آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

ایرک بھی بے حد باتونی نہیں تھا لیکن لاابالی تھا۔ شرارتی… خوش مزاج… دوستانہ عادات رکھنے والا ایک امریکن بچہ… وہ عنایہ کی طرف اس کی غیر معمول ذہانت کی وجہ سے متوجہ ہوا تھا۔ اس نے دنوں میں اس کلاس میں آکر دھاک بٹھائی تھی… وہ ان کی کلاس کی پہلی سیاہ بالوں اور سیاہ آنکھوں والی دودھیا رنگت کی لڑکی تھی اور اپنی لمبی خم دار پلکوں کی وہ سے پہچانی جاسکتی تھی۔ ایرک کو وہ ’’کیوٹ‘‘ لگتی تھی۔ اس لئے بھی کیوں کہ وہ کلاس کی دوسری لڑکیوں کی طرح ہر وقت پٹر پٹر بولتی نظر نہیں آتی تھی نہ ہی ہر ایک سے بحث کرتی نظر آتی تھی۔
اس کو اپنا دوست بنانے کی کوشش ایرک کی طرف سے ہوئی تھی اور ایک سال تک جاری رہی تھی۔ وہ عنایہ کے گھر بھی آتا جاتا تھا لیکن یہ سب کچھ رسمی تھا۔ اس کی فیملی کے لوگ دوسرے ہمسایوں کے بچوں کی طرح اس سے بھی اچھے طریقے سے ملتے تھے لیکن یہاں وہ بے تکلفی اسے کبھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ عنایہ کو اپنی گرل فرینڈ کہہ سکتا…
’’وہ لوگ مسلم ہیں اور مسلم ایسے ہی ریز روڈ ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے ایک بار اپنے باپ سے عنایہ اور اس کے والدین کے حوالے سے لمبے چوڑے سوالات کئے تھے اور اس کے باپ نے بڑے اچھے طریقے سے اسے سمجھایا تھا۔
ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد سب کچھ ڈرامائی انداز میں بدلا تھا۔ اس کے باپ کی موت کے بعد عنایہ نے پہلی بار خود اس سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب وہ تقریباً دو ہفتے کے بعد پہلی بار اسکول گیا تھا اور اسکول جانے کے باوجود وہ ہر کلا س میں کچھ بھی کام کئے بغیر خالی ذہن کے ساتھ بیٹھا رہا تھا۔ اس کے تمام فرینڈز اور کلاس فیلوز نے باری باری آکر اس کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی اور پھر اپنے روز مرہ کے معاملات میں مصروف ہوگئے تھے لیکن ایرک اگلے کئی دن اسکول جاتے ہوئے بھی دوسرے بچوں کی طرح معمول کی سرگرمیوں میں خود کو مصروف نہیں رکھ سکا تھا اور یہ ہی وہ وقت تھا جب عنایہ اور اس کی دوستی شروع ہوئی تھی۔ وہ کلاس ورک میں اس کی مدد کرنے لگی تھی۔ وہ جانتا تھا اور محسوس کرسکتا تھا کہ وہ ہمدردی تھی جو عنایہ اور اس کی فیملی کو یک دم اسے اتنی توجہ دینے پر مجبور کررہی تھی اور اس ہمدردی نے بڑے عجیب انداز میں اسے ان لوگوں کا محتاج کیا تھا۔




سالار کا خاندان وہ واحد خاندان اور گھر نہیں تھا جہاں ایرک کا آنا جانا تھا، وہ اپنے آس پاس کے ان تمام گھروں میں ہی جاتا تھا جہاں اس کے ہم عمر بچے تھے۔ جس جگہ وہ رہتا تھا، وہاں مختلف مذاہب اور مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے تھے۔ ایک آدھ انڈین… چند چائنیز… اکا دکا عرب… یہودی… اور پھر سالار اور امامہ کا گھر… اور ان سب گھروں میں وہ اگر کسی گھر کی طرف کھینچتا تھا تو وہ یہ ہی آخری گھر تھا۔
ان کا گھر ویسا ہی گھر تھا جیسا کبھی اس کے باپ کی زندگی میں اس کا اپنا گھر تھا۔ اس کے ماں باپ بے حد مصروف ہونے کے باوجود ایرک پر توجہ دیتے تھے۔ خاص طور پر اس کا باپ جو خود اکلوتا تھا… اور اب کیرولین پوری کوشش کے باوجود ایرک کو اتنی توجہ نہیں دے سکتی تھی۔ وہ سبل اور مارک کو زیادہ توجہ کا مستحق سمجھتی تھی، کیوں کہ وہ بہت چھوٹے تھے اور اگر وہ ایسا سمجھتی تھی تو یہ غلط بھی نہیں تھا… اور ایرک جیسے اپنے محور سے بھٹکے ہوئے ایک سیارے کی طرح اس خاندان کے سیارے میں آیا تھا۔ ان سے متاثر… ان کا حصہ بن جانے کی خواہش میں…
حمین اور رئیسہ کے ساتھ امامہ اور سالار کی آمد پر ان کا بے حد پرجوش طریقے سے استقبال کیا گیا تھا اور استقبال کرنے والوں میں ایرک بھی تھا۔ کچھ دیر کے لئے وہاں ان کے ساتھ حمین سے خوش گپیاں کرتے وہ یہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں موجود ہے۔
کھانے کی میز پر ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور خوش گپیاں کرتے ہوئے، ڈور بیل بجنے پر بھی ایرک کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ کیرولین ہوگی۔ وہ بے حد ناخوش تھی اور ہمیشہ کی طرح ان کے گھر آنے پر اس نے معمول کے انداز میں خوش گوار رسمی جملوں کا تبادلہ بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے اندر آتے ہی ایرک کا پوچھا تھا اور ایرک کے وہاں ہونے کی تصدیق ہونے پر وہ اندر آئی تھی اور اس نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ایرک کو ڈانٹنا شروع کردیا تھا۔ وہ سبل اور مارک کو اس کے پاس چھوڑ کر کسی دوست کے ساتھ ڈنر پر گئی تھی اور وہ سبل اور مارک کے سوتے ہی گھر سے نکل آیا تھا اور اب جب کیرولین واپس آئی تو اس نے سبل اور مارک دونوں کو گھر میں روتے ہوئے پریشان اور ایرک کو وہاں سے غائب پایا تھا۔
ایرک نے ماں کی ڈانٹ پھٹکار خاموشی سے سنی تھی۔ شرمندگی اگر اسے ہوئی تھی تو صرف اس بات کی کہ اس کا جھوٹ ان سب کے سامنے کھلا تھا، جو اس نے مارک اور سبل کے حوالے سے بولا تھا۔ کیرولین سخت مزاج نہیں تھی لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے اس کے اور ایرک کے درمیان عجیب کی سرد مہری آگئی تھی وہ جانتی تھی۔ ایرک، جیمز کی موت کی وجہ سے اپ سیٹ تھا لیکن وہ اس بات سے بے زار ہوچکی تھی۔
وہ گیارہ سال کا لڑکا تھا، وہ چاہتی تھی وہ اپنی ذمہ داریاں محسوس کرے اور اگر کچھ ذمہ داریاں اپنے سر نہیں لے سکتا تو کم از کم مزید کوئی مسئلہ بھی پیدا نہ کرے۔ ایرک کو ماں سے تب تک ہمدردی رہی تھی جب تک اس نے کیرولین کے نئے پارٹنر کو نہیں دیکھا تھا۔ باپ کی موت سے بڑا صدمہ یہ تھا کہ کوئی اور اس کے باپ کی جگہ لینے والا تھا۔ اس کے اور کیرولین کے درمیان سرد مہری اور کشیدگی کی بنیادی وجہ یہی تھی جسے کیرولین بوجھ نہیں پائی تھی۔
ایرک کے جانے کے کچھ دیر بعد بھی وہاں خاموشی ہی رہی تھی، یہ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس ساری صورت حال پر کس ردعمل کا اظہار کرے۔ ایرک کے ساتھ سب کو ہمدردی تھی لیکن اب ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر سے دور کیسے رکھیں۔ خاص طور پر ایسی صورت حال میں جب کیرولین کو اس میل جول پر اعتراض بھی نہیں تھا اور وہ خود بھی کئی بار ایمرجنسی کی صورت میں سبل اور مارک کو ان کے پاس چھوڑ جاتی تھی۔
’’اتنا اچھا بچہ تھا… پہلے کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا میں نے اسے… پتا نہیں اب کیا ہوگیا ہے اسے۔‘‘ ٹیبل سے برتن اٹھاتے ہوئے امامہ نے جیسے تبصرہ کیا تھا۔
’’جیمز کی موت نے ایسا کردیا ہے اسے۔‘‘ سالار نے میز سے اٹھتے ہوئے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
برتن سنک میں رکھتے ہوئے امامہ عجیب انداز میں ٹھنڈی پڑی تھی۔ دو دن بعد سالار کا طبی معائنہ ہونا تھا۔ پہلے ہر تین ماہ کے بعد اس کا طبی معائنہ ہوتا تھا، اب اس بار چھ ماہ کے بعد… یہ دیکھا جاتا تھا کہ اس کے دماغ میں موجود ٹیومر کس حالت میں تھا۔ بڑھنے لگا تھا؟ گھٹنے لگا تھا؟ اس کے دماغ میں کوئی اور ٹیومر تو نہیں بن گیا تھا۔ ٹیومرز نے کچھ اور سیلز کو تو متاثر کرنا شروع نہیں کردیا تھا۔ CBC, MRI, CTS, TMT, BPT, LP پتا نہیں کتنے ٹیسٹس تھے جن کی رپورٹس وہ دم سادھے دیکھتی رہتی تھی۔ ہر کلیئر رپورٹ اس کا سانس بحال کردیتی۔ کوئی معمولی سی بھی خراب رپورٹ اسے بے حال کردیتی۔ زندگی جیسے پھر تین ماہ کے بعد دائرے میں سمٹ کر آگئی تھی۔ تین ماہ کے بعد میڈیکل چیک اپ ہوتا اور پھر وہ تین ماہ کے لئے جینے لگی اور جب جب میڈیکل چیک اپ کی تاریخیں قریب آنے لگتیں امامہ کی بدحواسی میں بھی اضافہ ہونے لگتا۔
اور یہ سب کچھ تین سال سے ہورہا تھا اور تین سال سے… ٹھیک تھا… اس کا آپریشن کامیاب رہاتھا۔ ہوش میں آنے کے بعد اس کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ چھوٹے موٹے اثرات آئے تھے لیکن وہ ایسے نہیں تھے کہ انہیں تشویش لاحق ہوتی لیکن اس کے باوجود امامہ ہاشم کو لگتا تھا، زندگی بدل گئی ہے۔
اور اب سالار کی زبان سے جیمز کی موت کا ذکر سن کر اور اس موت نے اس کے بیٹے کو کیسے متاثر کیا تھا۔ وہ ایک بار پھر اسی طرح منجمد ہوگئی تھی۔ چند گھنٹے پہلے ہونے والی تقریب یک دم جیسے اس کے دماغ سے محو ہوگئی تھی۔ وہ چیک اپ جو دو دن بعد ہونے والا تھا، اگر وہ ٹھیک رہتا تو پھر اس کا چیک اپ تین کے بجائے چھ ماہ کے بعد ہوتا۔ سالار کی نہیں جیسے اس کی اپنی زندگی کی معیاد تین سے چھ ماہ بڑھنے والی تھی۔
کچن میں سنک کے سامنے کھڑے اس نے لاؤنج میں بیٹھے سالار کو دیکھا۔ اس کے گرد بیٹھے اس سے خوش گپیوں میں مصروف اپنے بچوں کو دیکھا۔
وہ خوش قسمت تھی کہ وہ اب بھی ان کی زندگیوں میں تھا… جیتا جاگتا… ہنستا مسکراتا… خوش باش، صحت مند… کم از کم کوئی اب اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اسے کوئی بیماری تھی اور ایسی بیماری تھی۔ وہ صرف اپنی سرجری کے بعد صحت یابی اور علاج کے دورانیے میں بیمار لگتا تھا۔ سرجری کے لئے سر کے بال صاف کرادینے کی وجہ سے بھی اور اس کے بعد ہونے والے علاج کی وجہ سے بھی…
تب اس کے چہرے پر یک دم جھریاں سی آگئی تھیں۔ بہت کم وقت میں اس کا وزن بہت زیادہ کم ہوا تھا۔ وہ شاید اس کا نتیجہ تھیں۔ چھ سات ماہ وہ ایک کے بعد ایک چھوٹے بڑے انفیکشنز کا شکار ہوتا رہا تھا۔
وہ سرجری کے بعد واپس پاکستان آنا چاہتی تھی لیکن آ نہیں سکی… وہ اسے وہاں اس طرح اکیلے یہ جنگ لڑنے کے لئے چھوڑ نہیں سکتی تھی… وہ کام چھوڑ کر گھر بیٹھ کر آرام کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور یہ آپشن اس کے پاس تھا بھی نہیں… سرجری کے ایک ہفتے بعد وہ دوبارہ SIF کے پروجیکٹس لئے بیٹھا تھا… اور وہ صرف بیٹھ کر اسے دیکھتی رہی تھی۔
تیمارداری… عیادت… دیکھ بھال… ان لفظوں کو سالار سکندر نے بے معنی کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ حتی المقدور اپنی ذمہ داری خود اٹھا رہا تھا جیسے ساری عمر اٹھانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ وہ پھر بھی اسے تنہا چھوڑ دینے پر تیار نہیں تھی۔ چھ سات ماہ کے بعد وہ بالآخر صحت مند ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس کے نئے بال اگ آئے تھے۔ اس کا وزن بڑھ گیا تھا۔ اس کے چہرے سے وہ جھریاں غائب ہوگئی تھیں جو راتوں رات آئی تھیں۔ آنکھوں کے گرد حلقے اور چہرے کی پیلاہٹ بھی چلی گئی تھی۔ وہ اب ویسا ہی سالار نظر آتا تھا جیسا اس بیماری کی تشخیص سے پہلے تھا۔
ڈاکٹرز کہتے تھے اس کی صحت کی بحالی ناقابل یقین اور قابل رشک ہے۔ امامہ ہاشم پھر بھی مطمئن ہونے سے قاصر تھی… سالارکے ساتھ گزارے ہوئے شادی کے شروع کے دس سالوں میں اس نے دنیا کی ہر نعمت چکھ لی تھی۔ ہر آسائش دیکھ لی تھی… لگژری کا رز سے پرائیوٹ پلینز کے سفر تک… سونے کے زیورات سے لے کر ہیروں تک… سب… وہ آدھی دنیا اس کے ساتھ گھومی تھی… کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی تمنا اس نے کی ہو اور سالار نے اسے تمنا رہنے دیا ہو… وہ اپنی زندگی کے ان دس سالوں پر، پریوں کی کہانی لکھ سکتی تھی۔ لیکن ایسی زندگی گزارنے کے بعد بھی امامہ ہاشم کو زندگی کی سب سے بڑی نعمت زندگی ہی لگی تھی۔
’’اس شخص…‘‘ کی زندگی… وہ اس کے پاس تھا تو دنیا کی کوئی اور چیز نہ ہونے کے باوجود بھی وہ خوش رہ سکتی تھی۔ ہنس سکتی تھی… جی سکتی تھی… باقی اور کچھ بھی نہ ہوتا… مہنگے کپڑے، زیورات ، آسائشات، گھر، کچھ بھی نہ ہوتا، صرف اس کا ساتھ اس کے ساتھ رہتا تو وہ خوش رہ سکتی تھی۔ جینے کے لئے بس اتنا کافی تھا اور اب ایک بار پھر اس کے میڈیکل چیک اپ کی تاریخ قریب تھی، ایک بار پھر اس کی نیندیں غائب ہونا شروع ہوگئی تھیں۔
لاؤنج میں حمین کی کسی بات پر ہنستے ہوئے سالار کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے اس کی سرجری کے بعد پہلی بار اسے دیکھنا یاد آیا تھا۔ آٹھ گھنٹے کی سرجری کے بعد پہلی بار اسے دیکھنا… پھر اگلی صبح اسپتال جاکر اسے دوبارہ دیکھنا… وہ یاد نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بھول نہیں پاتی تھی… وہ تب بھی اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے بیٹھی تھی، جب وہ ہوش میں آیا تھا… اسکے متوزم پپوٹے ہلنے لگے تھے۔ وہ آنکھیں کھولنے کی جدوجہد کررہا تھا۔
’’سالار… سالار…!‘‘ وہ بے اختیار اسے پکارنے لگی تھی… ایک بار… دوبار… کئی بار… اس نے بالآخر آنکھیں کھول دی تھیں… سوجی ہوئی سرخ آنکھیں… وہ غنودگی میں تھا اور اس کیفیت سے لڑرہا تھا۔ اس نے سالار کا چہرہ چھوا، ایک بار پھر اس کا نام پکارتے ہوئے…
اس بار سالار نے اسے دیکھا تھا۔ گردن ذرا سی موڑتے ہوئے لیکن ان آنکھوں میں اس کے لئے کوئی پہچان، کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ صرف اسے دیکھ رہا تھا۔ پہچاننے کی کوشش نہیں کررہاتھا۔
امامہ کو جیسے دھچکا لگا تھا۔ کیا وہ واقعی اسے پہچان نہیں پارہا تھا۔ ڈاکٹرز نے اس خدشے کا اظہار آپریشن سے پہلے کیا تھا کہ اس کی یادداشت جاسکتی ہے۔ آپریشن کے مضمرات میں سے یہ ایک تھا… اس کے باوجود وہ شدید صدمے کا شکار ہوئی تھی۔ گنگ … دم بخود… وہ سرد ہاتھ پیروں کے ساتھ ان آنکھوں کو دیکھتی رہی تھی جو اسے ایک اجنبی کی طرح دیکھ رہی تھیں۔ پھر جیسے ان آنکھوں میں چمک آنی شروع ہوئی۔ جیسے اس کا عکس ابھرنا شروع ہوا۔ اس کی پلکیں اب ساکت نہیں تھیں۔ وہ جھپکنے لگی تھیں۔ مانوسیت کا احساس دیتے ہوئے… بیڈ پر اس کے ہاتھ کے نیچے موجود سالار کے ہاتھ میں حرکت ہوئی تھی۔ وہ اس کا نام اب بھی نہیں لے پار ہاتھا لیکن اس کے ہاتھ کا لمس شناخت کررہا تھا۔ ردعمل ظاہر کررہاتھا۔ تین سال گزرنے کے بعد بھی امامہ اس سرجری سے پہلے اور اس سرجری کے بعد ایک ایک لمحہ گنواسکتی تھی۔ وہ سب کچھ جیسے اس کے ذہن پر انمٹ نقوش کی طرح نقش تھا۔
سالار کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلا تھا وہ اس کا نام نہیں تھا۔ وہ ’’الحمدللہ‘‘ تھا اور امامہ کو پہلی بار الحمد للہ کا مطلب سمجھ میں آیا تھا۔ اس نے امامہ کا نام اگلے جملے میں لیا تھا اور امامہ کو لگا اس نے زندگی میں پہلی بار اپنا نام سنا ہو۔ زندگی میں پہلی بار اسے اپنا نام خوب صورت لگا تھا۔ اس نے پہلی چیز پانی مانگی تھی اور امامہ کو لگا دنیا میں سب سے قیمتی چیز پانی ہی ہے اور اس نے کلمہ پڑھا تھا۔ کوئی مرتے ہوئے تو کلمہ پڑھتا ہے۔ پھر زندہ ہوجانے پر اس نے کلمہ پڑھتے ہوئے کسی کو پہلی بار دیکھا تھا اور اس سب کے دوران سالار نے امامہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ وہ لمس…لمس نہیں تھا۔ جنت تھی جو ہاتھ میں تھی۔
’’تمہیں نہیں آنا یہاں؟‘‘ سالار نے یک دم اسے مخاطب کیا۔ وہ ابھی بھی کچن کے سنک سے ٹیک لگائے وہیں کھڑی تھی۔ دور تھی اس لئے خود پر قابو بھی پاگئی تھی۔ آنسو بھی چھپا گئی تھی۔
’’ہاں… میں آتی ہوں۔‘‘ اس نے پلٹ کر سنک میں باقی برتن بھی رکھے۔ ’’میں سب باتیں تو ’’یہاں‘‘ سے بھی سن رہی ہوں۔‘‘ اس نے کہا تھا۔
’’ممی! اگلے سال رئیسہ جائے گی’’اسپیلنگ بی ‘‘ میں ۔‘‘ حمین نے وہاں بیٹھے وہ اعلان کیا تھا جو رئیسہ اس سے پہلے ہی اس تک پہنچا چکی تھی۔ امامہ نے ٹونٹی بند کرتے ہوئے پلٹ کر دیکھا۔ وہ خود کو سنبھال چکی تھی لیکن حمین کی بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
’’رئیسہ کیا کرے گی؟‘‘ اس نے صرف رئیسہ کا نام سنا تھا۔
’’ممی! میں بھی یہ ٹرافی جیت کر لاؤں گی۔‘‘ رئیسہ نے اس بار خود امامہ کو منصوبے کے بجائے مقصد بتایا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!