آبِ حیات — قسط نمبر ۱۱ (ابداً ابدا)

عائشہ عابدین اپنے باپ کے انتقال کے سات ماہ بعد پیدا ہوئی تھی۔ تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی اور تینوں بہنوں کی عمر میں زیادہ وقفہ نہیں تھا۔ اس کے والدین نہ صرف خود ڈاکٹرز تھے، بلکہ ڈاکٹرز کے ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ عائشہ کی ماں نورین الٰہی نے اپنی بیٹی کو تھوڑے عرصے کے لئے پاکستان میں اپنی ماں کے پاس بھیج دیا تھا۔ وہ امریکہ میں میڈیسن جیسے پروفیشن سے منسلک ہوئے تھے۔ دو بیٹیوں کے ساتھ اس نوزائیدہ بچی کو شوہر کی اچانک موت کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں سنبھال نہیں سکتی تھیں۔ عائشہ اگلے پانچ سال پاکستان ہی میں رہی۔ حالانکہ نورین الٰہی اس کو سال چھ مہینے وہاں رکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن عائشہ کی نانی اور نانا کو اس سے اتنی انسیت ہوگئی تھی اور وہ بھی ان کے ساتھ اتنی خوش اور مطمئن تھی کہ نورین خیال آنے پر بھی اسے واپس نہیں لے جاسکیں۔ دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ امریکہ میں زندگی ایک آرتھوپیڈک سرجن کے طور پر ویسے ہی اتنی مشینی تھی۔ شوہر کی موت کے بعد کہ وہ چاہتیں بھی تو عائشہ کو اپنے ساتھ لے جانے پر بھی وہ اس کی پرورش کی ذمہ داری نہیں اٹھاسکتی تھیں۔
پانچ سال کے بعد بالآخر وہ عائشہ کو امریکہ اپنے پاس لے آئیں لیکن عائشہ کا وہاں دل نہ لگا۔ وہ اپنی دونوں بڑی بہنوں سے مانوس نہیں تھی۔ نورین الٰہی بہت مصروف تھیں اور عائشہ کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔ وہ دو سال کسی نہ کسی طرح وہاں گزارتی رہی لیکن سات سال کی عمر میں نورین کو ایک بار پھر… اس کی ضد پر اسے واپس پاکستان بھیجنا پڑا لیکن اس بار نورین کو اس کے رہن سہن کے حوالے سے فکر ہونے لگی تھی۔ وہ اور ان کی دونوں بیٹیاں اور آدھے سے زیادہ سسرال اور میکہ امریکہ میں مقیم تھے اور وہ عائشہ کو بھی مستقل طور پر امریکہ میں ہی رکھنا چاہتی تھیں، کیوں کہ پاکستان میں اب ان کے صرف والدین رہ گئے تھے جو پاکستان چھوڑ کر اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کے پاس امریکہ آنے پر تیار نہیں تھے۔
سات سال کی عمر میں اسے واپس پاکستان بھیجنے کے باوجود اس بار نورین اسے سال میں دو بار امریکہ بلاتی رہیں۔ ان کی کوشش تھی عائشہ اور اس کی بہنوں نریمان اور رائمہ میں لگاؤ پیدا ہوجائے۔ ان کی کوشش کامیاب ثابت ہوئی تھی۔ عائشہ اور اس کی دونوں بہنیں اب ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہونے لگی تھیں اور عائشہ کو اب امریکہ اتنا اجنبی نہیں لگتا تھا جتنا اس کو شروع میں لگتا تھا۔
دس سال کی عمر میں عائشہ ایک بار پھر امریکہ آئی تھی اور اس بار اسے وہاں رہنے میں پہلے جیسے مسئلے پیش نہیں آئے تھے لیکن اب ایک نیا مسئلہ پیش تھا۔ وہ اسکول میں جاکر پریشان ہونے لگی تھی۔ وہ پاکستان میں بھی کو ایجوکیشن میں پڑھتی رہی تھی، مگر وہاں اور یہاں کے ماحول میں فرق تھا۔ نورین اسکول کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔ یہ مسئلہ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں کو پیش نہیں آیا تھا۔ وہ عائشہ کی طرح کلاس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان نہیں ہوتی تھیں۔ نہ ہی برہم ہوتی تھیں۔ عائشہ کو اسکول اچھا نہیں لگتا تھا۔ نورین کے پاس ایک راستہ یہ تھا کہ وہ اسے وہاں کسی اسلامک اسکول بھیجیں، وہ اس راستے کو استعمال نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ اس عمر میں اسے اتنی بامنظم زندگی دینا نہیں چاہتی تھیں۔ ان کا خیال تھا وہ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد خود ہی ٹھیک ہونا شروع ہوجائے گی۔ ایک سال بعد بھی جب عائشہ بہتر ہونے کے بجائے زیادہ پریشان ہوناو شروع ہوئی اور اس کے گریڈ ز اور خراب ہونے لگے تو نورین کو اسے ایک بار پھر پاکستان بھیجنا پڑا تھا۔ وہ اب اسے او لیولرز کے بعد وہاں بلوانا چاہتی تھیں، کیوں کہ ان کا خیال تھا وہ اس وقت تک کچھ سمجھ دار ہوجائے گی اور وہاں چیزوں کو آسانی سے سمجھ سکے گی۔




تیرہ سال کی عمر میں عائشہ عابدین ایک بار پھر امریکہ رہنے کے لئے آئی تھی لیکن اس بار وہ وہاں اپنے لئے ایک نیا مسئلہ دیکھ رہی تھی، امریکہ اسے اسلامی ملک نہیں لگ رہا تھا۔ وہاں کی شخصی آزادی اس کے لئے پریشان کن تھی۔ وہاں لباس اور زبان کے معاملے میں روا رکھنے والی آزادی اسے ہولانے لگی تھی لیکن ان میں سب سے بڑا چیلنج اس کے لئے یہ تھا کہ وہ وہاں حجاب میں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی تھی جو اس نے پاکستان میں لینا شروع کیا تھا اور جس سے نورین خوش نہیں تھیں۔
اس بار نورین نے بالآخر گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ یہ مان لیا تھا کہ عائشہ کا امریکہ میں اب کوئی مستقبل نہیں تھا۔ وہ پاکستان میں ہی رہنا چاہتی تھی اور وہاں پیش آنے والے تمام چھوٹے بڑے مسائل کے ساتھ خوش تھی۔ انہوں نے عائشہ کو ایک بار پھر امریکہ سے واپس پاکستان بھیج دیا تھا۔ یہ عائشہ عابدین کا انتخاب تھا کہ اسے اپنی زندگی نانا، نانی کے طریقے سے ایک اسلامی ملک میں گزارنی ہے۔ ایک نو عمر کے طور پر امریکہ کی ترقی سے متاثر ہونے اور وہاں رہائش کا اختیار رکھنے کے باوجود عائشہ عابدین ایک پرسکون اچھی زندگی کا خواب لے کر ایک بار پھر پاکستان لوٹی تھی، جہاں وہ اپنے جیسے لوگوں کے درمیان زندگی گزارتی۔
عائشہ کے نانا، نانی نے اسے کانونٹ میں پڑھانے کے باوجود زیادہ بے باک اندازمیں اس کی پرورش نہیں کی تھی۔ عائشہ کو انہوں نے گھر میں ایک ایسے مولوی سے قرآن پاک پڑھایا تھا جو کم فہم رکھنے والا روایتی مولوی نہیں تھا۔ وہ ایک اچھے ادارے کے طلبا کو قرآن اور حدیث کی تربیت دیتا تھا۔ خود عائشہ کے نانا، نانی بھی دین اور دنیا کی بہت سمجھ رکھتے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ملنے جلنے کے شوقین اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ دینی اور اخلاقی قدروں کے حساب سے قدامت پسند تھے لیکن یہ قدامت پرستی دین کے ان معنوں میں نہیں تھی جو انہوں نے عائشہ کو دیا تھا۔
عائشہ عابدین ایک ایسے ماحول میں جہاں دین کی سمجھ بوجھ اور اس میں گہری دلچسپی کے ساتھ پیدا ہوئی تھی جہاں پر حرام اور حلال کی تلواروں سے ڈرانے کے بجائے دلیل اور منطق سے اچھائی اور برائی سمجھائی جاتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عائشہ اپنے مذہب سے بے حد جذباتی لگاؤ رکھتی تھی۔
وہ پانچ وقت نماز باقاعدگی سے پڑھتی تھی۔ حجاب بھی اوڑھتی تھی۔ روزے بھی رکھتی تھی۔ اپنے نانا، نانی کے ساتھ حج بھی کرچکی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فنون لطیفہ کی ہر صنف میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔ پینٹنگز بنالیتی تھی۔ اسکول میں پورے لباس کے ساتھ پیراکی کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتی تھی۔ ہر وہ کام کرلیتی تھی جس میں اسے دلچسپی ہوتی اور جس کی اسے اپنے نانا، نانی سے اجازت ملتی تھی۔
امریکی معاشرے کا حصہ نہ بننے کے باوجود نورین کو یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں تھا کہ ان کی بیٹی کی تربیت بہت اچھی ہوئی تھی اور اس کا سہرا اپنے والدین کو صرف وہ ہی نہیں دیتی تھیں، ان کے خاندان اور سسرال کے وہ سب لوگ دیتے تھے جو عائشہ سے کبھی مل چکے تھے۔
نورین نے اپنی بڑی دونوں بیٹیوں کو بھی بڑی توجہ اور محنت سے پالا تھا۔ انہوں نے انہیں امریکہ میں رہتے ہوئے اپنے کلچر اور مذہب سے جتنا قریب رکھنے کی کوشش کرسکتی تھیں اتنا رکھا تھا مگر ان کا زندگی گزارنے کا انداز بہت آزاد تھا اور نورین کو یہ اس لئے کبھی قابل اعتراض نہیں لگا تھا، کیوں کہ ان کی بیٹیاں حدود و قیود سے کبھی آگے نہیں بڑھیں جو ان کے لئے کبھی پریشانی کا باعث بنتی، سو ان کے اطمینان کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ صرف تعلیمی لحاظ سے بہت اچھی تھیں بلکہ امریکہ میں پلنے بڑھنے والی دوسری پاکستانی لڑکیوں کی نسبت ان کی زیادہ فرماں بردار اور پروا کرنے والی تھیں۔
لیکن انہیں ان دونوں میں اور عائشہ کی تربیت میں تب فرق سمجھ میں آتا جب عائشہ امریکا ان کے پاس رہنے کے لئے آتی یا وہ پاکستان رہنے آتیں۔
انہیں یہ احساس ہوتا کہ وہ ’’بیٹی‘‘ کی ماں ہیں۔ عائشہ کے آگے پیچھے پھرتی تھی۔ ان کے پاس بیٹھی رہتی۔ ان کی باتیں توجہ سے سنتی۔ ان کے لئے کھانے بناتی اور اس سب کے بدلے میں اسے نورین سے کچھ بھی نہیں چاہیے ہوتا تھا۔ وہ یہ سب عادتاً کرتی تھی اور یہ سب اس نے ان ہی والدین سے سیکھا تھا جو نورین کے ماں باپ تھے۔
نورین اپنے ماں باپ کی اس حوالے سے بے حد احسان مند اور ممنون تھیں کہ انہوں نے اس کی بیٹی کی صرف تربیت ہی اچھی نہیں کی تھی، بلکہ اسے بہت اچھے اداروں سے تعلیم دلوا رہے تھے کہ نورین کی خواہش تھی کہ عائشہ ڈاکٹر بنتی، کیوں کہ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں میں سے کسی کو میڈیسن میں دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ عائشہ کو بھی میڈیسن میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور شاید ماں کی خواہش نہ ہوتی تو وہ میڈیسن کے بجائے آرکیٹکٹ بننا چاہتی لیکن نورین کی خواہش کو مقدم سمجھتے ہوئے اس نے زندگی کے بہت سارے مقاصد بدل دیئے تھے۔ شاید کہیں وہ اپنی ماں کی وہ خفگی بھی دور کرنا چاہتی تھی جو بار بار امریکہ جاکر بھی وہاں ایڈجسٹ نہ ہونے اور پھر واپس آنے پر، وہ اپنی ماں کے دل میں پیدا کرتی رہی تھی۔
نورین اس لئے بھی اسے میڈیسن پڑھانا چاہتی تھیں، کیوں کہ ان کا خیال تھا اگر عائشہ کو دوبارہ کبھی امریکہ آنا پڑا تو اس کے پاس ایک اچھی پروفیشنل ڈگری ہوگی تو اسے نوکری کے مسئلے نہیں ہوں گے۔ میڈیکل پڑھانے کا وہ خواب جو نورین نے اس کے لئے دیکھا تھا وہ عائشہ عابدین کی زندگی کا سب سے بھیانک خواب ثابت ہوا تھا۔
٭…٭…٭
وہ اگلی صبح پھر ان کے دروازے پر کھڑا تھا۔ بچوں کو اسکول گئے ابھی صرف گھنٹہ ہی ہوا تھا اور امامہ نے لانڈری سے کپڑے نکال کر چند منٹ پہلے ڈرائیر میں ڈالے تھے۔ اسے آج گیراج صاف کرنا تھا اور بیل بجنے پر اس کے بارے میں سوچتے ہوئے نکلی تھی تو اس نے ایرک کو سامنے کھڑا پایا تھا۔
امامہ نے دروازہ کھول دیا تھا لیکن وہ دروازے سے ہٹی نہیں تھی۔ ایرک نے ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں سلام کیا تھا جو اس نے ان ہی سے سیکھا تھا۔ امامہ نے سلام کا جواب دیا لیکن وہ پھر بھی وہیں کھڑی رہی تھی۔ راستہ روکے اور اس پر نظریں جمائے۔
’’آپ اندر آنے کو نہیں کہیں گی؟‘‘ ایرک نے بالآخر کہا۔
’’تم اسکول نہیں گئے؟‘‘ امامہ نے اس کا سوال گول کرتے ہوئے جواباً اس سے پوچھا۔
’’نو… دراصل۔‘‘ ایرک نے چند لمحے کوئی جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی پھر وہی جواب دیا جو وہ سمجھ رہی تھی۔
’’کیوں؟‘‘
’’میری طبیعت خراب ہے۔‘‘ ایرک نے نظریں ملائے بغیر کہا۔
’’طبیعت کوکیا ہوا؟‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یک دم نرم پڑی۔
’’مجھے لگتا ہے، مجھے کینسر ہے۔‘‘ ایرک نے بے حد اطمینان کے ساتھ کہا۔
وہ کچھ لمحوں کے لئے ہکا بکا رہ گئی تھی۔
’’فار گاڈ سیک۔‘‘ اس نے بالآخر اپنے حواس پر قابو پایا۔ ’’جو بھی منہ میں آئے بول دیتے ہو۔ سوچتے نہیں کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔ ایسے ہوتا ہے کینسر۔‘‘
وہ اسے ڈانٹتی ہی چلی گئی۔ ایرک کو مایوسی ہوئی۔ اسے امامہ سے ہمدردی کی توقع تھی جو پہلے ملتی رہی تھی۔
’’آپ کو کیسے پتا مجھے کینسر نہیں ہے؟‘‘ اس نے بالآخر امامہ سے کہا۔
وہ اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی۔ اس کی شکل بے حد معصوم تھی۔ چاکلیٹ براؤن چمک دار ریشمی بال جو کنگھی کئے بغیر بکھرے ہوئے تھے اور اسی رنگ کی آنکھیں جو پہلے شرارت سے چمکتی رہتی تھیں۔ اب ان میں ایک الجھن بھری اداسی تھی۔
امامہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا تھا۔ جو اب دے سکتی تھی لیکن گیارہ سال کے اس بچے کوکیا جواب دیتی جو پہلے ہی زندگی کے سبق سیکھ نہیں پارہا تھا۔
خاموشی سے اس نے راستہ چھوڑا اور ایپرن کی ڈوریاں کمر کے گرد کستے ہوئے دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئی۔ ایرک نے اندر آتے ہوئے دروازہ بند کیا، کنڈی لگائی۔ یوں جیسے وہ اس کا اپنا گھر تھا، پھر وہ بھی لاؤنج میں آگیا تھا۔
امامہ کچن کاؤنٹر پر بیکنگ کا بہت سا سامان پھیلائے کھڑی تھی، وہ اپنے کام میں مصروف رہی، کاؤنٹر پر پڑے سیل فون سے کسی سورت کی تلاوت ہورہی تھی جو وہ کام کرتے ہوئے سن رہی تھی۔ ایرک نے بھی لاؤنج میں آکر کمرے میں بلند ہونے والی آیات کی آواز سنی۔ چند لمحوں کے لئے اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ کھڑا رہے۔ بیٹھ جائے۔ بات کرے۔ نہ کرے۔
اس نے جبریل کو کئی بار تلاوت کرتے سنا تھا اور وہ جب بھی تلاوت کررہا ہوتا، کوئی اور بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے آس پاس کوئی اور اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتا تھا۔ ایرک فیصلہ نہیں کر پایا کہ سیل فون پر چلنے والی تلاوت کے دوران سے کیا کرنا چاہیے۔ اس کی یہ مشکل امامہ نے آسان کی۔ اس نے سیل فون پر وہ تلاوت بند کردی۔
’’جبریل کی آواز ہے؟‘‘ ایرک نے جیسے تصدیق والے اندازمیں پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’بہت پیاری ہے۔‘‘
امامہ اس بار مسکرائی۔
’’میں بھی سیکھنا چاہتا ہوں یہ… قرآن۔‘‘ ایرک نے جیسے اس سنائی دینے والی چیز کے لئے بالآخر موزوں لفظ تلاش کیا۔ امامہ خاموش رہی۔
’’میں سیکھ سکتا ہوں کیا؟‘‘
اس نے امامہ کو خاموش پاکر سوال کیا۔ ایک اور عجیب سوال۔ امامہ نے سوچا کبھی کبھی اس کے سوال بھی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ اسے غلط فہمی تھی کہ اسے مشکل میں ڈالنے والے سارے سوال صرف حمین کے پاس ہی تھے۔
’’دلچسپی ہو تو سب کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔‘‘ اس نے اپنے جواب کو حتی المقدور مناسب کرکے پیش کیا۔
’آپ سکھا سکتی ہیں؟‘‘ اس کا اگلا سوال اس سے بھی زیادہ گھمادینے والا تھا۔
’’نہیں، میں نہیں سکھا سکتی۔‘‘ امامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ وہ مطلب سمجھا تھا، نیت نہیں۔
’’جبریل سکھا سکتا ہے؟‘‘ اس نے متبادل حل پیش کیا۔
’’وہ بہت مصروف ہے، اسے ہائی اسکول ختم کرنا ہے اس سال۔‘‘ امامہ نے جیسے بہانا پیش کیا۔
’’میں انتظار کرسکتا ہوں۔‘‘ ایرک کے پاس بھی متبادل حل تھا۔
امامہ نے اس بار اس گفتگو سے بچنے کے لئے ایک کیبنٹ کھول کر کچھ ڈھونڈنا شروع کیا، ایرک نے اس موضوع گفتگو میں اس کی عدم دلچسپی محسوس کرتے ہوئے موضوع بدلنے کی کوشش کا آغاز کیا۔
’’حمین اپنے بیڈروم میں کیوں نہیں لے گیا اسے؟‘‘ وہ اب لاؤنج کے درمیان رکھی میز پر پڑی حمین کی اسپیلنگ بی ٹرافی کی طرف متوجہ تھا۔ امامہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
’’آج اس کے کچھ دوست مدعو ہیں یہاں گھر پر۔ ان ہی کو دکھانے کے لئے رکھی ہے۔‘‘ اس نے انڈوں کی ٹوکری سے ایک انڈا نکالتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوہ! پارٹی ہے۔‘‘ ایرک نے خوشی کااظہار کیا۔ یا کم از کم خوش دکھائی دینے کی کوشش کی۔ ’’میں انوائیٹڈ ہوں کیا؟‘‘ اس نے اگلے جملے کو پھر سوال میں بدلا۔
وہ ایک پیالے میں انڈے توڑ کر ڈالتے ڈالتے رکی۔ ’’تم پہلے ہی یہاں ہو۔‘‘ خوش مزاجی سے کہے گئے اس جملے میں ایسا کچھ نہیں تھا جو ایرک کو برا لگتا لیکن اسے برا لگا تھا۔
’’آپ کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگتا؟‘‘ لاؤنج کے درمیان میں کھڑے کھڑے اس نے امامہ سے پوچھا۔
’’جھوٹ بول کر آنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس بار اس کے جواب نے چند لمحوں کے لئے ایک ایرک کو لاجواب کیا۔ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے امامہ کو دیکھا پھر اس ٹرافی کو جو درمیانی سینٹر پر پڑی تھی۔
اسے اندازہ تھا کہ وہ کس جھوٹ کا ذکر کررہی تھی اور اسے یہ بھی پتا تھا کل رات ہونے والے واقعہ کے بعد امامہ اس سے یہ ضرور کہتی۔ وہ اسے اچھی طرح جانتا تھا کم از کم اتنا تو۔ انڈے پھینٹتے ہوئے امامہ نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی۔ ریڈ ٹی شرٹ اور نیلی جینز کے ساتھ جو گرز پہنے بکھرے بالوں کے ساتھ سرجھکائے دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈالے ایک جوگر کی نوک سے فرش کو رگڑتے ہوئے، وہ پتا نہیں گہری سوچ میں تھا یا شرمندگی میں۔ امامہ کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔




Loading

Read Previous

فیصلے — نازیہ خان

Read Next

رشتے والی — قرۃ العین مقصود

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!