آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

’’اب میرا نام ایرک نہیں عبداللہ ہے۔‘‘ ایرک نے اپنا جملہ اسی سنجیدگی سے دہرایا تھا۔
’’کس نے بدلا ہے تمہارا نام؟‘‘ عنایہ بھی ماں کی طرح دنگ تھی۔
’’میں نے خود۔‘‘ ایرک نے فخریہ انداز میں خالی کین ڈسٹ بین میں پھینکتے ہوئے کہا۔
’’ایرک ایک بہت خوب صورت نام تھا۔‘‘ امامہ نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔ ’’کیوں عنایہ؟‘‘ اس نے روانی میں عنایہ سے پوچھا۔
’’عبداللہ زیادہ خوبصورت نام ہے ممی۔‘‘ عنایہ نے ماں کی تائید نہیں کی لیکن بڑے جتانے والے انداز میں بتایا کہ وہ ’’عبداللہ‘‘ سے کیا مفہوم لے رہی تھی… وہ اللہ کا نام تھا اور وہ امامہ سے ایرک کے سامنے یہ نہیں کہنا چاہتی تھی کہ اللہ کا نام سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔
سالار اور امامہ نے امریکہ میں اپنے بچوں کو مذہب سے ناآشنا نہیں رکھا تھا اور ماں باپ سے بڑھ کر یہ کام جبریل کرتا تھا جو ان تینوں کو قرآن کی بہت ساری باتیں بتاتا تھا لیکن اپنے مذہب سے مکمل طور پر واقف ہونے اور باعمل ہونے کے باوجود ان دونوں نے اپنے بچوں کو اس معاشرے میں رہتے ہوئے مذہبی مباحث میں حصہ لینے سے ہمیشہ باز رکھا تھا۔ وہ مسلمان کے طور پر واضح شناخت رکھنے کے باوجود کسی بھی طرح کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کی دل آزادی کا باعث نہیں بنتے تھے۔ اپنے مذہب کو دوسروں کے لئے تکلیف پہنچانے کا ذریعہ بناکر۔
’’لیکن ایرک کو عبداللہ بننے کی ضرورت کس لئے؟‘‘ امامہ کو اس کی بات سمجھ میں آگئی تھی۔ ا س کے باوجود وہ ایرک سے کہے بغیر نہ رہ سکی۔ وہ جس موضوع سے بچنا چاہتی تھی۔ بات آج پھر وہیں آگئی تھی۔
’’کیوں ضرورت نہیں ہے؟‘‘ ایرک نے اسی انداز میں امامہ سے پوچھا۔ اس سوال کا جواب امامہ کے پاس نہیں تھا۔
’’تمہاری ممی کو پتا ہے کہ تم نے نام بدل لیا؟‘‘ عنایہ نے ماں کی مشکل سوال بدل کر آسان کی تھی۔
’’ابھی نہیں پتا، لیکن میں بتادوں گا۔‘‘ ایرک نے اسی سہولت سے کہا۔
’’اور یہ نام تم نے رکھا کیسے ہے؟‘‘ امامہ پوچھے بغیرہ نہ رہ سکی۔
’’انٹر نیٹ سے ڈھونڈا ہے۔‘‘ ایرک نے اطمینان سے کہا۔
’’اس کا مطلب جانتے ہو؟‘‘ امامہ نے اگلا سوال کیا۔
’’ہاں… اللہ کا بندہ۔‘‘ اس نے امامہ کو ایک بار پھر لاجواب کیا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ سب اب مجھے عبداللہ کہا کریں۔‘‘ ایرک نے اگلامطالبہ کیا۔
’’اس سے کیا ہوگا؟‘‘ اس بار وہ امامہ کے سوال پر خاموش رہ گیا تھا۔ واقعی اس سے کیا ہوسکتا تھا۔
وہ کچھ دیر ایسے ہی کھڑا رہا۔ پھر کچھ کہے بغیر خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ امامہ کو عجیب سا قلق ہوا… وہ کھڑکی کی طرف گئی اور باہر جھانکا۔ اس کا خیال تھا وہ ایک بار پھر کیکڑا بن کر فٹ پاتھ پر پھر رہا ہوگا لیکن وہ باہر نہیں تھا۔
’’عبداللہ برا نہیں ہے۔‘‘ وہ عنایہ کی آواز پر کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔ وہ ایک بار پھر ہوور چلانے کے لئے تیار تھی لیکن وہ اب اداس تھی۔
’’عنایہ! وہ ایرک ہے۔ صرف نام بدل لینے سے وہ عبداللہ نہیں ہوسکتا بیٹا۔‘‘ امامہ نے کہنا ضروری سمجھا تھا لیکن یہ جملہ کہتے ہوئے اسے اپنی آواز کی باز گشت نے عجیب انداز میں ہولایا تھا۔ عنایہ خاموش رہی تھی۔
٭…٭…٭




سالار نے اس فائل میں لگے کاغذات کو باری باری دیکھا… آخری کاغذ فائل میں رکھنے کے بعد اس نے سامنے بیٹھے حمین کو دیکھا۔ فائل بند کی اور اسے واپس تھمادی
’’تو اس سارے تجربے سے تم نے کیا سیکھا؟‘‘
’’بہت ساری باتیں۔‘‘ حمین نے گہرا سانس لے کر کہا۔ سالار نے اپنی ہنسی بے اختیار چھپائی۔
’’صرف دو باتیں بتادو۔‘‘
’’بچے اچھے کلائنٹس نہیں ہوتے۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
’’اور؟‘‘ سالار نے پوچھا۔
’’بزنس آسان نہیں ہے۔‘‘ ا س نے چند لمحے خاموش رہ کر سالار سے کہا۔
’’درست۔‘‘ سالار نے تائید کی پھر اس سے کہا۔ ’’ہر وہ چیز جو اچھی لگے اور دوسرے کی ملکیت ہو، ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہوسکتی، نہ ہی ہماری موسٹ فیورٹ چیز ہوسکتی ہے۔‘‘
سالار نے اس کے بزنس سلوگن کو جان بوجھ کر دہرایا جو اس نے اس کے کانٹریکٹ میں پڑھا تھا۔ ’’اپنی پسندیدہ چیز حاصل کریں!‘‘ ایک لمحے کے لئے اس سلوگن نے اسے چکرا کر ہی رکھ دیا تھا۔ وہ اس کی اولاد کا بزنس سلوگن کیسے ہوسکتا تھا اور وہ بھی نو سال کی عمر میں۔
’’ہماری موسٹ فیورٹ چیز وہی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے جو ہمارے پاس ہے، کسی دوسرے کی موسٹ فیورٹ چیز چھیننے کا ہمیں حق نہیں ہے۔‘‘ وہ اپنے نو سالہ بیٹے کو بزنس کے گر بتانے میں اخلاقیات کا درس دینے کی کوشش کررہا تھا۔ پتا نہیں صحیح کررہا تھا یا غلط، مگر سالار سکندر باپ تھا وہ اپنے نو سالہ بیٹے کو یہ نہیں سکھا سکتا تھا کہ بزنس میں کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ صرف پیسہ ہوتا ہے… یا نہیں ہوتا… باقی ہر چیز سیکنڈری تھی۔
’’تمہیں پتا ہے، انسان کے پاس سب سے طاقت ور چیز کیا ہے؟‘‘ اس نے حمین سے پوچھا۔
’’کیا؟‘‘ حمین نے کہا۔
’’عقل… اگر اس کا صحیح استعمال کرنا آتا ہو تو۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’اور تمہیں پتا ہے انسان کے پاس سب سے خطرناک چیز کیا ہے؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔
’’کیا؟‘‘ حمین نے پھر اسی انداز میں کہا۔
’’عقل! اگر… اس کا صحیح استعمال نہ آتا ہو تو یہ صرف دوسروں کو نہیں خود آپ کو بھی تباہ کرسکتی ہے۔‘‘
حمین جانتا تھا، سالار کس کی عقل کی بات کررہا تھا۔ وہ اس کی ہی بات کررہا تھا۔
وہ دنیا کے دو ذہین ترین دماغ تھے، صرف باپ بیٹا نہیں تھے… پینتالیس سال کی عمر میں وہ ایک سود سے پاک اسلامی مالیاتی نظام کا ڈھانچہ کھڑا کرچکا تھا۔ اب اس ڈھانچے کی بنیادیں مضبوط کرنے کے بعد اس کی عمارت کھڑی کررہا تھا۔ وہ رسک لیتا تھا، چیلنج قبول کرتا تھا۔ نئے راستے ڈھونڈنا اور بنانا جانتا تھا۔
برین ٹیومر سے لڑتے ہوئے بھی وہ اپنی زندگی کے ایک ایک دن کو بامقصد گزار رہاتھا۔ ایک دنیا اس کے نام سے واقف تھی۔ ایک دنیا اسے مانتی تھی۔ وہ جس فورم پر بات کرنے کھڑا ہوتا… فنانس کی دنیا کے گرو اس کو خاموشی اور توجہ سے سنتے تھے… وہ زندگی میں کوئی اور بڑے معرکے نہ بھی مارتا تو بھی سالار سکندر فنانس کی دنیا میں لی جنڈری حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
حمین سکندر ایک نو سال کا بچہ تھا جس کا پہلا بزنس کسی انویسٹمنٹ کے بغیر صرف inter personal skills سے شروع ہوا تھا اور کامیابی سے فراٹے بھرنے کے بعد تین مہینے کے اندر بری طرح نہ صرف ڈوبا تھا بلکہ ساتھ ہی اسکول میں اس کی ساکھ کو بھی لے ڈوبا تھا۔ اس نے اپنے پاس بقیہ رہ جانے والے 175 ڈالرز کی ایک پائی واپس کردی تھی… ہر ایک سے نہ صرف زبانی طور پر معذرت کی تھی بلکہ ہر ایک کو ایک معذرت کا خط بھی لکھا تھا جو ا س نے خود ڈرافٹ کیا تھا۔ یہ حمین سکندر کی زندگی کے سب سے شرمندہ کرنے والے لمحات تھے… وہ کچھ دنوں پہلے کے قومی سطح پر ملنے والے اسٹار ڈم کو گھنٹوں میں کھو چکا تھا لیکن اس سارے تجربے نے حمین سکندر کو پہلی بار کچھ سنجیدہ کیا تھا۔ کچھ سوچنے پر مجبور کیا تھا۔
اس نے اس رات ایک بات اپنے باپ کو نہیں بتائی تھی اور وہ یہ تھی کہ اسے زندگی میں بزنس ہی کرنا تھا۔ اپنے باپ سے زیادہ بڑا اور کامیاب نام بننا تھا۔ اسے دنیا کا امیر ترین آدمی بننا تھا… حمین سکندر نے یہ خواب جاگتی آنکھوں سے اپنے کلاس فیلوز کو ان کی رقم واپس کرتے ہوئے دیکھا تھا جس کی تعبیر اسے کیسے حاصل کرنی تھی یہ اسے ابھی سوچنا تھا۔
٭…٭…٭
’’ممی! میں قرآن پاک پڑھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈنر ٹیبل پر اس رات ایرک اپنی فیملی کے ساتھ کئی دنوں بعد ساتھ بیٹھا تھا۔ کیرولین کا بوائے فرینڈ بھی وہیں تھا جب کھانے کے درمیان ایرک نے کیرولین سے یہ بات کہی تھی۔
’’وہ کیا ہے؟‘‘ ایک لمحہ کے لئے کیرولین کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کس چیز کو پڑھنے کی خواہش کا اظہار کررہا ہے۔
’’Muslims‘‘ کی Book’ ’Holy‘ … جو عنایہ کی فیملی پڑھتی ہے۔‘‘ اس نے ماں کو وضاحت دی۔
کیرولین کے پارٹنر رالف نے کھانا کھاتے ہوئے رک کر ان دونوں کو دیکھا تھا۔ وہ تقریباً پچھلے تین مہینے سے اب اسی گھر میں کیرولین کے ساتھ ایک Live in ریلیشن شپ میں تھا۔ ایرک اسے پسند نہیں کرتا تھا، وہ اچھی طرح جانتا تھا لیکن ایرک نے کبھی اس سے بدتمیزی بھی نہیں کی تھی۔ ان دونوں کا تعلق بے حد رسمی سا تھا مگر اتنے عرصے میں یہ پہلی بار تھا کہ وہ ایرک کی کسی بات پر تبصرہ کرنا چاہتا تھا لیکن کچھ جھجک رہا تھا۔ وہ ایرک کے دل میں اپنے لئے ناپسندیدگی میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’تم ٹرانسلیشن پڑھنا چاہتے ہو؟‘‘ کیرولین نے کہا۔
’’نہیں، میں عربی پڑھنا چاہتا ہوں جیسے وہ پڑھتے ہیں۔‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔
’’لیکن تمہیں عربی نہیں آتی۔‘‘ کیرولین بھی اس بے حد سنجیدہ تھی۔ یہ ایک عجیب فرمائش تھی۔
’’ہاں لیکن جبریل مجھے سکھا دے گا… اس کو آتی ہے عربی!‘‘ ایرک نے ماں سے کہا۔
فوری طور پر کیرولین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ وہ ایک نئی زبان کا ذکر اس طرح کررہا تھا جیسے وہ دو دن میں اسے سیکھ لینے والا تھا۔
’’اس کی ضرورت کیا ہے؟‘‘ کیرولین کو خاموش دیکھ کر رالف بولے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ ’’یہ مسلمانوں کی ہولی بک ہے۔ تمہیں اس کو پڑھنے کے لئے ایک نئی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اس کی ٹرانس لیشن پڑھ سکتے ہو۔ اگر تمہیں ایک کتاب کے طور پر اسے پڑھنے میں دلچسپی ہے تو۔‘‘ رالف نے اپنے طرف سے بے حد مناسب مشورہ دیا تھا جو ایرک نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا تھا۔ اس نے رالف کی بات کا جواب دینے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔
’’ممی…؟‘‘ رالف کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس نے سوالیہ انداز میں کیرولین کی طرف دیکھا۔
وہ ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ اس کے اور ایرک کے تعلقات آج کل جس نوعیت کے رہ گئے تھے اس میں یہ بڑی بات تھی کہ وہ کسی کام کے لئے اس سے اجازت مانگ رہا تھا ورنہ وہ کوئی کام کرکے بھی اسے بتانے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔
’’تمہاری اسٹڈیز متاثر ہوں گی ایرک۔‘‘ کیرولین کو جو واحد مسئلہ تھا اس نے اس کا ذکر کیا۔
’’وہ متاثر نہیں ہوں گی… آئی پرامس۔‘‘ اس نے فوراً سے پیشتر ماں کو یقین دہانی کروائی۔ رالف کو عجیب سی ہتک کا احساس ہوا تھا۔ خود کو یوں نظر انداز کئے جانے پر، لیکن دوبارہ مداخلت کرنے کے بجائے کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے لیکن اگر تمہاری اسٹڈیز پر کوئی اثر پڑا تو میں تمہیں روک دوں گی۔‘‘
ایرک کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’اوکے!‘‘ اس نے جیسے ماں کو تسلی دینے والے اندازمیں کہا۔
’’تم کب جایا کرو گے جبریل کے پاس قرآن پاک پڑھنے؟‘‘ کیرولین نے پوچھا۔
’’ہفتے میں دو بار۔‘‘ ایرک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ جیسے مطمئن ہوئی۔
’’آپ جبریل کی ممی کو فون کرکے بتادیں کہ آپ نے مجھے اجازت دے دی ہے اور آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ ایرک نے کہا۔
کیرولین کو پلک جھپکتے میں سمجھ میں آگیا تھا کہ اس ساری اجازت کا اصل مقصد کیا تھا… رالف کے سامنے وہ ایرک سے یہ نہیں کہنا چاہتی تھی کہ وہ یقینا جبریل کے خاندان کی شرط کی وجہ سے اس سے اجازت لینا چاہ رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے، میں فون کردوں گی۔‘‘ کیرولین نے کہا۔ ایرک شکریہ ادا کرتے ہوئے کھانا ختم کرکے چلا گیا۔
’’تم بے وقوفی کررہی ہو۔‘‘ اس کے وہاں سے جاتے ہی رالف نے بے حد ناخوش انداز میں کیرولین سے کہا تھا۔
’’کیسی بے وقوفی؟‘‘ وہ سمجھتے ہوئے بھی نہ سمجھی تھی۔
’’تمہارا بیٹا پہلے ہی تمہارے لئے سر درد بنا ہوا ہے۔ وہ tempramental ہے اور تم اسے قرآن پاک اور عربی سیکھنے کے لئے بھیج رہی ہو تاکہ وہ انتہا پسند ہوجائے۔ وہ بھی ایک مسلمان خاندان کے پاس۔‘‘ کیرولین ہنس پڑی تھی۔
’’تم اس خاندان کو جانتے نہیں ہو رالف! میں ساڑھے تین سال سے جانتی ہوں۔ Neighbours ہیں ہمارے۔ جیمز کی موت کے بعد انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا تھا۔‘‘ کیرولین کہہ رہی تھی۔ ’’میں مارک اور سبل کو اکثر ان لوگوں کے پاس چھوڑ کر جاتی تھی۔ وہ ایرک کو کچھ برا نہیں سکھائیں گے… سکھانا ہوتا تو وہ اسے میری اجازت کے بغیر بھی سکھانا شروع کردیتے۔ مجھے کیسے پتا چلتا۔ کم از کم ایرک ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی بھی کام مجھ سے پوچھے بغیر کرنے کا تصور بھی نہ کرسکے۔‘‘
’’تم پھر بھی سوچ لو… میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ایک ڈسٹربڈ بچے کو قرآن پاک پڑھانا… وہ اگر مسلمانوں ہی کی طرحviolent ہوگیا تو…؟‘‘ رالف کے اپنے ہی خدشات تھے جنہیں کیرولین نے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔
’’مجھے پتا ہے ایرک کے مزاج کا… اسے کسی چیز کا شوق پیدا ہوتو بس شوق نہیں جنون سوار ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ سب زیادہ دن نہیں چلتا… وہ بڑی جلدی بور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یہ تو ایک دوسری زبان سیکھنا ہے۔ تم دیکھ لینا، ایک دو ہفتوں کے بعد خود ہی چھوڑ دے گا وہ۔‘‘
کیرولین نے بے حد مطمئن انداز میں رالف کے خدشات ختم کرنے کی کوشش کی اور جو اس نے کہا تھا اسے اس پر یقین تھا مگر وہ پھر بھی خوش اس لئے تھی کہ کئی ہفتوں کے بعد اس کے اور ایرک کے درمیان باہمی رضا مندی سے ایک بات ہوئی تھی۔
ایرک اس اجازت کے اگلے ہی دن دوبارہ امامہ اور سالار کے گھر پہنچ گیا تھا۔ جبریل کے پاس قرآن پاک کا آغاز کرنے۔
وہ ایک دن پہلے بھی اسی طرح جبریل کے پاس گیا تھا۔ وہ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کررہاتھا۔ ایرک اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا تھا اور پھر اتنی دیر اس کے پاس بیٹھا رہا کہ جبریل کو بالآخر تلاوت ختم کرکے اس سے پوچھنا پڑا تھا کہ وہ وہاں کسی کام سے تو نہیں آیا؟
’’میں بھی ایسے قرآن پاک پڑھنا، سیکھنا چاہتا ہوں جیسے تم پڑھ رہے ہو۔‘‘ اس نے جبریل کو جواب دیا تھا۔ وہ اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا۔ اسے اس کا مطالبہ عجیب لگا تھا۔
’’میری تو یہ مذہبی کتاب ہے، اس لئے پڑھ رہا ہوں میں۔‘‘ اس نے ایرک کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ’’تم پڑھ کر کیا کروگے؟‘‘
’’مجھے دلچسپی ہے جاننے میں اور مجھے اچھا لگتا ہے جب تم تلاوت کرتے ہو تو۔‘‘ ایرک نے جواباً کہا۔
’’تم انٹر نیٹ پر ٹرانسلیشن پڑھ سکتے ہو یا میں تمہیں دے دوں گا ایک انگلش ٹرانسلیشن… اور تمہیں تلاوت اچھی لگتی ہے تو تم وہ بھی وہاں سے ڈاؤن لوڈ کرکے سن سکتے ہو… تمہیں اس کے لئے قرآن پاک کی تلاوت سیکھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ جبریل نے نرمی سے جیسے اسے راستہ سمجھایا تھا۔
’’لیکن میں ٹرانسلیشن نہیں پڑھنا چاہتا اور میں تلاوت سننا نہیں خود کرنا چاہتا ہوں جیسے تم کرتے ہو۔‘‘ ایرک اب بھی مصر تھا۔
’’یہ بہت لمبا کام ہے ایرک! ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔‘‘ جبریل نے اسے ٹالنے کی کوشش کی… وہ نہ ٹلا۔
’’کتنا لمباکام ہے؟‘‘ ایرک نے پوچھا۔
’’تمہیں تو کئی سال لگ جائیں گے۔‘‘
’’اوہ! تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے پاس بہت وقت ہے۔‘‘ ایرک نے بہت مطمئن ہوکر اس سے کہا تھا۔
جبریل عجیب مشکل میں پڑگیا تھا۔ ایرک کئی بار پڑھائی کے حوالے سے کوئی بات اس سے پوچھنے آجاتا تھا اور جبریل اسے سمجھا دیا کرتا تھا لیکن یہ ان کی مقدس کتاب کی بات تھی… ایک گیارہ سالہ عیسائی بچے کی فرمائش پر وہ بھی امریکہ میں بیٹھ کر بھی وہ سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کرکے مذہبی جوش و جذبات میں اسے قرآن پاک سکھانا شروع نہیں کرسکتے تھے۔
’’تم سب سے پہلے اپنی ممی سے پوچھو۔‘‘ جبریل نے بالآخر اس سے کہا۔
’’ممی کو کوئی ایشو نہیں ہوگا، مجھے پتا ہے۔‘‘ اس نے جبریل کو یقین دلانے کی کوشش کی۔
’’اگر ان کو ایشو نہیں ہوگا تو انہیں یہ بات مجھ سے یا ممی سے کہنی ہوگی۔‘‘ جبریل اس کی یقین دہانی سے متاثر ہوئے بغیر بولا تھا۔
’’میں اپنے لئے کچھ بھی فیصلہ کرسکتا ہوں۔ مجھے ہر کام ممی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ایرک نے اس سے کہا۔
’’تم ابھی چھوٹے ہو ایرک…! اور زیادہ سمجھدار بھی نہیں ہو۔ جب تک تم اٹھارہ سال کے نہیں ہوجاتے۔ تمہیں ہر کام اپنی ممی سے پوچھ کر ہی کرنا چاہیے۔ جیسے ہم لوگ اپنے پیرنٹس سے پوچھ کر کرتے ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔‘‘جبریل نے اسے سمجھایا تھا۔
وہ آدھا گھنٹہ اس سے بحث کرکے اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ اجازت لئے بغیربھی کوئی کام کرلینا غلط نہیں ہے لیکن جبریل قائل نہیں ہوا۔ بالآخر ایرک نے ہار مان لی تھی اور اگلے دن ماں کی اجازت کے ساتھ آنے کا کہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!