آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

وہ روانی سے کہتا گیا ہال میں تالیاں اور قہقہے لگتے رہے… وہ اس بچے کی حاضر جوابی، خوش مزاجی اور بذلہ سنجی کی داد دیتے ہوئے محظوظ ہورہے تھے، لیکن اس کی بات پر یقین نہیں کررہے تھے… ہال میں بیٹھی ہوئی صرف رئیسہ تھی جو یہ جانتی تھی کہ وہ حرف بہ حرف ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اسے آخری لفظ کے علاوہ واقعی سارے لفظ بھولے تھے اور وہ اس کے تاثرات دیکھ کر ہی یہ جان جاتی تھی کہ وہ ایک بار پھر اپنا لفظ ہجے کرنا بھول گیا تھا اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھی وہ اپنی انگلیوں کی پوروں پر اس کے لئے دل ہی دل میں دعا کرنا شروع کردیتی۔
’’اور آخری لفظ اتنا آسان کیوں لگا تھا آپ کو۔‘‘ میزبا ن نے پھر پوچھا۔
ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھے دوسرے ہاتھ سے رئیسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حمین نے بڑے فخریہ انداز میں کہا۔ ’’کیوں کہ میں اور میری بہن weissnichtwo سے آئے ہیں۔‘‘
ہال ایک بار پھر تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔ ہال میں لگی اسکرین پر، گلاسز لگائے شرماتی ہوئی رئیسہ ابھری تھی، جس کے اطراف میں بیٹھے امامہ اور سالار بھی اس کی بات پر ہنس پڑے تھے۔
حمین نے جو کہا تھا، وہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ دونوں پچھلے کئی ہفتوں سے ایک لفظ کا استعمال اپنے لئے اتنا باقاعدگی سے کررہے تھے کہ یہ ان کی روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بن گیا تھا۔
رئیسہ اور حمین یہ سمجھتے تھے کہ وہ دونوں کسی نامعلوم تصوراتی دنیا سے آئے تھے جو صرف ان دونوں کو پتا تھی، ان دونوں کو نظر آتی تھی، کسی دوسرے کو نہیں۔ وہ دونوں انوکھےتھے اور یہ ان دونوں کا ذاتی خیال تھا۔ یہ پچھلے کچھ ہفتوں میں پائی جانے والی ان دونوں کی نئی فینٹسی کا نام تھا اور یہ کیسے ممکن تھا کہ حمین سکندر اپنی اس فینٹی کا نام بھول جاتا جو یک دم اس کے سامنے حقیقت بن کر آگئی تھی۔
رئیسہ فخریہ انداز میں اپنے اس پارٹنر کو دیکھ رہی تھی جو اس کی طرح weissnichtwo سے آیا تھا اور اس لفظ کو اقعی آنکھیں، کان ناک بند کئے بھی دہرا سکتا تھا۔ pronouncer کے منہ سے اس طرح جس طرح وہ پچھلے دو سال عنایہ اور جبریل کے نام رہی تھی۔ ان دونوں نے بھی حمین کی طرح پہلی بار شریک ہوکر اس چیمپئن شپ کو اپنے نام کرلیا تھا۔
Spelling Bee کی وہ ایکٹوٹی امامہ نے اپنے گھر میں رئیسہ کے لئے اسٹارٹ کی تھی… اس کی زبان سیکھنے کی صلاحیت (Linguistic skills) کو بہتر کرنے کے لئے … نئے لفظ سیکھنا… ان کے ہجے کرنا… انہیں درست تلفظ کے ساتھ بولنا سکھانا… ان کا مفہوم اور پھر روز مرہ کی گفتگو میں ان کا استعمال… وہ ایکٹوٹی بڑھتے بڑھتے ان کے لئے ایکٹوٹی نہیں، روٹین کا ایک حصہ بن گئی تھی اور اس روٹین کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ ان چاروں بچوں کی vocabulary اپنی عمر کے بچوں سے بہت زیادہ اچھی تھی… مقابلوں میں حصہ لینے کا خیال بھی انہیں کبھی نہ آتا اگر وہ اپنی vocabulary کی وجہ سے پہلے ہی اپنے اسکول میں نمایاں نہ ہوتے۔
حمین کی گفتگو کے دوران جو وہ اپنی تیاری، پریکٹس کی روٹین کے حوالے سے کررہا تھا، کیمرہ بار بار امامہ اور سالار کو ہال میں لگی بڑی اسکرین پر دکھا رہا تھا کیوں کہ وہ اس چیمپئن کے والدین تھے جو اس وقت سینٹر اسٹیج پر تھا… ان کے آس پاس بیٹھے دوسرے مقابلے میں حصہ لینے والے بچوں کے والدین وقتاً فوقتاً ان سے آکر مل رہے تھے… وہ مبارک بادیں وصول کررہے تھے… بے حد پرسکون انداز میں، دھیمی مسکراہٹوں کے ساتھ… یوں جیسے یہ سب کچھ معمول کی بات ہو، عام بات ہو… اور واقعی یہ سب ان کے لئے عام سی بات تھی… ان کی لائق اولاد نے ان کے لئے یہ سب ’’عام سی بات‘‘ ہی کردیا تھا۔
زندگی میں اب تک ان سب کی وجہ سے ان دونوں کی زندگی میں ایسے بہت سے فخر کے لمحات آئے تھے… ایسے لمحات جن کی یادوں کو وہ ساری عمر عزیز رکھ سکتے تھے۔
’’ممی اگلے سال میں حصہ لوں گی…‘‘‘ ان کے درمیان بیٹھی ہوئی رئیسہ نے اپنے گلے میں لٹکے، حمین کے کارڈ کو ہلاتے ہوئے سرگوشیوں میں امامہ کو اطلاع دی… امامہ نے اسے تھپکا جیسے تسلی دے کر ہامی بھر رہی ہو۔
اسٹیج پر اب حمین کو ٹرافی دی جارہی تھی… تالیوں، سیٹیوں،فلیش لائٹس کی چکا چوند اور میوزک کی گونج میں… حاضرین ایک بار پھر کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے داد دے رہے تھے اور وہاں سے کئی کلو میٹر دور واشنگٹن کے ایک قدرے نواحی علاقے کے ایک گھر میں بیٹھے جبریل اور عنایہ ٹی وی پر اس پروگرام کی لائیو کوریج دیکھتے ہوئے اسی خوشی اور جوش کا حصہ بنے ہوئے تھے جو اسکرین پر انہیں اس ہال میں نظر آرہا تھا۔ عنایہ تھوڑی دیر پہلے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ختم کرکے بیٹھی تھی، جس کی وجہ سے وہ امامہ اور سالار کے ساتھ نہیں جاسکی تھی اور جبریل اس کے لئے پیچھے رک گیا تھا… وہ ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہوئے بھی بار بار اپنے کمرے سے نکل کر ٹی وی لاؤنج میں آکر ٹی وی پر صرف حمین سے پوچھا جانے والا لفظ سنتی… وہ اور جبریل میکانیکی انداز میں بیک وقت اس لفظ کے ہجے کرتے اس سے پہلے کہ حمین اس کے ہجے کرتا پھر وہ بے یقینی سے اپنے چھوٹے بھائی کی وہ ہنسی دیکھتے جو اس لفظ کے ردعمل میں آتی اور پھر وہ اسے کوشش کرتے ہوئے دیکھتے، اس لفظ کو spell کرنے کے لئے اور ہر صحیح آخری حرف پر ان دونوں کے سینوں سے بیک وقت سانس خارج ہوتا یوں جیسے جان میں جان آگئی ہو اور اس کے بعد عنایہ ایک بار پھر ٹی وی لاؤنج سے غائب ہوجاتی۔




اور اب جبکہ اس تیسری ٹرافی کا ان کے گھر ہی آنے کا فیصلہ ہوگیا تھا تو وہ دونوں بے حد خوش تھے… ان سب کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ حسد اور قابت نہیں، یہ خاصیت ان چاروں میں ہی نہیں تھی۔
ٹی وی دیکھتے ہوئے گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ جبریل اس وقت اپنے لئے ملک شیک بنانے میں مصروف تھا… عنایہ اس کے دروازے کی طرف جانے کے بجائے خود دروازے پر چلی گئی۔ کی ہول سے اس نے باہر جھانکا۔ وہاں گیارہ سالہ ایرک کھڑا تھا… عنایہ چند لمحوں کے لئے وہیں کھڑی رہی… الجھن کا شکار… وہ اس کا کلاس فیلو تھا۔ ان کا ہمسایہ تھا… اس کے والدین ان کے فیملی فرینڈز تھے… جبریل گھر پر نہ ہوتا تو وہ دروازہ کبھی نہ کھولتی۔ یہ اس کے ماں باپ کی ان سب کے لئے، اکیلے گھر پر ہونے کی صورت میں ہدایات تھیں، مگر اس وقت اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ دروازے کھولے یا نہ کھولے… وہ باہر کی ہول پر نظریں جمائے یوں کھڑا تھا جیسے اس سوراخ میں سے یہ دیکھ پارہا ہو کہ اسے اندر سے دیکھا جارہا تھا اور دیکھنے والا کون تھا، یہ بھی۔
’’باہر کون ہے؟‘‘ وہ جبریل تھا جو اچانک ہی وہاں آگیا تھا۔ وہ ہڑبڑا کر پلٹی پھر اس نے کہا۔
’’ایرک۔‘‘ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے… بے مقصد اور کسی بھی وقت دوستوں یا جاننے والوں کو گھر نہیں بلاسکتے تھے، لیکن… ایرک کے لئے ان سب کے دل میں ہمدردی تھی۔
’’اچھا آنے دو، شاید اسے بھی ٹیسٹ کا کچھ پوچھنا ہو۔‘‘ جبریل نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دونوں ہاتھ اپنی جینز کی جیبوں میں ڈالے ایرک نے دروازہ کھلنے پر اپنے امریکن لب و لہجے میں ہمیشہ کی طرح بمشکل انہیں السلام علیکم کہا جسے وہ ہمیشہ کی طرح بمشکل سمجھے۔
’’مبارک ہو۔‘‘ ایرک نے وہیں کھڑے کھڑے جبریل کے پیچھے جھانکتی عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تھینک یو۔‘‘ جبریل نے بھی اتنا ہی مختصر جواب دیا۔ وہ بات کرتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئے… ایرک اسی طرح جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اندر آگیا۔
’’تم نے ٹیسٹ کی تیاری کرلی؟‘‘ عنایہ اس سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’نہیں۔‘‘ وہ چلتے ہوئے لاوؑنج میں آگیا۔ ٹی وی پر وہ اب ایک بار پھر اسی پروگرام کی لائیو کوریج دیکھ رہ تھا۔ ’’کیوں؟‘‘
’’بس ایسے ہی…؟‘‘ اس نے عنایہ کی طرف دیکھے بغیر ٹی وی اسکرین کو دیکھتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ عنایہ نے اسے اسی طرح کھڑے دیکھ کر کہا۔ جبریل تب تک لاوؑنج کے ایک طرف موجود کچن ایریا میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا۔
’’ایرک! تمہاری ممی کو پتا ہے کہ تم یہاں ہو؟‘‘ جبریل کو فریج میں سے دودھ نکالتے ہوئے اچانک خیال آیا۔
’’میرا خیال ہے۔‘‘ ایرک نے جواباً کان سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا۔ ’’انہیں نہیں پتا؟‘‘
جبریل دودھ کی بوتل کاوؑنٹر پر رکھتے ہوئے ٹھٹکا۔ اسے پچھلے ہفتے کا خیال آیا تھا جب ایرک کی ممی اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آئی تھیں اور انہوں نے شکایت کی تھی کہ وہ بتائے بغیر گھر سے نکلا تھا اور وہ اتفاقاً اسے ڈھونڈنے لگیں تو انہیں پتا چلا وہ گھر پر تھا ہی نہیں۔ تب ہی وہ ان لوگوں کے گھر آئی تھیں کیوں کہ انہیں پتا تھا وہ انہیں کہیں اور نہیں تو وہاں مل جائے گا۔
’’ممی گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ ایرک نے جبریل کے تنبیہی انداز کو بھانپ لیا تھا۔
’’کہاں گئی ہیں؟‘‘ جبریل کبھی اتنی پوچھ گچھ نہ کرتا اگر یہ ایرک نہ ہوتا تو… کہیں نہ کہیں ان سب کو پتا تھا کہ وہ بعض دفعہ ان سے جھوٹ بولتا تھا اور بڑے اطمینان سے بولتا تھا اور یہ عادت اسے پہلے نہیں تھی… ایک سال پہلے جب اس کا باپ زندہ تھا۔
’’کسی دوست کے پاس گئی ہیں… سبل اور مارک بھی ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ اس نے جبریل کو بتایا۔
ٹی وی پر اب کوریج ختم ہوکر کریڈٹس چل رہے تھے۔
’’تم ساتھ نہیں گئے؟‘‘ عنایہ نے اس سے پوچھا۔
’’مجھے ٹیسٹ کی تیاری کرنی تھی۔‘‘ اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔ عنایہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ اب ریموٹ ہاتھ میں لئے اس کا معائنہ اس طرح کرنے اور اس کے بٹنوں کو چھونے میں مصروف تھا جیسے زندگی میں پہلی بار ریموٹ دیکھا ہو… عنایہ کی طرف متوجہ نہ ہوتے ہوئے بھی اسے اندازہ تھا وہ اس کی بات پر اسے دیکھ رہی ہوگی۔
’’چلو پھر ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں۔‘‘ عنایہ نے جواباً سے کہا۔ اسے واقعی تشویش ہوئی تھی کہ ایرک نے ٹیسٹ کی تیاری نہیں کی تھی… اس کا مطلب تھا وہ ایک بار پھر ٹیسٹ میں برا اسکور لینے والا تھا۔
’’یہ سب واپس کب آئیں گے؟‘‘ ایرک نے اس کی آفر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بات بدلنے کی کوشش کی… ٹیسٹ کی تیاری اس کی زندگی کا مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی زندگی کے مسائل کچھ اور تھے۔
’’واپس آرہے ہوں گے۔‘‘ عنایہ نے اسے بتایا اور اسے دیکھنے لگی۔ اسے پتا تھا اب وہ بے مقصد، بے معنی سوال کرتا رہے گا تاکہ وہاں بیٹھا رہے تب تک، جب تک وہ وہاں سے بھی بے زار نہیں ہوجاتا… اسے ایرک پر ترس آیا تھا… پچھلے ایک سال سے ہمیشہ ہی آتا تھا… وہ پہلے ایسا نہیں تھا… اس کی کلاس کے سب سے بہترین اسٹوڈنٹس میں سے ایک تھا… ایک سال میں اوسط سے بھی کم ہوگیا تھا۔
’’تم اپنی ممی کے ساتھ نہیں گئے؟‘‘ عنایہ نے ا س سے کہا… اس نے ایک لمحہ قبل جبریل کی ملک شیک کی آفر رد کی تھی۔
’’ہاں میں جاسکتا تھا، لیکن میں نہیں گیا… میں کوئی گیم کھیل سکتا ہوں؟‘‘ اس نے ایک ہی جملے میں جواب اور سوال کیا۔ عنایہ ہچکچائی۔
’’نہیں۔‘‘ عنایہ کے بجائے جبریل نے جواب دیتے ہوئے اس کے ہاتھ سے ریموٹ لے لیا تھا۔
’’اس وقت ہمارے گھر میں کوئی گیمز نہیں کھیلتا… کافی دیر ہوچکی ہے۔‘‘
جبریل نے اس کے قریب صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسے اپنے گھر کے قوانین نرمی سے بتائے۔ وہ روز گیمز نہیں کھیل سکتے تھے… وہ رات کو بھی گیمز نہیں کھیل سکتے تھے… عام طور پر وہ اس وقت تک ڈنر کرچکے ہوتے، لیکن آج حمین کے اس مقابلے میں شرکت کی وجہ سے ڈنر لیٹ ہوگیا تھا۔
’’لیکن میں تو ایک آؤٹ سائڈر ہوں… اور مہمان بھی۔‘‘ ایرک نے چند لمحے سوچنے کے بعد جبریل سے کہا، جواب ٹی وی پر سی این این لگا کر بیٹھا تھا۔
’’نہیں تم باہر کے نہیں ہو۔‘‘ جبریل نے جواباً اسے کہا۔ ایرک بول نہیں سکا۔ وہ جیسے ان سے یہی سننا چاہتا تھا۔
’’میں ڈنر ٹیبل سیٹ کردوں… سب آنے والے ہوں گے۔‘‘ عنایہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ اب لاؤنج میں ہی ایک حصے میں لگی ہوئی ڈائننگ ٹیبل پر میٹس اور پلیٹیں رکھنے لگی… ایرک کچھ دیر وقفے وقفے سے اسے اور جبریل کو دیکھتا رہا پھر جیسے اسے وہاں اپنی موجودگی بے مقصد نظر آئی تھی۔ جبریل نیوز بلیٹن میں محو تھا… عنایہ ٹیبل سیٹ کرنے میں… ایرک پھر بھی وہاں سے جانے پر تیار نہیں تھا۔ اس گھر میں زندگی تھی… سکون… جواب اس کے گھر میں نہیں تھا۔
کچھ دیر بے مقصد سی این این دیکھتے ہوئے وہ اٹھ کر عنایہ کے پاس آگیا اور کچھ کہے بغیر خود ہی ٹیبل سیٹ کرنے میں اس کی مدد کرنے لگا… آٹھ کرسیوں والی ٹیبل پر عنایہ نے سات میٹس لگائے تھے اور ایرک نے یہ نوٹس کیا تھا۔ اس نے جیسے کہے بغیر یہ جان لیا تھا کہ وہ وہاں سے کھانا کھا کر جائے گا۔ وہ اکثر ان کے گھر کھانا کھا لیتا تھا… پاکستانی کھانا بھی… صرف تازہ کھانے کی خواہش میں… کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی ضرورت کے تحت… اس کے اپنے گھر میں کیرولین کھانا ویک اینڈ پر بناکر فریز کیا کرتی تھی۔ پھر وہ پورا ویک وہی کھانا بار بار گرم ہوکر کھایا جاتا… ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ایک سال سے ہوگیا تھا، جب سے اس کا باپ ایک حادثے میں ہلاک ہوا تھا۔
کیرولین وکیل تھی، ایک نامور اور بے حد مصروف وکیل۔ تین بچوں کی باپ کے بغیر اکیلے دیکھ بھال کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کیرئیر کو بھی سنبھالنا اسے بہت مشکل لگنے لگا تھا۔ وہ نہ جاب بدل سکتی تھی نہ ہی اپنے کیرئیر کے اس اسٹیج پر اپنا پروفیشن… گھر میں رہنے والی ماں بننا اس کی خواہشات میں سے تھا بھی نہیں۔ شوہر کی حادثاتی موت ایک صدمہ تھی… وہ اور جیمز پندرہ سال سے اکٹھے تھے اور ایک مثالی جوڑا تھے… پندرہ سال کی رفاقت کے بعد اچانک ایک دن پھر اکیلے ہوجانا تکلیف دہ تھا، لیکن مستقبل کا عدم تحفظ ایک اور مسئلہ تھا۔ وہ مشرقی عورت نہیں تھی کہ صرف بچوں کو اپنا ساتھی اور زندگی کا مقصد سمجھتے ہوئے صرف انہیں کافی سمجھتی اور ان ہی کے سارے اپنی زندگی گزار لیتی۔ اسے اپنی زندگی میں کسی ساتھی کی تلاش اور ضرورت بھی تھی جو جیمز کے کارکریش کے چھ ماہ بعد ایک کولیک کی شکل میں مل گیا تھا۔
زندگی بالکل نارمل نہیں ہوئی، لیکن کچھ بہتر ہونے لگی تھی… کم از کم کیرولین کے لئے… اس کے دونوں جڑواں بچے چھ سال کے تھے… اور ایرک دس سال کا تھا جب کار کے حادثے میں جیمز کی موت واقع ہوئی تھی… سبل اور مارک سنبھل گئے تھے… وہ ابھی چھوٹے تھے اور جیمزکے ساتھ ان کی وابستگی ویسی نہیں تھی جیسی ایرک کی تھی… وہ باپ کے ساتھ حد سے زیادہ اٹیچڈ تھا۔
وہ لوگ جس suburb میں رہ رہے تھے وہاں پندرہ بیس گھروں میں رہنے والے سارے ہی لوگ پروفیشنلز اور اعلیٰ قابلیت کے حامل تھے۔ کچھ دوسری قومیت سے تعلق رکھتے تھے جیسے سالار اور امامہ کا خاندان جو ایرک کے بالکل ساتھ والے گھر میں تھے۔ ان کا لان مشترکہ تھا۔ ایرک کی پیدائش سے بھی پہلے سے جیمز نے وہ گھر قسطوں پر… لیا تھا لیکن سالار اور اس کا خاندان تقریباً ڈھائی سال پہلے وہاں آکر رہنا شروع ہوا تھا۔ سالار اور جیمز کسی فنانشل فرم میں کچھ عرصہ کام کرچکے تھے اور ایک دوسرے کو بہت عرصے سے جانتے تھے۔ دونوں خاندانوں میں میل ملاپ بڑھنے کی وجہ، سالار کے بچوں کا اسی اسکول میں ایڈمیشن تھا، جہاں ایرک تھا۔ عنایہ، ایرک کی کلاس میں تھی۔ یہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی دوستی کا آغاز تھا۔ اگر اسے دوستی کہا جاسکتا تو… عنایہ بہت الگ تھلگ رہنے والی بچی تھی۔ وہ بہت نرم خو اور شائستہ تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سوچ سنبھل کر بات کرنے والی…




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!