آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

گرینڈ حیات ہوٹل کا بال روم اس وقت Scripps National Spelling Bee کے 92 ویں مقابلے کے دو فائنلسٹس سمیت دیگر شرکاء ان کے والدین، بہن بھائیوں اور اس مقابلے کو دیکھنے کے لئے موجود لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہونے کے باوجواد اس وقت پن ڈراپ سائلنس کا منظر پیش کررہا تھا۔
دونوں فائنلسٹ کے درمیان راؤنڈ 14 کھیلا جارہا تھا۔ 13 سالہ نینسی اپنا لفظ اسپیل کرنے کے لئے اس وقت اپنی جگہ پر آچکی تھی۔ پچھلے 92 سالوں سے اس بال روم میں دنیا کے بیسٹ اسپیلر کی تاجپوشی ہورہی تھی۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں اسپیلنگ بی کے مقامی مقابلے جیت کر آنے والے پندرہ سال سے کم عمر کے بچے اس آخری راؤنڈ کو جیتنے کے لئے سردھڑکی بازی کے شرکاء آج بھی اسٹیج پر تھے۔
“Sassafras” نینسی نے رکی ہوئی سانس کے ساتھ پروناؤنسر کا لفظ سنا۔ اس نے پروناؤنسر کو لفظ دہرانے کے لئے کہا پھر اس نے خود اس لفظ کو دہرایا۔ وہ چیمپئن شپ ورڈز میں سے ایک تھا لیکن فوری طور پر اسے وہ یاد نہیں آسکا، بہر حال اس کی ساؤنڈ سے وہ اسے بہت مشکل نہیں لگا تھا اور اگر سننے میں اتنا مشکل نہیں تھا تو اس کا مطلب تھا وہ ٹرکی لفظ ہوسکتا تھا۔
نوسالہ دوسرا فائنلسٹ اپنی کرسی پر بیٹھا، گلے میں لٹکے اپنے نمبر کارڈ کے پیچھے، انگلی سے اس لفظ کو اسپیل کرنے میں لگا ہوا تھا۔ وہ اس کا لفظ نہیں تھا لیکن وہاں بیٹھا ہر وہ بچہ بھی غیر ارادی طور پر اس وقت یہی کرنے میں مصروف تھا جو مقابلے سے آؤٹ ہوچکا تھا۔
نینسی کاریگولر ٹائم ختم ہوچکا تھا۔ اس نے لفظ کو اسپیل کرنا شروع کیا۔ s.a.s.sوہ پہلے چار لیٹرز بتانے کے بعد ایک لمحے کے لئے رکی۔ زیر لب اس نے باقی کے پانچ لیٹرز دہرائے، پھر دوبارہ بولنا شروع کیا۔
“A.F.R” وہ ایک بار پھر رکی، دوسرے فائنلسٹ نے بیٹھے بیٹھے زیر لب آخری دو لیٹرز کو دہرایا ـ”U.S” مائیک کے سامنے کھڑی نینسی نے بھی بالکل اسی وقت یہی دو لیٹرز بولے اور پھر بے یقینی سے اس گھنٹی کوبجتے سنا جو اسپیلنگ کے غلط ہونے پر بجتی تھی۔ حیرت صرف اس کے چہرے پر نہیں تھی، اس دوسرے فائنلسٹ کے چہرے پر بھی تھی۔ پروناؤنسر اب Sassafras کی درست اسپیلنگ دہرایا تھا۔ نینسی نے بے اختیار اپنی آنکھیں بند کیں۔
’’آخری لیٹر سے پہلے A ہی ہونا چاہیے تھا… میں نے U کیا سوچ کر لگا دیا۔‘‘ اس نے خود کو کوسا۔
تقریباً فق رنگت کے ساتھ نینسی گراہم نے مقابلے کے شرکاء کے لئے رکھی ہوئی کرسیوں کی طرف چلنا شروع کردیا۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ اس کے قریب پہنچنے پر اس نے نینسی سے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ نینسی نے ایک مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اسے جواباً وش کیا اور اپنی سیٹ سنبھال لی۔ ہال میں موجود لوگ دوبارہ اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے اور دوسرا فائنلسٹ مائیک کے سامنے اپنی جگہ پر آچکا تھا۔ نینسی نے کسی موہوم سی امید کے ساتھ اسے دیکھنا شروع کیا۔ اگر وہ بھی اپنے لفظ کو مس اسپیل کرتا تو وہ ایک بار پھر فائنل راؤنڈ میں واپس آجاتی۔
“That was a catch 22.” اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ وہ اندازہ نہیں لگاسکی، وہ اس کے لئے کہہ رہا تھا یا وہ اس لفظ کو واقعی اپنے لئے بھی catch 22 ہی سمجھ رہا تھا… وہ چاہتی تھی ایسا ہوتا… کوئی بھی ہوتا، یہی چاہتا۔
سینٹر اسٹیج پر اب وہ نو سالہ فائنلسٹ تھا۔ اپنی شرارتی مسکراہٹ اور گہری سیاہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ… اس نے اسٹیج پر کھڑے چیف پروناؤنسر کو دیکھتے ہوئے سرہلایا۔ جوناتھن جواباً مسکرایا تھا اور ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ رکھنے والا وہ وہاں واحد نہیں تھا۔ وہ نو سالہ فائنلسٹ اس چیمپئن شپ کو دیکھنے والے کراؤڈ کا سوئیٹ ہارٹ تھا۔
اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ چمکتی ہوئی تقریباً گول آنکھیں جو کسی کارٹون کریکٹر کی طرح بے حد animatedتھیں اور اس کے تقریباً گلابی ہونٹ جن پر وہ وقتاً فوقتاً زبان پھیر رہا تھا اور جن پر آنے والا ذرا سا خم بہت سے لوگوں کو بلاوجہ مسکرانے پر مجبور کررہا تھا… وہ معصوم فتنہ تھا، یہ صرف اس کے والدین جانتے تھے جو دوسرے بچوں کے والدین کے ساتھ اسٹیج کی بائیں طرف پہلی صف میں اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔




وہاں بیٹھے دوسرے فائنلسٹ کے والدین کے برعکس وہ بے حد پرسکون تھے۔ ان کے چہرے پر اب کوئی ٹینشن نہیں تھی، جب ان کا بیٹھا چیمپئن شپ ورڈ کے لئے آکر کھڑا ہوا تھا۔ ٹینشن اگر کسی کے چہرے پر تھی تو وہ ان کی سات سالہ بیٹی کے چہرے پر تھی جو دو دن پر مشتمل اس پورے مقابلے کے دوران دباؤ میں رہی تھی اور وہ اب بھی آنکھوں پر گلاسز ٹکائے پورے انہماک کے ساتھ اپنے نو سالہ بھائی کو دیکھ رہی تھی جو پروناؤنسر کے لفظ کے لئے تیار تھا۔
ـ”Cappelletti” جوناتھن نے لفظ ادا کیا۔ اس فائنلسٹ کے چہرے پر بے اختیار ایسی مسکراہٹ آئی جیسے وہ بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کررہا ہو۔ اس کی آنکھیں پہلے کلاک وائز پھر اینٹی کلاک وائز گھومنا شروع ہوگئی تھیں۔ ہال میں کچھ کھلکھلاہٹیں ابھری تھیں۔
اس نے اس چیمپئن شپ میں اپنا ہر لفظ سننے کے بعد اسی طرح ری ایکٹ کیا تھا۔ بھنچی ہوئی مسکراہٹ اور گھومتی ہوئی آنکھیں… کمال کی خود اعتمادی تھی۔ کئی دیکھنے والوں نے اسے داد دی۔ اس کے حصے میں آنے والے الفاظ دوسروں کی نسبت زیادہ مشکل تھے۔ یہ اس کی ہارڈ لک تھی لیکن بے حد روانی سے بغیر اٹکے بغیر گھبرائے اسی پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ وہ ہر پہاڑ سر کرتا رہا تھا اور اب وہ آخری چوٹی کے سامنے کھڑا تھا۔
“Definition Please.” اس نے اپنا ریگولر ٹائم استعمال کرنا شروع کیا۔
“Language of origin.”
اس نے پروناؤنسر کے جواب کے بعد اگلا سوال کیا۔ ’’اٹالین‘‘ اس نے پروناؤنسر کے جواب کو دہراتے ہوئے کچھ سوچنے والے انداز میں ہونٹوں کو دائیں بائیں حرکت دی۔ اس کی بہن بے حد پریشانی اور دباؤ میں اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے والدین اب بھی پرسکون تھے۔ اس کے تاثرات بتارہے تھے کہ لفظ اس کے لئے آسان تھا۔ وہ ایسے تاثرات کے ساتھ پچھلے تمام الفاظ کو اسپیل کرتا رہا تھا۔
“Use in a sentence please.”
وہ اب پروناؤنسر سے کہہ رہا تھا۔ پروناؤنسر کا بتایا ہوا جملہ سننے کے بعد اس نے گلے میں لٹکے ہوئے نمبر کارڈ کی پشت پر انگلی سے اس لفظ کو اسپیل کیا۔
“Your Finish Time starts.”
اسے ان آخری 30 سیکنڈز کے شروع ہونے پر اطلاع دی گئی جس میں اس نے اپنے لفظ کو اسپیل کرنا تھا۔ اس کی آنکھیں بالآخر گھومنا بند ہوگئیں۔
ـ”Cappelleti” اس نے ایک بار پھر اپنے لفظ کو دہرایا اور پھر اسے اسپیل کرنا شروع ہوگیا۔
“C.a.p.p.e.l.l” وہ اسپیلنگ کرتے ہوئے ایک لحظہ رکا، پھر ایک سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ اسپیل کرنا شروع کیا۔
“e.t.t.i.” ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور بہت دیر تک گونجتا رہا۔
اسپیلنگ بی کا نیا چیمپئن، صرف ایک لفظ کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔
تالیوں کی گونج تھمنے کے بعد جوناتھن نے اسے آگاہ کیا تھا کہ اسے اب ایک اضافہ لفظ کو اسپیل کرنا تھا۔ اس نے سرہلایا۔ اس لفظ کو اسپیل نہ کرسکنے کی صورت میں نینسی ایک بار پھر مقابلے میں واپس آجاتی۔
“weissnichtwo.” اس کے لئے لفظ پروناؤنس کیا گیا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی، پھر اس کا منہ کھلا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’اوہ! مائی گاڈ؟‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ شاکڈ تھا اور پوری چیمپئن شپ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس کی آنکھیں اور وہ خود اس طرح جامد ہوا تھا۔
نینسی بے اختیار اپنی کرسی پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی تھی۔ تو بالآخر کوئی ایسا لفظ آگیا تھا جو اسے دوبارہ چیمپئن شپ میں واپس لاسکتا تھا۔
اس کے والدین کو پہلی بار اس کے تاثرات نے کچھ پریشان کیا تھا۔ کیا crunch تھا ان کا بیٹا۔ اب اپنے نمبر کارڈ سے اپنا چہرہ حاضرین سے چھپا رہا تھا۔ حاضرین کی انگلیوں اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑی آسانی سے اسکرین پر دیکھ سکتے تھے اور ان میں سے بہت سوں نے اس بچے کے لئے واقعی بہت ہم دردی محسوس کی تھی۔ وہاں بہت کم ایسے تھے جو اسے جیتتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
ہال میں بیٹھا ہوا صرف ایک فرد ریلیکسڈ تھا… ریلیکسڈ؟… یا ایکسائیٹڈ؟… کہنا مشکل تھا اور وہ اس بچے کی سات سالہ بہن تھی جو اب اپنے ماں باپ کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی اور جس نے بھائی کے تاثرات پر پہلی بار بڑے اطمینان کے ساتھ کرسی کی پشت کے ساتھ مسکراتے ہوئے ٹیک لگائی تھی۔ گود میں رکھے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بہت آہستہ آہستہ اس نے تالی کے انداز میں بجانا شروع کردیا تھا۔ اس کے ماں باپ نے بیک وقت اس کے تالی بجاتے ہاتھوں اور اس کے مسکراتے چہرے کو الجھے ہوئے انداز میں دیکھا پھر اسٹیج پر اپنے لرزتے کانپتے کنفیوزڈ بیٹے کو جو نمبر کارڈ کے پیچھے اپنا چہرہ چھپائے انگلی سے نمبر کارڈ کے پیچھے کچھ لکھنے اور بڑبڑانے میں مصروف تھا۔
ہال اب آہستہ آہستہ تالیاں بجا رہا تھا۔ وہ اب اپنا کارڈ نیچے کرچکا تھا یوں جیسے ذہنی تیاری کرچکا ہو… 92 ویں اسپیلنگ بی کے فائنل مقابلے میں پہلی بار پہنچنے والا وہ فائنلسٹ اپنی قسمت آزمانے کے لئے تیار تھا۔
’’w-e-i-s-s-n-i-c-h-t-w-o‘‘ حمین سکندر نے ایک ہی سانس میں رکے بغیر Championship word کے ہجے کئے… کسی روبوٹ کی طرح بنارکے… خلا میںدیکھتے ہوئے… یوں جیسے وہ ان حروف کو خلا میں کہیں لکھا دیکھتے ہوئے، پڑھ رہا تھا۔ وہ اس مقابلے کا پہلا لفظ تھا جسے اس نے بنارکے اس طرح ادا کیا تھا ورنہ وہ ہر لفظ کو سوچ سوچ کر ہجے کرتا تھا یوں جیسے ناپ تول رہا ہو۔
’’An unknown place‘‘ اس نے لفظ کے ہجے کرتے ہی اسی رفتار سے اس کا مطلب بتایا… پھر اس کی نظریں pronouncer پر ٹکیں… pronouncer کے منہ سے نکلی ’’درست‘‘ کی آواز ہال میں گونج اٹھنے والی تالیوں کی آواز میں گم ہوگئی تھی… ہال میں اب حاضرین، والدین اور بچے اپنی اپنی سیٹوں سے تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہورہے تھے… وہ 92nd اسپیلنگ بی کے نئے فاتح کو خراج تحسین پیش کررہے تھے جو اسٹیج پر فلیش لائٹس اور ٹی وی کیمروں کی چکا چوند کردینے والی روشنیوں میں ساکت کھڑا تھا۔ دم سادھے… گنگ … اس کی گول آنکھیں گھومنا تک بھول گئی تھیں… یوں جیسے وہ ابھی تک اس شاک سے نکل نہ پایا ہو کہ وہ جیت چکا ہے۔ یہ حمین سکندر تھا اور یہ حمین سکندر ہی ہوسکتا تھا۔
تالیوں کی بہرہ کردینے والی گونج اور کیمروں کی خیرہ کردینے والی روشنیوں میں اس نو سالہ بچے نے خود کو سنبھالا… اپنے اعصاب اور حواس پر ایک ہی وقت میں قابو پانے کی کوشش کی اور پھر جو پہلا جملہ اس کے سامنے لگے مائیک نے حاضرین تک پہنچایا تھا اس نے ان تالیوں کی گونج میں ایک بلند شگاف قہقہے کی آواز کو بھی شامل کیا تھا۔
’’اوہ ! مائی گاڈ۔‘‘ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں بول سکا… حاضرین کی ہنسی نے جیسے اسے کچھ اور نروس کیا… پھر نادم … پھر پرجوش اور پھر اس نے سرجھکا کر حاضرین کی تالیوں کاجواب دیا… پھر ایک قدم آگے بڑھا کر ججز کی اس قطار کا ، جو حاضرین سے کچھ آگے بیٹھے ہوئے تھے، لیکن اب کھڑے تالیاں بجا رہے تھے، پھر اس نے پلٹ کر اس طرف دیکھا تھا جہاں اس کے ماں باپ اور رئیسہ بیٹھے تھے۔ وہ بھی اب سب کے ساتھ کھڑے اس کے لئے تالیاں بجارہے تھے۔
حمین سکندر تقریباً بھاگتا ہوا ان کی طرف گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ سپاٹ لائٹ بھی گئی جو اس سے پہلے اسٹیج پر اس کو فوکس کئے ہوئے تھی۔ وہ تالیاں بجاتی اور آنسو بہاتی امامہ سے آکر لپٹا تھا… پھر اس سے الگ ہوتے ہوئے اس نے اسی تیزی سے امامہ کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو دونوں ہاتھوں سے رگڑے پھر ان ہاتھوں کو اپنی شرٹ پر رگڑتے ہوئے وہ سالار سے لپٹ گیا۔ ــ”Did I make you proud?” اس نے ہمیشہ کی طرح باپ سے پوچھا۔
“Very proud!” اس نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔
اس کی آنکھیں چمکیں… مسکراہٹ گہری ہوئی… پھر وہ رئیسہ کی طرف گیا۔ دونوں ہتھیلیاں پھیلاتے ہوئے اس نے بازو ہوا میں بلند کرتے ہوئے رئیسہ کے پھیلائے ہوئے ہاتھوں پر ہائی فائی کیا… اپنے گلے میں لٹکا نمبر کارڈ اتار کر اس نے رئیسہ کے گلے میں ڈالا… پھر جھک کر اسے تھوڑا سا اٹھایا… وہ کھلکھلائی… حمین نے اسے نیچے اتارا اور اسی طرح بھاگتا ہوا واپس اسٹیج کے درمیان چلا گیا جہاں میزبان اب اس سے پھر بات چیت کرنے کے لئے منتظر کھڑے تھے۔
’’آخری لفظ کتنا مشکل تھا؟‘‘ ابتدائی کلمات کے بعد میزبان نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ وہ چند سیکنڈز پہلے سب فائنلسٹ سے ہاتھ ملاتے، ان کی مبارک بادیں وصول کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچا تھا۔ ہال میں موجود سب لوگ، اب دوبارہ نشستیں سنبھال چکے تھے اور تقسیم انعامات کی تقریب دیکھنے کے منتظر تھے۔
’’آخری لفظ تو بے حد آسان تھا۔‘‘ حمین نے بڑے اطمینان سے کندھے اچکا کر کہا۔ ہال میں قہقہہ گونجا۔
’’تو پھر مشکل کیا تھا؟‘‘ میزبان نے چھیڑ چھاڑ والے انداز میں کہا۔
’’اس سے پہلے پوچھے جانے والے سارے الفاظ۔‘‘ حمین نے بے حد سنجیدگی سے ترکی بہ ترکی کہا۔ ہال میں پہلے سے زیادہ اونچا قہقہہ بلند ہوا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ میں ہر لفظ بھول گیا تھا۔ بس تکے لگا تارہا، ہر لفظ کے ہجے کرنے کے لئے… بس آخری لفظ تھا جومیں آنکھیں، کان، ناک سب بند کرکے بھی ہجے کرسکتا تھا۔‘‘




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!