وہ شاکڈ رہ گئی۔ عمر کے چہرے پر کمال کا اطمینان تھا۔
”اور رپورٹ… رپورٹ کا کیا ہوا؟” اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
”رپورٹ کی ایک ایک کاپی سوینئر کے طور پر میں نے اور وجاہت نے رکھ لی جو کاپی گورنمنٹ کو بھجوائی تھی، وہ انہوں نے تبرک کے طور پر امریکہ کے فارن آفس کو بھجوا دی۔” وہ مزے لے لے کر بتا رہا تھا۔
”کیا؟” وہ تقریباً چلا اٹھی۔
”ہاں! ٹھیک بتا رہا ہوں۔ رپورٹ سب مٹ کروانے کے ایک ہفتے کے اندر یہ سب کچھ ہوا اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد ایک سفارتی ڈنر میں امریکہ کے فارن آفس سے تعلق رکھنے والے، جان پہچان والے ایک آفیسر نے بڑی بے تکلفی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اتنے اچھے ”ریسرچ ورک” کیلئے مبارکباد دی ساتھ یہ بھی کہا کہ آئندہ بھی اگر ایسا کوئی پراجیکٹ کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اسے اسپانسر کردیں گے۔ مجھے اخراجات کا کوئی پرابلم نہیں ہوگا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس بار یہ رپورٹ حاصل کرنے میں انہیں دو دن لگ گئے کیونکہ پاکستان سے منگوانا پڑی۔ آئندہ میں کرٹسی کے طور پر ایک کاپی انہیں پہلے ہی بھجوا دوں تو انہیں بڑی خوشی ہوگی۔”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ ہنسے یا روئے۔ وہ ہونقوں کی طرح عمر کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عمر نے مسکرا کر کہا۔
”بالکل یہی ایکسپریشن میرے بھی تھے اس وقت۔ بعد میں، میں نارمل ہوگیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے تم ہوجاؤ گی۔”
علیزہ نے ایک گہری سانس لی۔ ”آپ نے کوئی احتجاج نہیں کیا؟”
”میں نے تو نہیں کیا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ ہاں وجاہت نے احتجاج کیا۔ اس نے زمبابوے جانے سے انکار کردیا تو اسے کہا گیا کہ پھر وہ ریزائن کردیں۔ تو اس نے ریزائن کردیا۔ دراصل وہ سیلف میڈ بندہ تھا۔ پتا نہیں بچتے بچاتے کیسے اتنے اونچے عہدے پر پہنچ گیا۔ اس کی کوئی بیک نہیں تھی۔ بیک ہوتی تو شاید اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔”
علیزہ کو بے اختیار وجاہت حسین پر ترس آیا۔
”پھر اب… اب وہ کیا کر رہے ہیں؟”
”عیش کر رہا ہے۔”
”کیا مطلب؟”
”ریزائن کرنے کے تیسرے دن اس کو ورلڈ بینک سے جاب کی آفر ہوگئی۔ اس نے وہاں کام شروع کردیا۔ اس وقت وہ تقریباً ایک لاکھ ڈالر کی تنخواہ پر کام کر رہا ہے۔ اصل میں ہوا یہ کہ وہ رپورٹ ان لوگوں نے بھی دیکھی۔ وہ بڑے متاثر ہوئے اس بندے سے۔ جان گئے کہ اس میں بڑی صلاحیت ہے بس پھر وہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اب وہ وہیں ہے نیویارک میں۔”
علیزہ کے پاس جیسے لفظ نہیں رہے تھے۔ وہ اس کے سامنے کون سا پینڈورا باکس کھول رکھاتھا۔
”مگر وجاہت حسین نے کیوں جوائن کیا ورلڈ بینک… سب کچھ جانتے ہوئے بھی؟”
”تو کیا کرتا۔ بھوکا مرتا۔ایک تو اسے حب الوطنی کی بیماری اوپر سے ایمانداری کی بیماری۔ اس سے زیادہ Fatal combination کوئی نہیں ہوسکتا کسی پاکستانی کیلئے۔ پاکستان میں آجاتا تو دھکے کھاتا ان خوبیوں کے ساتھ اور دھکے کسی کو بھی اچھے نہیں لگتے۔ پھر اس کے بیوی بچے تھے۔ ذمہ داریاں تھیں اس پر۔ اس نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔ میری طرح اس کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا مگر کچھ دیر سے۔”
”عمر! یہ کوئی غلط کام نہیں ہے جو آپ نے کیا یا جو انہوں نے کیا۔”
”کیوں غلط کام نہیں ہے۔ ہماری آفیشل ڈیوٹیز میں تو یہ کام نہیں آتا تھا۔ انٹیریئر منسٹری کا کام تھا یہ ظاہر ہے۔ ہم نے ان کے کام میں ٹانگ اڑائی۔”
”مگر عمر! آپ یہ نہ کرتے تو شاید سب کچھ چھپا رہتا۔” اس نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں علیزہ بی بی! ہماری غلطی یہی تھی کہ ہم جانے بوجھے حقائق کو دریافت کرنے چل پڑے تھے حالانکہ وہ باتیں سب کو پتا تھیں۔” اس نے علیزہ کو ایک بار پھر چونکایا۔
”کیا مطلب؟”
”ہاں، انٹیریئر منسٹری اچھی طرح واقف تھی یہاں تک کہ ایجنسیز بھی۔ ہماری طرح کے کئی الّو ایسی ہی رپورٹس تیار کر کے پیش کرچکے تھے۔ اس علاقے میں جاؤ گی تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاؤ گی کہ ان این جی اوز کے دفاتر کینٹ کے علاقے میں ہیں اور ظاہر ہے یہ تو ناممکن ہے کہ آرمی کے علاقے میں ہونے والی ایسی سرگرمیاں آرمی کی ایجنسیز سے خفیہ ہوں مگر وہ بھی صرف رپورٹس دے دیتے ہیں۔ کچھ کر نہیں سکتے اس لیے ہم نے کوئی ایسا نیا اور انوکھا کام نہیں کیا۔”
وہ اب سویٹ ڈش پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ علیزہ کو عمر پر رشک آیا۔ اس کی باخبری نے اسے ہمیشہ کی طرح متاثر کیا۔
”کم از کم میرے پاس کبھی بھی عمر جتنی معلومات نہیں ہوسکتیں۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
”اب جارہی ہو وہاں تو آنکھیں کھلی رکھنا۔ ہر چیز کو اس کی فیس ویلیو پر مت لینا۔ تھوڑا سا بھی ریشنل ہوجاؤ گی تو حقیقت جاننے لگو گی۔ پھر زیادہ متاثر نہیں ہوسکو گی۔” وہ اب اسے ہدایات دے رہا تھا۔
”لیکن میں اب وہاں جانا ہی نہیں چاہتی۔” اس نے اعلان کیا۔ عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”آپ کہہ رہے ہیں کہ وہاں تو ایسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے، جس کا جائزہ لینے میں جارہی ہوں تو پھر ٹھیک ہے وہاں جاکر میں وقت کیوں ضائع کروں۔” اس نے جیسے فوراً طے کرلیا تھا۔
”یار! عجیب احمق ہو تم۔۔۔” عمر نے کچھ جھلا کر کہا۔
”پہلے جو آپ کے ڈیپارٹمنٹ نے کہا، آپ نے وہ مان لیا۔ پھر آپ نے میری بات سنی تو اس پر یقین لے آئیں۔ ہوسکتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ تم آخر اپنا ذہن استعمال کیوں نہیں کرتیں۔ سچائی کو خود دریافت کرو، اس کے ہر aspect کو investigate کرو مگر مگر یہ کام خود کرو اپنی sense of judgement استعمال کرو۔”
”نہیں تو ٹھیک ہے۔ وہ نہیں جانا چاہ رہی تو نہ جائے، آخر تم خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ یہ سب فراڈ ہے۔” نانو نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔
”اچھا یہ سب فراڈ ہے۔ چلیں اس کے بارے میں تو میں نے اسے بتادیا۔ زندگی میں آگے چل کر یہ کیسے جانے گی کہ کون سی چیز کیا ہے اور کیا نہیں۔ ایک بار اپنے دماغ اور اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھے گی، کچھ فیصلہ کرے گی تو آگے بھی کچھ کرسکے گی۔ تم ضرور جاؤ گی علیزہ۔ بلکہ واپس آکر مجھے بتانا کہ تم نے وہاں پر کیا کیا سیکھا ہے؟”