آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

’’جانتا ہوں لیکن اب کیا ہوگا؟‘‘ اس نے رئیسہ سے جیسے مشورہ لیا۔
اس کے پاس جب اپنے آپشنز ختم ہوجاتے تھے تو وہ رئیسہ کی رائے لیتا تھا… وہ رائے اس کی سمجھ میں آتی نہ آتی، وہ اس پر عمل کرتا نہ کرتا لیکن وہ بہت چھوٹی عمر سے ہر چیز کے بارے میں رئیسہ کی رائے پوچھنے کا عادی تھا۔ یہ رئیسہ کو بات کرنے پر اکسانے کے لئے ان سب بہن بھائیوں کی عادت تھی۔
’’تمہیں بابا اور ممی سے سوری کرلینا چاہیے۔‘‘ رئیسہ نے اسے رائے دی۔ ’’جب کوئی غلط کام ہوجائے تو سب سے پہلے یہی کرنا چاہیے۔‘‘ رئیسہ نے پہلے مشورہ دیا پھر اپنے ماں باپ کی نصیحت دہرائی۔
’’ایکسکیوز تو میں پہلے ہی ہوچکا ہوں لیکن کیا ان کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا ہوگا گھر پہنچنے تک؟‘‘ وہ کچھ محتاط انداز میں پوچھ رہا تھا۔
’’میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے۔‘‘ رئیسہ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا تھا۔
’’اچھا۔‘‘ حمین کو اس کے اندازے کے درست ہونے پر پورا یقین تھا کیوں کہ اس کی اپنی چھٹی حس بھی یہی کہہ رہی تھی لیکن اگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا تو وہ مسئلے کا حل تھا۔
امامہ اور سالار اس دن وہ وارننگ لیٹر لے کر گھر آگئے تھے اب انہیں اس وارننگ لیٹر کاجواب دینا تھا۔
اسکول کی انتظامیہ حمین کی سابقہ اور موجودہ کارکردگی کی وجہ سے اسے اس پہلے بڑے ’’جرم‘‘ کے لئے درگزر کرنے پر تیار تھی لیکن وہ دونوں بے حد پریشان تھے۔ ان کی اولاد میں سے اگر کبھی کسی کی طرف سے انہیں چھوٹی موٹی شکایات آتی رہی تھیں تو وہ حمین ہی تھا۔ اس کے باوجود حمین نے کبھی کوئی ایسی شرارت نہیں کی تھی نہ ایسا کوئی کام کہ جس پر انہیں اس طرح اسکول بلاکر وارننگ لیٹر تھمایا جاتا اور پھر جو کام اس نے کیا تھا اس نے ان کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔ وہ اگر ان کے سامنے وہاں خود اعتراف نہ کرچکا ہوتا تو وہ کبھی یقین نہ کرتے کہ حمین ’’بزنس‘‘ ٹائپ کی کوئی چیز اسکول میں کرسکتا تھا اور پھر اس طرح کا بزنس… اس کو کیا ضرورت پیش آئی تھی اور اس کرنے کی ’’تک‘‘ کیا تھی۔ وہ واقعی سمجھ نہیں پارہے تھے۔
’’جبریل اور عنایہ کو اس حوالے سے کچھ نہیں بتانا۔‘‘ سالار نے امامہ کو گھر ڈراپ کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
’’اور رئیسہ کو؟ اس سے بھی بات کرنی ہوگی۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
اس دن اسکول سے واپسی پر حمین جتنا سنجیدہ تھا، اس سے زیادہ سنجیدہ امامہ تھی۔ ہر روز کی طرح پر جوش سلام کا جواب سلام سے ملا تھا نہ ہی ہمیشہ کی طرح وہ اس سے جاکر لپٹا تھا اور نہ ہی امامہ نے ایسی کوئی کوشش کی تھی اور یہ سرد مہری کا مظاہرہ صرف حمین کے ساتھ نہیں ہوا تھا، رئیسہ کے ساتھ بھی ہوا تھا مگر امامہ نے انہیں کھانا کھلاتے ہوئے بھی کسی ردعمل کااظہار نہیں کیا تھا۔ وہ دونوں اب متفکر تھے۔ سالار گھر پر نہیں تھا اور حمین کو اندازہ تھا کہ اس کے گھر واپسی کے بعد وہ خاموشی جو گھر میں تھی ، قائم نہیں رہے گی۔
٭…٭…٭




رات کے کھانے سے فارغ ہوکر سالار نے باقی بچوں کے اپنے کمرے میں جانے کے بعد حمین اور رئیسہ کو وہاں روک لیا تھا۔ وہ دونوں سالار کے سامنے صوفے پر بیٹھے نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو حمین سے ایسی خاموشی اور سنجیدگی کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی جس کا مظاہرہ وہ اب کررہا تھا۔
’’تمہیں یہ سب پتا تھا نا رئیسہ؟‘‘ سالار نے رئیسہ کو مخاطب کیا۔
اس نے سراٹھایا۔ حمین کو دیکھا اور پھر کچھ شرمندہ انداز میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ ’’یس بابا!‘‘
’’اور تم حمین کے بارے میں مجھے یہی بتانا چاہتی تھیں؟‘‘ اس سوال پر اس بار حمین نے چونک کر رئیسہ کو دیکھا جس نے اس کی نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر سرہلایا تھا۔
’’تم نے مجھے بہت مایوس کیاہے۔‘‘ سالار نے جواباً رئیسہ سے کہا۔
’’بابا آئی ایم سوری۔‘‘ رئیسہ نے کچھ روہانسی ہوکر کہا۔
’’یہ قابل معافی نہیں۔‘‘ انہوں نے جواباً کہا۔
’’بابا! اس میں رئیسہ کا کوئی قصور نہیں۔‘‘ حمین نے اس کی حمایت کرنے کی کوشش کی۔ سالار نے اسے ترشی سے جھڑک دیا۔
’’شٹ اپ!‘‘ حمین اور رئیسہ دونوں گم صم ہوگئے تھے۔ انہوں نے سالارکے منہ سے اس طرح کے لفظ اور اس انداز میں ان کا اظہار پہلی بار دیکھا تھا۔
’’تم اب یہاں سے جاؤ۔‘‘ سالار نے تحکمانہ انداز میں رئیسہ سے کہا جس کی آنکھیں اب آنسوؤں سے بھر رہی تھیں اور سالار کو اندازہ تھا وہ چند لمحوں میں رونا شروع کردے گی اور وہ فی الحال وہاں بیٹھ کر اسے بہلانا نہیں چاہتا تھا۔ رئیسہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی۔ سٹنگ ایریا میں اب صرف وہی دونوں باپ بیٹا رہ گئے تھے۔
’’تمہیں اسکول میں بزنس کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا؟‘‘ سالار نے اس سے بات چیت شروع کی۔
’’نہیں۔‘‘ حمین نے بڑے محتاط انداز میں اس سے نظریں ملائے بغیر جواب دیا تھا۔
’’پھر کس کام کے لئے بھیجا گیا تھا؟‘‘ سالار نے اس سے اگلا سوال کیا۔
’’پڑھنے کے لئے۔‘‘ حمین کا سر اب بھی جھکا ہو اتھا۔
’’اور تم یہ پڑھ رہے تھے؟‘‘ سالار نے بے حد خفگی سے اس سے کہا۔
’’بابا! میں نے جو بھی کیا ہے، آپ کوبتا کر کیا ہے۔‘‘ حمین نے یک دم کہا۔
’’کیا بتایا ہے تم نے بزنس کے بارے میں؟‘‘ اس نے مختصراً کہا۔
اور اس وقت سالار کو کئی مہینے پہلے اپنی اور حمین سکندر کی وہ گفتگو یاد آئی تھی جب اس نے ایک رات بڑی سنجیدگی سے اس کے پاس آکر اس سے ’’بزنس‘‘ کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ وہ اس وقت اپنے کام میں مصروف تھا اور اس نے حمین کے ان سوالوں کو صرف اس تجسس کا حصہ سمجھا تھا جو اسے ہر چیز کے بارے میں ہوتا تھا۔
’’بابا! اگر ہمیں کوئی چیز حاصل کرنی ہو تو کیسے کریں؟‘‘
وہ سوال اتنا سادہ تھا کہ سالار حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ وہ اتنے سیدھے سوال نہیں کرتا تھا۔
’’مثلاً کیا حاصل کرنا ہوا؟‘‘ اس نے جواباً پوچھا تھا۔
’’کچھ بھی… کوئی بھی ایسی چیز جو کسی دوسرے کے پاس ہو اور ہمیں اچھی لگے تو کیسے لیں؟‘‘
’’لینا ضروری ہے کیا؟‘‘ سالار نے اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت ضروری۔‘‘ اس نے بے حد مختصر جواب دیا۔
’’محنت کرو اور وہ چیز خرید لو۔‘‘ یہ جواب دیتے ہوئے سالار کو اندازہ نہیں تھا، وہ اسے راستہ دکھا رہا تھا۔
’’ہم‘‘ وہ سوچ میں پڑگیا تھا۔ ’’یعنی بزنس کرنا پڑے گا؟‘‘ اس نے سالار سے پوچھا تھا۔
’’ظاہر ہے۔‘‘ سالار نے جواب دیا۔
’’اور بزنس کیسے کرتے ہیں؟‘‘ حمین نے جواباً پوچھا۔
’’بزنس پلان بناکر۔‘‘ وہ اپنے کام میں مصروف اس کے سوالوں کا جواب دیتا گیا، ان کی نوعیت یا مقصد کے بارے میں غور کئے بغیر۔
’’وہ کیسے بناتے ہیں؟‘‘
’’سب سے پہلے یہ طے کرتے ہیں کہ کیا بزنس کرنا ہے؟‘‘
’’اس کے بعد؟‘‘
’’اس کے بعد اس کے لئے انویسٹمنٹ (سرمایہ) چاہیے۔‘‘
’’اگر وہ نہ ہو تو۔‘‘ حمین نے پوچھا۔
’’تو پھر کوئی ایسی strategyہونی چاہیے جس سے کسی پارٹنر کو آن بورڈ لاکر انویسٹمنٹ کی کمی پوری کی جاسکے۔‘‘
’’اوکے۔ تو بزنس strategyہونی چاہیے اور اس کے بعد پارٹنرز… پھر؟‘‘ وہ بے حد متجسس ہورہا تھا۔
’’پھر effective implementation جو پلان کیا ہو اس پر اچھی طرح سے عمل درآمد کیا جائے… اور وقت پر۔‘‘ وہ ایک بزنس پلان کو جتنی سادگی سے اسے سمجھا سکتا تھا، اسے سمجھا رہا تھا۔
’’اور سب سے آخر میں کلائنٹ کو مطمئن کرنا… تاکہ آپ کو اور کلائنٹس ملتے رہیں۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ حمین نے یہ اصول بھی سمجھ لیا تھا۔ اس کے باپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس سے جو کچھ پوچھ رہا ہے اس کا استعمال وہ کس طرح اور کہاں کرے گا۔
سالار بہت دیر تک اپنے اس نوسالہ ہم شکل کو دیکھتا رہا جس کے چہرے کی معصومیت سے اب بھی یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کبھی کوئی غلط کام کرسکتا تھا۔
’’میں ناخوش ہوں۔‘‘ سالار نے اس سے کہا۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ جواب تڑ سے آیا تھا لیکن سالار کو احساس تھا اس معذرت میں شرمندگی نہیں تھی۔ اعتماد اور قابلیت ہر وقت پسند نہیں آتی۔ سالار کے ساتھ بھی اس وقت وہاں بیٹھے یہی ہورہا تھا۔
’’تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘‘
حمین نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ پھر اس نے باپ کو اسنیکرز کے جوڑے کی وجہ سے اسٹارٹ کئے جانے والے اس بزنس و نیچر کی تفصیلات بتانا شروع کردیں…
سالار ٹوکے بغیر اس کی گفتگو سنتا رہا… حمین نے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا… اسکول میں ماں باپ کی اپنی وجہ سے ہونے والی شرمندگی دیکھنے کے بعداس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ انہیں سب کچھ بتادے گا، اب کوئی جھوٹ نہیں بولے گا۔
جب وہ خاموش ہوا تو سالار نے اس سے پوچھا۔’’وہ کانٹریکٹس کہاں ہیں جو تم نے ان سب سے سائن کروائے ہیں؟‘‘
حمین وہاں سے اٹھ کر کمرے میں گیا اور کچھ دیر بعد ایک فائل لے کر واپس آیا۔ ا س نے وہ فائل سالار کی طرف بڑھا دی تھی۔سالار نے فائل کھول کر اس کے اندر موجود معاہدے کی شقوں پر نظر ڈالی ، پھر حمین سے پوچھا۔
’’یہ کس نے لکھی ہیں؟‘‘
’’میں نے خود۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ سالار اس معاہدے کوپڑھنے لگا۔ ایک نو سالہ بچے نے اس معاہدے میں اپنے ذہن میں آنے والی ہر اس شق کو شامل کیا تھا جو اسے ضروری لگی تھی یا جو اس نے کہیں دیکھی ہوگی۔
سالار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ معاہدے کی صرف زبان بچگانہ تھی، لیکن شقیں نہیں… حمین نے اس معاہدے کے ذریعے اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ کرلیا تھا۔ یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ بچوں کے ساتھ ڈیلنگ کررہا تھا اور اسے بچوں کی نفسیات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ بدلتے موڈ کے تابع ہوتے ہیں، معاہدوں کے نہیں۔
سالار نے فائل بند کی پھر ا س سے پوچھا۔ ’’اور جو رقم تم نے ان سب لوگوں سے لی ہے، وہ کہاں ہے؟‘‘
’’میرے پاس ۔‘‘ حمین نے جواب دیا۔
’’کچھ خرچ کی۔‘‘ سالار نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
پھر سالار نے سرہلایا، پھر فائل اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’اب تم ایک اور لیٹر لکھو گے جس میں تم اپنے ان سب کلائنٹس سے معذرت کروگے اور انہیں ان کی رقم اور وہ چیزیں لوٹاؤگے جو تمہارے پاس ہیں… اس کے بعد تم وہ ساری چیزیں ان سب لوگوں تک واپس پہنچاؤگے جو تم نے ایکسچینج کی ہیں۔‘‘ حمین چند لمحوں تک ساکت رہا، پھر اس نے سرہلایا۔
’’اوکے… اور میں یہ کیسے کروں؟‘‘ اس نے سالار سے کہا۔
’’تم ایک بزنس مین ہو… تمہیں اگر وہ بزنس کرنا آتا تھا تو یہ بھی آنا چاہیے۔‘‘ سالار اٹھ کر کھڑا ہوا گیا۔ ’’اور پھر جب تم یہ کام ختم کرولوگے تو ہم دوبارہ بات کریں گے… تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے۔‘‘
حمین نے جاتے ہوئے باپ کی پشت دیکھی، جو وہ اسے کرنے کا کہہ کر گیا تھا، وہ اس کے لئے بے حد شرمندہ کرنے والا کام تھا… ہر بچے کے پاس جاکر معذرت کرکے اس کے پیسے واپس کرنا مشکل نہیں تھا… اسے پتا تھا ہر بچہ بے حد خوشی خوشی اپنے پیسے واپس لے لیں گا… لیکن مسئلہ اصل چیز اصل مالک کو پہنچانا تھا… اسے گھر بیٹھے ہی یہ انداز تھا کہ کوئی بچہ بھی خوشی خوشی اسے وہ چیز واپس نہیں کرے گا۔ جو وہ اس بار ٹر ڈیل کے ذریعے حاصل کرچکا تھا اور پھر ضروری نہیں کہ ہر بچے نے وہ چیز صحیح حالت میں رکھی ہو… خود اس کے پاس موجود دوسرے بچے کے اسنیکرز بھی اب کھیل کھیل کر پرانے ہوگئے تھے، اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اندازہ ہورہا تھا، باپ اسے کس پریشانی میں ڈال گیا تھا۔
’’تم نے بابا سے میرے بارے میں کیوں بات کی تھی؟‘‘ حمین نے اگلی صبح اسکول میں رئیسہ سے پوچھا۔
’’میں نے کچھ بتایا تو نہیں لیکن میں تمہارے لئے پریشان تھی۔‘‘ رئیسہ نے جواباً اس سے کہا۔
’’اگر تم بتادیتیں تو میں تم سے کبھی بات نہیں کرتا۔‘‘ حمین نے اس سے کہا۔
’’بابا نے تمہیں معاف کردیا؟‘‘ رئیسہ کو جس بات کی پریشانی تھی اس نے اس سے وہ سوال کیا۔
’’بابا نے مجھ سے کہا ہے، میں سب کی چیزیں اور پیسے واپس کردوں، پھر وہ مجھ سے دوبارہ بات کریں گے۔‘‘ حمین سنجیدہ اور کچھ پریشان لگا رئیسہ کو۔
’’کیا میں تمہاری ہیلپ کرسکتی ہوں؟‘‘ اس نے حمین کو آفر کی۔
’’نہیں میں manage کرلوں گا۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!