آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

’’ہم کہیں مل سکتے ہیں؟‘‘ اسکرین چمکی۔
’’کہاں؟‘‘ تحریر ابھری۔
’’جہاں بھی تمہیں آسانی ہو، میں آجاؤں گا۔‘‘ جواب آیا۔
’’اچھا سوچتی ہوں۔‘‘ لفظوں نے کہا۔
’’کب تک بتاؤگی؟‘‘ اشتیاق سے پوچھا گیا۔
’’کچھ دنوں تک۔‘‘ تامل سے کہا گیا۔
’’میں انتظار کروں گا۔‘‘ وعدے کی طرح دہرایا گیا۔
’’جانتی ہوں۔‘‘ یقین دلایا گیا۔
اور پھر آگے کچھ بھی نہیں تھا… یوں جیسے کوئی پہاڑ آگیا ہو یا پھر کھائی کہ نہ لفظ رہے ہوں، نہ وقت۔
عنایہ نے اپنے فون پر انگلیوں سے سکرول کرتے ہوئے ان میسجز کے تھریڈ کو دیکھا، پڑھا، یوں جیسے پہلی بار اس گفتگو کو پڑھ رہی ہو۔ یوں جیسے وہ گفتگو پہلی بار ہوئی ہو۔ اس کی مخروطی خوب صورت دو دھیا انگلیاں، فون کی اسکرین پر نہیں، جیسے ان لفظوں پر پھسل رہی تھینَ
سوال جواب اتنے سالوں سے کرتے آرہے تھے وہ… اسی ترتیب میں… اور ہر بار گفتگو وہیں جاکر رکتی تھی جہاں اس بار ختم ہوئی تھی… اس سے آگے کے سوال و جواب دونوں کے پاس نہیں تھے یا شاید ہمت نہیں تھی کہ اس سے آگے وہ کچھ پوچھتے… لیکن مہینے میں کم از کم ایک بار کسی بھی دوسرے موضوع پر بات کرتے کرتے ان کے درمیان اس گفتگو کا تبادلہ ضرور ہوتا… وہ سوال جواب کسی پرانی یاد یا میوزک کی طرح بیک گراوؑنڈ میں چلتے جیسے ابھی ہوا تھا… وہ کسی اور موضوع پر بات کررہے تھے اور بات وہاں تک آگئی تھی… اور جہاں آگئی تھی، وہاں رک گئی تھی… اب وہاں سے موضوع بدلنے کے لئے انہیں پھر کچھ وقت چاہیے تھا۔
وہ ایرک سے محبت نہیں کرتی تھی اور اسے شبہ تھا کہ شاید وہ بھی نہیں کرتا ہو… بہت سارے احساس وہم اور خوش فہمی بھی تو ہوسکتے تھے، مگر یہ بھی درست تھا کہ اتنے سالوں میں ایرک کے علاوہ اس کے سرکل میں کوئی مرد دوست نہیں تھا… امریکہ، پاکستان دونوں جگہ… اسکول، کالج… کسی بھی جگہ عنایہ کسی لڑکے کو اپنا دوست نہیں بناسکتی تھی، نہ وہ اتنی بے تکلفی کا مظاہرہ کرسکتی تھی اور نہ اسے ایسی کسی دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔
ایرک بھی ایسا ہی تھا، اور یہ زیادہ حیرانی کی بات تھی کیوں کہ وہ امریکہ میں رہتا تھا جہاں طرز زندگی بہت مختلف تھا۔ اس کے باوجود عنایہ کی طرح وہ بھی ریز روڈ تھا اور جب وہ عنایہ سے کہتا تھا کہ اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تو عنایہ کو یقین ہوتا تھا کہ ایسا ہی ہے اور اگر وہ یہ کہتا تھا کہ اگر اس کی پچھلے کئی سالوں سے کسی لڑکی کے ساتھ دوستی ہے بھی تو وہ عنایہ ہے تو اسے اس پر بھی یقین تھا۔
اس دوستی کے باوجود دونوں کے درمیان بے تکلفی نہیں تھی، شاید اس کی وجہ فاصلہ تھا یا کلچر یا عنایہ کا وہ مزاج جس سے ایرک بخوبی واقف تھا۔ اتنے سالوں کے بعد بھی تقریباً ہر روز ای میل، میسجز یا فون کے ذریعے ایک دوسرے سے ہر وقت رابطے میں رہنے کے باوجود ان کے درمیان ہونے والی گفتگو مخصوص موضوعات کے گرد گھومتی تھی… کبھی بھی وہ صرف ’’میں اور تم‘‘ پر نہیں گئے تھے اور یہ دونوں کی طرف سے کی جانے والی شعوری کوششوں کا نتیجہ تھا۔




عنایہ ایک مہینہ پہلے رہائش کے لئے امریکہ آئی تھی اور چاہنے کے باوجود اس نے ایرک کو یہ نہیں بتایا تھا، بتانے کا فائدہ نہیں نقصان تھا۔ پتا نہیں کیوں اسے یہ خدشہ تھا کہ اس کے امریکہ آجانے پر وہ اس سے ملنے کی پوری کوشش کرے گا اور یہ اس کے لئے اس لئے بہت آسان ہوتا کیونکہ وہ حمین اور جبریل کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔ عنایہ ان دونوں سے یہ کہہ چکی تھی کہ وہ اس کے امریکہ آنے کے بارے میں ایرک سے کچھ نہیں کہیں، ان دونوں نے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا تھا۔ ایرک جیسے ان کی فیملی کے لئے ایک ایسی کھلی حقیقت تھا جس سے سب آنکھیں چرانا چاہتے تھے لیکن چرا نہیں پاتے۔ ایرک بہت عرصہ پہلے اس کے اور امامہ کے درمیان زیر بحث آچکا تھا… عنایہ جان چکی تھی وہاں اس کے لئے کوئی مستقبل نہیں تھا… اس شادی میں کیا ایشوز تھے اور کیا خدشات، کیا اندیشے تھے اور کیا مسائل… عنایہ آنکھیں بند کرکے رٹے رٹائے انداز میں گنوا سکتی تھی کیوں کہ اس نے یہ سب کچھ امامہ سے لاتعداد بار سنا تھا اور اس نے امامہ کی خواہش کا احترام کیا تھا۔
اس نے آہستہ آہستہ ایرک سے دور ہوجانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے باوجود کہ امامہ نے اسے کبھی ایرک سے قطع تعلق کرنے کے لئے نہیں کہا تھا لیکن عنایہ کا خیال تھا اسے یہ ’’عادت‘‘ بدل دینی چاہیے، جو دونوں کے لئے ایک اسٹیج پر آکر آزاد بن سکتی تھی۔
وہ دونوں زیادہ تر ای میلز اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعہ رابطے میں رہے تھے۔ عنایہ نے کوشش کی تھی یہ رابطہ کم ہونا چاہیے، تعلیمی مصروفیات، پروفیشنل ذمہ داریاں، اس کے پاس بہترین بہانوں کے طور پر موجود تھے لیکن اس کے باوجود ایرک سے اس کا رابطہ ٹوٹ نہیں سکا اور یہ کمال ایرک کا تھا، وہ جڑا رہا تھا، اس کی بے اعتنائی، بے رخی، سرد مہری کے باوجود… یہاں تک کہ عنایہ کو شدید قسم کی ندامت ہونے لگی تھی… پتا نہیں اس شخص میں اتنی برداشت اور تحمل کیسے تھا کہ وہ اپنے آپ کو نظر انداز کئے جانے اور کم اہمیت پانے پر بھی کوئی اعتراض، کوئی احتجاج نہیں کرتا تھا۔ اس سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ اسے بیٹھے بٹھائے کاموں کا ڈھیر اب ہی کیوں یاد آنے لگا تھا اور نہ ہی یہ کہ وہ خود بھی ڈاکٹر تھا، اس سے زیادہ مصروف تھا تو کم از کم وہ پروفیشنل مصروفیات کا بہانہ اس کے سامنے پیش نہ کرے۔
وہ ہفتوں اس کی کسی ای میل کسی میسج کا جواب دیئے بغیر غائب رہتی اور وہ پھر بھی اس کو ٹیکسٹ میسجز کے ذریعہ اپنا حال احوال، اپنی مصروفیات کے بارے میں بتاتا رہتا اور پھر وہ کئی دنوں بعد اس کے بھیجے ہوئے کسی نہ کسی ٹیکسٹ، کسی نہ کسی ای میل کا جواب دینے پر مجبور ہوجاتی ور اور وہ اپنی غیر حاضری کا جو بھی بہانا بناتی، وہ بغیر بحث کے قبول کرلیتا، چاہے وہ کتنا ہی ناقابل یقین کیوں نہ ہوتا اور اس کی یہ قبولیت جیسے اس کے احساس جرم کو اور بڑھا رہی تھی۔ وہ بچپن میں ایسا نہیں تھا جیسا بڑا ہوکر ہوگیاتھا۔ اتنے سالوں میں عنایہ میں اتنی تبدیلیاں نہیں آئی تھی جتنی ایرک میں آئی تھیں اور اس کی بہت سی دوسری وجوہات کے علاوہ ایک بنیادی وجہ اس کا قبول اسلام بھی تھا۔
وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایرک سے عبداللہ ہوگیا تھا لیکن وہ آج بھی اپنے سوشل سرکل میں ایرک کہلاتا تھا یا پھر ایرک عبداللہ… ان لوگوں کے امریکہ سے آجانے کے بعد بھی ایرک سے رابطے میں رہا تھا، وہ اسے بھی ای میل کرتا تھا اور امامہ کو بھی اور اس کی ہر ای میل امامہ کو جیسے ایک یاد دہانی کی طرح لگتی تھی، حالانکہ اس کی ای میلز میں رسمی گفتگو کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔
وہ بھی میڈیسن میں ہی ریزیڈنسی کررہا تھا… عنایہ کی طرح… ان کے پروفیشن نے دو مختلف ملکوں میں رہتے ہوئے بھی ان دونوں کو بڑے عجیب انداز میں ایک دوسرے سے باندھے رکھا تھا… اس نے کنگ ایڈورڈ سے پڑھا تھا اس نے ایروزونا سے… اسے آئی سرجن بننا تھا ایرک کو ہارٹ… مگر ان کے مشترکہ پروفیشن نے جیسے ان کے لئے گفتگو کے بہت سارے موضوعات دے دیئے تھے۔
قبول اسلام کے بعد یونیورسٹی میں گریجویشن کے دوران وہ چند سال تک گرمیوں میں پاکستان آتا رہا تھا لیکن ایک بار میڈیکل میں جانے کے بعد وہ آنا جانا ختم ہوگیا تھا۔ امامہ اس بات پر خوش ہوئی تھی، وہ کبھی بھی اسے پاکستان آنے سے منع نہیں کرسکتی تھی کیونکہ سالار سمیت فیملی کے کسی بھی شخص کو ایرک کے پاکستان آنے پر اعتراض نہیں تھا اور وہ اسے منع کرکے اس کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی لیکن اس طرح اس کا ہر سال ان کے پاس آنا امامہ کے خدشات بڑھاتا رہا تھا اور جس سال پہلی بار اس نے پاکستان نہ آنے کے بارے میں انہیں اطلاع دی تھی، امامہ نے جیسے سکون کا سانس لیا تھا۔ اسے یقین تھا وہ اب اپنی زندگی کی نئی مصروفیات میں سب کچھ بھول جانے والا تھا۔
کچھ ایسا ہی عنایہ نے بھی سوچا تھا۔ اسے بھی لگا تھا ایرک بدل جائے گا، اور وہ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی۔ میڈیکل کی تعلیم مشکل تھی پھر اب اس کی زندگی میں اور لوگ آرہے تھے۔ وہ ان کے خاندان کو اور اسے اگر بھول بھی جاتا تو اس کے لئے نارمل ہوتا… ہلکی کسک اور گلے کے باوجود… لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس نے پاکستان آناجانا چھوڑا تھا، ان سے رابطہ ختم نہیں کیا تھا اور اس تعلق اور رابطے کے باوجود ان دونوں کے درمیان اعتراف یا اظہار کا کوئی کمزور لمحہ نہیں آیا تھا۔ اسے بار بار یہ احساس ہوتا تھا کہ وہ اس کے لئے اسپیشل تھی لیکن یہ جملہ اس نے کبھی اس کی زبان سے نہیں سنا تھا اور یہ شاید بہت اچھا ہی تھا۔ تعلق ختم کرتے ہوئے گلے اور شکایتیں کچھ کم رہتیں… تکلیف بھی… یہ عنایہ سکندر کا خیال تھا۔
اس کے لئے اب رشتے دیکھے جارہے تھے۔ ہم پلہ لوگوں کو منتخب کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ اسے اندازہ تھا اس کی ریزیڈنسی کے دوران ہی اس کی منگنی یا شاید شادی ہوجائے گی اور وہ اس کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے ان فیملیز اور لڑکوں سے بھی مل رہی تھی جن سے اس کا رشتہ طے پانے کا امکان تھا اور اس سب کچھ کے درمیان ایرک عبداللہ وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔ نہ وہ زندگی سے جاتا تھا، نہ دل سے نہ دماغ سے۔
اس دن بھی ان دونوں کے درمیان ایک چیٹنگ ایپ پر معمول کے میسجز کا تبادلہ ہورہا تھا۔ وہ اسے اپنے ہاسپٹل کا کوئی مسئلہ بتارہا تھا اور اس نے جواباً بڑی روانی سے اپنے ہاسپٹل کا نام بتاتے ہوئے وہاں کسی مسئلے کا ذکر کیا اور سینڈ کا بٹن دباتے ہوئے بے اختیار اپنی غلطی پر پچھتائی۔ اس کا ٹیکسٹ اب فون کی اسکرین پر نمودار ہوچکا تھا اور اسے یقین تھا ایرک عبداللہ اتنا کند ذہن نہیں تھا کہ وہ اس جملے کو نظر انداز کرکے گزر جاتا۔ اس کے جملے کے بعد بہت دیر تک دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا، یوں جیسے وہاں سب کچھ ساکت ہوگیا تھا۔ پھر بالآخر وہ ٹیکسٹ آیا جس کے اسے توقع تھی۔
’’تم امریکہ میں ہو؟‘‘
اس کا دل چاہا وہ لکھ دے اسمارٹ فون نے اسپتال کا نام غلطی سے لکھ دیا تھا۔ یا کوئی اور جھوٹ یا بہانہ… وہ تو مان لیتا تھا… سوال جواب اور بحث کب کرتا تھا لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکتی تھی، بس دل چاہا تھا، اسے ’’ہاں‘‘ کہہ دے اور اس نے یہی کیا تھا۔
اس کے ’’یس‘‘ نے ایرک عبداللہ کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ یہ عنایہ کا خیال تھا۔ فون ہاتھ میں پکڑے اس کی اسکرین پر نظریں جمائے وہ اس ’’ہاں‘‘ کے بعد کسی ردعمل کا انتظار کرتی رہی… خوشی، حیرت، بے یقینی، غصہ… کسی بھی ردعمل کا… وہ آن لائن تھا اور وہاں سکوت تھا… ایسا سکتہ اور سکو کہ ایک لمحہ کے لئے عنایہ کو ڈر لگا۔ اس نے ہیلو لکھ کر اسے جیسے اس سکتے سے جھنجھوڑنے کی کوشش کی تھی۔
’’تم نے مجھے بتایا نہیں؟‘‘ دوسری طرف سے اس کی تحریر ابھری تھی۔ اس بار خاموشی عنایہ کی طرف چھائی تھی۔ وہ ایک سو ایک بہانے بناسکتی تھی لیکن ایک بھی بہانا بنانا نہیں چاہتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان شاید اب وہ لمحہ آگیا تھا جب اسے صاف گوئی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
’’تم مجھ سے ملنے کے لئے کہتے اور میں ملنا نہیں چاہتی تھی اس لئے۔‘‘ دوسری طرف بہت لمبی خاموشی چھائی تھی۔ اس بار، اتنی ہی لمبی جتنا عنایہ توقع کررہی تھی۔
’’آل رائٹ!‘‘ پھر اسکرین چمکی اور بجھ گئی…
وہ ایسے ہی کرتا تھا… بحث کرتا ہی نہیں تھا، غصہ دکھاتا ہی نہیں تھا۔ جھگڑا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ اسی طرح ہتھیاڑ ڈالنے والے انداز میں بات کیا کرتا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے عنایہ کو غصہ آیا کہ وہ خوامخواہ احساس ندامت لے کر بیٹھی تھی… اچھا ہے صاف صاف کہہ دیا اور نہ ملنے سے اسے فرق کیا پڑتا تھا، وہ ویسے بھی دو مختلف ریاستوں میں تھے… ملنے کے لئے بھی انہیں چھٹیوں کا انتظار کرنا پڑتا۔ وہ سوچ رہی تھی، ساتھ ہی اپنے آپ کو توجیہات بھی دے رہی تھی۔
’’میں پاکستان جارہا ہوں۔‘‘ کچھ دیر بعد ابھرنے والے اگلے ٹیکسٹ نے اسے چونکایا۔
’’کب؟‘‘ اس نے بے اختیار پوچھا۔
’’17 کو۔‘‘ جواب آیا۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے اب وہ پوچھا جو وہ پوچھنا چاہتی تھی۔
جواب نہیں آیا اور کئی دنوں تک نہیں آیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!