آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

لکڑی کی ایک خالی پیٹی کو الٹا کر بیٹھے، ویسی ہی ایک دوسری پیٹی کو میز بنائے اور اس پر چائے کے مگ رکھے، اپنی چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھاتے ہوئے وہ شدید تھکن کے عالم میں بھی اسے دیکھتا رہا… وہ مختلف جگہوں پر نئے آنے والے پناہ گزینوں کے ساتھ اس دن صبح سے ہونے والا ان کا اٹھائیسواں کیمپ تھا… وہ گروپ کی شکل میں نکلے تھے اور اب دو دو کی ٹولیوں میں نئے لگے خیموں جا جا کر اندراج کرتے ہوئے صحت و صفائی کے حوالے سے سامان تقسیم کرتے پھر رہے تھے اور اب شام ہونے والی تھی… ہشام نے اپنا کام ختم کرلیا تھا… گرم پانی کے فلاسک اور پشت پر لدے بیگ سے مگ اور چائے کا سامان نکال کر وہ اپنی ساتھی کے واپس آنے سے پہلے ہی چائے بناکر اس کا انتظار کررہا تھا اور وہ ابھی بھی وہیں تھی… اسی طرح اپنے کام میں محو… اس نے اپنا مگ دوبارہ چائے سے بھرا۔
وہ اس کے ساتھ دنیا کے بہت سارے ملکوں میں جاچکا تھا اور لوگ کوئی بھی ہوں، زبان کوئی بھی ہو، اس نے اپنی ساتھی کو کبھی کسی وقت کا شکار نہیں دیکھا تھا… وہ اشاروں کی زبان کی ماہر تھی لیکن ہشام جانتا تھا وہ اشاروں کے بغیر بھی کسی گونگے سے اس کے دل کا حال اگلوالیتی… ایک عجیب گرم جوشی تھی اس میں جو کسی کا بھی دل موم کرکے رکھ دیتی اور اب یہی کررہی تھی۔
ان گندے، کمزور، بیمار، قحط زدہ تباہ حال لوگوں کے بیچ بیٹھی وہ پروفیشنل مہارت سے اپنا کام کرتے ہوئے اشاروں کی زبان اور ٹوٹی ہوئی مقامی زبان میں ان سے گپ شپ کرنے کی کوشش کررہی تھی… بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ، عورتوں کے ساتھ مسکراہٹوں اور معانقوں کا تبادلہ… وہ اپنا کام ختم کرنے کے قریب تھی… اس کے پاس موجود سامان ختم ہوچکا تھا اور اس سامان سے خالی ہونے والا بیگ اس نے ایک پانچ سالہ بچے کو اوڑھانے والے انداز میں دیا تھا، جوبار بار اس بیگ کو لینے کے لئے ہاتھ پھیلا رہا تھا اور پھر ہشام نے ایک چھوٹی بچی کو اس کے بالوں میں لگی ہوئی ایک خوبصورت ہیئرپن کو چھوتے دیکھا۔ وہ زمین پر پڑے ایک لکڑی کے کریٹ پر بیٹھی تھی اور وہ بچی اس کے عقب میں جاکر اس کے تقریب جوڑ؁ والے انداز میں لپیٹے ہوئے بالوں کو چھیڑ رہی تھی اور پھر اس نے اس ہئرپن کو اتارنے کی کوشش کی، ہشام نے اسے پلٹ کر اس بچی کو اٹھا کر اپنی گود میں لیتے دیکھا اور پھر اپنے بالوں میں لگی ہوئی ہیئرپن اتار کر اس نے بچی کے گھونگڑیالے بالوں میں لگادی اور اسے گود سے اتارتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بالآخر ہشام کی طرف متوجہ ہوئی جو تب تک چائے کا دوسرا مگ بھی ختم کرنے کے قریب تھا۔ انہیں وہاں سے ابھی کافی دورچل کر جانا تھا، جہاں سے انہیں UNHCR کی گاڑی مل جاتی جو انہیں اس جگہ لے جاتی جہاں پر ان تمام ورکرز کی رہائش تھی۔
ہشام نے اسے بالآخر اپنی طرف آتے دیکھا، وہ دور سے مسکرائی۔ ہشام نے بھی اس کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔
’’تم ہر کام بہت جلدی کرلیتے ہو۔‘‘ اس کے قریب آکر لکڑی کے ایک اوندھے ہوئے کریٹ پر بیٹھے ہوئے اس نے جیسے ہشام کو سراہا۔ وہ واقعی اپنے ذمہ لگائے ہوئے تمام کام بہت تیزی سے کرنے کا عادی تھا۔
’’عقل مندہوں اس لئے۔‘‘ اس نے جواباً مسکراتے ہوئے چائے کا وہ مگ اس کی طرف بڑھایا جس میں پڑی چائے کے ٹھنڈا ہونے پر اس نے اسے پھینک کر اس کے لئے ابھی دوبارہ چائے بنائی تھی۔
’’مجھ سے بھی زیادہ۔‘‘ اس کی ساتھی نے چائے کا مگ ہشام سے لیتے ہوئے بے حد جتانے والے انداز میں کہا۔
’’تم سے تو واقعی زیادہ۔‘‘ اس نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔




شام اب آہستہ آہستہ گہری ہورہی تھی، پناہ گزینوں کا وہ ہجوم اب آہستہ آہستہ وہاں سے دور اپنے خیموں کی طرف جارہا تھا۔ وہ جانتے تھے آج انہیں جو کچھ ملنا تھا، مل چکا تھا۔
ایک کچی پگڈنڈی نما سڑک کے کنارے، سبزے میں لکڑی کے کریٹ الٹائے چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے وہ دونوں اپنی ٹانگیں سیدھی کئے جیسے اپنی تھکن اتار رہے تھے۔
’’تمہارے لئے کچھ ہے۔‘‘ ہشام نے چائے کا آخری گھونٹ لے کر مگ رکھتے ہوئے جیب سے کچھ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ایک بے حد خوب صورت سبزز مردی ڈبیہ میں دھری آنکھوں کو ذخیرہ کردینے والی ایک ہیرے کی انگوٹھی۔
اس نے سراٹھا کر ہشام کو دیکھا، وہ کچھ دیر کے لئے جیسے چائے پینا بھول گئی جو وہ مگ میں ہاتھوں میں لئے بیٹھی تھی۔
’’یہاں کہاں سے ملی؟‘‘ ہشام بری طرح بدکا۔ ’’میں نے خریدی ہے۔‘‘ اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’کہاں سے؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’نیروبی سے۔‘‘ ہشام نے جواباً کہا۔
’’پھر مجھے کیوں دے رہے ہو؟‘‘ اس نے چائے پینا دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا۔ سوال کرنے کے باوجود وہ نروس ہوئی تھی، اسے یک دم احساس ہوا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
’’تمہیں پروپوز کررہا ہوں۔‘‘ ہشام نے ایک بار پھر اس انگوٹھی کو اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
رئیسہ نے ایک نظر اسے دیکھا، ایک نظر اس انگوٹھی کو اور پھر گردن گھما کر اس پورے علاقے کو… وہ خاردار جھاڑیوں اور پناہ گزینوں کے بیچوں بیچ اسے ایک ڈائمنڈ رنگ پیش کرتے ہوئے پروپوز کررہا تھا… وہ کسی بھی لڑکی کے لئے ایک رومانٹک لمحہ تھا، اور اس کے لئے بھی ہوتا اگر اسے یک دم ہنسی آنا شروع نہ ہوگئی ہوتی… چائے کا مگ لکڑی کے ایک کریٹ پر رکھتے ہوئے بے اختیار قہقہہ لگاتے ہوئے بے حال ہونے لگی تھی۔
ہشام بری طرح نادم ہوا اور ا س نے ڈبیہ بند کردی۔
’’یہ اس طرح ہنسنے کا کیا مطلب ہوا؟‘‘ اس نے رئیسہ سے پوچھا، وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پاچکی تھی۔
’’ہم یہاں ریلیف کے کام کے لئے آئے ہیں۔‘‘ اس نے ہشام کو یاد دہانی کرانے والے انداز میں کہا۔
’’تم کچھ اور کیسے سوچ سکتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں سوچ سکتا؟‘‘ ہشام نے بحث کرنے والے انداز میں کہا۔ ’’ہمیشہ سوچتا رہا ہوں اور بس میرا دل چاہا، میں تمہیں پروپوز کردوں تو کردیا۔‘‘
رئیسہ نے چائے کا مگ دوبارہ منہ سے لگالیا، وہ اب سنجیدہ تھی۔ ہشام ڈبیہ ہاتھ میں پکڑے چپ چاپ اسے چائے پیتے دیکھتا رہا، پھر ا س نے کہا۔
’’تم کچھ نہیں کہوگی؟‘‘
’’میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ ٹو بی ویری آنسٹ۔‘‘ اس نے بالآخر چائے کا مگ رکھ دیا۔ وہ اب اپنے پیک بیگ کو کھول رک ایک ریڈیو نکال رہی تھی، یہ جیسے گفتگو کا موضو ع بدلنے کی کوشش تھی۔
’’کیوں…؟ تم پسند نہیں کرتیں مجھے؟‘‘ ہشام بھی یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
’’کرتی ہوں… تمہیں کوئی بھی ناپسند نہیں کرسکتا، لیکن شادی کا فیصلہ بہت بڑا فیصلہ ہوتا ہے… میں خود نہیں کرسکتی… تمہیں میری فیملی کی رضا مندی مجھے پروپوز کرنے سے پہلے لینی ہوگی۔‘‘ ریڈیو فریکوئنسی سیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے ہشام کی طرف دیکھے بغیر اس سے بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’ٹھیک ہے…‘‘ ہشام نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔ ’’میں ان سے بات کرلوں گا، یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔‘‘ رئیسہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ اس کی قومیت، اس کی فیملی کے لئے قابل اعتراض ہوسکتی تھی، وہ ایرک اور عنایہ کے معاملے میں امامہ کی رائے سے بہت اچھی طرح واقف تھی… وہ اپنے تمام بچوں کی شادیاں پاکستانیوں سے کرنا چاہتی تھی۔
’’تم یہ رنگ اپنے پاس رکھ لو، میں تمہاری فیملی سے بات کرلوں۔ تب تم اسے پہن سکتی ہو۔‘‘ ہشام نے وہ ڈبیہ ایک بار پھر اس کی طرف بڑھائی۔ رئیسہ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھایا، وہ اپنے گھٹنے پر رکھے ریڈیو کے ساتھ مصروف تھی یا کم از کم یہی ظاہر کررہی تھی۔
’’اس کا فائدہ نہیں… اگر میں نے رنگ لے لی اور میری فیملی نے انکار کردیا تو؟‘‘ اس نے ہلکی آواز میں خبریں سنتے ہوئے کہا۔ ہشام نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
’’تمہاری فیملی انکار کیسے کرسکتی ہے؟‘‘ وہ پہلی بار کچھ بے چین ہوا تھا۔
’’ہمیں ہر امکان سامنے رکھنا چاہیے۔‘‘ رئیسہ نے مدھم آواز میں جیسے اسے سمجھایا۔
’’وہ انکار کردیں گے تو؟‘‘ ہشام نے پوچھا۔
’’تو بس۔‘‘ رئیسہ نے کہا۔
’’یعنی بس، ختم؟‘‘ ہشام کو جیسے یقین نہیں آیا۔
’’تم یہ کیسے ہونے دوگی… میرے لئے تمہاری کوئی فیلنگز نہیں ہیں؟‘‘ ہشام کو جیسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی۔
’’فیلنگز ہیں تمہارے لئے لیکن وہ میری اپنی فیملی کے لئے فیلنگز سے بہت کم ہیں… کم از کم ابھی، کیا تم اپنی فیملی کی مرضی کے خلاف کچھ کرسکتے ہو؟‘‘ رئیسہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں، میں کرسکتا ہوں۔ کم از کم تم سے شادی تو…‘‘ اس نے جواباً کہا تھا۔ رئیسہ کو جیسے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ ریڈیو کو چھیڑتے ہوئے اس نے مدھم آواز میں کہا۔
’’ویسے یہ جو رنگ میں ڈائمنڈ ہے، یہ نقلی ہے۔‘‘ ہشام بری طرح چونکا۔ وہ بات کو کہاں سے کہاںلے گئی تھی۔
اس نے بے اختیار ہاتھ میں پکڑی ڈبیہ کھولی اور اس میں سے انگوٹھی نکال کر اسے آنکھوں کے پاس لے جاتے ہوئے بولا۔ ’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’کیونکہ میں نے اسے اچھی طرح دیکھا ہے۔ میری ممی کے پاس بہت سارے ڈائمنڈز ہیں، میں ڈائمنڈ پہچان سکتی ہوں۔‘‘ رئیسہ نے اسی انداز میں کہا۔
وہ ویک اینڈ پر نیروبی گئے تھے اور جیولری کی مارکیٹ میں پھرتے ہوئے ایک دکان پر رئیسہ کو یہ انگوٹھی اچھی لگی تھی… جو ہشام نے اسے بتائے بغیر خرید لی تھی، وہ اسے اسی انگوٹھی کے ساتھ پروپوز کرنا چاہتا تھا۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا… تم نے مجھے تب کیوں نہیں بتایا؟ میں نے تو ڈائمنڈ کی رِنگ کے طور پر بہت مہنگا خریدا ہے اسے۔‘‘ ہشام حیران ہونے سے زیادہ شرمندہ ہوا۔
’’مجھے یہ تھوڑی پتا تھا کہ تم اسے خریدنا چاہتے ہو… مجھے تو بس اچھی لگی تھی اور جیولر کہہ رہا تھا ڈائمنڈ ہے تو میں اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی یہ بتا کر کہ یہ ڈائمنڈ نہیں ہے۔‘‘ رئیسہ نے اس سے کہا۔
ہشام نے کچھ مایوسی کے عالم میں اس رنگ کو ڈبیہ میں رکھ کر ڈبیہ بند کردی۔ رئیسہ نے اس کے تاثرات دیکھے اور ہاتھ بڑھا کر تسلی دینے والے انداز میں اس سے وہ ڈبیہ لی۔
’’تمہارا بڑا نقصان ہوگیا۔‘‘ ا س نے جیسے ہشام کو تسلی دی۔
’’نہیں، اتنا نقصان نہیں ہو اجتنی شرمندگی ہوئی ہے کہ میں ایک نقلی ڈائمنڈ کے ساتھ تمہیں پروپوز کررہا تھا۔‘‘
رئیسہ نے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔ ’’پریشان مت ہو، میں اسے رکھ لیتی ہوں… اگر میری فیملی مان گئی تو میں یہی رنگ پہن لوں گی۔‘‘ وہ بے اختیار ہنس پڑا۔
وہ انگوٹھی جو وہ محبت میں لینے پر تیار نہیں تھی، ہمدردی میں لے رہی تھی… وہ واقعی فلاحی کارکن تھی۔
’’ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’خوش ہوں اس لئے۔‘‘ ہشام نے جواباً کہا۔
’’مجھے پتھروں میں ڈائمنڈ کی پہچان ہو نہ ہو، انسانوں میں ہے…اور میں نے ایک نقلی ڈائمنڈ ایک اصلی ڈائمنڈ کو دیا تھا، کم از کم مجھے اس بارے میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘ ہشام نے اتنے سال کے ساتھ میں اسے پہلی بار شرم سے سرخ ہوتے دیکھا۔
وہاں اب خاموشی تھی… ہوا کی سرسراہٹ… اترتی شام اور اس میں ریڈیو پر چلنے والا نیوز بلیٹن جس میں بحرین میں ایک طیارے کے کریشن ہونے کی خبردی جارہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!