اجتماع تھا اور وہ وہاں آغاز کرنے والے مقرر کے طور پر بلایا گیا تھا۔ پچھلے سال وہ ایم آئی ٹی کے گریجویٹنگ اسٹوڈنٹس میں شامل تھا۔ سیلون اسکول آف مینجمنٹ سے امتیازی کامیابی کے ساتھ نکلنے والوں میں سے ایک اور اس سال وہ یہاں گریجویٹنگ اسٹوڈنٹس سے خطاب کررہا تھا۔ ایم آئی ٹی وہ واحد یونیورسٹی نہیں تھی جس نے اسے اس سال اس اعزاز کے قابل سمجھا تھا۔ لیگ آئی وی کی چند اور نامور یونیورسٹیز نے بھی اسے مدعو کیا تھا۔
چوبیس سال کی عمر میں حمین سکندر پچھلے تین سالوں کے دوران دنیا کے بہترین منتظمین میں سے ایک مانا جارہا تھا، اس ایک آئیڈیا کی وجہ سے جو پچھلے کچھ سالوں میں ایک بیج سے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا تھا۔
Trade an Idea(ٹریڈ این آئیڈیا )کے نام سے اس کی ڈیجیٹل فنانس کمپنی نے پچھلے تین سالوں میں گلوبل مارکیٹس میں دھوم مچا رکھی تھی۔ دنیا کے 125 بہترین مالیاتی اور کاروباری ادارے اس کمپنی کے باقاعدہ کلائنٹس تھے اور ڈیڑھ ہزار چھوٹے ادارے بالواسطہ اس کی خدمات سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور یہ سب تین سال کی مختصر مدت میں ہوا تھا، جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کمپنی کی بنیاد رکھنے میں بھی مصروف تھا۔
ٹریڈ این آئیڈیا کا تصور بے حد دلچسپ اور منفرد تھا اور ایک عام صارف کو وہ ابتدائی طور پر کسی ہندسوں کا کھیل جیسا لگتا۔ اس کی ابتدا بھی حمین سکندر نے بے حد چھوٹے پیمانے پر کی تھی۔ ایک ویب سائٹ پر اس نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس کو ایک آن لائن چیلنج دیا تھا… ایسا کوئی آئیڈیا فروخت کرنے کے لئے جس کے لئے انہیں یا تو سرمایہ چاہیے تھا یا کسی کمپنی کی سپورٹ اور یاپھر وہ اپنا آئیڈیا کسی خاص قیمت پر فروخت کرنے کے لئے تیار تھے، لیکن کاروباری اور کاروباری دونوں بے حد مختلف تھے۔
اس ویب سائٹ پر تین کوئز تھے… اے کیٹگری ، بی اور سی کیٹگری… ہر کوئز میں بیس سوالات تھے اور ویب سائٹ پر رجسٹریشن کے لئے ایک پاس ورڈ ضروری تھا جو اس کوئز میں کامیاب ہونے کے بعد بھیجا جاتا اور وہی نمبر اس کا کاروبار کرنے والی ID تھی۔ کیٹگری اے کا کوئز مشکل ترین تھا اور ناک آؤٹ کے انداز میں معین مدت کے لئے تھا۔کیٹگری B اور C اس سے آسان تھے اور نہ کسی خاص مدت تک محدود تھے اور نہ ہی ان میں ناک آؤٹ ہوتا تھا۔ یہ ان تین کیٹگریز کی درجہ بندی تھی جو وہاں آنے والے ٹریڈرز کی پرفارمنس پر خودکار انداز میں انہیں مختلف کیٹگریز میں رکھتی تھی۔ جو Aکیٹگری میں آگے نہ جاپاتا وہ B کے کوئز میں حصہ لیتا اور جو B میں بھی آگے نہ جاپاتا تو وہ C میں اور جو C میں بھی آگے نہ جاپاتا تو اسے ٹریڈ این آئیڈیا کی طرف سے آؤٹ کردیا جاتا تھا اس پیغام کے ساتھ کہ ابھی اسے اور سیکھنے کی ضرورت ہے… ٹریڈنگ اس کا کام نہیں۔ اے کیٹگری کے کوئز میں کامیاب ہوجانے والے غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد ایک پاس ورڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے اور پھر اگلے مرحلے تک رسائی کرتے… ایک ایسے ٹریڈ سینٹر میں جہاں بہترین یونیورسٹیز کے بہترین دماغ اپنے اپنے آئیڈیاز کو رجسٹر کروانے کے بعد آن لائن موجود ٹریڈرز کے ساتھ اپنے آئیڈیاز کے حوالے سے بات چیت کرتے… وہ گروپ ڈسکشن بھی ہوسکتی تھی اور وہ ٹریڈرز کی آپس میں گفت و شنید بھی…




پہلے مرحلے میں حمین پانچ بڑی کمپنیز کو اس بات پر آمادہ کرپایا تھا کہ وہ اس ٹریڈ روم میں آئیڈیا لے کر آنے والوں کے آئیدیاز سنیں اور اس پر ان سے بات چیت کریں، اگر انہیں کسی کا آئیڈیا پسند آجائے تو… اس کے عوض نہیں TAI کو ایک مخصوص فیس ادا کرنی تھی، اگر وہاں کوئی آئیڈیا انہیں پسند آجاتا اور وہ اسے خریدنے، اس میں سرمایہ کاری کرنے یا اس میں پارٹنر شپ کرنے پر تیار ہوتے تو۔ کیٹگری بی میں پیش ہونے والے آئیڈیاز کی خریدو فروخت بھی اسی فارمولا کے تحت ہوئی تھی، لیکن وہاں ایک اضافی چیز یہ تھی کہ وہاں اپنے آئیڈیاز کے ساتھ آنے والے مختلف نوجوان افراد ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے ذریعہ اپنی پسند کسی ایک جیسے آئیڈیا پر شراکت داری کرسکتے تھے اور اگر ایسا کوئی اشتراک کسی آئیڈیے کو عملی شکل میں ڈھال دیتا تو ٹریڈ این آئیڈیا اس اشتراک کے لئے بھی انہیں ایک فیس چارج کرتا۔
کیٹگری C اس سے بھی آسان تھی، وہاں کاروبار کے لئے آنے والے ٹریڈرز اپنے آئیڈیاز کو بارٹر بھی کرسکتے تھے یعنی کسی بھی ٹریڈرز کو اگر دوسرے کا آئیڈیا پسند آتا اور وہ اسے نقد سے خریدنے کی اہلیت نہ رکھتاہو، تو پھر وہ اس آئیڈیے کے بدلے کچھ اور خدمات، مہارت یا پروجیکٹ اسے پیش کرسکتا تھا۔ وہ ایک بنیادی سا فارمولا تھا جو حمین نے صرف ذہانت کو کیش کرنے کی بنیاد پر نکالا تھا اور اپلائی کیا تھا۔
پہلی بار اس کی کلائنٹ بننے والی پانچ میں سے تین کمپنیز کو وہاں پہلے مہینے میں تین ایسے آئیڈیاز پسند آگئے تھے جن کے فروخت کنندگان کو انہوں نے hire کرلیا تھا۔
تین سال پہلے کلائنٹس اور ٹریڈرز کی ایک محدود تعداد سے شروع ہونے والی کمپنی اب ان ابتدائی کاروبار سے بہت آگے بڑھ چکی تھی، وہ اب خود ٹریڈ این آئیڈیا پر آنے والے ٹریڈرز سے ایسے آئیڈیاز اور بزنس پروپوز لزلے لیتی جس میں انہیں دم خم نظر آتا اور وہ اپنے بڑے کلائنٹس کی ضروریات اور دلچسپی کے مطابق مختلف آئیڈیاز اور پروجیکٹس انہیں شیئر کردیتی۔
ٹریڈ این آئیڈیا نے پچھلے تین سال میں تین سو ایسی نئی کمپنیز کی بنیاد رکھی تھی جن کے آئیڈیاز ان کے پلیٹ فارم پر آنے کے بعد مختلف بین الاقوامی کمپنی نے ان آئیڈیاز میں سرمایہ کاری کی تھی۔ ٹریڈ این آئیڈیا سے ملنے والے آئیڈیاز پر تکمیل پانے والے پروجیکٹس کی کامیابی کا تناسب نوے فی صد تھا۔
دنیا کے سو بہترین اداروں کے بہترین اسٹوڈنٹس کوایک پلیٹ فارم پر لانے والا یہ ادارہ اب دنیا کی ہزاروں یونیورسٹیز کے لاکھوں اسٹوڈنٹس کو اپنے اپنے آئیڈیاز گھر بیٹھے آن لائن نامور اور کامیاب ترین کمپنیز کے نمائندوں کے ساتھ پیش کرنے کا موقع دے رہا تھا۔ وہ پلیٹ فارم نیا کاروبار شروع کرنے والوں کے لئے ایک ڈریم پلیٹ فارم تھا۔ ٹریڈ این آئیڈیا اب ان ہی کیٹگریز نے ایک ساتھ ایک اور ایسی کیٹگری کا اضافہ کرچکا تھا جہاں کوئی بھی شخص اپنی خسارے میں جانے والی کمپنی، بزنس، سیٹ اپ پروجیکٹ بیچ سکتا تھااور آن لائن ہی اس کا تخمینہ بھی کرواسکتا تھا۔
حمین سکندر کا نام دنیا کی کسی بھی بڑی مالیاتی کمپنی کے لئے اب نیا نہیں تھا۔ اس کی کمپنی کاروبار کے نئے اصول لے کر آئی تھی اور ان نئے اصولوں پر کام کررہی تھی۔
’’اکثر لوگوں کا خیال ہے میں رول ماڈل ہوں… ہوسکتا ہے میں بہت ساروں کے لئے ہوں… لیکن خود مجھے رول ماڈل کی تلاش کبھی نہیں رہی…‘‘ تالیوں کا شور تھم جانے کے بعد اس نے دوبارہ کہنا شروع کیا تھا۔ ’’رول ماڈلز اور آئیڈیلز کتابوں میں زیادہ ملتے ہیں اور میرے ماں باپ کو ہمیشہ مجھ سے یہ شکایت رہی کہ میں کتابیں نہیں پڑھتا۔‘‘
وہاں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس میں کھلکھلا ہٹیں ابھری تھیں۔
’’میں نے اپنی زندگی میں دلچسپی سے صرف ایک کتاب پڑھی اور وہ میرے باپ کی آٹو بائیو گرافی تھی… وہ بھی بارہ سال کی عمر میں اپنی ماں کے لیپ ٹاپ میں سے۔‘‘
’’اور وہ واحد کتاب ہے جس کو میں نے بار بار پڑھا… وہ واحد کتاب ہے جو میرے لیپ ٹاپ میں بھی ہے… میرے باپ کی آٹو بائیوگرافی کی بہترین بات یہ ہے کہ اس میں کوئی ہیرو، کوئی آئیڈیل، کوئی رول ماڈل نہیں ہے اور اسے پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ میرا باپ کتنا لکی ہے ہے کہ اسے کسی سے متاثر ہوکر اس جیسا نہیں بننا پڑا، زندگی گزارنے کے ان کے اپنے اصول اور فارمولاز، ان کے بچپن اور جوانی گزارنے کے لئے رہنما رہے۔‘‘ وہ کہتا جارہا تھا۔
’’میں نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ طے کیا تھا کہ مجھے متاثر ہونے جیسا آسان کام نہیں کرنا، متاثر کرنے جیسا مشکل کام کرکے دیکھنا ہے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’میرا تعارف کراتے وقت وہ ساری چیزیں گنوائی گئیں جن سے آپ سب کے سانس رک جائیں، آنکھیں جھپکنا بند ہوجائیں، منہ کھلے رہ جائیں… میں نے کس عمر میں کیا کردیا، اور کس عمر میں کیا… اس سال میری کمپنی کا ٹرن اوور کیا تھا… دنیا کے دس بہترین منتظم میں، میں کس نمبرپر ہوں… دنیا کی کون کون سی کمپنیاں میری کلائنٹ ہیں… آپ میں سے اگر کوئی مجھ سے اور میری کامیابی سے متاثر نہیں ہوا، یہ سب سن کر بھی تو مجھے حیرت ہوگی…‘‘ وہ رکا، جیسے مجمع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’لیکن اس تعارف میں بہت سے ایسے حقائق شامل نہیں جن کو سن کر آپ کو مجھ میں اپنا آپ یا اپنے آپ میں، میں نظر آنے لگوں گا۔
’’اور میری تمام خامیوں کے ساتھ بھی مجھے اگر بااثر ترین افراد کی فہرست میں رکھا جاتا ہے تو یہ خوف ناک بات ہے… خوف ناک اس لئے کیونکہ ہم ایک ایسے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں صرف کامیابی ہمیں قابل عزت اور قابک رشک بنارہی ہے… ہماری انسانی خصوصیات اور خوبیاں نہیں۔‘‘
تالیوں کے شور نے ایک بار پھر اسے رکنے پر مجبور کیا تھا۔ مجمع اب اس کی حس مزاح کو نہیں اس کے ان الفاظ کو سراہ رہا تھا۔
’’ایم آئی ٹی کے گریجویٹنگ اسٹوڈنٹس سے یہ بات کہتے ہوئے میں احمق لگوں گا کہ ان چیزوں کا دوبارہ تعین کریں جو ہمارے لئے متاثر کن ہونا چاہئیں… میں دس سال کا تھا جب میرے باپ نے مجھے زبردستی پاکستان بھیج دیا… مجھے اور میری فیملی کو… کیونکہ میرے دادا کو الزائمر تھا اور میرے باپ کا خیال تھا انہیں ہماری ضرورت ہے… میں نے اگلے چھ سال اپنے دادا کے ساتھ گزارے… دنیا کی کوئی یونیورسٹی مجھے وہ تربیت اور علم نہیں دے سکتی جو الزائمر کے ہاتھوں اپنی یادداشت کھوتے ہوئے اس پچھتر سال کے بوڑھے نے اپنے دس سال کے پوتے کو دی… ایم آئی ٹی بھی نہیں…‘‘
سناٹے کو تالیوں نے توڑا تھا پھر اس کے لئے کھڑے ہوجانے والے ہجوم نے اگلے کئی منٹ اپنے ہاتھ نہیں روکے۔
’’میں ہمیشہ سوچتا تھا، اس سب کا فائدہ کیا تھا… مجھے امریکہ میںہونا چاہیے تھا، دادا کے پاس نہیں… لیکن پھر آہستہ آہستہ سب کچھ بدلنا شروع ہوگیا… مجھے ان کے ساتھ بیٹھنا، بات کرنا، سننا اور ان کی مدد کرنا اچھا لگنے لگا… دس سال کا بچہ کبھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی انسان سامنے پڑی ہوئی چیز کا نام کیسے بھول سکتا ہے… لیکن میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس سب نے مجھے ایک چیز سیکھائی… کل کبھی نہیں آتا… جو بھی ہے، آج ہے… اور آج کا بہترین مصرف ہونا چاہیے… ’’کل‘‘ چانس ہے، ہوسکتا ہے، آپ کو نہ ملے۔‘‘
اس نے تقریر ختم کردی تھی، وہ پورا مجمع ایک بار پھر اس کے لئے کھڑا ہوچکا تھا… تالیاں بجاتے ہوئے۔
٭…٭…٭
وہ جبریل سکند رکی ڈاکٹر ویزل برنارڈ کے ساتھ آخری سرجری تھی… وہ اس کے بعد ریٹائر ہورہے تھے اور ان کے اسسٹنٹ کے طور پر وہ آخری سرجری اس کی زندگی کی سب سے اہم سرجری تھی۔
وہ پانچ سالہ ایک بچہ تھا جو سیڑھیوں سے گر کر سر پرلگنے والی ایک چوٹ کے بعد کوما میں گیا تھا اور اب اسے سرجری کی ایمرجنسی میں ضرورت پڑی تھی۔ اس کے دماغ میں انٹر نل بلیڈنگ ہورہی تھی۔
جبریل ڈاکٹر ویزل کے ساتھ پچھلے دو سالوں سے کام کررہا تھا۔ وہ امریکہ تاریخ کے کامیاب ترین سرجنز میں سے ایک تھے اور جبریل ان کا پسندیدہ ترین اسسٹنٹ تھا۔ ڈاکٹرز کے سرکل میں ڈاکٹرویزل برنارڈ کو دیوتا کی حیثیت حاصل تھی، وہ یہودی النسل تھے اور ان کے ساتھ کام کرنا ہی خود ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ وہ مزاجاً بے حد اکھڑ اور تیکھے مزاج کے تھے اور بے حد کم کسی کے کام سے خوش ہونے والوں میں سے تھے۔ خاص طور پر کسی مسلمان کے اور وہ بھی ایشیائی نسل کے۔
اس کے باوجود جبریل سکندر ان کا چہیتا تھا… کہیں نہ کہیں وہ اس میں اپنا آپ دیکھتے تھے، ا س کی یکسوئی، اس کی مہارت کو… اور یہ بات اس ہاسپٹل میں سب کو پتا تھی کہ ڈاکٹر ویزل کو ٹھنڈا رکھنے کا کام جبریل سکندر سے بہترکوئی نہیں کرسکتا۔
اور جتنے مہربان وہ جبریل کے ساتھ تھے، اتنا ہی متاثرہ وہ ڈاکٹر ویزل سے تھا۔ نیوروسرجن کے طور پر ان کا ڈنکا اگر دنیا میں بجتا تھا تو وہ اس قابل تھے… اپنی بدمزاجی کے باوجود … انہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی تھی… دوکتے اور دو بلیاں پالی تھیں اور ساری زندگی ان ہی کے ساتھ گزاری تھی اور انہوں نے جبریل کو بھی اپنی پہلی ملاقات میں پہلامشورہ یہی دیا تھا۔
’’تم اس فیلڈ میں بہت آگے جاسکتے ہو، اس لئے شادی مت کرنا… اپنے پروفیشن اور کیرئیر کو فوکس کرنا… دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی اچھی کرنے کے لئے شادی کرسکتا ہے، لیکن دنیا کا ہر شخص دوسروں کی زندگی بچانے کے لئے اپنی زندگی قربان نہیں کرسکتا۔‘‘
انہوں نے جبریل کو نصیحت کی تھی جو اس نے مسکرا کر سنی تھی اور اب اتنا عرصہ ان کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ ڈاکٹر ویزل کے مزاج کو بخوبی سمجھ اور پڑھ سکتا تھا۔
’’تمہارا ہاتھ مسیحا کا ہاتھ ہے، کیونکہ تم اچھے ماں، باپ کا خون رگوں میں لئے ہوئے ہو اور قرآن کے حافظ ہو… اپنی اس مسیحائی کی حفاظت کرنا۔‘‘
انہوں نے چند دن پہلے اس کے اپارٹمنٹ پر اس کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے کہا تھا جو اس کی طرف سے ان کے لئے ایک الوداعی ڈنر تھا۔ وہ ان کی بات پر حیران رہ گیا تھا۔ وہ ایک بے حد متعصب اور کٹر قسم کے یہودی تھے، ان کی زبان سے قرآن حفظ کرنے کو مسیحائی سے جوڑنا جبریل کے لئے ناقابل یقین تھا اور اس کے چہرے اور آنکھوں کی حیرانی نے جیسے اس کے تعجب کو ان تک بھی پہنچایا تھا۔
’’بڑے مسلمان برے لگتے ہیں، اچھے نہیں۔‘‘ وہ کہہ کر اپنی ہی بات پر خود ہنسے تھے۔
’’آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے میں نے۔‘‘ جبریل نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہا تھا۔ انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’میں نہ بھی ہوتا تو بھی تم سیکھتے… مجھے خوشی ہے کہ مجھے بھی اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تمہارے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔‘‘ انہوں نے جواباً اس سے کہا۔
ڈاکٹر ویزل کی شخصیت کے اس پہلو کی جھلک صرف جبریل نے دیکھی تھی اور کوئی کبھی مر کر بھی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ وہ کسی کے لئے اتنے مہربان ہوسکتے تھے۔ جبریل کو ان کے ساتھ کام کرنا کبھی مشکل نہیں لگا تھا، لیکن اب ان کے جانے کے بعد وہ خود ایک سرجن کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے جارہا تھا۔
آپریشن ٹیبل پر لیٹے ہوئے اس بچے کے دماغ کا آپریشن کرتے ہوئے وہ ڈاکٹر ویزل کے بالکل برابر میں کھڑ اتھا، وہ ہمیشہ کی طرح گپ شپ کررہے تھے، اپنے طویل میڈیکل کیرئیر کے حوالے سے۔ جب ان کی گفتگو میں پہلی بار جبریل نے کچھ اداسی محسوس کی تھی۔
پھر اس نے ڈاکٹر ویزل کو اوزار سے اس بچے کے دماغ میں بلیڈنگ روکنے کے لئے ایک اور جگہ پر کٹ لگاتے دیکھا۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جبریل کو کچھ کھٹکا تھا، وہ ان کا ہاتھ چلتے دیکھ رہا تھا لیکن اسے لگا تھا، کچھ غلطی ہوئی تھی۔ اس کا احساس ٹھیک تھا، وہ بچہ ہوش میں نہیں آسکا تھا۔ ڈاکٹر ویزل کے پروفیشنل کیرئیر کی آخری سرجری ناکام رہی تھی… عائشہ عابدین نے اپنی اکلوتی اولاد کھودی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!