آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

’’تم مجھ پر ٹرسٹ کرسکتی ہو۔‘‘ سالار نے جیسے اسے تسلی دی۔
’’مجھے آپ پر ٹرسٹ ہے، لیکن میں حمین کو ہرٹ بھی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ اس نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔ ’’یہ اس کا سیکرٹ ہے اور یہ اچھی بات نہیں ہے کہ میں اس کا سیکرٹ کسی کو بتاؤں۔ شاید مجھے نہیں بتانا چاہیے۔‘‘
’’میں پوری طرح شیور نہیں ہوں۔ میں ابھی سوچ رہی ہوں۔‘‘ وہ اب سالار کے ساتھ چلتے ہوئے اس طرح بڑبڑا رہی تھی جیسے خود کلامی کررہی ہو۔ متذبذب ہو یا خود سے الجھ رہی ہو۔
سالار نے ساتھ چلتے ہوئے اسے بہ غور دیکھا۔ وہ کچھ بتانا چاہ رہی تھی لیکن وہ متذبذب بھی تھی۔ رئیسہ کا یہ مسئلہ تھا۔ فیصلہ نہ کرپانا… مگر اس وقت سالار اس کے اس مسئلے پر سوچ بچار کرنے کے بجائے صرف اس لئے حیران اور کسی حد تک فکر مند تھا کہ رئیسہ نے حمین کے بارے میں وہ جو بھی راز تھا، اسے اس میں شریک کرنے کا سوچا کیوں؟ کیا اسے یہ اندیشہ تھا کہ حمین کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یا پھر یہ پریشانی تھی کہ بعد میں پتا چلنے پرحمین سے وہ اور امامہ بہت ناراض ہوسکتے تھے۔
’’ایسی کیا بات ہے رئیسہ؟‘‘ سالار نے اسے نرم آواز میں بہلانے والے انداز میں کریدا۔ ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ حمین کیبارے میں جوبھی بات ہے، وہ ایک سیکرٹ ہی رہے گی… میں کسی کو اس کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔‘‘
اس نے رئیسہ سے کہا، مگر وہ متاثر نہیں ہوئی۔
’’بابا! آپ حمین سے بہت خفا ہوجائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔‘‘ اس بار رئیسہ نے اپنے خدشات کا اظہار کھل کر اس سے کیا۔ سالار کی چھٹی حس نے اسے سگنل دینا شروع کئے تھے۔
’’میں آپ کو ایک دو دن بعد بتاوؑں گی۔ میں ابھی اس پر سوچنا چاہتی ہوں۔‘‘ رئیسہ نے بالآخر اس سے کہا۔
’’رئیسہ! یہ اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ سالار نے اس بار سنجیدگی سے اسے گھر کا۔ ’’اگر حمین نے کچھ ایسا کیا ہے جو تمہیں لگتا ہے ہمیں پتا ہونا چاہیے تو تمہیں، ہمیں بتانا چاہیے۔ اس طرح کوئی بھی چیز چھپانا ٹھیک بات نہیں ہے۔‘‘
وہ اب واقعی سنجیدہ ہوگیا تھا۔ اگرچہ اسے یہ اندازہ تھا کہ حمین کوئی ایسی حرکت نہیں کرسکتا جس سے ان کو کوئی بڑی پریشانی لاحق ہوتی مگر رئیسہ کی یہ پردہ پوشی، اس وقت سالار کو بے حد بری لگی تھی۔
’’مجھے ایک دن دیں۔‘‘ رئیسہ نے اس لہجے میں جھلکتی خفگی کو محسوس کیا اور اسے منانے کی کوشش کی۔ میں آپ کو کل بتادوں گی۔ میں بس کچھ اور سوچنا چاہتی ہوں اس پر ۔‘‘
وہ بے اختیار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش زور زبردستی سے نہیں کی تھی۔ نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے انہیں کنٹرول کیا تھا۔ وہ اس وقت بھی زبردستی اس سے وہ بات اگلوانا نہیں چاہتا تھا۔ رئیسہ کو اگر یہ چیز الجھا رہی تھی کہ آیا جو وہ کرنے جارہی تھی وہ صحیح ہے یا غلط… تو سالار چاہتا تھا وہ یہ فیصلہ خود ہی کرے۔
’’ٹھیک ہے… ایک دن اور سوچ لو اور پھر مجھے بتاؤ۔‘‘ اس نے بات ختم کردی لیکن رئیسہ کے انکشاف سے پہلے ہی اسکول سے امامہ کو کال آگئی تھی۔ حمین کی ٹیچر اس کے کسی ’’اہم اور فوری‘‘ مسئلے پر ان سے ملاقات کرنا چاہتی تھی۔ ان دونوں نے اس کا ل کو زیادہ اہمیت نہ دی تھی، ان کا خیال تھا وہ پڑھائی سے متعلق کوئی مسئلہ ہوگا یا پھر کوئی چھوٹی موٹی بدتمیزی۔ حمین کے حوالے سے ایسی شکایات انہیں ہمیشہ ہی ملتی رہتی تھیں۔ وہ جبریل کی طرح نہیں تھا۔
لیکن اگلے دن اسکول میں انہیں حمین کے حوالے سے جو بتایا گیاتھا، اس نے کچھ دیر کے لئے ان کے ہوش و حواس ہی اڑادیئے تھے۔ وہ جونیئر ونگ میں ’’بزنس‘‘ کررہا تھا اور ایسی ہی ایک بزنس ڈیل کے نتیجے میں ایک بچہ اپنا ایک بے حد مہنگا گیم گنوانے کے بعد اپنے ماں باپ کو اس لین دین کی تفصیلات سے آگاہ کر بیٹھا تھا اور اس کا پتا ان والدین کی شکایت سے چلا تھا جس کے نتیجے میں اسکول نے تحقیقات کی تھیں اور حمین سکندر کو پہلا وارننگ لیٹر ایشو ہوا تھا۔ وہ اگر حمین سکندر جیسا اسٹار اسٹوڈنٹ نہ ہوتا تو اسکول کی انضباطی کارروائی کچھ اور زیادہ سخت ہوتی لیکن سالار اور امامہ کے لئے وہ وارننگ لیٹر بھی کافی تھا۔ ان کے چاروں بچوں میں سے کسی کو پہلی بار کوئی وارننگ لیٹر ملا تھا اور وہ بھی تب جب چند دن پہلے وہ اس اسکول میں ایک ہیرو کے درجے پر فائز تھا اور وہ ’’ہیرو‘‘ اس وقت ان کے پاس سرجھکائے بیٹھا تھا۔ سالار کا دماغ کچھ دیر کے لئے واقعی گھوم کررہ گیا تھا۔ اس کے حوالے سے متوقع خدشات میں یقینا وہ صورت حال نہیں تھی جو انہیں اس وقت درپیش تھی۔
اس ’’بزنس‘‘ کے آغاز کو بہت زیادہ تو نہیں گزرا تھا اور حمین سکندر نے رئیسہ کو پہلے دن سے اس بزنس کے حوالے سے بتا رکھا تھا… بزنس کا آغاز اتفاقی تھا… اس کی کلاس میں اس کا ایک کلاس فیلو ایسے جوگرز لے کر آیا تھا جنہیں دیکھ کر حمین سکندر مچل گیا تھا۔




امامہ نے ان برانڈ ڈ اسنیکرز کی خواہش کو رد کردیا تھا کیوں کہ چند ہفتے پہلے حمین نے نئے اسنیکرز لئے تھے اور جب تک وہ پرانے نہ ہوجاتے ایک اور جوڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حمین سکندر ہر روز اسپورٹس آورز میں اپنے اس کلاس فیلو کے اسنیکرز دیکھتا اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے سوچتا رہتا۔ اس نے ان اسنیکرز کو ’’بارٹرٹریڈ‘‘ کے ذریعے حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔
’’کوئی ایسی چیز جس کے بدلے میں وہ کلاس فیلو ان اسنیکرز کو حمین کو دے دیتا۔‘‘ اس کا وہ کلاس فیلو حمین سکندر کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑبڑاہی گیا تھا۔ ایسی پیش کش اور اس کے اسنیکرز کو ایسا خراج تحسین کسی نے پہلے کبھی پیش نہیں کیا تھا۔
اس نے کچھ تامل کے بعد حمین کو یہ بتایا تھا کہ وہ ایک اور کلاس فیلو کی گھڑی کو بہت پسند کرتا تھا اور اگر اسے وہ مل جاتی تو وہ اس کے بدلے وہ اسنیکرز دے سکتا تھا۔ جس کلاس فیلو کی گھڑی اس نے مانگی تھی، اسے اپنی کلاس کے ایک دوسرے کلاس فیلو کی سائیکل میں بے حد دلچسپی تھی اور اس سائیکل والے کو ایک اور کلاس فیلو کے بیگ میں… یہ سلسلہ چلتے چلتے حمین سکندر کے پاس موجود ایک کی بورڈ تک آیا تھا جو وہ کبھی کبھار اسکول لے جاکر بجاتا تھا اور حمین سکندر نے فوری طور پر اس کی بورڈ کے بدلے وہ اسنیکرز حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور پھر نہ صرف یہ فیصلہ کیا تھا بلکہ دوسرے دن اس کو عملی جامہ بھی پہنا دیا تھا… بزنس کا پہلا اصول موثر strategyاور دوسرا وقت پر صحیح استعمال۔
سالار سکندر کے منہ سے دن رات سننے والے الفاظ اس کے نو سالہ بیٹے نے کس مہارت سے استعمال کیا تھا، یہ اگر سالار سکندر دیکھ لیتا تو وہ اش اش کر اٹھتا۔
حمین سکندر کی کلاس کے بارہ افراد نے اگلے دن اسکول گراؤنڈ میں اپنی پسندیدہ ترین چیز کے حصول کے لئے اپنی کم فیورٹ چیزکا تبادلہ کیا تھا اور تبادلے کی اس چین کے ذریعے حمین سکندر وہ اسنیکرز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اس کا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا اور یہی حال ان دوسرے گیارہ بچوں کا بھی تھا جو خوشی اور بے یقینی کے عالم میں اپنی اپنی پسندیدہ ترین چیزکو دیکھ رہے تھے جو بے حد آسانی سے دوسروں سے ان کے پاس آگئی تھی۔
کلائنٹس کا اطمینان کاروبار کا تیسرا اصول تھا اور نو سال کی عمر میں سالار سکندر کے اس بیٹے نے یہ تینوں چیزیں مدنظر رکھی تھیں۔ وہ اس وقت گیارہ مسرور کسٹمرز کے درمیان راجہ اندر بنا کھڑا تھا جو سب اس کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے۔
اس دن حمین سکندر نے اسپورٹس آور میں ان نئے اسنیکرز کے ساتھ پریکٹس کی تھی اور سب سے پہلے جس نے اس کے وہ اسنیکرز دیکھے تھے وہ رئیسہ تھی، جسے اس نے پیٹر ٹاؤن سیڈ کے وہ اسنیکرز اس وقت بھی دکھائے تھے جب اس کا ان پر دل آگیا تھا اور جب اس نے گھر میں امامہ سے ان کی فرمائش کی تھی اور اس نے تب بھی ان اسنیکرز کے بارے میں بتایا تھا اسے جن کے حصول کے لئے وہ ایک ’’بزنس پلان‘‘ بنارہا تھا۔ اس کا وہ بزنس پلان سات سالہ رئیسہ کے سر کے اوپر سے گزرا تھا لیکن اسے اگر ایک واحد احساس ہوا تھا تو وہ یہ کہ کسی بھی دوسرے کی چیز کسی بھی طرح لینا شاید مناسب نہیں تھا لیکن حمین سکندر کے پاس اس کا جواب تھا اور صرف جواب نہیں، بے حدمطمئن کردینے والا جواب۔
اب چار دن کے بعد رئیسہ وہ اسنیکرز حمین کے پیروں میں دیکھ رہی تھی اور وہ اسے بے حد فاتحانہ انداز میں بتارہا تھا کہ اس نے یہ بارٹر ڈیل کن گیارہ کلاس فیلوز کے تعاون سے سرانجام دی۔
’’اور اگر ان میں سے کسی نے اپنی کوئی چیز واپس مان لی تو؟‘‘
رئیسہ نے اس کی ساری گفتگو سننے کے بعد اپنے ذہن میں ابھرنے والے پہلے خدشے کا اظہار اس سے کیا۔
’’ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ حمین نے بے حد پر اعتماد انداز میں کہا۔
’’کیوں؟‘‘ حمین نے اس کی ’’کیوں‘‘ کے جواب میں اپنی جیب سے ایک کانٹریکٹ نکال کر اسے دکھایا جس پر حمین سمیت بارہ لوگوں کے دستخط تھے اور اس کانٹریکٹ پر اس لین دین کے حوالے سے شرائط و ضوابط درج تھے جس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ایک دفعہ چیزوں کا تبادلہ ہونے کے بعد وہ واپس نہیں ہوسکتی تھیں۔
وہ رئیسہ کو ساری شرائط پڑھ کر سنارہا تھا جس کی بنیاد پر وہ بزنس ڈیل ہوئی تھی۔ رئیسہ خاموشی سے سنتی رہی پھر اس نے کہا۔
’’اگر بابا ممی نے تمہارے اسنیکرز دیکھ لئے تو؟‘‘
حمین نے اس کے سوال پر اپنا سرکھجاتے ہوئے کہا۔
“Now that’s a tricky part.”
وہ اپنا کانٹریکٹ تہہ کرتے ہوئے اپنا سر مسلسل کھجا رہا تھا۔ ’’میں ان کو یہ اسنیکرز نہیں دکھاؤں گا نہ ان کے سامنے پہنوں گا اور نہ ہی تم انہیں بتاؤگی۔‘‘
حمین نے سرکھجانا بند کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
’’ہم ان سے جھوٹ بولیں گے؟‘‘ رئیسہ کو یہ صورت حال کوئی اتنی مناسب نہیں لگی تھی۔
’’بالکل نہیں۔‘‘ حمین نے بے ساختہ کہا۔ ’’بھلا جھوٹ کیوں بولیں گے ہم… ہم بس انہیں بتائیں گے ہی نہیں۔‘‘ اس نے بات کو لپیٹا۔
’’کیوں؟‘‘ رئیسہ اب بھی مطمئن نہیںہوئی تھی۔ ’’پیرنٹس بہت سی باتوں کو نہیں سمجھتے۔‘‘ حمین نے جیسے کسی بزرگ کی طرح فلاسفی جھاڑی۔ ’’اس لئے انہیں سب کچھ بتانا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے بزنس کیا ہے۔ ہم سب نے اپنی مرضی سے ساری چیزوں کا ایکسچینج کیا ہے تو اگر ممی بابا کو پتا نہ بھی چلے تو بھی کوئی بات نہیں۔‘‘
حمین نے اس سے کہا تھا۔رئیسہ مطمئن ہوئی یا نہیں۔ وہ خاموش ہوگئی تھی۔ وہ حمین کا ’’راز‘‘ تھا اور وہ اسے کسی سے شیئر نہیں کرسکتی تھی۔
وہ بس پہلا اور آخری موقع تھا جب ان دونوں کے درمیان اس حوالے سے لمبی چوڑی بات چیت ہوئی تھی۔ رئیسہ کا خیال تھا، وہ بس پہلی اور آخری بزنس ڈیل تھی، جو حمین نے کی تھی اور وہ اس کے بعد ایسا کچھ کرنے والا نہیں تھا۔ حمین کا اپنا خیال بھی یہی تھا لیکن اس بزنس ڈیل کے صرف ایک ہفتے کے بعد ان گیارہ لوگوں میں سے ایک اور لڑکا اس کے پاس آن موجود ہوا تھا۔ اس بار اسے کلاس کے ہی ایک لڑکے کے گلاسز چاہیے تھے اور وہ حمین کے ذریعے یہ ڈیل کروانا چاہتا تھا اور اس ڈیل کے بدلے وہ حمین کو پانچ ڈالرز دینے پر تیار تھا۔ وہ رقم بڑی نہیں تھی لیکن حمین اس ترغیب کے سامنے ٹھہر نہیں سکا۔ ایک بار پھر اس نے ایک پوری بارٹر چین کے ذریعے وہ برانڈ ڈسن گلاسز اپنے کلائنٹ کو ڈیلیور کردیئے تھے اور پانچ ڈالرز کمالئے تھے۔ یہ اس کی زندگی کی پہلی کمائی تھی اور رئیسہ کو اس بارے میں بھی پتا تھا۔ وہ اس بار بھی خوش نہ تھی لیکن حمین کو اس بار بھی اس بزنس ڈیل کے نتیجے میں ہونے والی آمدنی کے حوالے سے کوئی شرمندگی نہیں تھی اور پھر یہ بزنس اس کی اپنی کلاس سے نکل کر اسکول میں پھیل گیا تھا۔ اسکول میں سب کو یہ پسند تھا۔ اسکول میں چند مہینوں میں سب کو یہ پتا تھا کہ اگر کسی کو اسکول میں کسی دوسرے بچے کی کوئی چیز پسند آجائے تو اس کے حصول کے لئے حمین سکندر واحد نام تھا جس کی خدمات وہ حاصل کرسکتے تھے۔ حمین سکندر کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے جارہا تھا، جب اسنیکرز کے ایک جوڑے کے لئے اس نے اس بزنس کا آغاز کیا تھا۔ تین ماہ کے عرصہ میں حمین نے اس بزنس سے تقریباً 175 ڈالرز کمالئے تھے اور یہ 175 ڈالرز ان چند اشیاء کے علاوہ تھے جو اس نے بارٹر چین کے دوران اپنے لئے حاصل کی تھیں اور رئیسہ اس کے ہر لین دین سے واقف بھی تھی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ زیادہ پریشان بھی ہورہی تھی۔
حمین سکندر کے پاس اب پیسے تھے جو اس نے ممی یا بابا سے نہیں لئے تھے اور حمین کے پاس اب کچھ ایسی چیزیں تھیں جو اس کی ملکیت نہیں تھیں۔ کسی اور کی تھیں، یہ اس کے لئے بہت پریشان کن بات تھی۔ حمین سکندر کی ساری توجیہات سننے کے باوجود رئیسہ مطمئن نہیں ہوئی تھی نہ وہ اس ’’بزنس‘‘ کو ہضم کر پارہی تھی جس کا پتا اس کے والدین کو نہیں تھا اور نہ ہی وہ حمین کے پاس آنے والی دوسری چیزوں کو… اور ایک مہنگے گیم کے تبادلے کے بعد پہلی بار رئیسہ نے فیصلہ کیا تھا کہ اسے اب اس بزنس کے بارے میں اپنے والدین کو بتادینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ حمین کسی مشکل کا شکار ہوجائے… لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
سالار اور امامہ نے اسکول میں حمین سے زیادہ بات چیت نہیں کی تھی۔ سالار نے اس سے کہا تھا وہ اس مسئلے پر گھر میں بات کریں گے اور پھر وہ چلے گئے تھے لیکن حمین پریشان ہوگیا تھا۔ وہ اور رئیسہ ایک اسکول میں تھے، جبریل اور عنایہ دوسرے میں۔ اس لئے یہ راز صرف رئیسہ تک ہی رہا تھا ورنہ اسکول کے کسی اور بچے کے ذریعے یہ بات جبریل یا عنایہ تک بھی پہنچ جاتی۔
چھٹی کے وقت حمین نے رئیسہ کو اس صورت حال سے آگاہ کردیا تھا جو اسے پیش آئی تھی۔ وہ بے حد پریشان ہوگئی تھی۔
’’وارننگ لیٹر؟‘‘ اسے جیسے یقین نہیں آتا تھا کہ حمین کے ساتھ یہ ہوسکتا تھا۔ ’’میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا تھا لیکن تم نے بات نہ مانی۔‘‘
’’مجھے توقع نہیں تھی کہ ایسا ہوجائے گا۔‘‘ وہ دونوں اسکول بس میں سوار ہونے کے بجائے اب اس مسئلے کو ڈسکس کرنے میں مصروف تھے۔
’’بابا اور ممی بہت خفا ہوئے ہوں گے؟‘‘ رئیسہ نے اس سے پوچھا۔ ’’تمہیں بہت ڈانٹا کیا؟‘‘
’’نہیں ، یہاں تو نہیں ڈانٹا لیکن گھر جاکر ڈانٹیں گے… بابا نے کہا تھا… انہیں مجھ سے ضروری باتیں کرنی ہیں گھر جاکر۔‘‘ حمین کچھ فکر مند انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’وہ تمہیں اسکول سے نکال دیں گے کیا؟‘‘ رئیسہ کو تشویش ہوئی۔
’’نہیں ایسا تو نہیں ہوگا بابا نے معذرت کی ان سے… اور وہ مان بھی گئے۔‘‘ حمین نے اسے بتایا۔
’’کتنی بری بات ہے۔‘‘ رئیسہ کو اور افسوس ہوا۔ ’’بابا کوکتنا برا لگا ہوگا… وہ بہت شرمندہ ہوگئے ہوں گے اور ممی بھی ہورہی ہوں گی۔‘‘
’’مجھے پتا ہے۔‘‘ حمین کچھ خجل تھا۔ اپنے ماں باپ کو اس طرح پریشان اس نے بھی پہلی بار ہی دیکھا تھا اور وہ بھی اسکول کی ایڈمنسٹریشن کے سامنے… وہ اس کے لئے بھی کچھ اچھا منظر نہیں تھا۔
’’تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا حمین۔‘‘




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!