آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

وہ دونوں میاں بیوی اپنے خاندان اور حلقہ احباب میں پسند نہیں کئے جاتے تھے حالانکہ ان دونوں کا خیال تھا کہ وہ دونوں بے حد خوش اخلاق اور سب کی ضرورت میں ان کی کام آنے والے تھے لیکن کہیں نہ کہیں اسلام کے اس کٹر تصور نے جو وہ دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے تھے لوگوں کے لئے ان کو کسی نہ کسی حد تک ناقابل برداشت بنادیا تھا اور وہ اس ناپسندیدگی سے ناواقف نہیں تھے لیکن ان کا خیال تھا بلکہ انہیں یقین تھا وہ نیکی کی بات پھیلانے والے ہیں اور اگر اس کی وجہ سے لوگ ان سے کٹتے ہیں تو اللہ انہیں اس کا اجر دے گا۔
احسن سعد نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائی تھی جہاں پر اس کے ماں باپ نے اسے لوگوں کو اسی کسوٹی پر پرکھنا سکھایا تھا جن پر وہ خود دوسروں کو پرکھتے تھے۔ اس نے ماں باپ کے درمیان ہر طرح کا جھگڑا بچپن میں ہی دیکھ لیا تھا اور اس نے سیکھا تھا کہ شوہر اور بیوی کا تعلق ایسا ہی ہوتا ہے اور ہونا چاہیے… حاکم اور محکوم کا… برتر اور کمتر کا… کفیل اور مکفول کا… عزت اور احترام کا نہیں… پیار اور محبت کا بھی نہیں۔
مرد کی ساری عزت اور غیرت اس کے گھر کی عورت کے کردار اور عمل سے ڈوبتی ہے، اس کے اپنے عمل اور کردار سے نہیں… ایک امریکن نیشنل اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ باپ نے احسن سعد کو جو پہلا سبق پڑھایا تھا، وہ یہی تھا۔
احسن سعد کو کچھ چیزیں شدید ناپسند تھیں… ناپسندیدگی ایک چھوٹا لفظ تھا، یہ کہنا زیادہ مناسب تھا کہ اسے کچھ چیزوں سے نفرت تھی اور ان چیزوں کی فہرست میں ماڈرن عورت اور امریکہ سرفہرست تھے۔ باپ کی طرح وہ دنیا میں تمام انتشار اور گناہ کی وجہ ان ہی دو کو قرار دیتا تھا۔
وہ ایک بے حد لبرل اسکول میں کو ایجوکیشن میں اے لیولز کررہا تھا لیکن وہ وہاں اپنے ساتھ پڑھنے والی ہر اس لڑکی کو’’آوارہ‘‘ سمجھتا تھا جو حجاب میں نہیں تھی۔ ماں باپ کی طرح وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ وہ سب لڑکیاں، لڑکوں کو دعوت گناہ دیتی ہیں۔ جان بوجھ کر اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔
اس کی اپنی دونوں بہنیں اس کے برعکس… کو ایجوکیشن سے نہیں پڑھیں تھیں مگر احسن سعد کو شروع سے ہی ایسے اسکولز میں پڑھایا جاتا رہا جہاں کو ایجوکیشن تھی جہاں اس کا واسطہ ہر قسم کی لڑکیوں سے پڑتا تھا اور باپ کو اسے مثالی بناکر پیش کرنے کے لئے یہ ایک اور مثال مل گئی تھی… اس کا بیٹا کو ایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود گرل فرینڈ کے مفہوم سے بھی واقف نہیں تھا… یہ اس منافقت کی ایک اور جھلک تھی جو سعد کے اپنے اندر مذہب اور مذہب کی حدود کو نافذ کرنے کے حوالے سے تھی۔
احسن سعد اور اس کی دونوں بہنوں کی زندگی سماجی طور پر جتنی محدود کی جاسکتی تھی، سعد اور اس کی بیوی نے کر رکھی تھی… ان کی زندگی کی واحد ’’تفریح‘‘ پڑھنا تھا… واحد ’’خوشی‘‘ اچھے گریڈ لینا تھا۔ واحد ’’دلچسپی‘‘ مذہبی کتابیں پڑھنا تھا۔ واحد مقصد ’’آخرت میں سرخروئی‘‘ تھی… واحد ’’ہابی‘‘ والدین کی خدمت تھا‘‘… اور اس سب میں وہ ’’دنیا‘‘ کو ایک لعنت کے طور پر سمجھتی تھیں اور ہر وہ چیز جو دنیا کی طرف کھینچتی تھی، وہ شیطانی تھی۔




وہ ایک پرفیکٹ dysfunctional فیملی تھی جس میں ماں باپ نے اپنے خراب ازدواجی تعلق سے پیدا ہونے والے نقائص اور خامیوں کو مذہب کے کمبل سے اسے ڈھک کر اپنے آپ کو پاک کرلیا تھا… تاکہ کوئی ان کی عبادتوں، علم سے آگے بڑھ کر ان سے بات نہ کرسکے۔ ان کی ساری بشری کمزوریاں اور خامیاں نماز، روزوں اور دوسری عبادتوں میں چھپ جائیں… سب سے خوف ناک بات یہ تھی کہ اس گھر میں رہنے والے کسی فرد کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ان میں بہت سے نقائص تھے، ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو پرفیکٹ سمجھ رہا تھا… دوسروں کے لئے ایک رول ماڈل… اللہ سے قریب…
احسن سعد بھی اپنے آپ کو کامل سمجھتا تھا۔ سب برائیوں سے مبّرا… سب اچھائیوں کا منبع… اس پر اپنے باپ کی سوچ اور کردار کی گہری چھاپ تھی جو اس سے عشق کرتا تھا کیوں کہ وہ اس کی واحد نرینہ اولاد تھی… احسن سعد نے باپ سے بہت کچھ وراثت میں لیا تھا۔ شکل و صورت، ذہانت، مزاج، عادات… لیکن جو سب سے بُری چیز احسن سعد نے باپ سے لی تھی وہ منافقت تھی… اس کی پہچان نہ رکھتے ہوئے بھی… اسے ماڈرن عورت اور امریکہ سے نفرت تھی… وہ انہیں گناہ اور برائی کی جڑ سمجھتا تھا… اور وہ ایک ماڈرن عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا جس کے پاس امریکن شہریت بھی ہو… اور وہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا تھا… اس کا باپ ٹھیک کہتا تھا، احسن جس چیز کی بھی تمنا کرتا تھا، وہ اسے مل جاتی تھی… یہ دونوں چیزیں بھی اسے ملنے والی تھیں… اس کی خوش قسمتی ایک اور خاندان کی بدقسمتی میں بدلنے والی تھی۔
٭…٭…٭
’’تمہیں پتا ہے JB لڑکیاں تمہیں ہاٹ سمجھتی ہیں۔‘‘
ایک لمحہ کے لئے ڈنر ٹیبل پر خاموشی چھا گئی تھی، وہ ایسا ہی غیر متوقع جملہ تھا جو حمین نے پاستا کھاتے ہوئے اپنے تیرہ سالہ بڑے بھائی کے گوش گزار کیا تھا… امامہ، سالار، عنایہ اور رئیسہ نے بیک وقت حمین کو دیکھا پھر جبریل کو جو سرخ ہوا تھا… وہ شرمندگی نہیں غصہ تھا جو حمین کے ان بے لاگ تبصروں پر اکثر آجاتا تھا۔
’’وہ مجھے بھی کو ل کہتی ہیں لیکن تمہیں تو ہاٹ سمجھتی ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے نا…‘‘
اس نے ماں باپ کی نظروں کی پروا کی تھی نہ ہی جبریل کے سرخ ہوتے چہرے کی… اس نے اپنے تبصرے کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لڑکیوں کی نظر میں اپنے اسٹیٹس پر افسوس کا اظہار بھی اسی سانس میں کیا تھا۔
“Will you please shut up?”
جبریل نے اس دفعہ کچھ سخت لہجے میں اسے روکنے کی کوشش کی۔ ماں باپ کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے اس نے اسے شٹ اپ کہنے کے بجائے ان دو لفظوں کو توڑ کر کے بلاواسطہ اسے ٹوکا۔
“Oh one more twister.”
حمین نے یوں ظاہر کیا جیسے اس نے اسے کوئی بڑا ہی مشکل لفظ کہہ دیا تھا جس سے وہ واقف ہی نہیں تھا۔
’’حمین۔‘‘ اس بار امامہ نے اسے تنبیہہ کی، وہ سہ پہر میں ہونے والی اس پارٹی کو بھگتا کے بیٹھی تھی جو حمین نے اپنے کلاس فیلوز… کو دی تھی۔
’’میں غلط نہیں کہہ رہا ممی…‘‘ حمین نے اس کی تنبیہہ کو جیسے ہوا میں اڑایا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میری جاننے والی ہر لڑکی کا جبریل پر کرش ہے۔‘‘
جبریل نے اس بار ہاتھ میں پکڑا ہوا کانٹا پلیٹ میں رکھ دیا پر یہ جیسے اس کے صبر کے پیمانے کے لبریز ہوجانے کی نشانی تھی۔
’’یہاں تک کہ میری گرل فرینڈز بھی…‘‘
’’فرینڈز!‘‘ سالار نے ٹوکا۔
’’جو بھی ہو…‘‘ اس نے اسی انداز میں بات جاری رکھی۔ ’’Man! You are so lucky.‘‘
حمین نے اس بار جبریل کو رشک بھری نظروں سے دیکھا۔ امامہ اپنی بے انتہا کوشش کے باوجود اپنی ہنسی پر قابو نہیں پاسکی۔ اسے حمین کی گفتگو سے زیادہ جبریل کے ردعمل پر ہنسی آرہی تھی جس کی اب کان کی لوئیں تک سرخ ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ وہ ماں کے ہنسنے پر کچھ اور جزبز ہوا تھا۔
’’تو تمہارا کیا خیال ہے، کون سی چیز ہے جو اسے لڑکیوں میں پاپولر کرتی ہے؟‘‘ سالار نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے حمین سے یوں سوال کیا جیسے یہ کوئی بڑا فلسفیانہ سوال تھا۔
’’میں اس بار ے میں پہلے ہی سوچ چکا ہوں۔‘‘ حمین نے اپنے کانٹے کی نوک پاستا کے درمیان پھیرتے ہوئے سالار کے فلسفیانہ سوال کا اسی فلسفیانہ انداز میں جواب دینے کی کوشش کی۔
’’اس کی بہت سی ریزن ہیں۔ لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند نہیں کرتیں جو بہت بولتے ہیں اور JB بالکل بات نہیں کرتا۔‘‘
’’اور…‘‘ سالار نے سلاد کا ایک ٹکڑا کھاتے ہوئے آگے بولنے کی ترغیب دی۔
’’اور لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند کرتی ہیں جو لئے دیئے رہتے ہیں اور JB میں یہ بات بھی ہے۔‘‘
اس نے اپنے بھائی کا تجزیہ کرنا شروع کردیا تھا۔
’’اور لڑکیوں کو وہ لڑکے اچھے لگتے ہیں جو ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں سن سکتے ہوں اورJB سب کی باتیں سنتا ہے خواہ وہ کتنی ہی بے وقوفانہ ہوں…‘‘
اس بار سالار کو بھی ہنسی آئی جو اس نے گلا صاف کرکے چھپائی۔ عنایہ اور رئیسہ چپ چاپ کھانا کھاتے ہوئے حمین کے جملے سنتیں، پھر جبریل کے تاثرات دیکھتیں۔ وہ بڑا بھائی تھا… یہ چھوٹا بھائی تھا اور وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں کہ وہ اس قابل اعتراض گفتگومیں حصہ کیسے لیں۔
’’اور لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند کرتی ہیں جوgood lookingہوں۔‘‘ حمین اسی طرح روانی سے کہتے ہوئے اس بار اٹکا۔ ’’اور یہاں میرے اور JB کے درمیان موازانہ کیا جائے تو ہم دونوں ہر لحاظ سے یکساں good looking ہیں۔‘‘
اس نے بات پھر گھمائی اس بار بالآخر جبریل نے اسے ٹوکا۔
’’تمہیں پتا ہے حمین! لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند کرتی ہیں جو ایڈیٹ نہیں ہوتے۔‘‘ اس کا اشارہ حمین سمجھ گیا تھا۔
’’ہاں، یہ اسی صورت ممکن ہے اگر لڑکیاں خود احمق نہ ہوں۔‘‘
’’پاپا!‘‘ اس بار عنایہ نے سالار کو پکارا تھا اور اس نے حمین کے تبصرے پر احتجاج کیا تھا۔
’’تم ان دونوں لڑکیوں کے بارے میں کیا کہوگے؟‘‘ سالار نے بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
’’تین کہیں بابا! آپ ممی کو لڑکیوں کی صف سے کیوں نکال رہے ہیں۔‘‘ حمین نے سوال کاجواب اب گول کیا اور بے حد معصومیت سے سالار سے پوچھا۔ وہ اسمارٹ نہیں تھا سپر اسمارٹ تھا… ہوشیار اور موقع شناس تھا… بات کہنا، بدلنا، سنبھالنا اس عمر میں بھی جانتا تھا۔
’’حمین! بس کردو۔‘‘ امامہ نے اس بار اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اس سے کہا۔ اس کی واقعی سمجھ میں نہیں آیا تھا، وہ اسے ڈانٹے یا اس کی باتوں پر ہنسے۔
وہ جو بھی کہہ رہا تھا۔ غلط نہیں تھا۔ جبریل تیرہ سال کی عمر میں بھی اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے بڑا لگتا تھا۔وہ حمین کی طرح زیادہ دبلا پتلا نہیں تھا۔ حمین ٹھیک کہہ رہا تھا کہ لڑکیاں اسے ہاٹ سمجھتی تھیں… جو ایک بات حمین نے لڑکیوں کے اسے پسند کرنے کی وجوہات میں نہیں گنوائی تھی، وہ اس کی خوب صورت آواز تھی جو اب آہستہ آہستہ بھاری مردانہ ہونے لگی تھی۔ اس کی آنکھیں سالار کی آنکھیں تھیں۔ بڑی، سیاہ اور بے حد گہری… وہ اسی کی طرح بے حد متحمل مزاج تھا… حمین کی طرح بے مقصد بولنے کی عادت نہیں تھی اسے… اور وہ اگر لڑکیوں میں مقبول تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سب کے لئے ایک ’’پہیلی‘‘ تھا۔ حمین کی شخصیت ’’مقناطیسی‘‘ تھی۔
حمین کو اپنے چارم کا پتا تھا اور وہ اس کا صحیح وقت پر استعمال کرنا جانتا تھا، جبریل اپنی کشش سے بے خبر تھا اور اسے اس کشش کو استعمال کرنے میں دلچسپی تھی بھی نہیں… لیکن دنیا میں اگر کوئی خاموشی اور متحمل مزاجی کے اس پہاڑ میں شگاف ڈال کر اسے برہم کرسکتا تھا تو وہ حمین تھا… JB کو تنگ کرنا اس کی زندگی کا دلچسپ اور پسندیدہ ترین کام تھا… وہ اسے بھائی کہنا ایک سال پہلے چھوڑ چکا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا JB کہنا کول تھا، بھائی کہنا کول نہیں تھا اور حمین کی زندگی کی ترجیحات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ہر چیز میں سے کول نیس نکالتا تھا۔
’’بابا! جب میں اسپیلنگ بی جیت کر آؤں گی تو میں بھی اپنے سارے کلاس فیلوز کو بلاؤں گی۔‘‘
رئیسہ نے اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سالار کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کا ذہن پچھلی شام سے اس ایک ٹرافی کے حصول میں اٹکا ہوا تھا جو اس گھر میں تین بار آچکی تھی اور اب اصولی طور پر اسے چوتھی بار لانے کی ذمہ داری اس کے کندھے پر خود بخود آتی تھی۔ وہ جبریل کے بعد اس گھر کی سب سے ذمہ دار اور بلکہ ضرورت سے زیادہ ذمہ دار بچی تھی۔ وہ جبریل کی طرح خود ہر کام کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کی کوشش کرتی تھی… اور پھر پوری لگن اور تن دہی سے اس کام کو کرنے میں مصروف ہوجاتی تھی… وہ ان تینوں کی طرح غیر معمولی ذہین نہیں تھی لیکن اب وہ ڈیڑھ سالہ چنی بھی نہیں رہی تھی جو گونگی نہ ہوتے ہوئے بھی بول ہی نہ پاتی۔
امامہ کے ساتھ ساتھ ان تینوں نے بھی کم ذہانت رکھنے والی رئیسہ کو ذہین بنانے کے لئے بہت محنت کی تھی… اور اب وہ وہ کارنامہ انجام دینے کے لئے بے تاب تھی جو ان تینوں نے کیاتھا… نیشنل لیول کے اس مقابلے کو جیت کر چوتھی بار ٹرافی اس گھر میں لانے کا… اس ساری لائم لائٹ کا فوکس بننے کا جو اس نے اپنے بہن بھائیوں کو ان فتوحات کے بعد ملتے دیکھی تھی۔
رئیسہ سالار زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتی تھی۔
’’بابا! مجھے آپ کو حمین کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔‘‘
رئیسہ کی منمناتی آواز پر سالار بیرونی دروازے سے نکلتے نکلتے ٹھٹک گیا۔ اپنی فراک پر لگی ایک تتلی کا پر مروڑتے ہوئے وہ اس کے عقب میں کھڑی تھی۔ وہ اس وقت واک کے لئے نکل رہا تھا اور رئیسہ اس کو ہمیشہ کی طرح دروازے تک چھوڑنے آئی تھی لیکن اس کو خدا حافظ کہہ کر دروازہ بند نہیں کیا تھا۔ اسنے کچھ سرگوشی نما منمناتی آواز میں سالار سے جو کہا تھا اس پر سالار کو اچنبھا ہوا تھا۔
وہ کبھی کسی کی شکایت نہیں کرتی اور حمین کی شکایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا… وہ حمین کی سب سے بڑی رازداں تھی۔ رئیسہ کے بارے میں یہ خیال صرف سالار کا ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان کے ہر شخص کا تھا… کیوں کہ اسے حمین کے بارے میں بہت سی وہ باتیں بھی پتا ہوتی تھیں جو گھر میں کسی دوسرے شخص کے علم میں نہیں ہوتی تھیں۔
دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھے سالار نے کچھ غور اور حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا بتانا ہے؟‘‘
رئیسہ نے جواب دینے کے بجائے پلٹ کر لاؤنج کی طرف دیکھا جہاں سے حمین کی آواز آرہی تھی۔ وہ امامہ سے باتیں کررہا تھا۔
’’کچھ ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ رئیسہ نے اسی سرگوشی نما آواز میں سالار سے کہا۔ اس بار سالار نے اس کا ہاتھ پکڑا اور دروازہ کھول کر باہر جاتے ہوئے اس سے کہا۔
’’آؤ ہم واک کے لئے چلتے ہیں…‘‘ اسے اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ گھر کے اندر حمین کے بارے میں بات کرتے ہوئے جھجک رہی ہے…وجہ جو بھی ہو۔
رئیسہ چپ چاپ اس کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔ موسم انتہائی خوش گوار تھا اور ان کی رہائشی کالونی کے کچھ اور افراد بھی اس وقت سڑک پر واک کرنے میں مصروف تھے۔ وہ دونوں بھی سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگے۔
’’تو حمین کے بارے میں تم کیا بتانا چاہتی ہو؟‘‘ پانچ دس منٹ کی واک اور اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد سالار نے اس سے کہا۔ رئیسہ نے فوری طور پر کچھ جواب نہیں دیا، جیسے وہ کسی سوچ میں پڑ گئی ہو۔
’’I am not sure‘‘ اس نے کہا۔ ’’کچھ ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں لیکن مجھے یہ نہیں پتا کہ مجھے بتانا چاہیے یا نہیں۔‘‘ وہ ہمیشہ اسی طرح بات کرتی تھی۔ ہر لفظ بولنے سے پہلے دس دفعہ تول کر۔




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!