آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

ہشام نے پہلی بار اس لڑکی کی سوڈان میں دیکھا تھا… UNHCR (اقوام متحدہ کاہائی کمیشن برائے پناہ گزین) کے ایک کیمپ میں کسی پناہ گزین گونگی عورت کے ساتھ اشاروں میں بات کرتے اور اسے کچھ سمجھاتے ہوئے۔ وہ پاکستانی یا انڈین تھی… ہشام نے اس کے نقوش اور رنگت سے اندازہ لگایا تھا اور پھر اس کے گلے میں لٹکے کارڈ پر اس کا نام پڑھ کر اسے اس کا نام پتا چل گیا تھا۔
بے حد معمولی شکل و صورت کی ایک بے ھد دبلی پتلی گھنے بالوں والی، سانولی رنگت کی ایک دراز قامت لڑکی… اس کا پانچ فٹ سات انچ قد اس کی واحد خصوصیت لگی تھی اس کی پہلی ملاقات ہشام کو۔
وہ ایک عورت سے بات کرتے کرتے ہشام کی طرف متوجہ ہوئی، ایک ساتھی کارکن کے طور پر اسے مسکراہٹ دی اور ہاتھوں کے اشارے سے ہیلو اور حال چال پوچھا، اس لڑکی نے بھی ہاتھوں کے اشارے سے اس کو جواب دیا۔ دونوں نے بیک وقت اپنے گلے میں لٹکے کارڈز پکڑ کر اوپر کرتے ہوئے اور اس پر انگلی پھیرتے ہوئے جیسے خود کو متعارف کرایا۔ وہ CARE کی ورکر تھی، وہ ریڈ کراس کا اور وہ دونوں یو ایس اے سے آئے تھے۔ رسمی تعارف اور وہاں کے حالات کے بارے میں اشاروں میں ہی بات کرنے کے بعد وہ دونوں آگے بڑھ گئے تھے۔
ان کی دوسری ملاقات دوسرے دن ہوئی تھی۔ لکڑی کے عارضی باتھ رومز کی تنصیب و تعمیر والی جگہ پر… وہ آج بھی اس سے پہلے وہاں موجود تھی اور کچھ تصویریں لے رہی تھی۔ وہ کچھ سامان لے کر وہاں آیا تھا۔ ایک لوڈر گاڑی میں… دونوں نے ایک بار پھر اشاروں کی زبان میں رسمی علیک سلیک کی۔
تیسری ملاقات لمبی تھی، وہ ایڈورکرز کے ایک ڈنر میں ملے تھے… ڈنر ہال کے باہر کوریڈور میں… دونوں دس منٹ تک اشاروں کی زبان میں بات کرتے رہے… وہ پاکستان سے تھی، وہ بحرین سے… وہ نیویارک یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا، وہ سٹی یونیورسٹی نیویارک میں… وہ فنانس کا اسٹوڈنٹ تھا، وہ سوشل سائنسز کی… اور ان دونوں کے درمیان صرف ایک چیز مشترک تھی… رفاہی کام، جس سے وہ دونوں اپنی نو عمری سے وابستہ تھے… ان دونوں کا نصابی سی وی اتنا لمبا نہیں تھا جتنا ان کی غیر نصابی سرگرمیاں…
کوریڈور میں گزارے ان دس منٹوں میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں ہی پوچھا اور جانا تھا… اشاروں کی زبان میں سوالات بہت تفصیلی نہیں تھے، لیکن ہشام کا دل چاہا تھا کہ وہ اس سے اور بھی سوال کرتا… وہ قوت گویائی رکھتی تو وہ کر ہی لیتا… اس کے ساتھ کھڑے اس نے سوچا تھا… وہ اسے اس شام اتنی ہی دلچسپ لگی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں ہمیشہ کی طرح مل کر آگے بڑھ جاتے… اس کوریڈور سے بہت سارے گزرنے والے ایڈورکرز میں ایک جوان دونوں کو جانتا تھا، اس نے انہیں بلند آواز میں دور سے مخاطب کرتے ہوئے ہیلو کہا اور ساتھ حال احوال دریافت کیا۔ وہ دونوں بیک وقت اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے بیک وقت اس کی ہیلو کا جواب دیتے ہوئے جواباً اس کی خیرت دریافت کی اور پھر دونوں نے بیک وقت کرنٹ کھا کر ایک دوسرے کو دیکھا… گنگ ہوکر… اور پھر دونوں قہقہہ لگا کر ہنسے تھے… اور ہنستے ہی گئے تھے… سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ… اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے ان کے پاس اس سے اچھا طریقہ کوئی اور نہیں تھا اس وقت… ان دونوں کا پہلا تعارف ’’خاموشی‘‘ نے کروایا تھا اور وہ خاموشی ہمیشہ ان کے ہر جذبے کی آواز بنی رہی… وہ جیسے ان کا سب سے دلچسپ کھیل تھا… جب ایک دوسرے سے کچھ بھی خاص کہنا ہوتا تو اشاروں کی زبان میں بات کرنے لگتے… ہنستے، کھلکھلاتے، بوجھتے، بھٹکتے، سمجھتے… کیا کھیل تھا…!!
وہ اس وقت یونیورسٹی میں نووارد تھے… ہشام کو حیر ت تھی ان کی ملاقات اس سے پہلے کیوں نہیں ہوئی۔ وہ دونوں ایک جیسی رفاہی ایجنسیوں کے ساتھ کام کررہے تھے، لیکن اس سے پہلے وہ صرف امریکہ کے اندر ہی طوفانوں اور سیلابوں کے دوران ہونے والے ریلیف ورک سے منسلک رہے تھے، یہ پہلاموقع تھا کہ وہ دونوں امریکہ سے باہر ہونے والے کسی ریلیف کیمپ میں حصہ لینے کے لئے گئے تھے۔
نیویارک واپسی کے بعد بھی ان دونوں کا رابطہ آپس میں ختم نہیں ہوا تھا… دو مختلف یونیورسٹیز میں ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے وقتاً فوقتاً مختلف سوشل ایونٹس میں ملتے رہتے تھے کیونکہ دونوں مسلمان طلبہ کی تنظیم سے بھی وابستہ تھے… اور پھر یہ رابطہ وقتاً فوقتاً ان سوشل ایونٹ سے ہٹ کر بھی ہونے لگا… وہ دونوں ایک دوسرے کی فیملی سے بھی مل چکے تھے اور اب بہت باقاعدگی سے ملنے لگے تھے۔ دونوں کے والد ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔




ہشام امریکا میں بحرین کے سفیر کا بیٹا تھا، اور بحرین کے سفارت خانے میں ہونے والی اکثر محفلوں میں اسے بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کی ماں ایک فلسطینی نژاد ڈاکٹر تھی اور اس کا باپ امریکہ کے علاوہ بہت سے یورپین ممالک میں بحرین کی نمائندگی کرچکا تھا۔ دو بہن بھائیوں میں وہ بڑا تھا اور اس کی بہن ابھی ہائی اسکول میں تھی۔
رفاہی کاموں میں دلچسپی ہشام کو اپنی ماں سے وراثت میں ملی تھی جو ہشام کے باپ سے شادی سے پہلے ریڈ کراس اس کے ساتھ منسلک تھی اور فلسطین میں ہونے والے ریلیف کیمپس میں اکثر ان امدادی ٹیموں کے ساتھ جاتی تھی جو امریکہ سے جاتی تھیں، شادی کے بعد اس کا وہ کام صرف فنڈز اکٹھے کرنے اور عطیات تک محدود رہ گیا تھا، مگر ہشام نے اپنی ماں فاطمہ سے یہ شوق وراثت میں لیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شوق بڑھتا ہی گیا تھا۔
اس لڑکی سے ملنے کے بعد اسے اپنا شوق اور جنون بہت کم اور کمتر لگا تھا۔ وہ اپنی کم عمری میں جن رفاہی پروگراموں کے ساتھ منسلک رہی تھی، بہت کم ایسا ہوا تھا کہ ریلیف آپریشن کے بعد بہترین خدمات کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں میں اس کا نام نہ ہوتا۔
اس سے میل جول کے آغاز ہونے کے بعد ہشام کو احساس ہوا کہ ان کے درمیان انسانیت کی خدمت کا جذبہ ایک واحد مشترک چیز نہیں تھی اور بھی بہت سی دلچسپیاں مشترکہ تھیں اور صرف دلچسپیاں اور مشاغل ہی نہیں… خصوصیات بھی… دونوں کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے اور بہت زیادہ … دونوں کو تاریخ میں دلچسپی تھی… دونوں گھومنے پھرنے کے شوقین تھے اور دونوں بہت زیادہ باتونی نہیں تھے… سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی تھے۔
ہشام کی پوری زندگی مخلوط تعلیمی ماحول اور معاشرے میں گزری تھی… نہ اس کے لئے لڑکیاں نئی چیز تھیں، نہ ان سے دوستی… لیکن زندگی میں پہلی بار وہ کسی لڑکی سے متاثر ہوکر اس کی طرف متوجہ ہو ا تھا۔ اس کا کبھی کوئی آئیڈیل نہیں رہا تھا، لیکن اسے لڑکیوں کی جو خوبیاں متاثر کرتی تھیں، ان میں سے کوئی بھی چیز اس لڑکی میں نہیں تھی… نہ وہ حسین تھی… نہ اسٹائلش، نہ ایسی ذہین کہ اگلے کو چاروں شانے چت کردے، لیکن اس کے باوجود وہ اسے کسی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی تھی… نظر کا ایک جدید انداز کا چشمہ لگائے وہ سادہ سی جینز اور کرتیوں میں اکثر دیگر جدید تراش خراش کے لباس اور اسٹائلش جوتوں والی لڑکیوں کے سامنے ہشام کو زیادہ پرکشش محسوس ہوتی تھی… خود میں مگن، دوسرے سے بے نیاز… کالرڈ کرتیوں اور شرٹس میں سر کے بال جوڑے کی شکل میں باندھے اپنی لمبی پتلی گردن کو کسی راج ہنس کی طرح لہراتی وہ ہمیشہ اسے فون یا ٹیبلٹ ہاتھ میں پکڑے اپنے حال میں مگن ملتی تھی، ان بہت سی دوسری لڑکیوں کے برعکس جو اسے دیکھتے ہی اس کی طرف متوجہ ہوجاتی تھیں۔ ہشام عرب تھا، عورت کی اداؤں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اداؤں ہی سے گھائل ہونے والا لیکن اس لڑکی کے پاس کوئی ادا سرے سے تھی ہی نہیں، اس کے باوجود بھی وہ گھائل ہورہا تھا۔
’’میرے معاشرے میں اگر مرد کسی عورت کے ساتھ کہیں جائے تو کھانے کا بل وہ دیتا ہے، عورت نہیں۔‘‘
ہشام نے پہلی بار اسے باہر کھانے کی دعوت دی تھی اور بل کی ادائیگی کے وقت اسے پرس نکالتے دیکھ کر اس نے بڑی سنجیدگی سے روکتے ہوئے کہا تھا۔ وہ جواباً مسکراتے ہوئے پرس سے کچھ نوٹ نکلاتے ہوئے اس سے بولی۔
’’اور میرے باپ نے مجھ سے کہا تھا کہ اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ کسی بھی مرد کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اپنا بل خود دینا، یہ تمہیں ہر خوش فہمی اور اسے ہر غلط فہمی سے دور رکھے گا… اس لئے یہ میرے حصہ کا بل…‘‘
اس نے نوٹ میز پر رکھتے ہوئے ہشام سے کہا تھا۔ مسکرائی وہ اب بھی تھی۔ ہشام چند لمحوں کے لئے لاجواب ہوا تھا… وہ بڑا مہنگا ریسٹورنٹ تھا جہاں وہ اسے لے کر آیا تھا اور وہ جب بھی کسی لڑکی کو وہاں لاکر بل خود ادا کرتا تھا تو اسے اس لڑکی کی طرف سے بے حد ناز بھرا اور مصنوعی حیرت اور گرم جوشی سے بھرپور شکریہ وصول ہوتا تھا مگر آج کچھ خلاف توقع چیز ہوگئی تھی۔
’’ریسٹورنٹ مہنگا تھا، میں اس لئے کہہ رہا تھا۔‘‘ وہ جملہ ہشام کو اکیلے میں بھی دانت پسینے پر مجبور کرتا رہا تھا… اس نے زندگی بھر کبھی کسی عورت کو ایسی توجہ نہیں دی تھی۔
’’شکریہ، لیکن میں بہت امیر ہوں۔‘‘ اس لڑکی نے جواباً مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے، تم میرا بل بھی دے سکتی ہو۔‘‘ پتا نہیں اس نے یہ کیوں کہا۔
’’بل نہیں دے سکتی، لیکن بل دینے کے لئے ادھار دے سکتی ہوں۔‘‘ وہ جواباً اس سے بولی۔
’’تو مہربانی کرو اور دے دو…‘‘ ہشام نے اسی روانی سے کہا۔
وہ پہلی بار الجھی، اسے دیکھا، پھر اس نے اپنے پرس سے بل کی بقایا رقم نکال کر اس کی طرف بڑھائی، ہشام نے وہ رقم پکڑ کر بل رکھ کر اسے تہہ کرتے ہوئے ویٹر کی طرف بڑھادیا۔
اس لڑکی نے اتنی دیر میں اپنا بیگ کھول لیا۔ وہ اس میں سے کچھ تلاش کررہی تھی، چند لمحے گود میں رکھے بیگ میں ہاتھ مارتے رہنے کے بعد ا س نے ایک چھوٹی ڈائری نکالی اور پھر اس کے بعد قلم… میز پر ڈائری رکھ کر اس نے اس ڈائری میں اس رقم کا اندراج کیا جو اس نے کچھ دیر پہلے ہشام کو ادھار دی تھی۔ پھر اس نے قلم اور ڈائری دونوں ہشام کی طرف بڑھائے۔ اس نے کچھ حیران ہوکر دونوں چیزیں پکڑیں اور پھر ا س سے کہا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ لیکن سوال کے ساتھ ہی اسے پہلی نظر ڈائری پر ڈالتے ہی جواب مل گیا تھا… وہ اس کے دستخط اس رقم کے سامنے چاہتی تھی جہاں اس نے ادھار دی جانے والی رقم لکھی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا، وہ اب اپنے گلاسز اتار کر انہیں صاف کرتے ہوئے دوبارہ لگارہی تھی۔ معمول کی طرح خود میں محو اور اسے نظر انداز کئے یوں جیسے یہ سب روزمرہ کی بات تھی۔
ہشام نے قلم سنبھال کر دستخط کرنے سے پہلے ڈائری کے صفحے پلٹ کر بڑے تجسس سے لیکن محظوظ ہونے والے انداز میں دیکھا… وہاں چھوٹی بڑی رقموں کی ایک قطار تھی اور لینے والا صرف ایک ہی شخص تھا جس کا نام نہیں تھا، صرف دستخط تھے، مختلف تاریخوں کے ساتھ، لیکن کہیں بھی ادائی والے حصے میں کسی ایک رقم کی بھی ادائی نہیں کی گئی تھی۔
’’مجھے اندازہ نہیں تھا تم اتنی حساب کتاب رکھنے والی ہو… ہر چیز کا حساب رکھتی ہو؟‘‘ ڈائری پر دستخط کرتے ہوئے ہشام کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
’’اگر میں لکھوں گی نہیں تو بھول جاؤں گی اور معاملات میں تو شفافیت ضروری ہوتی ہے۔‘‘ اس لڑکی نے جواباً اطمینان کے ساتھ کہا، وہ اب اس سے ڈائری اور قلم لے کر واپس اپنے بیگ میں رکھ چکی تھی۔
’’ڈائری سے تو لگتا ہے تم واقعی بہت امیر ہو… اتنی دریادلی سے کس کو قرض دے رہی ہو؟‘‘ ٹیبل سے اٹھتے ہوئے ہشام نے اس کو کریدا، وہ بات گول کر گئی۔ ان کے درمیان اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اسے زیادہ کریدتا، مگر اس ڈائری میں کئے ہوئے اس آدمی کے دستخط اسے یاد رہ گئے تھے۔ وہ اس دستخط کے انداز سے اتنا تو اندازہ لگا ہی چکا تھا کہ وہ کسی مرد کے دستخط تھے۔
ایک ہفتے بعد اس نے اس لڑکی کو وہ قرض واپس کرتے ہوئے اس کی ڈائری میں ادائی کے حصے میں اپنا دستخط، ادا شدہ کی تحریر کے ساتھ کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ڈائری الٹ پلٹ کر دیکھی… وہ ڈائری اس سال کی تھی اور سال کے شروع سے اس مہینے تک کسی صفحے پر کوئی ادائی نہیں تھی، لیکن ادھار لینے کی رفتار میں تسلسل تھا… چھوٹی بڑی رقمیں، لیکن لاتعداد بار۔
’’اس سال تمہیں کوئی ادھار واپس کرنے والا میں پہلا شخص ہوں۔‘‘ ہشام نے جیسے بڑے فخریہ انداز میں کہا، اس نے مسکرا کر اس سے ڈائری اور نوٹ دوبارہ واپس لئے، نوٹوں کو ہشام کے سامنے گنا، اپنے پرس سے چند چھوٹے نوٹ نکال کر ہشام کو واپس کئے کیونکہ اس نے بڑے نوٹوں میں رقم واپس کی تھی اور اس کے کچھ پیسے بچ رہے تھے۔
’’چھوڑو، اسے رہنے دو۔‘‘ ہشام نے نوٹ واپس دینے کی کوشش کی۔ ’’اتنی بڑی رقم نہیں ہے یہ۔‘‘ اس نے جیسے لاپرواہی سے کہا۔
’’کافی کا ایک کپ اور ایک ڈونٹ آسکتا ہے، ایک ویفل آئس کریم آسکتی ہے یا ایک برگر۔‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے جواباً کہا، وہ ہنسا۔
’’تم واقعی ضرورت سے زیادہ حساب کتاب کرتی ہو۔‘‘
’’میری ماں کہتی ہے پیسہ مشکل سے کمایا جاتا ہے اور اس کی قدر کرتے ہوئے اسے خرچ کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے جیسے ایک بار پھر ہشام کو لاجواب کیا تھا، ذرا سی شرمندگی دکھائے بغیر۔
’’اس طرح تو تم واقعی بہت امیر ہوجاؤگی۔‘‘ ہشام نے اسے چھیڑا۔
’’انشاء اللہ!‘‘ اس نے جواباً اتنے اطمینان سے کہا کہ ہشام کو ہنسی آگئی تھی۔ ہنسنے کے بعد ہشام کو احساس ہوا کہ یہ مناسب نہیں تھا کیونکہ وہ اسی طرح سنجیدہ تھی۔
’’تمہیں برا تو نہیں لگا؟‘‘ اس نے کچھ سنبھلتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’کیا؟‘‘
’’میرا ہنسنا…‘‘
’’نہیں… مجھے کیوں برا لگے گا… تم کیا مجھ پر ہنسے تھے؟‘‘ ہشام نے سرکھجایا، لڑکی سیدھی تھی، سوال ٹیڑھا تھا۔
’’یہ جس کو اتنے ادھار دیتی رہی ہو، یہ کون ہے؟‘‘ اس نے بھی اس سے ایک ٹیڑھا سوال کیا تھا۔
’’ہے کوئی۔‘‘ وہ ایک بار پھر نام گول کرگئی۔
’’تم نام بتانا نہیں چاہتیں۔‘‘ وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
’’ہاں۔‘‘
وہ چند لمحوں کے لئے چپ رہا پھر اس نے کہا۔ ’’بہت زیادہ قرض نہیں ہوگیا اس کے سر؟‘‘ اس کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’میں اسے انکار نہیں کرسکتی…‘‘
ہشام عجیب طرح سے بے چین ہوا۔ ’’پیسے کے معاملے میں کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ شاید زندگی میں پہلی بار اس نے کسی کو ایسا مشورہ دیاتھا۔
’’پیسے ہی نہیں، میں ہر معاملے میں اعتماد کرتی ہوں اس پر۔‘‘ اس نے بڑے آرام سے کہا تھا۔
ہشام کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے کیا کہے؟ وہ ان کی دوستی کا آغاز تھا اور وہ ایک دوسرے کی ذاتیات میں دخل اندازی نہیں کرسکتے تھے، ان کے درمیان بے تکلفی نہیں تھی۔ اس شخص کا تعارف بھی ہشام سے بہت جلد ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!