آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

اسفند کی موت کی اطلاع عائشہ عابدین کو دینا جبریل سکند رکی ذمہ داری نہیں تھی۔ اس کے باوجود وہ اس بچے کی ماں سے ملنے آیا تھا اور عائشہ عابدین کو دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے وہ گنگ ہوگیا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال عائشہ عابدین کا تھا، وہ دونوں کئی سالوں بعد ایک دوسرے سے ملے تھے اور ملتے ہی ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے، اور اب یہ شناخت جیسے ان کے حقل کا کانٹا بن گئی تھی۔
عائشہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ امریکہ کے بہترین اسپتال میں بہترین ڈاکٹر کے ہاتھوں بھی اس کے بچے کی جان جاسکتی تھی۔ وہ خود ڈاکٹر تھی، اسفند کی چوٹ کی نوعیت اور سنگینی کو جانتی تھی، لیکن وہ خود جس اسپتال میں کام کررہی تھی، وہاں اس نے اس سے بھی زیادہ سنگین اور پیچیدہ نوعیت کے آپریشنز کے بعد بھی مریضوں کو صحت یاب ہوتے دیکھا تھا لیکن اس کا اپنا بیٹا ان خوش قسمت لوگوں میں شامل کیوں نہیں ہوسکا تھا۔ اس سوال کا جو جواب عائشہ عابدین نے ڈھونڈا تھا، وہ ایک لمبے عرصے تک اسے بھوت بن کر چمٹا رہا تھا۔
اس نے غم کو پہلی بار مجسم حالت میں دیکھا تھا، اس شخص کی شکل میں جو اسے اس کی متاع حیات چھن جانے کی خبر سنانے آیا تھا، اور یہ وہ شخص تھا جس کے سراب نے عائشہ عابدین کو اس عذاب میں ڈالا تھا جس میں وہ تھی۔
ایک ڈاکٹر کی طرح جبریل اسے بتاتا گیا تھا کہ آپریشن کیوں ناکام ہوا، اسفند کی حالت کیوں بگڑی… کیوں نہیں سنبھل سکی… اور ان تمام تفصیلات کو دہراتے ہوئے جبریل سکندر کے لاشعور میں ڈاکٹر ویزل کے ہاتھ کی وہ حرکت بار بار آتی رہی، بار بار سرجھٹکنے کے باوجود… وہ ایک بت کی طرح گم صم اس کی بات سنتی رہی جیسے وہ اس کے بیٹے کے بارے میں نہیں، کسی اور کے بارے میں بات کررہا تھا۔
’’آپ کے ساتھ کوئی اور ہے؟‘‘ اپنی بات کے جواب میں ایک مکمل خاموشی رکھنے کے باوجود جبریل اس سے ایک بار پھر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اسے وہ اس وقت نارمل نہیں لگ رہی تھی اور اسے احساس ہوا تھا کہ اسے اس کی فیملی میں کسی اور سے بات کرنی چاہیے تھی یا اگر اب کرسکتا تھا تو اب کرلے۔
عائشہ عابدین نے اس کی بات کے جواب میں نفی میں سرہلادیا۔ جبریل اس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا، وہ اس سے اگلا سوال کیسے کرے… سوال ہونے کے باوجود… خاندان نہیں تھا تو کہاں تھا… وہ کیا سنگل پیرنٹ کے طور پر اسفند کی پرورش کررہی تھی؟ شوہر اگر نہیں بھی تھا تو کوئی خاندان کا اور فرد تو ہوتا… اس کی ماں اور بہنیں… وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکا… عائشہ نے یک دم اس سے کہا تھا۔
’آپ جائیں… میں مینج کرلوں گی سب کچھ۔‘‘ اس کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آئی تھی۔ اسے پتا تھا وہ ’’سب کچھ‘‘ کیا تھا اور جبریل کو بھی اندازہ تھا، وہ کس طرح اشارہ کررہی تھی۔




ایک روتی بلکتی ہوئی ماں کو تسلی دینا آسان کام تھا، لیکن بظاہر ہوش و حواس میں نظر آتی ایک خاموش گم صم ماں کو تسلی دینا اس کی سمجھ میں آرہا تھا۔ وہ صرف چند منٹوں کے لئے اس بچے کی فیملی سے ملنے آیا تھا اور اب یہ ملاقات ختم کرنا اس کے لئے پہاڑ بن گیا تھا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار کسی مریض کو مرتے نہیں دیکھا تھا، لیکن کسی بچے کو پہلی بار مرتے دیکھا تھا۔ عائشہ عابدین سے مل کر اس کا رنج کچھ اور بڑھا تھا۔ وہ اس آپریشن کو لیڈ نہیں کررہا تھا، نہ ہی وہ اسفند کی موت کا ذمہ دار تھا، اس کے باوجود یہ احساس اس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا کہ اس آپریشن میں ڈاکٹر ویزل سے کچھ غلطی ہوئی تھی، آپریشن کے فوراً بعد ڈاکٹر ویزل اور اس کی بات چیت نہیں ہوسکی تھی۔ وہ عجیب اضطراب اور پریشانی کے عالم میں وہاں سے گئے تھے۔ سب کا اندازہ تھا وہ اس آخری آپریشن کی ناکامی سے اپ سیٹ ہوئے تھے، صرف جبریل تھا، جس کا خیال تھا وہ خود بھی اپنی غلطی کا اندازہ لگا چکے تھے لیکن اب اس صورت حال کے درمیان وہ پھنسا کھڑا تھا۔ ضمیر کی چبھن اور انسانی ہمدردی… لیکن اس سے بھی بڑھ کر شناسائی کا وہ پرانا تعلق جو اس کے اور عائشہ عابدین کے درمیان نکل آیا تھا۔
’’کوئی دوست ہے یہاں آپ کا؟‘‘ جبریل اب اس کے قریب بیٹھ گیا تھا۔ اسے ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اسے پہچانی ہے یا نہیں اور اسے اس صورت حال میں اپنا تعارف کروانا چاہیے یا نہیں۔
’’نہیں۔‘‘ عائشہ نے سرجھکائے اسے دیکھے بغیر کہا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنی گود میں رکھے ان پر نظریں جمائے، سر جھکائے بیٹھی تھی۔ جبریل اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ ’’میرا خیال ہے، ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔‘‘ اپنا ہاتھ اس کی کرسی کے ہتھے پر رکھتے ہوئے جبریل نے اس سے کہا تھا۔ وہ اسے رلانا نہیں چاہتا تھا، لیکن اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے اندازہ ہوا تھا کہ اسے اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ضرورت تھی۔ سکتے کی وہ کیفیت غیر فطری تھی۔
’’میں جبریل سکندر ہوں… نساء کا کلاس فیلو اور دوست… اور مجھے بہت افسوس ہے کہ ہم اسفند کو نہیں بچاسکے۔‘‘ وہ مدھم آواز میں اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ عائشہ نے گردن موڑ کر بھی اس کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس وقت کسی کو پہچاننا نہیں چاہتی تھی، خاص طور پر ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو۔
’’مجھے بتائیں میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟‘‘ جبریل نے اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس کی تھی، یوں جیسے اس نے برف کو ہاتھ میں لیا تھا، وہاں کا ٹمپریچر بھی عائشہ عابدین کے وجود کی ٹھنڈک کو غائب کرنے میں ناکام ہورہا تھا۔
’’پلیز مجھے تنہا چھوڑ دیں۔ میری وجہ سے اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ آپ ڈاکٹر ہیں، کسی کو آپ کی ضرورت ہوگی۔‘‘ اس نے رک رک کر اس سے کہا تھا۔ وہ اب اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں کے بیچ دبا کر بیٹھ گئی تھی۔ یوں جیسے یہ چاہتی نہ ہو کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑے، اسے تسلی دے۔ کرسی کے کونے پر بیٹھی اپنے وجود کو جوتوں کے پنجوں پر ٹکائے وہ آگے پیچھے جھول رہی تھی، یوں جیسے کسی گہری سوچ میں، کسی ذہنی انتشار میں ہچکولے کھا رہی ہو۔
وہ پہلی بار تھا کہ جبریل نے عائشہ عابدین کو غور سے دیکھا تھا۔ بے حد حیرانی کے عالم میں… سیاہ جینز اور سیاہ ہی جیکٹ میں ملبوس گردن کے گرد ایک گرے رنگ کا مفلر لپیٹے اس کی ہم عمر وہ لڑکی اب اس کی ہم عمر نہیں لگ رہی تھی۔ اس کے کندھوں سے نیچے تک لہراتے سیاہ چمک دار بالوں میں جگہ جگہ سفید بال تھے۔ اس کی رنگت زرد تھی اور آنکھیں سرخ… یوں جیسے وہ عادی رونے والوں میں سے تھی یا پھر ساری ساری رات جاگنے والوں میں سے… اس کے سر پر وہ حجاب بھی نہیں تھا جو سالوں پہلے اس کی پہچان تھا۔
ڈاکٹر نورین الٰہی کے خاندان میں وہ حجاب لینے والی پہلی اور واحد لڑکی تھی اور بے حد اچھی خاندانی اقدار رکھنے کے باوجود جبریل جانتا تھا کہ نسا اور اس کے خاندان کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا۔ صرف عائشہ عابدین تھی جومذہبی رجحان اور بے حد واضح طور پر ایسی ہی پہچان بھی رکھتی تھی اور اس کی وجہ شاید اس کا پاکستان میں قیام پذیر ہونا تھا، یہ جبریل کا اندازہ تھا۔ عائشہ سے اس کی کبھی اتنی تفصیلی ملاقاتیں نہیں ہوئیں کہ اسے اس کی شخصیت کا صحیح اندازہ ہوپاتا۔
وہ جس عمر میں اس سے ملا تھا۔ وہ ٹین ایج تھی اور اس عمر میں اسے بات بات پر مسکرانے اور بلش کرنے والی وہ لڑکی عنایہ اور رئیسہ جیسی ہی لگی تھی۔ اس نے اس سے زیادہ غور اس پر نہیں کیا تھا، اس کے باوجود کہ وہ اس کے فیس بک پر موجود اور کبھی کبھار اس کی تصویروں کو لائیک کرتی نظر آتی تھی، پھر وہ غائب ہوگئی تھی۔ اسے نسا سے پتا چلا تھا کہ میڈیسن کی تعلیم کے دوران اس ہی اس کی شادی ہوگئی تھی اور اس وقت جبریل نے مبارک باد کا میسج اس کی وال پر لگانا چاہا تو اسے پتا چلا کہ وہ اب اس کے کانٹیکٹس میں نہیں تھی۔ عائشہ عابدین سے اس کا وہ پہلا تعارف بس یہیں تک ہی رہا تھا۔ نسا اور وہ بہت جلد دومختلف اسٹیٹس کے ہاسپٹلز میں چلے گئے تھے۔ ان کے درمیان ایک دوست اور کلاس فیلو کے طور پر موجود رشتہ بھی کچھ کمزور پڑنے لگا تھا۔ نسا اب کہیں انگیجڈ تھی اور جبریل اپنے پروفیشن میں بے حد مصروف… اور اس بے حد تیز رفتار سے گزرنے والی زندگی میں عائشہ عابدین کسی اسپیڈ بریکر کی طرح آئی تھی۔ جبریل نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنا سیل فون نکال کر اس میں سے نسا کا نمبر ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ چند لمحوں میں اسے نمبر مل گیا تھا۔
’’کیا میں نسا کو فون کرکے بلاؤں؟‘‘ اس نے عائشہ سے کہا۔
’’نہیں…‘‘ جبریل اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔ وہ عجیب تھی یا ہوگئی تھی، جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا، یا پھر یہ صدمہ تھا جس نے اسے یوں بے حال کردیا تھا۔
جبریل کو لوگوں پر ترس آتا تھا ہمیشہ ہی… ہمدردی اس کی گھٹی میں تھی، لیکن اس کے باوجود وہ ایک مصروف ڈاکٹر تھا۔ ایک ایک منٹ دیکھ کر چلنے والا… اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے سوچا تھا… وہ اسپتال کے متعلقہ شعبے سے کسی کو یہاں بھیجتا ہے، تاکہ وہ عائشہ عابدین کی مدد کرے اور اس کے خاندان کے دوسرے افراد سے رابطہ کرسکے۔ وہ اٹھنے لگا تھا جب اس نے عائشہ عابدین کی آواز سنی تھی۔
’’آپ کو پتا ہے، میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا ہے؟‘‘ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا، وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی، لیکن خود کلامی کے انداز میں بول رہی تھی۔
’’کیونکہ میں اللہ کی نافرمان عورت ہوں، اللہ نے مجھے سزا دی ہے۔ احسن سعد ٹھیک کہتا ہے۔‘‘
جبریل اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔ عائشہ عابدین نے جیسے وہ بوجھ اتار کر اس کے سامنے پھینکنے کی کوشش کی تھی جو اس کے لئے آزاد بن گیا تھا۔ احسن سعد کون تھا، جبریل نہیں جانتا تھا اور وہ اس کے بارے میں جو کہتا تھا، جبریل اس کی وجہ سے بھی ناواقف تھا مگر اس کے وہ دو جملے اس دن اس کے پیروں کی زنجیر بن گئے تھے۔
٭…٭…٭
ہشام نے اسے دیکھتے ہوئے چائے کا مگ خالی کیا… وہ اس سے کچھ فاصلے پر اشاروں کی زبان میں اپنے سامنے بیٹھی عورتوں اور بچوں سے مخاطب ہوکر انہیں صحت و صفائی کے حوالے سے سمجھاتے ہوئے اپنے بیک سے اس سے متعلقہ چیزیں نکال نکال کر دے رہی تھی… صابن… ٹوتھ پیسٹ… ٹوتھ برش، ٹوتھ پک، نیل کٹر، روئی کے بنڈل، شیمپو، فرسٹ ایڈکٹ اور اس میں موجود سامان… وہ سب عام استعمال کی چیزیں تھیں جنہیں کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں بھی بیٹھ کر کسی کو ان کا استعمال سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی… لیکن وہ داداب تھا، کینیا کے بارڈر کے قریب UNHCR کے افریقہ میں بڑے کیمپوں میں سے ایک… جہاں افریقہ میں قحط اور خانہ جنگی سے متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔
اور ان دونوں کو وہاں آئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا… داداب میں یہ ان کا پہلا وزٹ تھا، لیکن وہ پچھلے چار سالوں میں UNHCR کے بہت سارے کیمپس میں جاچکے تھے۔ افریقہ، ایشیا، لاطینی، امریکہ… یہ ان کی تفریح بھی تھی جنون بھی اور کام بھی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

Read Next

ورثہ — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!