پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” سنو مرینہ !علی کی آواز سن کر مرینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ وہ اس سے ذرا فاصلے پر کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہاتھا ۔
” علی بھائی ! آپ ؟ یہاں؟” علی کی جانب چند قدم بڑھا کر اس نے سوال کیا ۔
” وہ ۔۔۔ میں ۔۔” وہ مناسب الفاظ میں اپنی مدعاکہہ دینا چاہتا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاگل سی لڑکی الفاظ کے استعمال میں اتنی ماہر نہیں، وہ جو بے دھڑک سب کچھ بول لیتی تھی ۔
” اچھا ۔ اچھا ۔ تو آپ عرینہ بجیاسے ملنے آئے ہیں ۔” اس کے لہجے میں شرارت تھی اور اس کے ہونٹوں پر پھیلی وہ مسکراہٹ ۔ وہ بنا کچھ بولے مسکرایا ۔” تم سمجھ دار ہو گئی ہو ۔ ان کے لہجے میں شرارت نمایاں تھی ۔
” وہ ابھی تک کالج سے باہر نہیں آئیں ۔ میں جا کر ان کو بلا کے لاتی ہوں ۔” اس نے جلد ی سے کہا اور کالج کے اندر چلی گئی ۔
” تو یہاں کیا کررہی ہے ؟ سامنے سے آتی عرینہ نے اس سے پوچھا ۔
” اے بجیا! بڑی دیر لگا دی ۔ ” مرینہ نے شکایت کی ۔
” پیاس لگی تھی ۔پانی پی رہی تھی ۔ ” عرینہ نے بے نیازی سے کہا ۔
” یہاں آپ اپنی پیاس بجھانے میں لگی ہیں اور وہاں کسی کی پیاس بڑھ رہی ہے ۔” اس کی آنکھوں میں شرارت تھی ۔
” کس کی ؟” عرینہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کیطرف دیکھا۔
” آپ کے عاشق مزاج منگیتر صاحب کی ۔ ” اس نے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے کہا ۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ۔
” کیا ؟” عرینہ کا منہ اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔





” ہاں۔ وہ دیکھیں۔” مرینہ کی نگاہوں کے تعاقب میں اپنی نگاہیں دوڑاتی عرینہ نے علی کو دیکھ لیا تھا ۔
” اجلی شلوار قمیص پہنے وہ اپنی جیپ کے سامنے کھڑا کسی سوچ میں گم تھا۔ ایک لمحے کو اس کے دل کی دھڑکن رکی اور پھر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔” آپ کا یہ مردانہ پن، آپ کیا یہ رعب اور آپ کا یہ الگ سا انداز ۔۔۔ مجھے آپ کی طرف کھینچتا جاتا ہے ۔” اس نے بڑے کُھلے انداز سے سوچاتھا ۔
” جائیں ۔ کافی دیر سے آپ کا انتظار کررہے ہیں ۔ ” مرینہ نے اس کا بازو پکر کر زور سے ہلایا تو وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی علی کی جانب بڑھ گئی اور مرینہ ، لیزا کے ہمراہ رکشے میں بیٹھ کر گھر چلی گئی ۔
” ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ جیپ میں بیٹھتے ہی عرینہ نے سوال کیا ۔
” اغوا کرنے نہیں آیا ۔ کہیں کھانا کھانے چلتے ہیں ۔” علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
” اماں ۔۔۔ ” عرینہ کے گلے میں جیسے اچانک کوئی چیز اٹک گئی تھی ۔وہ سخت گھبرارہی تھی اور اس کی اسی گھبراہٹ سے علی لطف اندوز ہو رہا تھا ۔فکر نہ کرو ۔ میں نے بندوبست کر دیا ہے ۔” علی کی اس بات سے اس کی گھبراہٹ میں تھوڑی کمی ہوئی تھی لیکن پھر بھی وہ مسلسل خاموش رہی ۔ ” میں نے شاید غلط سُناہے کہ تم بہت بولتی ہو ۔” وہ اس کو بولنے پر اُکسا رہا تھا ۔” میں موقع دیکھ کر بولتی ہوں ۔ اس نے دھیرے سے کہا تو علی کے ہونٹوں پر ایک دل کش مسکراہٹ چھا گئی ۔ ” یعنی میرے ساتھ تم موقع دیکھ کر بات کرو گی ؟وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا ۔ وہ جواباً خاموش رہی بلکہ اس کے بعد وہ زیاد ہ تر خاموش رہی تھی ۔ کھانے کے دوران بھی وہ مکمل خاموش تھی صرف ایک بار اس نے علی سے کہا تھا” دیر ہورہی ہے ۔ مجھے اپنے گھر چھوڑ دیں ۔ ” عرینہ کی اس بات پر وہ خاموشی سے اٹھ کر بل ادا کرنے گیا تھا اور واپس آ کر اس نے کہا تھا:” ہاں دیر تو ہورہی ہے ۔ اماں سے بات کرتا ہوں کہ تمہیں اپنے گھر چھوڑ آؤں ۔ مہینوں بعد کہیں جا کر تم سے ملنا۔۔۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ ” وہ سنجیدہ تھا۔ عرینہ نے علی کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ صرف حیرانی سے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور نگاہیں جھکا لیں ۔
وہ اس کو لیز ا کے گھر چھوڑ گیا تھا اور جاتے وقت وہ اس کو سونے کا ایک حسین لاکٹ دے گیا تھا۔” دل تو چاہتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے تمہیں پہنا دوں لیکن تمہاری گھبراہٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ خود کو باز رکھوں ۔” اور پھر وہ چلا گیا تھا ۔ عرینہ دل میں ایک حسین احساس لیے لیزا کے گھر گئی تھی ۔
٭…٭…٭
ملازمہ جب رات کے کھانے پر بلانے آئی تو اس نے بیالوجی کی کتاب بند کرکے سٹڈی ٹیبل پررکھ دی اور کمرے سے نکل آئی ۔ منزہ پہلے سے ہی باہر تھی ۔ڈائننگ روم کے اندر جا کر اس نے خاموشی سے ایک کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئی ۔
” تمہاری تیاری ہو گئی کل کیلئے ؟ امی نے اس کی پلیٹ میں بریانی ڈالتے ہوئے پوچھا۔
” جی ہو گئی ۔” اس نے مختصر سا جواب دیا اور کھاناکھانے لگی ۔
” کامل کیلئے گفٹ لیا تم نے ؟” امی نے ایک اور سوال کر ڈالا ۔
” Not yet…. کل ہو جائے گا۔ ” اس نے رائیتہ اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا تو ابو نے بے اختیار اس کے چہرے کو دیکھا ۔ وہ حد سے زیادہ سنجیدہ اور بے نیاز لگ رہی تھی ۔ان کی بے چینی مزید بڑھ گئی ۔
” پارٹی کس ٹائم ہے ؟” انہوں نے جان بوجھ کر ایک غیر ضروری سوال کیا جس کے جواب میں حمائل کافی دیر تک خاموش رہی ۔
” ایوننگ میں ۔” ان کی طرف دیکھنے کی زحمت کیے بغیر کہا اور جلدی جلدی کھانا کھانے لگی ۔ اور اسی لمحے انہیں اپنے سینے میں دل کہیں بہت نزدیک درد اٹھتا محسوس ہوا ۔ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا ۔
” بیٹا اب تم بڑی ہو گئی ہو ۔ اپنے دوستوں کا حلقہ محدود کرو اور مختصر رکھا کروI don’t like parties and celebrations… نہ جانے انہوں نے وہ بات کیوں کہی جو وہ کہنا نہیں چاہتے تھے۔
” But i like both of them ” انتہائی خشکی سے ادا کیا گیا وہ جملہ ان کو بڑی تکلیف دے گیا تھا ۔ حمائل اور بھی تیزی سے کھانا کھانے لگی تھی ۔امی نے قدرے غصے اور شہروز نے حیرانی سے حمائل کو دیکھا تھا لیکن اس نے ان کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا اور تیزی سے کھانا کھاتی رہی ۔
وہ بڑی بے بسی سے سر جھکائے بیٹھے رہے ۔ کسی بڑے مجرم کی طرح وہ اس پر چیخ بھی سکتے تھے۔ ِچلاَّ بھی سکتے تھے اور اس پر ہاتھ بھی اٹھا سکتے تھے لیکن وہ تو حمائل اصغر تھی ۔ ان کی بیٹی ۔۔ ان کے جینے کی وجہ ۔۔ وہ سرجھکائے خاموشی سے بیٹھے رہے ۔ ” یہ فضول کی نصیحتیں آپ ان کو کریں جو آپ کی اصلیت نہ جانتے ہوں لیکن میں آپ کی اصلیت سے بہ خوبی واقف ہوں ۔” تیزی سے کھانا کھاتے ہوئے وہ سوچتی رہی ۔ غم وغصے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔ اس نے پانی کا گلاس بھر کر پی لیا اور اچانک اسے احساس ہوا کہ اس نے گنجائش سے زیادہ کھاناکھا لیا ہے ۔اس نے بے زاری سے پلیٹ اپنے سامنے سے دھکیل دی۔
نگاہ اٹھا کر اس نے دیکھاامی جی ایک ایک کر کے باری بار ی سب کی باؤلز میں فروٹ چاٹ ڈال رہی تھیں ۔حمائل نے دیکھا ان کے کٹے ہوئے سیاہ بال بڑے سلیقے سے ان کے کندھوں پر پڑے تھے ۔دھیر ے دھیرے ان کی اٹھتی جھکتی نگاہیں ان کی معصومیت میں اضافہ کررہی تھیں۔ ان کی گوری رنگت اور ان کے چہرے کی بشاشت ان کو کس قدر حسین بنا رہی تھی ۔حمائل کو یک لخت ان پر ڈھیر سارا پیار آنے لگا ۔ پھر اس نے نظر گھما کر اپنے باپ کی طرف دیکھا تو ان کے ماتھے پر فکر کی شکنیں تھیں۔ ان کی افسردہ آنکھوں میں بے بسی اور غم و ملال نمایا ں تھا ۔ان کی کنپٹیوں کے قریب بالوں میں سفیدی اتر چکی تھی۔ اسے یک دم تیکھے نقوش والی اپنی حسین ماں کے سامنے افسردہ آنکھوں اور ملول چہرے والا اپنا باپ قدرے عمر رسیدہ اور غم زدہ لگنے لگا ۔ بے اختیار اس کو اپنی ماں پر ترس آنے لگا اس نے جلد ی سے اپنے باپ کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں ۔ اس کو اب اس ماحول میں الجھن ہورہی تھی ۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھی اور ڈائیننگ روم سے باہر چلی گئی ۔کسی نے اسے پیچھے سے آواز دی تھی ۔ شاید ابو نے ۔۔۔ لیکن وہ نہیں رکی تھی ۔
اپنے کمرے میں داخل ہو کر وہ لائٹ آن کیے بغیر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔اس نے دیکھا کھڑکی کھلی تھی اور اس پر سے پردے سرکے ہوئے تھے ۔ باہر ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی ۔ کھلی کھڑکی میں سے ہوا کا ایک سر د جھونکا اند ر آیا اور حمائل کے وجود سے ٹکراکر فضا میں تحلیل ہو گیا ۔اس کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی تو وہ سمٹ کر بیٹھ گئی اور خاموشی سے بارش برسنے کا نظارہ کرتی رہی۔
ہلکی ہلکی بارش برسنے کی آواز پر یوں گمان ہوتا تھا جیسے دو پریمی اندھیرے میں چپکے چپکے سرگوشیوں میں باتیں کررہے ہوں اور دھیرے دھیرے چلتی ہوا کی آواز یوں لگ رہی تھی جیسے کوئی طوائف مجرے سے تھک کر واپس آئی ہو اور بھار ی بھاری قدم اٹھا کر چل رہی ہو اور اس کے گھنگھرو کی چھنکار کسی خوابیدہ نغمے کی مانند فضا میں پھیل رہی ہو ۔ گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اسے بیڈ سے کھڑکی تک کھینچ لائی ۔ اسے بہت بے چینی ہو رہی تھی ۔وہ حد سے زیادہ جذباتی تھی اس لیے اسے چھوٹی چھوٹی حقیقتیں بے انتہا پریشان کر دیتی تھیں لیکن یہ حقیقت تو نہیں تھی ۔ کاش وہ امی کو یہ بتا سکتی کہ ان کا شوہردھوکے باز ہے ۔ یکد م اسے پیاس لگنے لگی ۔وہ جلدی سے سائڈ ٹیبل کے پاس گئی تھی لیکن جگ میں پانی نہیں تھا۔ اس کا گلا خشک ہورہا تھا ۔وہ کمرے سے نکل گئی ۔
” منزہ ! تم تو پارٹیسپیٹ کررہی ہو ناں اس ایگزیبیشن میں ؟ کچن کی طرف جاتے ہوئے اس نے شہروز کی آواز سنی تھی ۔ وہ لاؤنج کے صوفے پربیٹھا ٹی وی دیکھ رہاتھا اور اس سے کچھ فاصلے پر منزہ بیٹھی تھی ۔
” تم وہ ” Sunset ” اور ” Sea beach ” والی پینٹنگرز لے جانا وہ بیسٹ ہیں ۔ شہروز پھر سے بول پڑا تھا ۔کچن کی طرف جاتے اس کے قدم رک گئے ۔ اس نے منزہ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھا وہ لڑکی واقعی اپنی ماں پر گئی تھی ۔ حمائل کی نگاہوں میں خالہ کا سنجیدہ اور معصوم سا چہرہ گھو م گیا ۔اسی لمحے حمائل کو لگا اسے اپنی مری ہوئی اس خاموش اور کم گو خالہ سے نفرت ہے ۔
وہ کچن کی طرف بھاگی تھی ۔ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر اس نے غٹا غٹ پانی پیا تھا لیکن اس کی پیاس نہیں بجھی تھی ۔ اس کا دل چاہا وہ کچن سے ایک تیز دھار چھری اٹھا کر منزہ کو قتل کر دے ۔ اس کی جنونی کیفیت لوٹ آئی تھی ۔ وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور ڈریسنگ روم میں اس چھوٹی سی الماری منزہ کی فریم شدہ پینٹنگز نکال نکال کر فرش پر پھینکنے لگی جس میں منزہ اپنی پینٹنگز فریم کروا کر رکھا کرتی تھی ۔
تھوڑی سی جدو جہد کے ساتھ اسے وہی دو پینٹنگز مل گئیں ۔ دوسری الماری سے ایک بیگ نکال کر اس نے وہ پینٹنگز اس میں سما دیں اور ڈریسنگ روم سے نکل آئی ۔
سائڈ ٹیبل پر سے اپنا سیل فون اٹھا کر وہ افصہ کو فون ملانے لگی ۔
” ہیلو۔ ایف ! میں نہیں آپاؤں گی کل کامی کی برتھ ڈے پارٹی میں ” ْ
” کیوں ؟ کیا ہوا ؟ تیری آواز کو کیا ہوا ؟” افصہ نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ۔
” آئی ایم ناٹ فیلنگ ویل ۔” اس نے اپنی آوا ز مدھم رکھتے ہوئے کہا ۔
” اوکے ۔ ٹیک کیئر ۔ آئی ویل ٹیل کامی ۔”
” بائے ۔فون بند ہوتے ہی وہ ہنسنے لگی ۔ بے تحاشا ہنسنے لگی تھی ۔
٭…٭…٭





کیسی رہی تیری ڈیٹ ؟” لیزا نے اس کی طرف آ کر مسکراتے ہوئے پوچھا اور اسے کمرے کے اندر لے گئی ۔
” شمعون آیا ہے آج ۔” لیزا کا چہرہ کھلا ہواتھا ۔
” اچھا ۔” عرینہ نے مختصر اً کہا۔ اس کو بھلا شمعون کے آنے یا جانے سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی ؟ بلکہ نہ جانے کیوں شمعون کا ذکر اس کو بے چین سا کر دیتا تھا ۔
” آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ شمعون کو بہت یاد کررہی تھیں تو ممی نے کال کرکے بلالیا اسے۔” لیزا نے تفصیل پیش کر دی ۔ وہ جواباًخاموش رہی ۔
” لیزا اس کے لیے جوس لے آئی اور تھوڑی دیر بعد اسے لینے ابا آئے تھے ۔
” تیری اور علی کی ملاقاتیں بڑی مشکل ہیں یار ! کہہ دے اسے کہ جلد شادی رچالے ۔” کمرے سے نکلتے ہوئے لیزا نے مذاق کیا ۔
” تو کچھ بھی بولتی ہے بدتمیز! ” عرینہ نے لیزا کو ڈانٹا ۔
” یہ یہاں کیوں آئی ہے اور یہ علی کون ہے ؟ مجھے پریشان کرنے کے لیے ممی کی بیماری کیا کافی نہیں ہے ؟آ خر میں کروں تو کروں کیا ؟” اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑے شمعون نے افسردگی سے سوچا اور کمرے کے اندر چلا گیا ۔
٭…٭…٭
صبح اس کی آنکھ کُھلی تو اس نے دیکھا کہ منزہ فجر کی نماز پڑھنے میں مصروف ہے ۔
” منافق اگر نماز کے اتنے پابند ہوتے ہیں تو پھر میں کبھی نماز نہیں پڑھوں گی ۔ ” اس نے تلخی سے سوچا اور دوبارہ آنکھیں بند کرلیں ۔
دو گھنٹے بعد دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تھی ۔ اس نے دیکھا گھڑی سات بجا رہی تھی ۔ وہ جلد ی سے اٹھ کر واش روم کے اندر گھس گئی۔ نہانے کے بعد وہ سیدھی لان کی طرف گئی تھی ۔ اس کو پودوں سے بے انتہا لگاؤ تھا لیکن منزہ علی کی نفرت دھیرے دھیرے اس کی ہر محبت اور ہر رشتے کی جگہ لے رہی تھی ۔ اس کا ایک ایک رشتہ اس سے جانے انجانے میں منزہ کی وجہ سے چھنتا جارہا تھا ۔ یہاں تک کہ ہفتوں گزر جاتے اور وہ لان میں لگائے ہوئے اپنے پودوں کو دیکھنے تک نہ جا پاتی ۔بس منزہ علی ، حمائل اصغر کے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوا ر کی مانند تھی ۔ اس نے جھرجھری لی اور اس کیاری کی جانب بڑھ گئی جس میں اس نے پچھلے مہینے سرخ گلاب کے پودے لگائے تھے ۔
” مجھے مالی بننا ہے ۔” اسے یاد آیاکہ جب وہ کلاس تھری میں تھی، تب ٹیچر نے پوری کلاس کے بچوں سے باری باری پوچھا تھا کہ وہ کیا بنیں گے ؟ اور اپنی باری پر حمائل نے جو جواب دیا تھا اس پر پوری کلاس کے بچوں اور ٹیچر سمیت سب نے قہقہہ لگایا تھا اور حمائل نے حیرت سے سب کو دیکھا تھا ۔
” بھلا ان کو پودوں کی اہمیت کا کیا پتا ؟ پودے کتنے اچھے ہوتے ہیں ہماری ہر بات سنتے ہیں ۔ ہم اگر ان پر غصہ بھی کریں تو ناراض نہیں ہوتے ۔” اس نے بڑی عقل مند ی سے سوچا تھا ۔
” اور اگر آج بھی مجھ سے کوئی پوچھے کہ مجھے کیا بننا ہے ؟ تو میرا جواب ہو گا کہ میں مالی بنوں گی۔ پودوں کی دوست۔۔۔” مسکراتے ہوئے وہ گلاب کے پودے کی طرف بڑھ گئی ۔گلاب کی پنکھڑیوں پر پڑے شبنم کے قطرے اس نے اپنی انگلیوں میں جذب کر لیے اور آگ کی طرف بڑ ھ گئی ۔ ننگے پیر گھاس پہ چلنا اس کو بڑا لطف دے رہا تھا ۔وہ خود کو کتنی آزاد اور کس قدر ہلکا محسوس کررہی تھی ۔
کافی دیر تک لان میں اپنے لگائے ہوئے پودوں کو دیکھ کر ان کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب گئی تھی ۔ جہاں منزہ علی تھی اور اس کا منافق باپ ۔۔۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔اسے پھر سے گرمی لگنے لگی تھی ۔ اس کو اندر ہی اندر جلانے والی گرمی ۔۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ جل جل کے راکھ بن جائے گی ۔
٭…٭…٭
” علی بھائی آئے تھے عرینہ بجیا سے ملنے کالج ۔۔۔ میں نے بھجوادیا ان کو علی بھائی کے ساتھ ۔ بے چارے! بڑے نروس ہورہے تھے ۔” مرینہ نے کالج سے آتے ہی دینا کو سارا واقعہ ایک ہی سانس میں سنا دیا ۔
” آئیڈیا میرا تھا ۔” دینا نے اس کے سامنے کھانا رکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔
” ہیں؟؟؟” وہ اپنے منہ میں نوالہ ڈالتے ڈالتے رک گئی ۔
” جی ہاں! ایسے اچھے اچھے آئیڈیاز میرے ہی دماغ میں بنتے ہیں ۔ وہ یہاں آئے تھے ، عرینہ سے بات کرنا چاہتے تھے ۔”
” اچھا!!!” مرینہ کی دل چسپی ختم ہو گئی تھی ۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ کسی کو اتنی دلچسپ خبر دے اور سہرا کسی اور کے سر ہو ۔۔۔ اس کو تو مزہ تب آتا تھا جب وہ کوئی بھی دلچسپ خبر بجیا کو سناتی اور وہ بڑی دلچسپی سے اس کی بات سنتی لیکن یہاں تو معاملہ الٹ تھا ۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی ۔
کھانا کھا کر وہ اپنے پلنگ پر لیٹ گئی اور دینا کھانے کے برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف چلی گئی ۔
” میں کسی بڑے زمین دار یا پھر ڈاکٹر ، انجینئر سے شادی نہیں کروں گی بلکہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کے مالک سے شادی کروں گی، جو ہر روز مجھے اپنے ہوٹل لے جا کر اچھے اچھے کھانے کھلائے ۔” آنکھیں بند کیے وہ مزے سے سوچتی رہی اور سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ دینا دروازے میں کھڑی بڑی دھیمی آواز میں کسی سے بات کررہی تھی ۔
” جی ۔ میں بتا دوں گی اسے آپ فکر نہ کریں ۔ میں اسے لے کر آؤں گی ۔” اپنی بات مکمل کر کے دینا کمرے کے اندر آگئی۔
” آپ کس سے بات کررہی تھیں ؟” اس نے جمائی لیتے ہوئے پوچھا ۔
” علی بھائی سے ۔کہہ رہے تھے کل آپا کی شادی پر عرینہ کواپنے ساتھ ضرور لے آنا ۔” دینا نے مرینہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا ۔
” یہ بتائیں کہ انہوں اپنی ڈیٹ کے بار ے میں کچھ بتایا ؟ ” وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ کتنا مزہ آتاتھا اسے نئی نئی اور دلچسپ خبریں سننے اور سنانے میں ۔
” وہ بے وقوف خاموش رہی سارا وقت ۔ علی بھائی کچھ زیادہ خوش نہیں لگ رہے تھے ۔” دینا نے تفصیل بتا دی ۔
” عرینہ بجیاخاموش رہی؟ ناممکن ہے ۔ آپ کو سننے میں غلطی ہوئی ہو گی ۔ مجھے تو یقین نہیں آتا کہ وہ کبھی خاموش رہ سکتی ہیں ۔”
” یقین تو مجھے بھی نہیں آتا ۔”
” یقینا ان کو نیند آرہی ہو گی ۔”
” کیا مطلب؟”
” یہی کہ وہ صرف نیند میں ہی خاموش ہوتی ہیں ۔
مرینہ کی اس بات پر دینا نے قہقہہ لگایا تھا، لیکن ساتھ ہی وہ بڑی حیر ت سے سوچ رہی تھی۔
“عرینہ حمید ! تم اتنی الٹی کیوں ہو ؟یہاں پر زبان بند رکھنی ہوتی ہے وہاں تم بے دھڑک سب کچھ بول لیتی ہو اورجہاں پر بولنا تھا وہاں تم خاموش رہی ؟” وہ اٹھ کر کمرے سے نکل آئی اور مرینہ دوبارہ لیٹ کر بڑی بے چینی سے عرینہ کا انتظار کرنے لگی ۔
” وہ تم سے کتنی محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ شاید تمہیں نہیں ہے لیکن میں جانتی ہوں ۔” اور پھر نہ جانے کیوں اس کا ذہن اصغر کی طرف چلا گیا تھا اور وہ اچانک اُداس ہو گئی تھی کیوں کہ اصغر سے اس کی فون پر بہت کم اور مختصر سی بات ہو تی تھی۔
وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ اوپر والی منزل پر اصغر کا کمرہ تھا شاید اس لیے ۔۔۔ اور اس کے کمرے کی دیوا ر پر لگی فریم میں اس کی وہ تصویر۔۔ اس کے جانے کے بعد تو دینا نے اس تصویر کو کبھی نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا ۔
تھوڑی دیر وہاں رک کر وہ واپس نیچے آگئی تھی ۔
” تم آگئیں ؟”کمرے میں آکر اس نے عرینہ کو پکارا اور اپنے ہونٹوں پر ایک مصنوعی سے مسکراہٹ سجالی۔
” ہاں ۔ ” بڑا مختصر جواب دیا گیا تھا ۔
” کیا ہوا ؟ ” تم شرما کیوں رہی ہو؟” دینا نے اسے چھیڑ ا۔
” میں کیوں شرماؤں گی ؟” اس نے دینا کو بُڑ بُڑاتے ہوئے گالی دی اور کمرے کے اندر چلی گئی۔ اسے شرمانے سے نفرت تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کبھی شرمائے ۔ بالکل ویسے جیسے مسرورہ شرمایا کرتی تھی ۔
” تو پھر پورے راستے اور کھانے کے دوران خاموش کیوں تھی ؟ دینا اس کے پیچھے پیچھے کمرے کے اندر گئی۔ دینا کی اس بات پر عرینہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو ” تمہیں کیسے پتا” لیکن کچھ بھی پوچھنے کے بجائے اس نے اپنا بے دھڑک انداز برقرار رکھا ۔ ” کیوں کہ کہنے کو کچھ تھا نہیں ۔” اس نے اپنا بیگ ٹیبل پر رکھااور پلنگ پر پلتی مار کر بیٹھ گئی ۔
” اتنی مشکل سے تو موقع ملا تھا بات کرنے کا، پتا ہے میں نے بڑی ماں سے جھوٹ بولا کہ تمہارا بڑا مشکل ٹیسٹ ہے اور تم لیزا کے ساتھ پڑھائی کررہی ہو ۔” دینا اب اسے احساس دلا رہی تھی کہ خاموش رہ کر اس نے غلطی کی ہے ۔
” تو تجھے کیا ضرورت تھی جھوٹ بولنے کی” ؟ وہ اب یونیفارم سمیت پلنگ پر دراز ہو گئی تھی ۔
” اسے دیکھو یہ تمہارا انتظار کرتی دوبارہ سو گئی ہے ۔” دینا نے بات بدل دی۔ عرینہ کو سمجھانا فضول تھا۔
” یہ کمینی بھی اٹھ کر میرا دماغ خراب کرے گی ۔ یہ دونوں مجھے کسی فلم کی ہیروئن سمجھتی ہیں ۔ چاہتی ہیں کہ میں جلد سے جلد ہیرو سے محبت کا اظہار کردوں ورنہ وہ بے چارہ میرے عشق میں پاگل ہو جائے گا ۔” اس نے آنکھیں بند کر کے سوچا ۔
” میں تمہیں محبتوں کی اہمیت کیسے سمجھاؤں ؟” دینا نے بے بسی سے سوچا ۔
٭…٭…٭





” فیٹی ماں ! کس ٹائم ہے تمہاری پارٹی ؟ ” شہروز نے اپنے گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے حمائل سے پوچھا۔
” I am not going to the party ” اس نے معنی خیز انداز میں کہا اور بریڈ پر جام لگانے لگی۔
” کیوں ؟ شہروز سے پہلے ابو نے سوال کر ڈالا ۔
” کیوں کہ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ۔” ان کو جواب دیتے ہوئے وہ باوجود کوشش اپنے لہجے کی خشکی نہ چھپا سکی ۔
بریڈ کا ایک سلائس اٹھا کر وہ اپنی کرسی سے اٹھی اور پیر پٹختی ہوئی باہر کو چل دی ۔
” دن بہ دن ضدی ہوتی جارہی ہے ۔” امی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ۔
” اتنی صبح صبح تمہارا یہ غصہ ،یہ ناراضی اور یہ سخت سا رویہ مجھے پورا دن سوچنے پر مجبورکرے گا کہ آخر ہوا کیا ہے ؟ مہینوں ہو گئے اس ناراضی کو ۔۔۔ پر میں وجہ نہیں ڈھونڈ پایا ؟ ” بڑی بے بسی سے سوچا گیا تھا ۔” تم بہت بے خوف ہو حمائل! اپنے باپ سے کوئی ایسے بات کرتا ہے ۔” منزہ حیرت سے سوچتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھی اور کمرے کی طرف چل دی ۔” پہلے وہ پینٹنگز تو نکا ل لوں ۔” وہ ڈریسنگ روم کے اندر گئی تو اس نے دیکھا حمائل اپنے بال کنگھی کررہی تھی ۔ منزہ الماری کی طرف بڑھ گئی ۔ حمائل بالکل بے نیاز رہی ۔ منزہ الماری کھو ل کربڑے سلیقے سے اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز نکا ل نکال کر فرش پر رکھتی گئی لیکن وہ پینٹنگز نہ ملیں جو وہ ڈھونڈ رہی تھی ۔
” یااللہ ! ” وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔” یہیں تو رکھی تھیں کہاں گئیں؟” وہ بُڑبُڑائی ۔ حمائل کے پورے بد ن میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی ۔ اپنے بالوں کو جلد ی سے بند کرکے وہ تیزی سے واش روم کے اندر گھس گئی ۔ اس نے خود کو آئینے میں بہ غور دیکھا اس کو اپنے چہرے پر خوف کے سائے لہراتے نظر آنے لگے ۔ ” نہیں ۔ میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔۔۔” اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ بڑ بڑائی اور پھر وہ ہنسنے لگی تھی ۔ وہ اتنی ہنسی کہ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا ۔ وہ سنک پکڑے ہنستی رہی ۔ پھر اس کیلئے کھڑا رہنا مشکل ہو گیا ۔ وہ فرش پر بیٹھ کر ہنسنے لگی ۔ وہ اتنی ہنسی کہ اس کے جبڑے دکھنے لگے ۔
ہنستے ہنستے نڈھال ہو کر وہ اٹھی اور یونیفارم بد ل کر واش روم سے نکل گئی ۔
” حمائل ! تم نے تو میری وہ پینٹنگز ۔۔۔” منزہ نے اپنی پینٹنگز واپس الماری میں رکھتے ہوئے حمائل سے پوچھنے کی کوشش کی ۔
” چوری تو نہیں کی ؟ یہی کہنا چاہتی ہونا ں تم ؟” حمائل نے منزہ کی بات کاٹ کر کاٹ دارلہجے میں کہا ۔ “مس آرٹسٹ ! مجھے ان فضول پینٹنگز وینٹنگز کا کوئی شو ق نہیں۔” اس کے لہجے میں بے پناہ حقارت تھی۔
” نہیں حمائل ! میرا مطلب ۔۔۔ ” منزہ اپنی صفائی میں بولنے لگی۔ اسے حمائل کے اس روپ سے بے انتہا خوف آتا تھا ۔۔
” مجھے تمہارے مطلب میں بھی کوئی انٹرسٹ نہیں ۔” وہ منزہ کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی ۔
” اور یہ ۔۔یہ rubbishہٹا دو میرے کمرے سے …
Did you get that? ” وہ الماری سے منزہ کی پینٹنگز نکال کر پھینکنے لگی ۔
” یہ میرا کمرہ ہے۔” وہ چلائی تھی ۔ منزہ حیران و پریشان حمائل کو دیکھتی رہی ۔
” حمائل ! پلیز Don’t do this….میں میں معافی مانگتی ہوں تم سے پلیز ۔۔۔ ایسا مت کرو۔” وہ اس کی منتیں کر رہی تھی۔ حمائل کانپتی ہوئی الماری کے پاس سے اٹھ گئی تھی ۔ وہ خود اپنی حالت پر حیران تھی ۔ نہ جانے یہ اسے کیا ہو گیا تھا ۔
” یہ منزہ علی مجھے پاگل کر دے گی۔” اس نے تاسف سے سوچا نہ جانے کتنے مہینوں کی بھڑاس تھی جو آج نکل گئی تھی ۔
” کیا ہورہا ہے یہاں ؟ ” امی نے کمرے میں آ کر پوچھا ۔ ان کے چہرے پر حیرت اور پریشانی کے آثار تھے ۔ یقینا انہوں نے حمائل کی چیخیں سن لی تھیں۔
” حمائل کیا ہوا ؟” وہ حمائل کی طرف بڑھ گئیں ۔
” Nothing… ” حمائل ان سے نظریں نہ ملا سکی ۔
” منزہ کیا ہوا بیٹا ؟ تم رو کیوں رہی ہو ؟ وہ بدحواسی میں منزہ کے پاس گئیں، جو فرش پر بکھری اپنی پینٹنگز کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔”
“منزہ ! بیٹا ۔۔ کس نے توڑ دیں یہ پینٹنگز ؟ انہوں نے منزہ کی فریم شدہ پینٹنگز کے کانچ کو فرش پر بکھرے دیکھا تو گھبرا گئیں ۔ منزہ کے آنسو کسی چھری کی مانند ان کے دل کو کاٹ رہے تھے۔ منزہ کو فرش سے اٹھا کر انہوں نے سینے سے لگا لیا ۔
” یہ تم نے کیا کر دیا حمائل ؟” ان کا لہجہ سخت تھا ۔
” یہ میرا کمرہ ہے ۔ میں اس میں جوبھی کروں میری مرضی” ۔۔۔ اس کے اند ر بے رُخی تھی ۔
” تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟” وہ بے بس ہو گئیں ۔
” کچھ بھی نہیں ۔” اس کا انداز اب بھی سخت تھا ۔
” یہ میر ی بھانجی ہے ۔ میری اکلوتی بہن کی اکلوتی نشانی ۔۔۔” ان کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔ حمائل نے چاہا وہ چلا چلا کر ان کو بتا دے کہ وہ عورت آپ کی بہن نہیں دشمن تھی اور اس کی بیٹی میری دشمن ہے، لیکن وہ جس حقیقت کا سامنا خود نہیں کر سکتی تھی اس کے بارے میں اپنی امی کو کیسے بتاتی؟
” امی جی ! ااپ نہیں سمجھیں گی۔” بڑے دھیمے انداز میں کہہ کر اس نے میز پر سے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی ۔
ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
” گاڑی سٹارٹ کرو ۔ ہم آل ریڈی لیٹ ہیں ۔” گاڑی کے اندر بیٹھتے ہوئے اس نے ڈرائیو ر سے کہا ۔
” لیکن منزہ بی بی تو۔۔۔”
” وہ نہیں جارہی آج ۔۔۔” اس کے لہجے میں سختی تھی ۔ ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو اس نے سیٹ کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں بھینچ لیں ۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی ۔آج امی نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ڈانٹا تھا اور وہ بھی منزہ علی کی وجہ سے ۔۔۔ اس کی بند آنکھیں بھیگنے لگیں ۔ اس نے اپنی ماں کو منزہ علی کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے دیکھا تھا ۔
٭…٭…٭
” کیا کچھ کھایا آپ نے ؟ اور کیا کیا باتیں ہوئیں ؟ مرینہ نے چائے پیتے ہوئے عرینہ سے پوچھا۔
” تجھے کیوں بتاؤں؟ ” عرینہ کے لہجے میں بے نیازی نمایاں تھی ۔
” ہائے کتنا انتظار کیا میں نے آپ کا ۔۔۔۔” وہ روٹھ گئی ۔
” یہ لاکٹ ملا ہے گفٹ میں ۔” عرینہ نے اپنے بیگ سے لاکٹ نکال کر مرینہ کو تھما دیا ۔
” اس کادھیان کسی اور طرف لگ جائے تو میں اس کے سوالوں سے بچ جاؤں ” اس نے بسکٹ چائے میں ڈبوتے ہوئے سوچا ۔
” واہ۔ کتنا خوبصورت ہے ۔” مرینہ نے دل کھول کر تعریف کی ۔دینا بھی پاس آ کر لاکٹ دیکھنے لگی ۔
” تجھے پسند ہے تُو لے لے ۔” عرینہ نے مزے سے چائے پیتے ہوئے مرینہ سے کہا ۔
” نہیں عرینہ ! یہ تمہیں تحفے میں ملا ہے ۔ یہ تم ہی رکھو۔” دینا نے مرینہ کے ہاتھ سے لاکٹ لے کر ڈبے میں رکھا اور ڈبہ عرینہ کو تھما دیا ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!