آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

’’رنگ خوب صورت ہے پر نقلی ہے۔‘‘ حمین نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھتے، فش اور چپس کھاتے ہوئے ڈبیا کو رئیسہ کی طرف سرکایا، جو سلاد کا ایک پیالہ کھاتے ہوئے اس کی بات سن رہی تھی۔ کھلی ہوئی ڈبیا کو بند کرتے ہوئے اس نے اسی ہاتھ سے اپنے گلاسز ٹھیک کئے اور بڑے تحمل سے کہا۔
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ وہ فش اور چپس تقریباً نگل رہا تھا اور ساتھ ٹی وی لاوؑنج میں ٹی وی پر رگبی کا ایک میچ دیکھ رہا تھا۔
رئیسہ ویک اینڈ گزارنے وہاں آئی تھی، امریکہ واپس آنے کے بعد اور اگلے دن عنایہ بھی وہاں پہنچ رہی تھی اور اس وقت ایک فاسٹ فوڈ سے ہوم ڈیلیوری سروس کے ذریعے منگایا گیا… کھانا کھانے میں مصروف تھے جب رئیسہ نے وہ انگوٹھی اسے دکھائی تھی۔
’’تم نے کسی کو دینی ہے یا تمہیں کسی نے دی ہے؟‘‘ حمین نے میچ دیکھتے دیکھتے چلی ساس کی بوتل تقریباً اپنی پلیٹ میں خالی کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’ہشام نے دی ہے۔‘‘ رئیسہ نے کسی تمہید کے بغیر مدہم آواز میں بے حد سنجیدگی سے کہا۔ اس بار حمین نے اسکرین سے نظریں ہٹالی تھیں۔
’’جب وہ واپس آئے گا تو میں اسے واپس کردوں گی۔‘‘ اس نے ایک لمحہ کے توقف کے بعد اسی سانس میں کہا۔
’’مطلب؟‘‘ حمین اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔
’’اس نے مجھے پروپوز کیا ہے لیکن میں نے اس کا پروپوزل قبول نہیں کیا۔ میں چاہتی ہوں پہلے دونوں فیملیز آپس میں بات کرلیں۔‘‘ رئیسہ نے اسے مختصراً بتایا۔
’’لیکن ہشام تو ابھی اپنی فیملی کے ساتھ بحرین میں ہوگا۔ اس کی فیملی کیا وہاں سے آکر بات کرے گی؟‘‘ حمین نے جواباً اس سے پوچھا۔ وہ دونوں ہشام اور اس کی فیملی کے حوالے سے بات کررہے تھے۔
تین دن پہلے بحرین میں ہونے والے رائل فیملی کے اس فضائی حادثے میں وہاں کے حکمران اور اس کی فیملی کے چھ افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بحرین کا حکمران ہشام کا تایا تھا اور اس حادثے کی اطلاع ملنے کے فوری بعد ہشام اپنی فیملی کے ساتھ بحرین چلا گیا تھا۔ رئیسہ بھی اس کے ساتھ ہی امریکہ واپس آئی تھی۔
’’ہشام تو آجائے گا اگلے ہفتے لیکن اس کی فیملی ابھی رہے گی وہاں۔‘‘ رئیسہ نے اس سے کہا۔
’’تو پھر کیا ہوگا؟‘‘ حمین نے دوبارہ چپس کھانا شروع کرتے ہوئے کہا۔
’’اسی لئے تو تم سے بات کررہی ہوں تم بتاؤ۔‘‘ رئیسہ نے اسے جواباً کہا۔
’’ممی کریں گی صاف صاف دو ٹوک انکار۔‘‘ چلی ساس میں مچھلی کا ٹکڑا ڈبوتے ہوئے حمین نے جیسے مستقبل کا نقشہ دو جملوں میں اس کے سامنے کھینچا۔
’’ہاں، مجھے پتا ہے۔‘‘ رئیسہ نے گہرا سانس لیا۔
’’تمہیں پسند تو نہیں ہے نا؟‘‘ حمین نے اس سے اس طرح سرسری سے انداز میں پوچھا جیسے یہ کوئی عام سی بات تھی۔
’’ہے۔‘‘ اس نے یک لفظی جواب دیا اور ایک پورا زیتون اٹھا کر نگلا۔
’’Too bad!‘‘حمین نے جیسے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔
’’عنایہ اور عبداللہ کا پتا ہے تمہیں، اس کے باوجود تم نے…‘‘
رئیسہ نے اس کی بات کاٹی۔ ’’ہشام پیدائشی مسلمان ہے۔‘‘
’’لیکن بحرینی ہے بلکہ عرب ہے۔‘‘ حمین نے اسے بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
’’ویسے تو وہ امریکی ہے۔‘‘ رئیسہ نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا۔




’’امریکی تو ممی کو ویسے ہی زہر لگتے ہیں۔‘‘ حمین نے بے حد اطمینان سے تصویر کا یاک اور تاریک پہلو اسے دکھایا۔
’’اسی لئے تو تم سے بات کررہی ہوں۔‘‘ رئیسہ نے سلاد کھانا بند کردیا۔
’’تم ایک بات بتاؤ، تمہیں وہ صرف پسند ہے یا محبت وغیرہ ہے؟‘‘ رئیسہ نے اسے جواباً گھورا۔
’’صرف جنرل نالج کے لئے پوچھ رہا ہوں۔‘‘ حمین نے مدافعانہ انداز میں بے اختیار کہا۔
’’یہ جنرل نالج کا سوال نہیں ہے۔‘‘ رئیسہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
’’کامن سینس کا ہوگا پھر… وہ تو میری ویسے ہی خراب ہے۔‘‘ پلیٹ صاف کرتے ہوئے حمین نے بے حد اطمینان سے کہا۔
’’تم کچھ کرسکتے ہو یا نہیں؟‘‘ رئیسہ نے اس کو اگلا جملہ بولنے سے پہلے کہا۔
’’میں صرف کوشش کرسکتا ہوں لیکن اس کا فائدہ کیا… لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تم میری ملاقات ہشام سے کراؤ… میں دیکھنا چاہتا ہوں تمہارے حوالے سے وہ دراصل کتنا سیریس ہے۔‘‘
’’وہ میں کروادوں گی، وہ مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ رئیسہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
’’اور اگر ممی یا بابا نہیں مانتے پھر…؟‘‘ حمین نے یک دم اس سے کہا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی، پھر اس نے کہا۔
’’مجھے وہ اچھا لگتا ہے لیکن ایسی جذباتی وابستگی نہیں ہے کہ میں اسے چھوڑ نہ سکوں۔‘‘
’’اچھے کی امید رکھنی چاہیے لیکن بدترین کے لئے تیاررہنا چاہیے… بابا کو اعتراض نہیں ہوگا، لیکن ممی کا میں کہہ نہیں سکتا، کوشش کروں گا… لیکن ہشام نے اپنی فیملی سے بات کی ہے تمہیں پروپوز کرنے سے پہلے… کیوں کہ اگر اس کی فیملی کو کوئی اعتراض ہوا تو ممی بابا میں سے کوئی بھی اس پروپوزل پرغور نہیں کرے گا۔‘‘ حمین کو بات کرتے کرتے خیال آیا تھا۔
’’اپنی فیملی سے بات کرکے ہی اس نے مجھ سے بات کی ہے، اس کی فیملی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ رئیسہ نے اسے جیسے یقین دہانی کرائی۔
حمین اس کی بات سنتے ہوئے اپنے میز پر دھرے فون کی اسکرین پر کچھ دیکھ رہا تھا اور اپنی انگلی سے اسکرین کو اسکرول کررہا تھا، رئیسہ کو لگا اس نے اس کی بات غور سے نہیں سنی۔
’’تم میری بات سن رہے ہو؟‘‘ رئیسہ نے جیسے اسے متوجہ کیا۔
’’ہاں… میں ہشام کو سرچ کررہا ہوں۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’کیا؟‘‘ رئیسہ چونکی۔
’’ہشام کو اور اس کی فیملی کوپتا ہے کہ تم ایڈاپٹڈ ہو؟‘‘ حمین اسی طرح اسکرین اسکرول کررہا تھا۔
’’ہشام کو پتا ہے تو ظاہر ہے اس کی فیملی کو بھی پتا ہوگا۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکی اور پھر بولی۔
’’اوہ…‘‘ حمین اپنے فون کی اسکرین پر کچھ پڑھتے بے اختیار چونکا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ رئیسہ چونکی۔
’’تمہارے لئے ایک اچھی خبر ہے اور شاید بری بھی۔‘‘ حمین نے ایک گہرا سانس لے کر سراٹھایا اور اسے دیکھا اور پھر اپنا فون اس کے سامنے رکھ دیا۔
٭…٭…٭
وہ شخص دیوار پر لگی رئیسہ کی تصویر کے سامنے پچھلے پندرہ منٹ سے کھڑا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، ٹکٹکی باندھے اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہوئے… چہرے میں کوئی شباہت تلاش کرتے ہوئے… سالار سکندر کے شجرہ میں دبے آتش فشاں کی شروعات ڈھونڈتے ہوئے… اگر وہ اس شخص کو نشانہ بناسکتا تھا تو اسی ایک جگہ سے بناسکتا تھا۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا… خود کلامی… ایک اسکینڈل کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک مکرو فریب کا جال… وجوہات… حقائق کو چھپانے… وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے عقب میں بیٹھے لوگوں کو کچھ ہدایات دینے کے لئے مڑا تھا۔
سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے اس کمرے کی دیواروں پر لگے بورڈز، چھوٹے بڑے نوٹس، فوٹو گرافس اور ایڈریسزکی چٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔
کمرے میں موجود چند آدمیوں میں سے تین اس وقت بھی کمپیوٹر پرمختلف ڈیٹا کھنگالنے میں مصروف تھے، یہ کام وہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے کررہے تھے۔ اس کمرے میں جگہ جگہ بڑے بڑے ڈبے کھلے پڑے تھے جو مختلف فائلز، ٹیپس، میگزینز اور نیوز پیپرز کے تراشوں اور دوسرے ریکارڈ سے بھرے ہوئے تھے۔ کمرے میں موجود ریکارڈ کیبنٹس پہلے ہی بھری ہوئی تھیں، کمرے میں موجود تمام ڈیٹا ان کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس میں بھی محفوظ تھا۔
کمرے میں موجود دو آدمی پہلے ڈیڑھ ماہ سالار سکندر کے بارے میں آن لائن آنے والا تمام ریکارڈ اور معلومات اکٹھی کرتے رہے تھے۔ کمرے میں موجود تیسرا شخص سالار اور اس کی فیملی کے ہر فرد کے ای میلز کا ریکارڈ کھنگالتا رہا تھا۔ چوتھا شخص اس کی فیملی اور مالی معلومات کو چیک کرتا رہا تھا۔ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ ان تصویروں اور شجرہ نسب کی صورت میں ان بورڈز پر موجود تھا۔
وہ چار افراد دعویٰ کرسکتے تھے کہ سالار اور اس کی فیملی کی پوری زندگی کا ریکارڈ اگر خدا کے پاس موجود تھا تو اس کی ایک کاپی اس کمرے میں بھی تھی۔ سالار کی زندگی کے بارے میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو ان کے علم میں نہیں تھی یا جس کے بارے میں وہ ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔
سی آئی اے کے اسٹنگ آپریشنز سے لے کر اس کی ٹین ایج کی گرل فرینڈز تک اور اس کے مالی معاملات سے لے کر اس کی اولاد کی پرسنل اور پرائیوٹ لائف تک ان کے پاس ہر چیز کی تفصیلات تھیں لیکن سارا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیڑھ دو ماہ کی اس محنت اور پوری دنیا سے اکٹھے کئے ہوئے اس ڈیٹا میں سے وہ ایسی کوئی چیز نہیں نکال سکے تھے جس سے وہ اس کی کردار کشی کرسکتے۔ وہ ٹیم جو پندرہ سال اس طرح کے مقاصد پر کام کرتی رہی تھی، یہ پہلی بار تھا کہ وہ اتنی سر توڑ محنت کے باوجود اس شخص اور اس کے گھرانے کے کسی شخص کے حوالے سے کسی قسم کا اسکینڈل ڈھونڈ نہیں پائی تھی۔ دو سو پوائنٹس کی جو چیک لسٹ انہیں دی گئی تھی، وہ دو سو کراسز سے بھری ہوئی تھی اور یہ ان کی زندگی میں پہلی بار ہورہا تھا۔ انہوں نے ایسا صاف ریکارڈ کسی کا نہیں دیکھا تھا۔
کسی حد تک ستائش کے جذبات رکھنے کے باوجود وہ ایک آخری کوشش کررہے تھے…ایک آخری کوشش… کمرے کے ایک بورڈ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بورڈ تک جاتے جاتے وہ آدمی سالار کے فیملی ٹری کی اس تصویر پر رکا تھا۔ اس تصویر کے آگے کچھ اور تصویریں تھیں اور ان کے ساتھ کچھ بلٹ پوائنٹس… ایک دم جیسے اسے بجلی کا جھٹکا لگا تھا۔ اس نے اس لڑکی کی تصویر کے نیچے اس کی تاریخ پیدائش دیکھی پھر مڑ کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو وہ سال بتاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو اس سال ان ڈیٹس پر یہ کہاں تھا؟‘‘
کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے چند منٹوں کے بعد اسکرین پر نمودار ہونے والی تحریر پڑھتے ہوئے کہا۔
’’پاکستان!‘‘
سوال کرنے والے آدمی کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی۔
’’کب سے کب تک؟‘‘
اس آدمی نے اگلا سوال کیا، کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے کی پورڈ پر انگلیوں کو حرکت دیتے ہوئے اسکرین پر دیکھتے ہوئے اسے تاریخیں بتائیں۔
’’آخر کار ہمیں کچھ مل ہی گیا۔‘‘ اس آدمی نے بے اختیار ایک سیٹی بجاتے ہوئے کہا تھا۔ انہیں جہاز ڈبو نے کے لئے تار پیڈومل گیا تھا۔
یہ پندرہ منٹ پہلے کی روداد تھی۔ پندرہ منٹ بعد وہ اب جانتا تھا کہ اسے اس آتش فشاں کا منہ کھولنے کے لئے کیا کرنا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!