آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

گاڑی پورچ میں آکر رکی اور اندر سے امامہ بڑی تیز رفتاری سے باہر نکلی تھی۔ گاڑی تب تک رک چکی تھی اور اس کی اگلی سیٹ سے ایرک اتر رہا تھا۔ پہلی نظر میں امامہ اسے پہچان نہیں سکی۔ وہ واقعی بدل گیا تھا۔ لمبا تو وہ پہلے بھی تھا، لیکن اب وہ پہلے کی طرح بہت دبلا پتلا نہیں رہا تھا۔
اس کے ہاتھوں میں دو گلاب کی کلیوں اور چند سبز شاخوں کا ایک چھوٹا سا بکے تھا… ہمیشہ کی طرح… امامہ کو یاد تھا وہ بچپن میں بھی اسے اسی طرح ایک پھول اور دو پتوں والی شاخیں اکثر دیتا تھا… جب بھی اس سے کسی خاص موقع پر ملنے آتا تو… اور بعض دفعہ وہ پورا ’’گدستہ‘‘ اس کے گھر کے لان سے ہی بنایا گیا ہوتا تھا۔
ایرک اسے سلام کے بعد گلے ملنے کے لئے بے اختیار آگے بڑھا، پھر جھینپ کر خود ہی ٹھٹکا، شاید اسے کوئی خیال آگیا تھا۔ امامہ نے آگے بڑھ کر تھپکنے والے انداز میں اس کے گرد بازو پھیلایا تھا۔
’’میں تمہیں پہچان ہی نہیں سکی، تم بڑے ہوگئے ہو… بہت بدل بھی گئے ہو۔‘‘ اس نے ایرک سے کہا، وہ مسکرایا۔
’’لیکن آپ نہیں بدلیں… آپ ویسی ہی ہیں۔‘‘
وہ ہنس پڑی تھی۔ ’’سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے کہ کچھ نہیں بدلا… حالانکہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں بھی بوڑھی ہوگئی ہوں۔‘‘ وہ ہنس رہی تھی۔
’’بڑھاپے کی Definition اب شاید بدل گئی ہوگی۔ ایرک نے برجستگی سے کہا، وہ پھر ہنس پڑی۔
’’یہ آپ کے لئے۔‘‘ ایرک نے اسے وہ چھوٹا سا گلدستہ تھمایا تھا۔
’’تمہاری عادتیں نہیں بدلیں… لیکن پھول بدل گیا ہے۔‘‘ امامہ نے گلدستہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
’’کیونکہ ملک بدل گیا ہے۔‘‘ اس نے برجستہ کہا۔
’’ہاں، یہ بھی ٹھیک کہا تم نے… سامان کہاں ہے تمہارا؟‘‘ امامہ کو ایک دم خیال آیا، وہ گاڑی سے اس گلدستے اور ایک چھوٹے بیگ کے علاوہ خالی ہاتھ اترا تھا۔
’’ہوٹل میں… میں وہیں رہوں گا، بس آپ سے ضروری ملاقات کرنی تھی، اس لئے آیا ہوں۔‘‘ ایرک نے اس کے ساتھ اند رجاتے ہوئے کہا۔
’’پہلے تم ہمیشہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے اور یہیں رہتے تھے، اب کسی اور کے پاس آئے ہو کیا؟‘‘ امامہ کو لگا تھا وہ شاید پاکستان اپنے کسی پیشہ ورانہ کام سے آیا تھا۔
’’نہیں، کسی اور کے پاس تو نہیں آیا لیکن بس مجھے لگا اس بار کسی ہوٹل میں رک کر بھی دیکھنا چاہیے۔‘‘ وہ بات گول کرگیا تھا۔ وہ لنچ کا وقت تھا اور اس نے صبح جب فون پر اس سے ملاقات کے لئے بات کی تھی تو امامہ نے دوپہر کے کھانے پر خاص اہتمام کیا تھا۔ ایرک کو جو چیز پسند تھیں، اس نے بنوائی تھیں اور ایرک نے اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بڑے شوق سے کھانا کھایا تھا۔
کھانے کے دوران گپ شپ میں ایرک اور اس کے درمیان ہر ایک کے بارے میں بات ہوئی تھی سوائے عنایہ کے… ایرک نے اس کا ذکر تک نہیں کیا تھا اور امامہ نے یہ بات نوٹس کی تھی… حوصلہ افزا تھی یہ بات، لیکن پتا نہیں کیوں اسے غیر معمولی لگی تھی… اور اس کی چھٹی حس نے اسے جو سگنل دیا تھا، وہ ٹھیک تھا۔
کھانے کے بعد چائے کا آخری گھونٹ لے کر کپ رکھتے ہوئے ایرک نے اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اس کے سامنے میز پر رکھ دیا تھا۔ امامہ ابھی چائے پی رہی تھی۔ وہ بری طرح ٹھٹکی تھی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’آپ دیکھ لیں۔‘‘




اس نے امامہ سے کہا، پلک جھپکتے اس خوب صورت لفافے کو کھولنے سے بھی پہلے… اس کے چہرے سے مسکراہٹ یک دم غائب ہوئی تھی۔ وہ اس ایک لمحے سے بچنا چاہ رہی تھی اور وہ پھر بھی سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ لفافے کے اندر ایک خوب صورت کاغذ پر بے حد خوبصورت طرز تحریر میں ایرک نے وہی لکھا ہو اتھا جس کا اسے خدشہ تھا۔ وہ عنایہ کے لئے اس کی طرف سے ایک رسمی پروپوزل تھا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اسے بہت خوش رکھے گا اور اس آفر کے ساتھ کہ وہ اس پروپوزل کے لئے ان کی تمام شرائط قبول کرنے پر تیار ہے۔
امامہ کی نظریں کچھ دیر اس کاغذ پر جمی رہیں اور ایرک کی اس پر۔ پھر امامہ نے کاغذ کو اس لفافے میں واپس ڈال کر اسے میز پر رکھ دیا تھا۔ ایرک سے اب نظر ملانا اور سامنا کرنا یک دم مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے دیکھا، وہ سنجیدہ تھا اور گفتگو کا آغاز اسی نے کردیا تھا۔
’’آپ نے کئی سال پہلے مجھ سے کہا تھا۔ میں پڑھ لکھ کر کچھ بن جاؤں پھر آپ سے اس بارے میں بات کروں اور تب تک میں عنایہ سے بھی اس موضوع پر کبھی بات نہ کروں۔ دیکھیں! میں نے آپ کی دونوں شرائط پوری کی ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور اس کے دونوں جملوں نے امامہ کے لئے جواب کو اور بھی مشکل کردیا تھا۔
’’میں جانتا ہوں، مسز سالار، آپ کے لئے میں ایک بہت مشکل انتخاب ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک برا انتخاب ثابت نہیں ہوں گا۔‘‘ ایرک نے جیسے اس کی مشکل بھانپتے ہوئے خود ہی اسے یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ اچھا لڑکا تھا۔ برا ہوتا تو اسے برا بھلا کہنا کتنا آسان ہوتا… امامہ نے دل میں سوچا۔
وہ اپنی طرف سے انکار کی ہر وجہ ختم کر آیا تھا… مسلمان بھی ہوگیا تھا، ایک اچھے پروفیشن میں بھی تھا۔ خاندانی اعتبار سے بھی اچھا تھا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ پھر بھی اسے انکار کیا کہہ کر کرے… یہ کہہ کے کہ اسے خوف اور خدشات تھے، اس کے نومسلم ہونے کے حوالے سے… یا یہ کہے کہ وہ صرف ایک پاکستانی سے عنایہ کی شادی کرنا چاہتی تھی جو اس کے اپنے کلچر سے واقف ہو… اس کے ذہن میں اس وقت جوابات جیسے بھاگ رہے تھے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تسلی بخش ہوتا لیکن اس کے باوجود اسے ایک جواب تو ایرک کو دینا ہی تھا۔
’’تم بہت اچھے ہو ایرک۔‘‘ امامہ نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہان شروع کیا۔
’’عبداللہ!‘‘ اس نے امامہ کو بیچ میں ٹوک کر جیسے اس کی تصحیح کی۔
وہ ایک لحظہ کے لئے خاموش ہوئی پھر اس نے جیسے بڑی مشکل سے اس سے کہا۔ ’’عبداللہ… تم بڑے اچھے لڑکے ہو اور میں تمہیں پسند کرتی ہوں لیکن عنایہ کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ میں نہیں جانتی، عنایہ تمہارے پروپوزل کے حوالے سے کیا سوچتی ہے… ا س کی پسند، ناپسند بے حد اہم ہے۔‘‘
وہ جملہ ادا کرتے ہوئے بھی امامہ کو احساس ہورہا تھا وہ ایک بے تکی بات کررہی تھی… اگر بات عنایہ کی پسند ناپسند کی تھی، تو پھر رشتہ پکا تھا۔ ایرک کے لئے اس کی پسندیدگی بہت واضح تھی۔
’’میں نے عنایہ سے پہلے اس لئے بات نہیں کی کیوں کہ آپ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا، میں یہ بات جب بھی کروں گا، آپ سے ہی کروں گا۔‘‘ اس نے امامہ کی بات کاٹ کر جیسے اسے یاد دہانی کرائی تھی۔
’’میں سالار سے بات کروں گی، تم دو ہفتے پہلے آجاتے تو ان سے تمہاری ملاقات ہوجاتی۔ وہ یہیں تھے کچھ دن۔‘‘ امامہ نے جواباً کہا تھا۔ فوراً ہاں کہہ دینے سے یہ بہتر تھا۔
’’وہ جہاں بھی ہوں گے، میں ان سے ملنے جاسکتا ہوں، میں جانتا ہوں وہ بڑے مصروف ہیں لیکن پھر بھی۔‘‘ ایرک نے اس سے کہا۔ ’’آپ کو تو میرے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے نا؟‘‘ وہ یک دم خوش ہوا تھا اور اس کے چہرے سے چھلکنے والی خوشی اور اطمینان نے جیسے امامہ کو احساس جرم میں مبتلا کردیا تھا۔
’’میں نے تمہیں بتایا ہے عبداللہ تم بہت اچھے ہو، لیکن میری خواہش ہے کہ عنایہ کی شادی جس سے بھی ہو، وہ صرف نام کا مسلمان نہ ہو، نیک ہو، دین دار ہو، سمجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہو۔‘‘ امامہ نے اس سے کہنا شروع کیا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھی۔ وہ اس کی بات بے حد غور سے سن رہا تھا۔
’’مرد کو دین کا پتا نہ ہو تو عورت کے لئے بہت مسئلہ ہوجاتا ہے۔ یہ ایک پوری نسل کی تربیت کی بات ہوتی ہے۔ ہم لوگ لبرل مسلمان ہیں لیکن بے دین اور بے عمل نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے ہونا چاہتے ہیں، نہ اپنی اگلی نسلوں کے لئے یہ چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا تم کتنے باعمل ہو اور اسلاوم کے بارے میں تمہارے نظریات کتنے واضح ہیں لیکن عنایہ بہت مذہبی ہے… میں نہیں چاہتی اس کی شادی ایسی جگہ ہو جہاں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ مذہبی اعتقادات اور ان پر عمل کا ہونا یا نہ ہونا ہو۔‘‘ وہ کہتی جارہی تھی۔
’’تمہیں شاید پتا نہ ہو لیکن میں بھی نو مسلم تھی۔ اپنے مذہب کو ترک کرکے اسلام کی صحیح تعلیمات اختیار کی تھیں میں نے… فیملی، گھر سب چھوڑا تھا… بڑے مسائل کا سامنا کیا تھا… یہ آسان نہیں تھا۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ رکی، اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے وہ ہنسی یوں جیسے اپنے آنسوؤں کو چھپانا چاہتی ہو۔
’’یہ آسان کام نہیں تھا۔‘‘ اس نے دوبارہ کہنا شروع کیا۔ ’’لیکن سالار نے بہت آسان کردیا میرے لئے… وہ باعمل مسلمان ہے اور میں اپنی بیٹی کے لئے اس کے باپ جیسا مسلمان ہی چاہتی ہوں، زندگی میں اتنی تکلیفیں برداشت کرکے اتنی لمبی جدوجہد کے بعد میں اپنی اگلی نسل کو پھر سے بے دین اور بے عمل دیکھنا نہیں چاہتی۔ تم مسلمان تو ہو لیکن شاید اسلام کی تعلیمات میں اتنی دلچسپی نہ ہو کیوں کہ تمہارے مسلمان ہونے کی وجہ ایک لڑکی سے شادی ہے۔ شادی ہوجائے گی تو تمہاری دلچسپی دین میں ختم ہوجائے گی۔ کچھ عرصہ بعد شاید تمہیں یہ بھی یاد نہ رہے کہ تم مسلمان ہو۔ حرام اور حلال کے درمیان جو دیوار ہم اٹھا کر رکھتے ہیں، تمہارے لئے وہ اٹھانا ضروری نہ ہو۔ محبت بہت دیر پا چلنے والی شہ نہیں ہے۔ اگر دو انسانوں کے بیچ عادات، اعتقادات اور خیالات کی خلیج ہو تو۔‘‘
ایرک نے اس کی گفتگو کے درمیان اسے ایک بار بھی نہیں ٹوکا تھا۔ وہ صرف خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا۔
’’تم کسی ویسٹرن لڑکی سے شادی کرلو تو تمہاری بہت اچھی نبھے گی۔‘‘ وہ اب اسے جیسے مشورہ دیتے ہوئے راستہ دکھانے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ مسکرادیا۔
’’کوئی اچھی مسلمان لڑکی جو وہیں سے ہو۔‘‘
’’وہ جو بھی ہوگی، آپ کی بیٹی تو نہیں ہوگی مسز سالار۔‘‘ اس بار ا س نے اس لمبی گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کو ٹوکا، امامہ خاموش ہوگئی۔
’’آپ نے اچھا کیا یہ سب کچھ کہا مجھ سے… جو بھی آپ کے خدشات ہیں، میں اب انہیں دیکھ سکتا ہوں اور آپ کو وضاحت بھی دے سکتا ہوں۔ نو سال ہوگئے ہیں مجھے عبداللہ بنے… لیکن مجھے لگتا ہے مسلمان میں بہت پہلے سے تھا تب سے جب آپ لوگوں کے خاندان سے ملنا شروع ہوا تھا…‘‘ وہ بہت سوچ سوچ کر ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا۔
’’میں بہت زیادہ باعمل اور باکردار مسلمان نہیں ہوں۔ آپ کے بیٹوں جیسا تو بالکل بھی نہیں ہوں لیکن اپنے آس پاس نظر آنے والے بہت سے مسلمانوں سے بہتر ہوں۔ نو سال میں میں نے اپنے دین کے حوالے سے صرف حرام اور حلال ہی کو نہیں سمجھا اور بھی بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے پتا ہے آپ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ رسول اللہﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتی تھیں۔
پھر آپ تائب ہوکر مسلمان ہوئیں… مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ یہ مجھے کس نے بتایا لیکن میں یہ جانتا ہوں اور اس لئے آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ مجھ سے زیادہ ہمدردی رکھیں گی۔ آپ کی طرح میں بھی اپنی اگلی نسل کو اچھا انسان اور مسلمان دیکھنا چاہتا ہوں… صرف مسلمان نہیں اس لئے آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں… ایک اچھی دین دار عورت ہی ایک اچھے گھرانے کی بنیاد رکھتی ہے… یہ بھی دین نے ہی بتایا ہے مجھے۔‘‘
امامہ اس کی باتیں سن رہی تھی، عبداللہ اس کے انکار کو بہت مشکل کرتا جارہا تھا۔ وہ جو بھی اس سے کہہ رہا تھا، وہ لگی لپٹی کے بغیر کہہ رہا تھا۔
’’مجھے عنایہ بہت اچھی لگتی ہے، محبت کرتا ہوں اس سے لیکن شادی کا فیصلہ صرف محبت کی وجہ سے نہیں کیا نہ ہی مذہب کی تبدیلی محبت کا نتیجہ ہے… میری زندگی میں آپ اور آپ کی فیملی کا ایک بہت پازیٹو رول رہا ہے… میں آپ لوگوں کے مذہب سے بعد میں متاثر ہوا تھا، آپ لوگوں کی انسانیت اور مہربانی سے پہلے متاثر ہوا تھا… اور میری زندگی کے ایک بہت مشکل فیز میں مجھے آپ لوگوں کا حسنِ سلوک یاد ہے، ایک ایک چیز۔ آپ کہیں تو میں دہر اسکتا ہوں میں اس مذہب کے حصار میں آگیا تھا جو ایسے خوب صورت انسان بنانے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا تھا۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا، آپ لوگوں کے لئے جو محسوس کرتا تھا، اسے آپ لوگوں کو بتا نہیں سکتا تھا۔ اب اتنے سالوں بعد مجھے موقع ملا ہے تو میں بتا رہا ہوں۔‘‘
وہ رکا… سرجھکائے بہت دیر خاموش رہا۔
’’آپ لوگ میری زندگی میں نہ آتے تو میں ایک بہت برا انسان بنتا… پاپا کی موت کے بعد میں ویسے ہی تھا جیسے سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی… ڈوب جاتی تو ڈوب جاتی… میں اس وقت بہت دعا کیا کرتا تھا کہ مسٹر سالار سکندر کو کچھ نہ ہو، ان کا ٹریٹمنٹ صحیح ہوجائے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا آپ کے گھر میں وہ تکلیف آئے جس سے میں اور میری فیملی گزر رہی تھی…‘‘ وہ چپ ہوگیا۔ امامہ بھی بول نہیں سکی… پانی دونوں آنکھوں میں تھا اور درد بھی… اور دونوں یہ دونوں چیزیں چھپانے کی کوشش میں تھے۔
’’میں پاکستان صرف آپ سے بات کرنے اور یہ سب بتانے کے لئے آیا ہوں کہ آپ نے اپنی بیٹی کی تربیت بہت اچھی کی ہے۔ وہ بہت عزت اور حیا والی ہے اور میں نے اتنے سالوں میں اس کے لئے محبت کا جذبہ رکھنے کے باوجود ان حدود کا احترام کیا ہے جو آپ نے اس کے لئے طے کی ہیں اور جسے اس نے کبھی نہیں توڑا۔ میں آپ کی بیٹی کو اتنی ہی عزت اور احترام کے ساتھ اپنی زندگی اور گھر کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘
عبداللہ نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکال کر اس لفافے کے اوپر رکھ دی جو اس نے میز پر رکھا تھا۔ اس خوبصورت لفافے کے اوپر ایک خوبصورت سرخ ڈبیا میں عنایہ سکندر کا نصیب تھا جو اتنا ہی خوب صورت تھا۔ نم آنکھوں کے ساتھ امامہ اس ڈبیا پر سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ اس کی مرضی سے کبھی کچھ نہیں ہوتا تھا، لیکن جو بھی ہوتا تھا وہ بہترین ہوتا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!